گھبراہٹ میں اکثر ایسے ہی فیصلے ہوا کرتے ہیں

بنگلادیش میں اگر کوئی غیر ملکی ٹیم سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم ہے۔


فہیم پٹیل March 28, 2014
بنگلادیش میں اگر کوئی غیر ملکی ٹیم سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم ہے۔ فوٹو: فائل

کوئی مجھے کچھ بھی کہے میرے لیے تو بنگلا دیش آج بھی مشرقی پاکستان ہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کو میں آج بھی پاکستانی تصور کرتا ہوں۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا کا دستور ایک ملک کو دو ٹکروں میں تقسیم کردے یا پھر بھائی کو بھائی سے جدا کردے۔مجھے اس بات کا پورا حق ہونا چاہیے کہ میں نہ صرف اپنی رائے کو قائم کرسکوں بلکہ اُس کا اظہار بھی کرسکوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ رائے صرف مجھ اکیلے کی نہیں ہے بلکہ دونوں اطراف رہائش پذیر خلق خدا کی رائے بھی اس سے مختلف نہیں ہوگی۔

ماضی کا قصہ دوہرانا اس وقت مناسب نہیں ہوگا۔بس اتنا کہنے پر اکتفاء کروں کہ جو ہوا وہ کُلّی طور پر غلط تھا۔سرحد کے اِس پار کے لیے بھی اور سرحد کے اُس پار کے لیے بھی۔درحقیقت اصل مسئلہ جمہور یت کا نہیں بلکہ اِس جمہوریت کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کا ہے۔ ان حکومتوں کا جب دل چاہتا ہے اپنی مرضی کا فیصلہ صادر کردیتی ہیں۔بس پھر آپ کی یہ آئینی اور قانونی ذمہ داری ٹھہرادی جاتی ہے کہ آپ بھی اس فیصلے پر سر تسلیم خم کرلیں کیوں کہ آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ۔ ورنہ آپ نہ صرف باغی ٹھہرادیے جائینگے بلکہ سزا کے مستحق بھی سمجھے جائیں گے۔جو کچھ بنگلا دیش میں گزشتہ 2 ماہ میں ہوا وہ اسی نام نہاد بغاوت کا نتیجہ اور پاکستان سے نفرت کا برملہ اظہار ہے۔



سیاست کے حوالے سے تو اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ یہ اب ایک گندے کھیل کے سوائے کچھ نہیں ہے۔بہتری کی گنجائش ضرور ہے لیکن کون ہے جو اس گندگی میں ہاتھ ڈال کر صفائی کا کام شروع کرے۔اس لیے ہر سیاسی فیصلے کے پیچھے کہیں نہ کہیں ذاتی مفاد چھپا ہوتا ہے۔لیکن کھیل کا میدان تو اب بھی اس ناپاکی سے پاک ہے۔یہاں بس کھیل ہوتا ہے اور لوگوں کو محظوظ کیا جاتا ہے۔میرا نہیں خیال کہ اس کا دوسرا بھی کوئی اور مقصد ہوتا ہے۔

لیکن کل ایک خبر پڑھی بھی اور سنی بھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ حیرانگی بھی ہوئی۔خبر سے تو آپ بھی واقف ہی ہونگے۔ جی ہاں بالکل میں بھی اسی خبر کی بات کررہا ہوں کہ بنگلا دیش نے مقامی تماشائیوں پر یہ پابندی عائد کردی ہے کہ وہ کسی دوسری ٹیم کا پرچم لے کر میدان میں نہیں جاسکتے ہیں۔یہ کھیل نہیں بلکہ سیاست ہے۔ بنگلادیش میں اگر کوئی غیر ملکی ٹیم سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم ہے۔ بنگلا دیشی عوام کرکٹ سے محبت کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس کھیل سے لطف اندوز ہوں اور آزادی کے ساتھ اپنی من پسند ٹیموں کی میدان میں آکر حمایت کریں۔لیکن یہاں تو صرف ذاتی عناد کی خاطر لوگوں سے اُن کا بنیادی حق چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدم جذبات میں اُٹھایا گیا ہے۔اس فیصلے کی وجہ سے بنگلہ دیش کی عوام کو جس تکلیف کا سامنا ہواوہ اپنی جگہ لیکن بنگلا دیش حکومت خود اس فیصلے سے بڑی مشکل میں پھنس گئی تھی۔ٹی 20 میچز میں پاکستان کے علاوہ بھی دیگر ملکوں کی ٹیمیں شامل ہیں آخر کس طرح بنگلا دیشی حکومت بھارت کے جھنڈوں کو اپنے اسٹیڈیم میں داخلے سے روکے گی۔جی ہاں بھارت جو اس وقت حکومتِ بنگلہ دیش کے لیے آقا کا روپ اختیار کرچکا ہے۔بگ تھری کے موضوع پر بھارت کی حمایت پر ہی بنگلا دیش کو دو بڑے مقابلوں کی میزبانی حاصل ہوئی۔



اس طرح شائقین کرکٹ کو پاکستان سے اظہار محبت پرنہ ہی پہلی بار روکا گیا ہے اور نہ ہی پہلی بار سزا سے نوازا گیا ہے۔ یہاں میں آپ کو یاد دلاتا چلوں سے چند روز قبل جب اترپردیش کی سوامی ویویکناد سبھارتی یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلباء نےپاکستان کے ہاتھوں بھارتی شکست پر جشن منایا تو اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ؟ صرف پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے پر 67طلبہ کا مستقل داو پر لگا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ کشمیر میں انتہا پسندوں نے ایک مسلمان کو چھریوں سے وار کرکے قتل تک کردیا۔ کیا ہم کبھی یہ بات تصور بھی کرسکتے ہیںکہ پاکستان میں مقیم کوئی غیر ملکی کھیل کے میدان میں کسی دوسری ٹیم کی حمایت کرے تو پھر ریاست اُس کو سزا سے نوازے۔ اس سے زیادہ کم ظرفی اور کیا ہو سکتی ہے؟

مجھے آپ خود بتائیے کہ یہ فیصلہ اور حرکتیں گھبراہٹ کا نتیجہ نہیں اور کیا ہیں۔اگر شائقین گراونڈاور گراونڈ سے باہرپاکستان سمیت کسی بھی ٹیم کی حمایت کریں تو کیا اُن کی حب الوطنی پر اثر پڑجائے گا؟ اگر وہاں کے لوگ پاکستان کی حمایت کرتے ہیں تو اس پر وہاں کی حکومتیں کی اس قدر گھبراہٹ کا شکارہوجاتی ہیں۔

میرا تو محترمہ شیخ حسینہ اور بھارت دونوں کو پُر خلوص مشورہ ہے کہ عقل و دانش سے فیصلے کیجیے، گھبراہٹ کا شکار مت ہوں ۔ گھبراہٹ میں ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں جو آپ نے کیے ۔دونوں کو اپنے جذباتی فیصلوں پر منہ کی خانی پڑی ۔ اورجب بنگلادیشی حکومت کو ہوش آیا تو انہیں اپنے فیصلے واپس لینے پڑے ۔پہلے بھارت نے اُن 67 طلبا پر لگائے گئے بغاوت کے مقدمات واپس لیے اوراب بنگلہ دیش کو بھی غیر ملکی پرچم میدان میں لانے کی پابندی کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔اگر کوئی پاکستان سےدلی نفرت کرتا ہے تو ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود نفرت محبت میں نہیں بدل سکتی لیکن وقت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے بصورت دیگر ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں