مقامی حکومتوں کا غیر مستحکم نظام
بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کا درجہ مالی و انتظامی اختیارات نہیں دیے جارہے
بلدیاتی معاملات پر منعقدہ تقریب میں اسٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات فوری طور پر کرائے جائیں اور دو مرحلوں میں ہی سندھ میں انتخابات کرائے جائیں۔ الیکشن کمیشن حکومت پنجاب کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا کہہ چکا ہے جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تقریباً ایک سال ہورہا ہے۔
کے پی میں عمران خان کی حکومت میں ہی بلدیاتی انتخابات کے دونوں مرحلے مکمل ہوگئے تھے مگر کے پی حکومت کو فکر نہیں ان کی پوری توجہ وفاق سے محاذ آرائی اور لانگ مارچ پر مرکوز ہے۔
پنجاب حکومت نے شہرگجرات کو ڈویژن کا درجہ دیا اور بلدیہ گجرات کو تقرری دے کر میونسپل کارپوریشن بنا دیا ہے اور پنجاب میں مزید تین اضلاع بنائے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی عثمان بزدار حکومت نے عمران خان کی ہدایت پر کے پی جیسا بے اختیار بلدیاتی نظام کا قانون منظورکرایا تھا مگر انتخابات نہیں کرائے اور پھر حمزہ شہباز کی حکومت آئی جس نے گزشتہ حکومت کا بلدیاتی نظام مستردکردیا اور جلد ہی اس کی جگہ دوبارہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت آگئی۔
پرویز مشرف دور میں بااختیار ضلع حکومت کا نظام لایا گیا مگر بعدازاں وفاقی حکومت نے ہی ضلع حکومتوں کے ناظمین کے اختیارات کم کرائے تھے کیوں کہ اس وقت کے ارکان اسمبلی کو بااختیار بلدیاتی ناظمین قبول نہیں تھے اور بلدیاتی نظام میں ختم کیے گئے ترقیاتی فنڈز خود خرچ کرنا چاہتے تھے جو جنرل مشرف نے ختم کرکے ضلع حکومتوں کو دے دیے تھے۔
ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ایک سیاسی رشوت کے طور پر حکومت استعمال کرتی رہی ہے کیوں کہ ارکان اسمبلی اس غیر قانونی طور پر ملنے والے ان ترقیاتی فنڈز سے مالی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں بلکہ یہ فنڈ اپنی مرضی کے علاقوں میں خرچ کراتے ہیں اور اپنے مخالفین کے علاقوں میں کوئی کام نہیں کراتے۔ اسی طرح ہر سیاسی حکومت بھی اپنے حامی ارکان اسمبلی کو یہ فنڈ دیتی ہے اور مخالفین کو فنڈ نہیں دیے جاتے۔
سپریم کورٹ بھی ارکان اسمبلی کو ہر فنڈ دینا غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ خود عمران خان بھی اقتدار میں آنے سے قبل ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے خلاف تھے مگر اپنی حکومت میں صرف اپنے حامی ارکان کو یہ فنڈز دلائے اور مخالفین کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیے۔
ترقیاتی فنڈز ارکان اسمبلی کو سرکاری رشوت دینے اور ارکان اسمبلی کو وفاداریاں تبدیلی کرانے کا اہم ذریعہ ہیں اور ارکان اسمبلی اپنی پارٹیوں سے منحرف ہوکر برسراقتدار پارٹی کی حمایت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے یہ حربے دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی حکومت بھی استعمال کرتی رہی ہے اور صرف اپنوں کو نوازنے کے لیے یہ فنڈز ہر حکومت استعمال کرتی رہی ہے اور اسی وجہ سے تمام بڑی پارٹیاں ملک میں با اختیار مقامی حکومتوں کا نظام نہیں چاہتیں اور انھیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ بااختیار بلدیاتی نظام کے قوانین اپنی اپنی اسمبلیوں سے منظور کراکر نام نہاد بے اختیار بلدیاتی ادارے بنوا رکھے ہیں جو ہر جگہ محکمہ بلدیات کے ماتحت اور بے اختیار ہیں جن کے میئرز بھی برائے نام با اختیار ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی جماعت کہلانے کی دعوے دار پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی نام نہاد جمہوری حکومتیں بااختیار بلدیاتی نظام کے خلاف اور غیر جمہوری حکومتوں سے بھی بدتر ثابت ہوئی ہیں۔ تین فوجی حکومت میں مقررہ مدت ختم ہونے پر باقاعدہ بلدیاتی انتخابات کرائے گئے جب کہ تینوں بڑی پارٹیوں نے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کیا۔
