زباں فہمی نمبر 163 اردو اراکانی اور چاٹگامیحصہ اوّل
اردو کے فروغ میں اراکان اور برما کو نظر اَنداز نہیں کرسکتے
دنیا کی سب سے منفر د زبان، اردو کی پرداخت کے ساتھ ساتھ، اس کے فروغ میں بھی خطہ جنوبی ایشیا کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اس ضمن میں ہم اراکان اور برما کوبھی نظر اَنداز نہیں کرسکتے۔
اسلامی جمہوریت (جمہوریہ) اراکان کی سرکاری، قومی وعوامی زبان بھی اردو ہی تھی اور یہ سلسلہ 1945ء تک برما کا ناجائز قبضہ مکمل ہونے تک چلتارہا، پھر برما کے متعصب حکمراں طبقے نے1948ء میں اس کی جگہ برمی زبان کودے دی۔ہر زبان کی ترقی وترویج کے فطری حق کو غصب کرنے کے خلاف تحریک چلانے والا وہی ادیب ومعلم تھا جس نے اس موضوع پر اولین کتاب"زبان ِ مشرقی بنگال واَراکان۔یعنی بنگالی وچاٹگامی واَراکانی ادب پر بَسےِط تبصرہ" لکھنے کا شرف حاصل کیا یعنی اسلامی جمہوریہ اَراکان کے سربراہ محترم ظہیرالدین احمد(صدرمدرس، تنگبازاراسکول، شمالی اراکان)،جنھیں مجبوراً ہجرت کرنی پڑی، مگر افسوس! آج وہ کتاب بہ آسانی دستیاب نہیں۔(ہمارے 'حقیقی' ناشرین کو چاہیے کہ ایسی کتب کا سراغ لگا کر کسی صاحبِ علم سے ترتیب وتدوین کے بعد،انھیں اَزسرِ نَو شایع کریں تاکہ سب کا بھلا ہو)۔
آگے بڑھنے سے پہلے، خاکساراپنے کالم زباں فہمی نمبر 88'اردو کی بہن بنگلہ'(دوسرا اور آخری حصہ) کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہتاہوں جو www.express.pk پر دستیاب ہے:
یہاں یہ کہنا لازم ہے کہ عظیم خطہ بنگال میں اردو کے فروغ کی مبسوط داستان رقم کرنے کے لیے بہار، آسام، اُڑیسہ، اراکان اور برمامیں اردو کی ترویج کا جائزہ بالتحقیق لینا ضروری ہے کہ تاریخ کے سفر میں یہ تمام صوبے /ریاستیں باہم مربوط و منسلک رہ چکی ہیں۔ اس کے لیے 'بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1857ء تک' از ڈاکٹر اختر اورینوی، 'بہار اور اردو شاعری' از پروفیسر معین الدین دَردائی، 'تاریخ شعرائے بہار' از سید عزیز الدین بلخی اور"ارض بہار اور مسلمان" از عبدالرقیب حقانی(مطبوعہ 2004ء)،'اُڑیسہ میں اردو'از ڈاکٹرحفیظ اللہ نیول پوری اور'اُڑیسہ میں اردو' ازمحمود بالیسری سمیت متعددکتب کا یکجا مطالعہ مفید ہوگا۔
اس بیان کے ایک حصے سے ہماری ابتداء ہوتی ہے یعنی اراکان اور اراکانی۔(براہ کرم ناواقف قارئین کرام محولہ بالا کالم نمبر 87اور 88، آن لائن ملاحظہ فرمائیں تاکہ پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو)۔
پہلے اراکان کی بات ہوجائے۔
اراکان(موجودہ نام راکھائن) کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ علاقہ خلیج بنگال کے ساحل پر واقع برما کی ایک ریاست (صوبہ) ہے جس کا رقبہ 21000مربع کلومیٹر اور آبادی (مشکوک اعدادوشمار کے مطابق) چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی یا ہے۔اس کا صدر مقام، سیٹوے [Sittwe;pronounced sait-tway in the Rakhine language] اپنے سابق نام"اکیاب" سے بہت مشہور ہے۔اس کے شمال مغرب میں بنگلہ دیش،شمال میں بھارت اور مشرق میں اس کی بلند وبالا پہاڑیاں، برما کے باقی علاقے سے جداکرتے ہوئے گویا اسے جداگانہ علاقائی وحدت یا الگ ملک ثابت کرتی ہیں۔نشیبی ودلدلی زمین پر مشتمل یہ صوبہ چاول، گنّے اور پٹ سن کی پیداوار کے لیے ممتاز ہے۔اراکان میں اسلام کب آیا، اس کے بارے میں متضاد روایات ملتی ہیں۔ایک مشہور بیان یہ ہے کہ وہاں عہد صحابہ کرام میں ساتویں صدی کے اواخر میں پہنچنے والے مسلمان تاجروں کی بدولت، اسلام آیا
1430ء میں سلیمان شاہ نے مسلم اقتدار کی بنیاد رکھی اور پھر انھوں نے کوئی ساڑھے تین سو سال تک وہاں حکومت کی۔
اراکان کے ہندو راجہ سندہ تھوداما 1652 to 1674نے اپنے زیرنگیں چاٹگام کا علاقہ، مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اور اُس کے صوبے دار شائستہ خان کے ہاتھوں گنوایا۔راجہ کے دربارمیں بنگلہ زبان کے ممتاز شاعر سید علاءُول بھی ملازم تھے۔(غالباً علاؤ الدین کا علا۔اُل بنادیا گیا)۔چاٹگام مغل عہد میں بھی ایک اہم بندرگا ہ کا درجہ رکھتا تھا۔
