کراچی میں انٹر پری انجینیئرنگ کے نتائج جاری
شہر کا بڑا مسئلہ گندگی اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں ہیں، پوزیشن ہولڈرز
اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی نے انٹر پری انجنیئرنگ سال دوئم کے سالانہ امتحانات برائے 2022 کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے جس میں آدمجی سائنس کالج کے طالبعلم سید حماد محمود نے 1100 میں سے 1047 ( 95.18) فیصد مارکس لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔
دوسری پوزیشن کامکس کالج کے محمد عاقب میمن اور بحریہ کالج کی عائشہ نجیب مشترکہ طور پر 1042 ( 94.73) فیصد مارکس لے کر جبکہ تیسری پوزیشن ملیر کینٹ کالج کے عثمان فیضیاب خان نے 1039 (94.45) فیصد لے کر حاصل کی۔
نتائج کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے پوزیشن ہولڈرز کا کہنا تھا کہ کراچی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ گندگی، صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال، ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور غیر معیاری پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔
پوزیشن ہولڈرز کا کہنا تھا کہ سرکاری کالج میں اساتذہ کا کلاسز نہ لینے کا رویہ عام ہے جبکہ خود طلبہ بھی کالج کم آتے ہیں۔
علاوہ ازیں نتائج کے مطابق ان امتحانات میں شرکت کے لیے 24587 امیدوار رجسٹرڈ ہوئے جب کہ 24168 نے شرکت کی اور نتائج کا تناسب 58.48 فیصد رہا۔ اے ون گریڈ میں 1875 امیدوار کامیاب ہوئے۔ اے گریڈ میں 2322 امیدوار، بی گریڈ میں 2914 امیدوار، سی گریڈ میں 3844، ڈی گریڈ میں 2960 اور ای گریڈ میں219 امیدوار کامیاب ہوئے۔
نتائج کے اعلان کے وقت پہلی پوزیشن کے حامل آدم جی کالج کے سید حماد محمود کا کہنا تھا کہ آدم جی اچھا کالج ہے اس کے نتائج بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن انھیں کالج کی تدریس کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی لینی پڑی۔ انھوں نے بتایا کہ اکثر لڑکے کالج نہیں آتے جبکہ ان کی پورے سال کی حاضری بھی 20 فیصد تک رہی ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ اب انجینیئرنگ کے بجائے اعلیٰ تعلیم میں اکاؤنٹیسی کی جانب جا رہے ہیں۔
دوسرے پوزیشن ہولڈر محمد عاقب میمن کا کہنا تھا کہ انھوں نے نجی کالج کا انتخاب اس لیے کیا کہ کالج ان کے گھر سے قریب تھا۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کیمبرج اور میٹرک دونوں سسٹم ہی اچھے ہیں لیکن کیمبرج کا کامرس کا نصاب زیادہ بہتر ہے۔ انھوں نے بھی انکشاف کیا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے فیلڈ تبدیل کرلی ہے اور اکاؤنٹیسی لی ہے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بورڈ نے اس بار پرچوں میں بہتر انداز میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا لیکن چونکہ ہمارے اساتذہ پرانے ہیں اور ٹیکنالوجی سے آشنا نہیں ہیں لہذا کمیونیکیشن کے مسائل رہے۔
دوسری پوزیشن کی حامل ایک اور طالبہ بحریہ کالج کارساز کی عائشہ نجیب کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان میں ضرور رٹا لگایا لیکن سائنس کے مضامین سمجھ کر پڑھے۔
عائشہ کی والدہ خود سرکاری کالج کی پروفیسر ہیں لیکن انھوں نے نجی کالج میں اس لیے داخلہ لیا کہ وہ بیک وقت ٹیوشن اور کالج نہیں لے سکتی تھی، نجی کالج میں انھوں نے ٹیوشن نہیں لیا انھوں نے این ای ڈی میں سوفٹ ویئر انجینیئرنگ میں داخلہ لیا ہے۔
علاوہ ازیں تیسری پوزیشن ہولڈر کے حامل عثمان فیضیاب خان کا کہنا تھا کہ کالج کی پڑھائی ناکافی ہوتی ہے اس لیے ٹیوشن لینی ہوتی ہے۔