2015 کے بلدیاتی انتخابات ملک میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہوئے تھے جنھیں نام نہاد جمہوری حکومتوں نے ایک سال تک اختیارات نہیں دیے تھے اور تین بڑے صوبوں میں مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی ہی حکومتیں تھیں اور 18ویں ترمیم کے بعد آئینی طور پر بلدیاتی نظام صوبوں کے پاس ہیں مگر صوبے بلدیاتی انتخابات نہیں کراتے۔
پی ٹی آئی کی وفاقی، پنجاب و کے پی کے حکومتوں سے توقعات تھیں کہ وہ اپنے علاقوں میں آئین کے مطابق بااختیار بلدیاتی نظام دیں گی مگر عوام کو مسلم لیگ اور پی پی کی طرح پی ٹی آئی نے بھی مایوس کیا اور بااختیار بلدیاتی نظام نہیں دیا۔
پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے آتے ہی پنجاب کے تمام بلدیاتی توڑ دیے تھے کیوں کہ وہاں مسلم لیگ ن کی اکثریت تھی۔ پہلے ان کے مالی فنڈ روکے گئے اور انھیں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کئی ماہ تک بحال نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ دو مرحلوں میں اپنی نصف مدت بھی پوری نہ کرسکے۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے میئر کو وفاقی حکومت نے دو بار ہٹایا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جلد فیصلوں کی وجہ سے وفاقی حکومت ناکام رہی اور میئر کے نئے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے اپنی اکثریت کے باعث دوبارہ کامیابی حاصل کی۔
کے پی حکومت نے نئے بلدیاتی انتخابات میں میئر پشاور و دیگر شہروں میں پی ٹی آئی کی شکست کے بعد میئروں کے اختیارات کم کردیے تھے جسے چیلنج کیاگیا اور معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
سندھ میں 15سال سے پی پی کی حکومت ہے جو بااختیار بلدیاتی نظام یا مقامی حکومتوں پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ پی پی حکومت نے جنرل ضیاء کے 1979کے بلدیاتی نظام کو اپنا رکھا ہے اور سندھ اسمبلی سے مرضی کے قوانین منظور کراکے سندھ کو ایک بے اختیار بلدیاتی نظام دے رکھا ہے جو آئین کے خلاف ہے اور مکمل طور پر سندھ حکومت کے کنٹرول میں اور محتاج ہے جس کی وجہ سے سندھ میں بلدیاتی ادارے برائے نام بااختیار ہیں۔
15سالوں میں سپریم کورٹ کے حکم پر صرف ایک بار بلدیاتی انتخابات 2015 میں ہوئے تھے اور اب بھی مسلسل ٹالے جارہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ سندھ میں اس سلسلے میں مقدمات زیر سماعت ہیں ۔
بلوچستان کا بلدیاتی نظام سرداروں کا محتاج اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام اس لیے غیر مستحکم ہے کہ بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کا درجہ مالی و انتظامی اختیارات نہیں دیے جارہے اور انھیں تیسری سطح کی مقامی حکومتیں کسی طور پسند نہیں اور ارکان اسمبلی اپنی من مانیوں اور فنڈز کے لیے مقامی حکومتیں نہیں چاہتے اور برائے نام بے اختیار بلدیاتی نظام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک بھر میں غیر مستحکم بلدیاتی اداروں کو ان کا حق صرف اعلیٰ عدلیہ ہی دلاسکتی ہے ۔