درینہ کا پُل آخری حصہ

اس کی بصارت کا سارا میدان خشک کھردری سڑک بن چکا تھا جس نے تاریکی بن کر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا

zahedahina@gmail.com

نگاہوں کے سامنے ایک طویل قامت شخص تھا۔ مسکراتا ہوا چہرہ، آنکھوں پر دبیز چشمہ اور شانے پر دبیز چسٹر۔ یقینا یہ تصویر سرد موسم میں اتاری گئی ہے۔ یہ آئیوو انڈرچ ہے۔ وہ بظاہرغیر اہم شخص جسے 1961 کا نوبل ادبی انعام دیا گیا۔ اس نے اس انعام کو قبول کرتے ہوئے گوئٹے کا یہ جملہ دہرایا تھا کہ ''ادیب کا کام تخلیق کرنا ہے، بات کرنا نہیں۔''

''درینہ کا پُل '' سولہویں صدی کے آغاز میں بوسنیا کے ایک شہر پر تعمیر کیا تھا۔ یہ پُل گیارہ عظیم الشان ستونوں پر قائم تھا اور اسے تعمیر کرانے والے عثمانی وزیر کا خیال تھا کہ وہ مشرق اور مغرب کو ایک دوسرے سے ملانے کا کارنامہ کر رہا ہے، یہ تو آنے والا وقت بتاتا ہے کہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے۔

انڈرچ کہتا ہے کہ کہانی نہ تو نفرت کی سیاہی سے پُتی ہوئی اور نہ خودکشی کی مشینوں کے شور میں دب گئی ہو بلکہ یہ محبت کے پالنے میں پلی ہو اور آزاد اور پُرسکون انسانی دماغ کے طول و عرض سے الہام بن کر ابھری ہو۔

''درینہ کا پُل'' تین سو برس سے زیادہ کی تاریخ ہے ۔ آویزش، محبت اور چشمک کی تاریخ جو آخرکار انسانوں کی ہوس گیری کے ہاتھوں تہس نہس ہوجاتی ہے۔ جنگ عظیم سر پر تلی کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ میں جیتے جاگتے انسان اور سانس لیتا ہوا گیارہ محرابوں کا پُل بھی آخری سانسیں لے رہا تھا۔

وہ منہ کھولے اپنی شکستہ دکان کے سامنے کھڑا تھا، اس کا سر بھاری تھا اور جسم چُور چُور ہوچکا تھا۔ اس کے سامنے وہ چوک تھا جو صبح کی دھوپ کی روشنی میں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا جس پر چھوٹے اور بڑے پتھروں کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ اس کی نگاہ پُل کی طرف اٹھی۔

کپیا وہیں تھا جہاں وہ ہمیشہ سے موجود تھا مگر کپیا سے پرے پُل چھوٹا ہوکر رہ گیا تھا، اس کا ساتواں پایہ غائب ہوگیا تھا۔ چھٹے اور آٹھویں پائے کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگئی تھی جس سے دریا کا سبز پانی بہتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ آٹھویں پایہ سے آگے پل ایک بار پھر دریا کے کنارے تک پھیلا ہوا تھا۔ ہموار، بدستور اور سفید جیسا کہ وہ گزشتہ روز تھا یا ہمیشہ سے چلا آرہا تھا۔

ہوڑجہ نے جو کچھ دیکھا، اس کا اسے یقین نہیں آرہا تھا، اس نے اپنی آنکھیں کئی بار جھپکیں، پھر انھیں بند کیا۔ اپنے اندر کی بصارت سے اسے وہ سپاہی یاد آئے جنھیں اس نے چھ سال پہلے دیکھا تھا اور جو سبز خیمہ میں چھپے اسی پایہ کی کھدائی کر رہے تھے۔ پھر اس کے ذہن میں اس مین ہول کا منظر اُبھرا جس نے گزشتہ چند سالوں سے اس بارود بھرے پایہ کی سرنگ کو ڈھکنے سے چھپا رکھا تھا۔ وہ چل پڑا۔

اس نے پھر آنکھیں کھولیں۔ اس کے علاوہ کسی چیز میں بھی کوئی ردوبدل نہ ہوا تھا۔ ہر چیز ویسے ہی تھی جیسے وہ پہلے تھی۔ چوک پر چھوٹے موٹے پتھروں کے ڈھیر بکھرے پڑے تھے اور پُل کی حالت یہ تھی کہ اس کا ایک پایہ ضایع ہوچکا تھا اور دو شکستہ محرابوں کے درمیان خلیج نمایاں ہوچکی تھی۔

یہ ایسا منظر تھا جسے صرف خوابوں میں دیکھا جاسکتا ہے یا تجربہ کیا جاسکتا ہے، لیکن جوں ہی وہ اس ناقابل یقین منظر سے پرے ہٹا۔ اسے اپنے سامنے اپنی دکان دکھائی دی اور اس میں بکھری پڑی اشیاء میں وہ بڑا پتھر دکھائی دیا جو اس ساتویں پایہ کا ایک حقیر ترین حصہ تھا۔ اگر یہ خواب تھا، تو ہر جگہ ایسے ہی تھا۔


چوک کی نچلی جانب سے اونچی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔ یہ سربی کمانڈر کے بآواز بلند احکامات کی صدائیں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی سپاہیوں کے قدموں کی چاپ تھی جو قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ علی ہوڑجہ نے جلدی سے دکان کے پَٹ بند کیے، انھیں قفل لگایا اور پہاڑی کی جانب گھر کو چل پڑا۔