1784ء میں پڑوسی ملک برما کے بُدھ راجہ راجہ بودپیہ نے اس ریاست پر بزور قبضہ کیا۔اراکان میں نوے فیصد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دس فیصد بُدھ بھی آباد ہیں جنھوں نے مسلمانوں سے بدترین ظلم وجبر رَوا رکھا۔ایک اقلّیت کا اتنا طاقتور ہونا، حکومت وقت کی مکمل سرپرستی اور سامراجی طاقتوں کی پُشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔1824ء میں یہاں برطانیہ نے قبضہ جمایا۔1938ء میں انگریز کے چلے جانے کے بعد، بُدھ برمیوں نے مسلمانوں کو ہر طرح سے غیر ملکی اور "دھرتی کا بوجھ" قرار دیتے ہوئے اُ ن کا جینا دوبھر کردیا۔اُن کی کثیر تعدا د نے مکہ مکرمہ ہجرت کی۔
اراکان میں جون 2012ء میں شروع ہونے والے مسلم کُش فسادات کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید، بے شمار جِلاوطن اور پوری پوری مسلم آبادی نذرِآتش ہوئی، قریب ترین مسلم ملک اور تاریخی لحاظ سے آبائی وطن کا حصہ، بنگلہ دیش بھی اس ظلم کے عمل میں پوری طرح شریک ہوا۔ہم اس لیے کچھ کر۔یا۔کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں اُن کی حمایت کے طفیل کہیں سے کچھ ملنے کی توقع نہیں، ورنہ ابھی تک جہاد کے نعرے لگ رہے ہوتے۔
ایک پاکستانی مصنف جناب طفیل ہاشمی کے بقول،"روہنجیا (روہنگیا:Rohingya) مسلمانوں اور میاں مار کی اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں روہنجیا نے تحریک چلائی تھی کہ اراکان صوبے کو مجوّزہ پاکستان کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان، اب بنگلا دیش) کا حصّہ بنایا جائے۔ اُس تحریک نے مختلف موقعوں پر تشدّد کا رنگ بھی اختیار کیا تھا۔"معروف صحافی حامدمیر صاحب نے بھی اپنے ایک کالم میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اراکان مسلم لیگ نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اراکانی مسلمانوں نے قائداعظم سے ملاقات میں، نئے اسلامی ملک پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی کیونکہ اراکان اور چٹاگانگ (چاٹگام)کی تہذیب وثقافت میں بظاہر کوئی خاص فرق نہ تھا، مگر "قائد اعظم نے اُن سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا"۔ (روہنگیا کون ہیں؟: حامد میر، مؤرخہ 14 ستمبر، 2017)۔مجھے فی الحال فرصت نہیں کہ اس بیان کی تصدیق یا تردید کرسکوں، مگر جلد دیکھوں گا۔
اب اراکانی کی بات کرتے ہیں۔لسانی اعتبار سے اراکان(قدیم نام روہنگ) کے مسلمانوں (روہنگیا) کی زبان 'اراکانی'[Arakanese] کا شمار "تبتی۔برمی" زبانوں کے خاندان [Tibeto-Burman group]میں ہوتا ہے۔اسے جدید برما یعنی میاں مار (یہ میان مار۔ یا م۔ئین مار۔ یا۔ میان مرنہیں ہے)کے سرکاری حکام 'راکھین' یا تلفظ کے فرق سے رکھائن/[Rakhine] راکھائن کہتے ہیں۔یہ بحث ماہرین سے زیادہ عوام الناس میں عام ہے کہ آیا اراکانی کوئی جدا زبان ہے یا محض برمی زبان کی بولی۔انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا[Britannica]کے بیان کی رُوسے بھی اراکانی، برمی کی ایک غیرمعمولی بولی ہی ہے۔رسم الخط کی یکسانیت کے باوجود، متعدد مختلف خصوصیات کی بناء پر اراکانی مسلمان اسے جدا زبان قراردیتے ہیں۔تاریخی اعتبار سے خود برمی بھی تبتی نسل کا حصہ قراردیے گئے ہیں جبکہ ایک طرف اُن کے ذخیرہ الفاظ میں پالی جیسی قدیم اور بُدھ مت کی مذہبی،(نیز آریہ)زبان ودیگرہندوستانی زبانوں کا بڑا حصہ ہے تو دوسری طرف اسے دراوڑی سے قریب سمجھا جاتاہے۔ایک ماہر ِلسان کے نزدیک یہ زبان، اپنی خصوصیات کے لحاظ سے، بڑی پُراَسرار ہے۔ہندوستانی زبانو ں سے مستعار الفاظ کے ذخیرے کی بناء پر اس زبان کا اردو سے ارتباط بھی عین فطرت تھا۔ویسے جہاں تک بہ یک وقت آریہ اور دراوڑ زبانوں سے تعلق کا معاملہ ہے تو ہماری پیاری اردو بھی تو ایسی ہی ہے۔اراکانی کے تین مختلف لہجے یا بولیاں ہیں ; سیٹوے۔مارماMarma] [Sittwe-رامری [Ramree]،اور ٹھنڈوے[Thandwe]۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ زبان مسلم اراکانی، بُدھ مارما(قدیم نام مَگ یا موگMoghs or Maghs)اور کَمِین [Kamein]قوم کی زبان ہے۔مگ قوم وہی ہے جسے مگدھ سے نسبت ہے اور جس کی ہندوستانی زبان مگدھی یا مگھئی [Magadhi/Magahi] کہلاتی ہے، اور یہی زبان ترقی کرکے بُدھ مَت کی مذہبی زبان 'پالی' بنی،مگردریائے میگھناعبورکرکے، یہاں چاٹگام میں داخلے کے بعد، انھوں نے مقامی قدیم منگول آبادی کے اختلاط کے ساتھ قدم جماتے ہوئے انھیں بھی بُدھ مَت میں شامل کیا۔مقامی قدیم زبان چاٹگامی نے بہ یک وقت مَگ اور اراکانی دونوں کو متأثر کیا اور یوں آج چاٹگامی، اراکانی سے انتہائی قربت کے باوجود، اپنا جداگانہ وجود برقراررکھنے میں کامیاب ہیں۔یہ دونوں ہی زبانیں، اپنی ہم رشتہ بنگلہ کی طرح، الفاظ کے اشتراک کے لحاظ سے اردوکی بہنیں ہیں۔
لفظ کمین، فارسی لفظ کمان کی متبدل شکل ہے اور اِن کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔محض لسانی بنیاد پر دیکھا جائے تو اَراکانی زبان بولنے والے برما،بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان، سعودی عرب سمیت اُن ممالک میں موجودہیں جہاں مخدوش حالات نے اُنھیں جانے پر مجبورکیا۔
خطہ بنگال کے قدیم باشندے منگول، کاکیشئین[Caucasian] اور دراوڑ کے آپس میں میل جول سے، قدیم قفقاز یا کوہ ِ قاف (کے مختلف ممالک) کے سفید فام، زردفام منگول اور سیاہ فام دراوڑ نسل کے اختلاط نے بنگالی قوم کی بنیاد رکھی۔ہندوستان بھر میں برہمن اقتدار مستحکم ہوا تو آٹھویں صدی کے برہمن راجہ اَدی شنکر(788-820 Adi Shankara:)نے مظالم ڈھاکر بُدھ مت کو خطے سے بڑی حدتک اُکھاڑ پھینکا۔اُس کے ساتھیوں مادھو اور رامنوج[Madhva and Ramanuja]نے برہمن مَت (عرف ہندومت)کیہندوستان میں بحالی کے ضمن میں بہت اہم کرداراداکیا اور یوں موجودہ ہندومَت پروان چڑھا۔بُدھ مت ماننے والے کشمیر، لدّاخ، تبت، بنگال، اراکان اور برما میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، بلکہ محدودہوگئے۔
ماقبل اس خاکسار کے کالم میں اردو کے بنگلہ سے دیرینہ تعلق کا جائزہ لینے کی سعی کی گئی تھی۔چاٹگامی اور اراکانی بھی بنگلہ سے کہیں نہ کہیں میل کھاتی ہیں،البتہ انھیں بطور زبان ہرگز مماثل یا ایک دوسرے کے لیے قریب الفہم قرارنہیں دیا جاتا۔چاٹگامی کے نام اور اس کے وطن چاٹگام کے نام، لہجے کے فر ق سے کئی ایک ہیں، جیسے چَٹ گےّا، چٹاگونگیا،چٹاگونگ۔عربی کے اثر سے اسی زبان میں 'چ' کی جگہ 'س' رائج ہوا تو کہیں 'سیٹاگانگ' اور سیٹاگامی بھی سننے کو ملیں گے۔مختلف دائرہ ہائے معارف یعنی Encyclopaeidasکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی رُکن، چاٹگامی،اپنی لسانی خصوصیات کی بِناء پر روہنگیاسے زیادہ اور کسی حد تک نواکھلی کی زبان نواکھیلا [Noakhailla]سے بھی قریب ہے۔
اب زیر ِ نظر کتاب میں درج، اردو دشمنی اور اس کے مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان سے ہندو پرچا رکے نتیجے میں اخراج کی تحریک کے متعلق چند سطور ملاحظہ فرمائیں جن سے حقیقتِ حال کا بخوبی اندازہ ہوتاہے:
"اردو کی مخالفت میں عام طور پر تین دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
ا)۔اردو باہر کی زبان ہے اور مشرقی بنگال پر، استعماریت کے اصول پر، مسلط کی جارہی ہے۔
ب)۔ اردوکی تعلیم کے لیے بہ یک وقت،اس قدر بڑی تعدادمیں اساتذہ کا مہیا ہونا محال ہے۔
اور ج)۔مغربی پاکستان کے طلبہ کو بنگالی نہیں پڑھائی جاتی، اس لیے مشرقی پاکستان کے طلبہ کو اردو نہ پڑھائی جائے۔
مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) والوں نے اپنی زبان کی بِناء، اصلیت اوروقتی تبدیلیوں پر غورکیے بغیر ہی وہ بات کہہ ڈالی جو اَکثرہندوکہہ دیا کرتے تھے۔میں یہاں چاٹگامی زبان کا نمونہ پیش کرتا ہوں جو بہت کم تبدیلیوں سے دوچارہوا ہے۔بنگالی مسلمانوں کی گھریلو زبان کا نمونہ حصہ دوم وحصہ چہارم میں پیش ہوچکا ہے"۔ اس کے بعد مصنف موصوف نے چاٹگامی زبان کا نمونہ پیش فرمایا:
تمھار خطا شن لے شریر بدّاخانفِر ڈے
(تمھاری کتھا یعنی بات سن کر تو بھیا! بدن کانپتا ہے ڈرکے مارے)
ختو مانش مری زارگوئی منگڈور تافر گاڑے
(کتنے ہی آدمی مرے جارہے ہیں، منگڈو تاف گھاٹ میں)
٭ یہ چاٹگامی شاعر بیلا فقیرا کا کلام ہے جو اُس نے مشرقی اکیاب میں قتل عام سے بچ کر منگڈو(پرانا نام منگڈو تاف) گھاٹ پہنچ کر، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کے نوحے کے طور پر نظم کیا۔آگے چل کر مَگ قوم کے خلاف،منگڈو کے مسلمانوں کی جدوجہد کی بابت کہتا ہے:
دکھن اے رومانش دیکھو سایہ گوراگورا
(دکھن یعنی جنوب کے آدمیوں کو دیکھو،سایہ چھوٹا چھوٹا ہے)۔
ٹھیلا بندوق خاندھت لیے ہمت فورافورا
(دیسی بندوق کندھے پر لیے ہیں، ہمت پوری پوری یعنی مضبوط ہے)
یہ اشارہ ہے منگڈو کی جنوبی بستی کے مسلمانوں کے اولین مسلح جوابی حملے کی طرف اور سایہ چھوٹا ہونے سے مراد اُن کا پستہ قامت ہونا ہے۔جنگ عظیم دوم میں انگریزوں اور جاپانیوں کی لڑائی کے متعلق یہی شاعر کہتا ہے:
خالا فھاڑ رتلات مازے زافان اش شے تارا
('کالا پہاڑ' کے نیچے، جاپانی آئے ہوئے ہیں)
وائرلیس اے دیے،خبر آئیو خاراخارا
(وائرلیس کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ کھڑے کھڑے آؤ یعنی فوراً چلے آؤ)
رازہ رازہ لاڑائی گریرفرزاکیلّا دھار
(راجہ راجہ یعنی حکمراں لڑائی کرتے ہیں، پَرجا یعنی رعایا کیوں بھاگتی ہے؟)
افرت تون بُماماریر،بُمارڈرے دھار
(اُوپر سے بم مارتے ہیں، بم کے ڈر سے بھاگتی ہے)
اسی بیلا فقیرا کی ایک غزل کا شعر بھی پیش خدمت ہے:
ہاتھے دیے سوری، خاروناکے دیے بالی
(ہاتھ میں ڈال کر چوڑی اور کنگن، ناک میں ڈال کر بالی)
فانی آئن تو زارگوئی بہنے خمر لاری لاری
(پانی لانے کے لیے جارہی ہے بہن، کمر لہرا لہرا کے)
٭شاعر نے مَگ زبان کی تقلید میں محبوبہ کو 'بہن' کہا ہے۔ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے
ہمارے فلمی ادب میں رنگون کی نسبت سے ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا، "میرے پیا گئے رنگون، وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون، تمھاری یاد آتی ہے" اور چاٹگامی زبان میں ایک مشہور گیت یوں ہے:
"آما ربندھو، رنگون گیلو+شہ ماشر خرارخرلو
(میرا دوست رنگون گیا+چھَے ماہ کا قول وقرارکرلیا)
آگے چل کر اس گیت میں ایک ٹیپ کا مصرع "رنگون رنگیلا رے" یعنی رنگون رنگیلا یا رنگ دار ہے بھی شامل ہے۔کس قدر صاف اردو ہے۔
چاٹگامی اور اردو کے مشترک الفاظ پر ایک نظر
آئیو: آؤ (اردو میں آئیو، تبدیل ہوکر آؤ اور آئیے بن گیا، مگر وہاں نہیں بدلا)، باس: سونگھنا (بمعنی بُو اور بوُ سونگھنا اب اردو میں متروک، مگر چاٹگامی میں موجودہے)، بَلی: طاقتور(قدیم اردومیں رائج تھا، فلم میں بھی مَہا بَلی اُسی دورکی یادگار ہے)، بَند: دوست (اردو میں بھائی بند)، بھِیتر: اندر (قدیم اردو)، بوز: بُوجھ جیسے سمجھ بوجھ،تلے: نیچے (قدیم اردو)، ٹُک:ٹُک یعنی ذرا(قدیم اردو)، جائیو(قدیم اردو، اب جاؤ اور جائیے)،چھاڑ: چھوڑ چھاڑیعنی چھوڑنا،دَھر: دھرپکڑ، دھر لینا،ساکی یعنی چاکی جو اردومیں تبدیل ہوکر چکّی بن چکا ہے، مگر امیر خسرو کے عہد میں اول الذکر تلفظ ہی تھااور یہ عربی کے اثر سے چاٹگامی میں ساکی ہوا،راکھیں: راکھیں (قدیم اردو)یعنی رکھیں، صاف صُوف: صاف صُوف یعنی صاف صفائی (قدیم اردونیز موجودہ بِہاری بولی، امیر خسروسے منسوب ایک شعرمیں بھی استعمال ہوا)، کرچ: کرچ یعنی تلوار (قدیم اردو)۔
اظہار تشکر: میں شعبہ معلومات عامہ[Quiz]میں اپنے خوردمعاصر، شاہد اقبال صدیقی کا شکر گزار ہوں (کہ اُس نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کے لیے مجھے کچھ حضرات کے نام اور رابطہ نمبر دیے)، نیزجناب امین ندوی اراکانی، نعیم اللہ عبدالسلام، مولانا نورالبشراورنورحسین اراکانی کا ممنون ہوں کہ مواد کی فراہمی میں مدد فرمائی۔
