کامیابی کی کلید وسائل نہیں‘ عزم ہے
برتن دھونے والے محمد شفیق نے انٹر بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔
یوں تو یہ نعرہ ہر دور میں لگایا جاتا رہا ہے کہ تعلیم پر سب کا یکساں حق ہے اورہر شہری کو تعلیم کی سہولت بہم پہنچاناحکومت کا فرض ہے۔
مگر اس پر آج تک عمل نہیں ہوا اور نہ ہی کسی حکمران نے سنجیدگی سے کوشش کی جس کا واضح ثبوت پاکستان کے بجٹ میں رکھی جانے والی وہ حقیر سی رقم ہے جو تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خرچ کی جا تی ہے۔ کھربوںروپے کے بجٹ میں سے اگر دو فیصدنئی نسل کی تعمیر و ترقی کے لئے اہم کردار ادا کرنے والے شعبوں پر خرچ کئے جائیں گے تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے متراد ف نہیںتو اور کیا ہے مگر یہی حقیقت ہے،بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہمیشہ ایسے لوگ برسراقتدارآتے رہے ہیں۔
جنھیں عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی کیونکہ ان کا تعلق جاگیر دار اورسرمایہ دار طبقے سے ہوتا ہے جنھیں مہنگے اور اعلیٰ اسکولوںمیں تعلیم حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی پھر انھیںکیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ عوام کے لئے اپنی مراعات یا بجٹ میں کٹوتی کریں۔اوپر سے بیروزگاری اور مہنگائی کے عفریت نے ملک و قوم کو اپنے نرغے میںلے رکھا ہے ۔مگر ایسے بھی نوجوان ہیں جو اپنے عزم اور ہمت سے حالات کو شکست دے دیتے ہیں،وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر بن جاتے ہیں؎
تندیء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
ملتان کے نواحی علاقے شجاع آباد راجہ رام کے محمد شفیق کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں سے ملک کے تمام طبقوں کی توجہ حاصل کرلے گا اور پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک انٹرویو لینے کے لئے اس کے گھر پہنچ جائیں گے اور وہ ہیرو بن کر دوسروں کے لئے مشعل راہ بن جائے گا۔ اسے تو صرف ایک ہی دھن تھی کہ وہ خود کو تعلیم سے آراستہ کرے اور ایک اچھا سا روز گار حاصل کرکے نہ صرف اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بن سکے بلکہ اپنی زندگی بھی اچھے طریقے سے گزار سکے۔
اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ بہت سے سہانے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوٹل پر برتن دھونے اور تنور پر روٹیاں لگاتے یہی سوچتا رہتا کہ کاش وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔ اس اعلیٰ مقصد کے پیش نظر وہ ہوٹل پر اپنا کام دیانتداری سے کرتا، تاکہ اس کا مالک اس سے خوش رہے اور اس کے کام کی اجرت بروقت خوشی سے ادا کرے۔ جب وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتا تو اس کی مکمل توجہ اپنی تعلیم پر ہوتی اور کوئی وقت ضایع کئے بغیر وہ اپنی پڑھائی میں مصروف رہتا۔
اس نے محنت مزدوری لوڈ شیڈنگ اور غربت سمیت کسی چیز کو اپنی منزل کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا اور اپنی خدا داد صلاحیتوں' اساتذہ کی محنت اور والدین کی دعائوں سے آگے بڑھتا چلا گیا اور یوں انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحان سال 2012ء میں آرٹس گروپ میں 894 نمبر حاصل کرکے دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ 8 ستمبر 2012ء کو نتائج کے اعلان کا دن اس کے لئے ایک یاد گار دن ثابت ہوا۔ اسے جس وقت پوزیشن کی اطلاع ملی تو اس وقت بھی محمد شفیق ہوٹل پر برتن دھو رہا تھا جس کے پائوں خوشی کے مارے زمین پر نہ لگ رہے تھے۔
نتائج کی تقریب میں شفیق اپنے والد محمد حسین اور گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل سید تنویر الرحمن کے ہمراہ آیا جہاں پر انعامات کی تقریب میں جب اسٹیج سیکریٹری الیاس صدیقی نے اس کے بارے میں اعلان کیا تو حاضرین نے شاندار انداز میں تالیاں بجا کر اس کا استقبال کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر اوقاف حاجی احسان الدین قریشی' چیئرمین تعلیمی بورڈ چوہدری رشید احمد' کنٹرولر امتحانات پروفیسر اکبر چوہدری اور سیکریٹری تعلیمی بورڈ پروفیسر ارشد اعوان نے تالیوں کی گونج میں محمد شفیق کو میڈل اور دیگر انعام دیتے ہوئے اس کی کارکردگی کو سراہا۔ اس موقع پر پوزیشن حاصل کرنے والے اسکول کے سربراہ پرنسپل سید تنویر الرحمن کو بھی بورڈ کی جانب سے انعام دیا گیا۔ اس انعام کے ملنے کے بعد محمد شفیق الیکٹرانک میڈیا کی ہیڈ لائن بن گیا۔
پوزیشن ہولڈر محمد شفیق نے روزنامہ ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دن میں اسکول جاتا اور شام کو ہوٹل پر کام کرتا اور رات کو گھر میں پڑھائی کرتا تھا۔ اس نے اپنی کامیابی کو اساتذہ کی محنت اور والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دیا۔ اس نے کہا کہ وہ مستقبل میں سی ایس ایس کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے۔ شفیق نے پنجاب حکومت سے اپیل کی کہ اس کے تعلیمی اخراجات کو پورا کیا جائے تاکہ وہ پاکستان کا کارآمد شہری بن سکے۔
محمد شفیق اپنے گھرکا واحد کفیل بھی ہے اس کے بوڑھے ماں باپ اس کی پڑھائی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، محمد شفیق کے خواب بڑے ہیں لیکن غربت آڑے آرہی ہے کیونکہ ہوٹل پر برتن دھونے سے اسے صرف تین ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ محمد شفیق جب پوزیشن لینے کے بعد واپس اپنے علاقے اور ہوٹل میں پہنچا تو سیکڑوں لوگوں نے اسے مبارکباد دی۔ بعد ازاں وہ گھر پہنچا تو بوڑھے والدین نے بھی اس کو پیار کیا اور کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو بڑا آدمی بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ راجہ رام ہائر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل سید تنویر الرحمن نے کہا کہ محمد شفیق کی محنت کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ بچہ بہت آگے جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ اس نے کبھی اسکول سے غیر حاضری نہیں کی اور ہمیشہ وقت کی پابندی کی، سردی، گرمی ہر موسم میں وہ ہمیشہ وقت پر اسکول آتا اور اسکول میں تمام پیریڈ میں اساتذہ کی ہر بات کو توجہ سے سنتا جبکہ اگر کوئی بات اسے سمجھ نہ آتی تو وہ ہمیشہ متعلقہ استاد سے پوچھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔ تمام مضامین پڑھانے والے اساتذہ کا ہر دلعزیز طالب علم تھا جو ہوم ورک کے ساتھ ساتھ اسکول میں ہونے والے ٹیسٹ میں بھی سب سے زیادہ نمبر لیتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ محمد شفیق نے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے نہ صرف اپنے اسکول اور اساتذہ کا سرفخر سے بلند کیا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے اس پسماندہ علاقے کی پہچان بن کر ابھرا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس محنتی طالب علم پر اگر حکومت پنجاب خصوصی توجہ دے تواس کی صلاحیتیں مزید نکھرکر سامنے آئیں گی جس سے پاکستان کا نام روشن ہوگا، ایسے نوجوان ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جنہیں کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کی ہر موقع پر حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ محمد شفیق کے والد محمد حسین نے بتایا کہ میرا بیٹا ہرکام میں بڑی محنت کرتا ہے، اکثر اوقات وہ اپنی پڑھائی میں سے بھی وقت نکال کر میرا ہاتھ بٹا دیتا تھا، انھوں نے کہا کہ میں ایک غریب کاشتکار ہوں، میں گھر کی روٹی بہت مشکل سے پوری کرتا ہوں، میں نے شفیق کو بھی کہا تھا کہ وہ کوئی کام دھندہ کرے کیونکہ میں اس غربت میں اسے تعلیم نہیں دلوا سکتا لیکن میرے بیٹے نے از خود ہمت کرکے دن رات محنت کی اور اپنی نیند کی قربانی دے کر راتوں کو پڑھ کر دن میں اسکول جاکر اور بعد میں ہوٹل میں کام کرکے اپنا خرچہ خود برداشت کیا اور ثابت کردیا کہ اگر انسان اپنا ارادہ بلند رکھ کر محنت اور لگن سے جستجو کرے تو وہ اپنی منزل ضرور پالیتا ہے۔
یہ باتیں کرتے ہوئے اس کے والد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بلاشبہ کسی قسم کی محنت میں کوئی عار نہیں ہے کس کو پتہ تھا کہ شجاع آباد کے پسماندہ علاقے راجہ رام کے ہوٹل پر برتن دھونے اور تنور پر کام کرنے والا محمد شفیق انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے اسی علاقے کی شناخت بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر محمد شفیق کی طرح لگن کے ساتھ محنت کی جائے تو اس کا صلہ ضرور ملتا ہے۔
محمد شفیق نے تو اپنے عزم اور ہمت سے حالات کو شکست دیدی مگر اس جیسے کتنے نوجوان ہوں گے جوحالات کا جبر سہنے پر مجبور ہوں گے ،وقت نے ان کو کیا کیا چرکے نہ لگائے ہوں گے،ایسے میں بہت سے ہمت ہار بھی جاتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں مثبت کی بجائے منفی کاموں میں استعمال ہونے لگتی ہیں۔ارباب اختیار کو چاہئے کہ ایسے اقدامات کریں کہ تعلیم تک ہر فرد کی رسائی آسانی سے ہو سکے تاکہ محمد شفیق جیسے نوجوانوں کی صلاحیتیںکھل کر سامنے آ سکیں اور ملک وقوم ان سے مستفید ہوں۔