اس سے پہلے بھی اس پر یہ واردات گزرچکی تھی کہ جب پہاڑی پر اپنے گھر کی جانب جارہا تھا تو اس کا دم پھولنے لگا اور دل کی حرکت تیز ہوگئی تھی، مگر ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جب سے اس کی عمر پچاس سال سے اوپر ہوئی تھی، وہ ایسا محسوس کرنے لگا تھا جیسے گھر کے راستے کی ڈھلوان اور نشیبی ہوتی چلی گئی ہو اور راستہ دن بدن لمبا ہوتا جارہا ہو، لیکن آج وہ راستہ جتنا لمبا ہوگیا تھا، پہلے وہ اتنا طویل نہ تھا۔ آج وہ بے تابی سے محسوس کر رہا تھا کہ وہ جلد سے جلد جتنا ممکن ہوسکے اپنے گھر پہنچ جائے، اس کے دل کی دھڑکن اس طرح تیز ہوگئی تھی جس طرح اسے نہیں ہونا چاہیے تھا، اس کا دم پھول گیا اور وہ ٹھہرجانے پرمجبور ہوگیا۔

نیچے وہاں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ گارہے ہوں، وہیں نیچے پُل بھی تھا۔ بربادشدہ پُل جسے نہایت بے رحمی سے ہولناک انداز میں عین درمیان سے دولخت کردیا گیا تھا، اسے مڑجانے کی ضرورت نہ تھی (اور دنیا میں وہ کبھی بھی کسی بات سے پھرا نہیں تھا) اور وہاں پُل کو کسی بڑے درخت کے تنے کی طرح ہزارہا حصوں میں کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا اور اس کے دائیں اور بائیں جانب کی محرابیں وحشیانہ طور پر توڑپھوڑ دی گئی تھی۔ شکستہ محرابیں دردناک انداز میں ایک دوسری کی طرف جھکی کھڑی تھیں۔

زندگی میں وہ کبھی بھی اپنے پائوں پر پیچھے کی طرف پھرا نہیں تھا، مگر وہ پہاڑی کے اوپر چڑھنے کی ہمت کھوبیٹھا تھا، چونکہ اس کا دل لمحہ بہ لمحہ بیٹھا جارہا تھا اور ٹانگیں اس کے کام کی تعمیل سے انکار کر بیٹھی تھیں۔ اب وہ اور گہرے سانس لینے لگا تھا۔ یہ بات ہمیشہ اس کی مددگار ثابت ہوئی تھی۔ اس نے اب بھی اس کی مدد کی اور اس کے سینے کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ گہرے سانسوں اور دل کی متوازن دھڑکن کے درمیان اس نے توازن پیدا کرلیا تھا۔

اس نے ایک بار پھر چلنا شروع کردیا اور گھر اور بستر کا تصور اسے آگے دھکیلنے لگا۔ وہ بڑی اذیت اور آہستگی سے چل رہا تھا۔ ٹوٹے ہوئے پُل کا پورا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے آگے آگے حرکت کر رہا تھا، جس چیز سے اسے اذیت ہوتی تھی۔ اس سے آنکھیں پھیرلینے سے بات ختم نہیں ہوتی تھی، چونکہ جب وہ آنکھیں بند بھی کرلیتا تھا، وہ پل بند آنکھوں سے بھی اسے نظر آتا تھا۔

علی ہوڑجہ نے پُر جوش انداز میں سوچا، چونکہ وہ اب ذرا آسانی سے سانس لینے لگا تھا۔ اسے سمجھ آگئی تھی کہ ان کے اوزاروں اور ان کے ساز و سامان کس مقصد کے لیے تھے، اور کس لیے وہ اتنی تیزی دکھا رہے تھے (وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہا تھا۔ ہمیشہ ہر بات میں اور ہر ایک کے ساتھ) لیکن یہ بات اب اسے تسکین دینے کے قابل نہ رہی تھی۔

علی ہوڑجہ اپنے خیالات میں گم گہرے سانس لیتا آہستہ آہستہ آگے آگے بڑھتا رہا۔ اب مارکیٹ کی جگہ سے گانے کی آوازیں صاف سنائی دینے لگی تھیں۔ اس کے دل میں صرف ایک آرزو باقی رہ گئی تھی کہ وہ اپنے اندر اور ہوا لے سکتا، گھر پہنچ گیا ہوتا۔ اپنے دیوان پر لیٹ گیا ہوتا۔ اس کے اپنے اس کے پاس ہوتے۔ اب وہ اپنے دل کی حرکت اور اپنے سانس کے درمیان نازک توازن برقرار نہ رکھ سکتا تھا۔

اس کا دم اس کے منہ کو آچکا تھا۔ خوابوں میں اس کے ساتھ ایسا پیش آچکا تھا۔ مگر اس خواب سے سکھ کی بیداری ختم ہوچکی تھی۔ اس نے اپنا منہ کھول دیا، اسے اپنی آنکھیں اپنے سر میں حرکت کرتی محسوس ہوتیں۔ وہ ڈھلوان جو اس سے پیشتر نشیب کی طرف اترتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اب اس کے چہرے کے سامنے آچکی تھی۔

اس کی بصارت کا سارا میدان خشک کھردری سڑک بن چکا تھا جس نے تاریکی بن کر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ڈھلوان پر جو اوپر میجا دان سے جاملتی تھی۔ علی ہوڑجہ گرا پڑا تھا اور چھوٹے چھوٹے سانسوں میں دم دے چکا تھا۔

تو یہ ہے ایک پُل کی کہانی جو تین صدیوں کے دوران ہنستا مسکراتا رہا۔ انسانوں کو ایک دوسرے سے ملاتا رہا اور پھر آخرکار بکھر کر رہ گیا۔
Load Next Story