اسلامی جمہوریت (جمہوریہ) اراکان کی سرکاری، قومی وعوامی زبان بھی اردو ہی تھی اور یہ سلسلہ 1945ء تک برما کا ناجائز قبضہ مکمل ہونے تک چلتارہا، پھر برما کے متعصب حکمراں طبقے نے1948ء میں اس کی جگہ برمی زبان کودے دی۔ہر زبان کی ترقی وترویج کے فطری حق کو غصب کرنے کے خلاف تحریک چلانے والا وہی ادیب ومعلم تھا جس نے اس موضوع پر اولین کتاب"زبان ِ مشرقی بنگال واَراکان۔یعنی بنگالی وچاٹگامی واَراکانی ادب پر بَسےِط تبصرہ" لکھنے کا شرف حاصل کیا یعنی اسلامی جمہوریہ اَراکان کے سربراہ محترم ظہیرالدین احمد(صدرمدرس، تنگبازاراسکول، شمالی اراکان)،جنھیں مجبوراً ہجرت کرنی پڑی، مگر افسوس! آج وہ کتاب بہ آسانی دستیاب نہیں۔(ہمارے 'حقیقی' ناشرین کو چاہیے کہ ایسی کتب کا سراغ لگا کر کسی صاحبِ علم سے ترتیب وتدوین کے بعد،انھیں اَزسرِ نَو شایع کریں تاکہ سب کا بھلا ہو)۔
آگے بڑھنے سے پہلے، خاکساراپنے کالم زباں فہمی نمبر 88'اردو کی بہن بنگلہ'(دوسرا اور آخری حصہ) کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہتاہوں جو www.express.pk پر دستیاب ہے:
یہاں یہ کہنا لازم ہے کہ عظیم خطہ بنگال میں اردو کے فروغ کی مبسوط داستان رقم کرنے کے لیے بہار، آسام، اُڑیسہ، اراکان اور برمامیں اردو کی ترویج کا جائزہ بالتحقیق لینا ضروری ہے کہ تاریخ کے سفر میں یہ تمام صوبے /ریاستیں باہم مربوط و منسلک رہ چکی ہیں۔ اس کے لیے 'بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1857ء تک' از ڈاکٹر اختر اورینوی، 'بہار اور اردو شاعری' از پروفیسر معین الدین دَردائی، 'تاریخ شعرائے بہار' از سید عزیز الدین بلخی اور"ارض بہار اور مسلمان" از عبدالرقیب حقانی(مطبوعہ 2004ء)،'اُڑیسہ میں اردو'از ڈاکٹرحفیظ اللہ نیول پوری اور'اُڑیسہ میں اردو' ازمحمود بالیسری سمیت متعددکتب کا یکجا مطالعہ مفید ہوگا۔
اس بیان کے ایک حصے سے ہماری ابتداء ہوتی ہے یعنی اراکان اور اراکانی۔(براہ کرم ناواقف قارئین کرام محولہ بالا کالم نمبر 87اور 88، آن لائن ملاحظہ فرمائیں تاکہ پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو)۔
پہلے اراکان کی بات ہوجائے۔
اراکان(موجودہ نام راکھائن) کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ علاقہ خلیج بنگال کے ساحل پر واقع برما کی ایک ریاست (صوبہ) ہے جس کا رقبہ 21000مربع کلومیٹر اور آبادی (مشکوک اعدادوشمار کے مطابق) چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی یا ہے۔اس کا صدر مقام، سیٹوے [Sittwe;pronounced sait-tway in the Rakhine language] اپنے سابق نام"اکیاب" سے بہت مشہور ہے۔اس کے شمال مغرب میں بنگلہ دیش،شمال میں بھارت اور مشرق میں اس کی بلند وبالا پہاڑیاں، برما کے باقی علاقے سے جداکرتے ہوئے گویا اسے جداگانہ علاقائی وحدت یا الگ ملک ثابت کرتی ہیں۔نشیبی ودلدلی زمین پر مشتمل یہ صوبہ چاول، گنّے اور پٹ سن کی پیداوار کے لیے ممتاز ہے۔اراکان میں اسلام کب آیا، اس کے بارے میں متضاد روایات ملتی ہیں۔ایک مشہور بیان یہ ہے کہ وہاں عہد صحابہ کرام میں ساتویں صدی کے اواخر میں پہنچنے والے مسلمان تاجروں کی بدولت، اسلام آیا
1430ء میں سلیمان شاہ نے مسلم اقتدار کی بنیاد رکھی اور پھر انھوں نے کوئی ساڑھے تین سو سال تک وہاں حکومت کی۔
اراکان کے ہندو راجہ سندہ تھوداما 1652 to 1674نے اپنے زیرنگیں چاٹگام کا علاقہ، مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اور اُس کے صوبے دار شائستہ خان کے ہاتھوں گنوایا۔راجہ کے دربارمیں بنگلہ زبان کے ممتاز شاعر سید علاءُول بھی ملازم تھے۔(غالباً علاؤ الدین کا علا۔اُل بنادیا گیا)۔چاٹگام مغل عہد میں بھی ایک اہم بندرگا ہ کا درجہ رکھتا تھا۔
1784ء میں پڑوسی ملک برما کے بُدھ راجہ راجہ بودپیہ نے اس ریاست پر بزور قبضہ کیا۔اراکان میں نوے فیصد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دس فیصد بُدھ بھی آباد ہیں جنھوں نے مسلمانوں سے بدترین ظلم وجبر رَوا رکھا۔ایک اقلّیت کا اتنا طاقتور ہونا، حکومت وقت کی مکمل سرپرستی اور سامراجی طاقتوں کی پُشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔1824ء میں یہاں برطانیہ نے قبضہ جمایا۔1938ء میں انگریز کے چلے جانے کے بعد، بُدھ برمیوں نے مسلمانوں کو ہر طرح سے غیر ملکی اور "دھرتی کا بوجھ" قرار دیتے ہوئے اُ ن کا جینا دوبھر کردیا۔اُن کی کثیر تعدا د نے مکہ مکرمہ ہجرت کی۔
اراکان میں جون 2012ء میں شروع ہونے والے مسلم کُش فسادات کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید، بے شمار جِلاوطن اور پوری پوری مسلم آبادی نذرِآتش ہوئی، قریب ترین مسلم ملک اور تاریخی لحاظ سے آبائی وطن کا حصہ، بنگلہ دیش بھی اس ظلم کے عمل میں پوری طرح شریک ہوا۔ہم اس لیے کچھ کر۔یا۔کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں اُن کی حمایت کے طفیل کہیں سے کچھ ملنے کی توقع نہیں، ورنہ ابھی تک جہاد کے نعرے لگ رہے ہوتے۔
ایک پاکستانی مصنف جناب طفیل ہاشمی کے بقول،"روہنجیا (روہنگیا:Rohingya) مسلمانوں اور میاں مار کی اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں روہنجیا نے تحریک چلائی تھی کہ اراکان صوبے کو مجوّزہ پاکستان کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان، اب بنگلا دیش) کا حصّہ بنایا جائے۔ اُس تحریک نے مختلف موقعوں پر تشدّد کا رنگ بھی اختیار کیا تھا۔"معروف صحافی حامدمیر صاحب نے بھی اپنے ایک کالم میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اراکان مسلم لیگ نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اراکانی مسلمانوں نے قائداعظم سے ملاقات میں، نئے اسلامی ملک پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی کیونکہ اراکان اور چٹاگانگ (چاٹگام)کی تہذیب وثقافت میں بظاہر کوئی خاص فرق نہ تھا، مگر "قائد اعظم نے اُن سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا"۔ (روہنگیا کون ہیں؟: حامد میر، مؤرخہ 14 ستمبر، 2017)۔مجھے فی الحال فرصت نہیں کہ اس بیان کی تصدیق یا تردید کرسکوں، مگر جلد دیکھوں گا۔
اب اراکانی کی بات کرتے ہیں۔لسانی اعتبار سے اراکان(قدیم نام روہنگ) کے مسلمانوں (روہنگیا) کی زبان 'اراکانی'[Arakanese] کا شمار "تبتی۔برمی" زبانوں کے خاندان [Tibeto-Burman group]میں ہوتا ہے۔اسے جدید برما یعنی میاں مار (یہ میان مار۔ یا م۔ئین مار۔ یا۔ میان مرنہیں ہے)کے سرکاری حکام 'راکھین' یا تلفظ کے فرق سے رکھائن/[Rakhine] راکھائن کہتے ہیں۔یہ بحث ماہرین سے زیادہ عوام الناس میں عام ہے کہ آیا اراکانی کوئی جدا زبان ہے یا محض برمی زبان کی بولی۔انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا[Britannica]کے بیان کی رُوسے بھی اراکانی، برمی کی ایک غیرمعمولی بولی ہی ہے۔رسم الخط کی یکسانیت کے باوجود، متعدد مختلف خصوصیات کی بناء پر اراکانی مسلمان اسے جدا زبان قراردیتے ہیں۔تاریخی اعتبار سے خود برمی بھی تبتی نسل کا حصہ قراردیے گئے ہیں جبکہ ایک طرف اُن کے ذخیرہ الفاظ میں پالی جیسی قدیم اور بُدھ مت کی مذہبی،(نیز آریہ)زبان ودیگرہندوستانی زبانوں کا بڑا حصہ ہے تو دوسری طرف اسے دراوڑی سے قریب سمجھا جاتاہے۔ایک ماہر ِلسان کے نزدیک یہ زبان، اپنی خصوصیات کے لحاظ سے، بڑی پُراَسرار ہے۔ہندوستانی زبانو ں سے مستعار الفاظ کے ذخیرے کی بناء پر اس زبان کا اردو سے ارتباط بھی عین فطرت تھا۔ویسے جہاں تک بہ یک وقت آریہ اور دراوڑ زبانوں سے تعلق کا معاملہ ہے تو ہماری پیاری اردو بھی تو ایسی ہی ہے۔اراکانی کے تین مختلف لہجے یا بولیاں ہیں ; سیٹوے۔مارماMarma] [Sittwe-رامری [Ramree]،اور ٹھنڈوے[Thandwe]۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ زبان مسلم اراکانی، بُدھ مارما(قدیم نام مَگ یا موگMoghs or Maghs)اور کَمِین [Kamein]قوم کی زبان ہے۔مگ قوم وہی ہے جسے مگدھ سے نسبت ہے اور جس کی ہندوستانی زبان مگدھی یا مگھئی [Magadhi/Magahi] کہلاتی ہے، اور یہی زبان ترقی کرکے بُدھ مَت کی مذہبی زبان 'پالی' بنی،مگردریائے میگھناعبورکرکے، یہاں چاٹگام میں داخلے کے بعد، انھوں نے مقامی قدیم منگول آبادی کے اختلاط کے ساتھ قدم جماتے ہوئے انھیں بھی بُدھ مَت میں شامل کیا۔مقامی قدیم زبان چاٹگامی نے بہ یک وقت مَگ اور اراکانی دونوں کو متأثر کیا اور یوں آج چاٹگامی، اراکانی سے انتہائی قربت کے باوجود، اپنا جداگانہ وجود برقراررکھنے میں کامیاب ہیں۔یہ دونوں ہی زبانیں، اپنی ہم رشتہ بنگلہ کی طرح، الفاظ کے اشتراک کے لحاظ سے اردوکی بہنیں ہیں۔
لفظ کمین، فارسی لفظ کمان کی متبدل شکل ہے اور اِن کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔محض لسانی بنیاد پر دیکھا جائے تو اَراکانی زبان بولنے والے برما،بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان، سعودی عرب سمیت اُن ممالک میں موجودہیں جہاں مخدوش حالات نے اُنھیں جانے پر مجبورکیا۔
خطہ بنگال کے قدیم باشندے منگول، کاکیشئین[Caucasian] اور دراوڑ کے آپس میں میل جول سے، قدیم قفقاز یا کوہ ِ قاف (کے مختلف ممالک) کے سفید فام، زردفام منگول اور سیاہ فام دراوڑ نسل کے اختلاط نے بنگالی قوم کی بنیاد رکھی۔ہندوستان بھر میں برہمن اقتدار مستحکم ہوا تو آٹھویں صدی کے برہمن راجہ اَدی شنکر(788-820 Adi Shankara:)نے مظالم ڈھاکر بُدھ مت کو خطے سے بڑی حدتک اُکھاڑ پھینکا۔اُس کے ساتھیوں مادھو اور رامنوج[Madhva and Ramanuja]نے برہمن مَت (عرف ہندومت)کیہندوستان میں بحالی کے ضمن میں بہت اہم کرداراداکیا اور یوں موجودہ ہندومَت پروان چڑھا۔بُدھ مت ماننے والے کشمیر، لدّاخ، تبت، بنگال، اراکان اور برما میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، بلکہ محدودہوگئے۔
ماقبل اس خاکسار کے کالم میں اردو کے بنگلہ سے دیرینہ تعلق کا جائزہ لینے کی سعی کی گئی تھی۔چاٹگامی اور اراکانی بھی بنگلہ سے کہیں نہ کہیں میل کھاتی ہیں،البتہ انھیں بطور زبان ہرگز مماثل یا ایک دوسرے کے لیے قریب الفہم قرارنہیں دیا جاتا۔چاٹگامی کے نام اور اس کے وطن چاٹگام کے نام، لہجے کے فر ق سے کئی ایک ہیں، جیسے چَٹ گےّا، چٹاگونگیا،چٹاگونگ۔عربی کے اثر سے اسی زبان میں 'چ' کی جگہ 'س' رائج ہوا تو کہیں 'سیٹاگانگ' اور سیٹاگامی بھی سننے کو ملیں گے۔مختلف دائرہ ہائے معارف یعنی Encyclopaeidasکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی رُکن، چاٹگامی،اپنی لسانی خصوصیات کی بِناء پر روہنگیاسے زیادہ اور کسی حد تک نواکھلی کی زبان نواکھیلا [Noakhailla]سے بھی قریب ہے۔
اب زیر ِ نظر کتاب میں درج، اردو دشمنی اور اس کے مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان سے ہندو پرچا رکے نتیجے میں اخراج کی تحریک کے متعلق چند سطور ملاحظہ فرمائیں جن سے حقیقتِ حال کا بخوبی اندازہ ہوتاہے:
"اردو کی مخالفت میں عام طور پر تین دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
ا)۔اردو باہر کی زبان ہے اور مشرقی بنگال پر، استعماریت کے اصول پر، مسلط کی جارہی ہے۔
ب)۔ اردوکی تعلیم کے لیے بہ یک وقت،اس قدر بڑی تعدادمیں اساتذہ کا مہیا ہونا محال ہے۔
اور ج)۔مغربی پاکستان کے طلبہ کو بنگالی نہیں پڑھائی جاتی، اس لیے مشرقی پاکستان کے طلبہ کو اردو نہ پڑھائی جائے۔
مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) والوں نے اپنی زبان کی بِناء، اصلیت اوروقتی تبدیلیوں پر غورکیے بغیر ہی وہ بات کہہ ڈالی جو اَکثرہندوکہہ دیا کرتے تھے۔میں یہاں چاٹگامی زبان کا نمونہ پیش کرتا ہوں جو بہت کم تبدیلیوں سے دوچارہوا ہے۔بنگالی مسلمانوں کی گھریلو زبان کا نمونہ حصہ دوم وحصہ چہارم میں پیش ہوچکا ہے"۔ اس کے بعد مصنف موصوف نے چاٹگامی زبان کا نمونہ پیش فرمایا:
تمھار خطا شن لے شریر بدّاخانفِر ڈے
(تمھاری کتھا یعنی بات سن کر تو بھیا! بدن کانپتا ہے ڈرکے مارے)
ختو مانش مری زارگوئی منگڈور تافر گاڑے
(کتنے ہی آدمی مرے جارہے ہیں، منگڈو تاف گھاٹ میں)
٭ یہ چاٹگامی شاعر بیلا فقیرا کا کلام ہے جو اُس نے مشرقی اکیاب میں قتل عام سے بچ کر منگڈو(پرانا نام منگڈو تاف) گھاٹ پہنچ کر، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کے نوحے کے طور پر نظم کیا۔آگے چل کر مَگ قوم کے خلاف،منگڈو کے مسلمانوں کی جدوجہد کی بابت کہتا ہے:
دکھن اے رومانش دیکھو سایہ گوراگورا
(دکھن یعنی جنوب کے آدمیوں کو دیکھو،سایہ چھوٹا چھوٹا ہے)۔
ٹھیلا بندوق خاندھت لیے ہمت فورافورا
(دیسی بندوق کندھے پر لیے ہیں، ہمت پوری پوری یعنی مضبوط ہے)
یہ اشارہ ہے منگڈو کی جنوبی بستی کے مسلمانوں کے اولین مسلح جوابی حملے کی طرف اور سایہ چھوٹا ہونے سے مراد اُن کا پستہ قامت ہونا ہے۔جنگ عظیم دوم میں انگریزوں اور جاپانیوں کی لڑائی کے متعلق یہی شاعر کہتا ہے:
خالا فھاڑ رتلات مازے زافان اش شے تارا
('کالا پہاڑ' کے نیچے، جاپانی آئے ہوئے ہیں)
وائرلیس اے دیے،خبر آئیو خاراخارا
(وائرلیس کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ کھڑے کھڑے آؤ یعنی فوراً چلے آؤ)
رازہ رازہ لاڑائی گریرفرزاکیلّا دھار
(راجہ راجہ یعنی حکمراں لڑائی کرتے ہیں، پَرجا یعنی رعایا کیوں بھاگتی ہے؟)
افرت تون بُماماریر،بُمارڈرے دھار
(اُوپر سے بم مارتے ہیں، بم کے ڈر سے بھاگتی ہے)
اسی بیلا فقیرا کی ایک غزل کا شعر بھی پیش خدمت ہے:
ہاتھے دیے سوری، خاروناکے دیے بالی
(ہاتھ میں ڈال کر چوڑی اور کنگن، ناک میں ڈال کر بالی)
فانی آئن تو زارگوئی بہنے خمر لاری لاری
(پانی لانے کے لیے جارہی ہے بہن، کمر لہرا لہرا کے)
٭شاعر نے مَگ زبان کی تقلید میں محبوبہ کو 'بہن' کہا ہے۔ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے
ہمارے فلمی ادب میں رنگون کی نسبت سے ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا، "میرے پیا گئے رنگون، وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون، تمھاری یاد آتی ہے" اور چاٹگامی زبان میں ایک مشہور گیت یوں ہے:
"آما ربندھو، رنگون گیلو+شہ ماشر خرارخرلو
(میرا دوست رنگون گیا+چھَے ماہ کا قول وقرارکرلیا)
آگے چل کر اس گیت میں ایک ٹیپ کا مصرع "رنگون رنگیلا رے" یعنی رنگون رنگیلا یا رنگ دار ہے بھی شامل ہے۔کس قدر صاف اردو ہے۔
چاٹگامی اور اردو کے مشترک الفاظ پر ایک نظر
آئیو: آؤ (اردو میں آئیو، تبدیل ہوکر آؤ اور آئیے بن گیا، مگر وہاں نہیں بدلا)، باس: سونگھنا (بمعنی بُو اور بوُ سونگھنا اب اردو میں متروک، مگر چاٹگامی میں موجودہے)، بَلی: طاقتور(قدیم اردومیں رائج تھا، فلم میں بھی مَہا بَلی اُسی دورکی یادگار ہے)، بَند: دوست (اردو میں بھائی بند)، بھِیتر: اندر (قدیم اردو)، بوز: بُوجھ جیسے سمجھ بوجھ،تلے: نیچے (قدیم اردو)، ٹُک:ٹُک یعنی ذرا(قدیم اردو)، جائیو(قدیم اردو، اب جاؤ اور جائیے)،چھاڑ: چھوڑ چھاڑیعنی چھوڑنا،دَھر: دھرپکڑ، دھر لینا،ساکی یعنی چاکی جو اردومیں تبدیل ہوکر چکّی بن چکا ہے، مگر امیر خسرو کے عہد میں اول الذکر تلفظ ہی تھااور یہ عربی کے اثر سے چاٹگامی میں ساکی ہوا،راکھیں: راکھیں (قدیم اردو)یعنی رکھیں، صاف صُوف: صاف صُوف یعنی صاف صفائی (قدیم اردونیز موجودہ بِہاری بولی، امیر خسروسے منسوب ایک شعرمیں بھی استعمال ہوا)، کرچ: کرچ یعنی تلوار (قدیم اردو)۔
اظہار تشکر: میں شعبہ معلومات عامہ[Quiz]میں اپنے خوردمعاصر، شاہد اقبال صدیقی کا شکر گزار ہوں (کہ اُس نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کے لیے مجھے کچھ حضرات کے نام اور رابطہ نمبر دیے)، نیزجناب امین ندوی اراکانی، نعیم اللہ عبدالسلام، مولانا نورالبشراورنورحسین اراکانی کا ممنون ہوں کہ مواد کی فراہمی میں مدد فرمائی۔