لاہور کے قبرستانوں میں جگہ کم تدفین کے اخراجات بھی بڑھ گئے
شہر کے 83 فیصد قبرستانوں میں قبر بنانے کی فیس 25 سے 40 ہزار روپے تک ہے
آبادی میں بے تحاشا اضافے، بے ہنگم رہائشی اسکیموں اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کے کئی بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں مسلم اور غیر مسلم شہریوں کے لیے قبرستان کی جگہیں سکڑتی جا رہی ہیں۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جہاں ایک طرف 80 فیصد قبرستان چار دیواری سمیت دیگر سہولتوں سے محروم ہیں وہیں مختلف قبرستانوں میں قبر کی جگہ اور تیاری کی فیسوں میں بھی نمایاں فرق ہے۔ نئے قبرستانوں کے تعمیر بھی التوا کا شکار، غریب آدمی کے لیے اپنے پیاروں کی تدفین بھی ایک مسئلہ بن گئی ہے جبکہ شہر خموشاں اتھارٹی بھی بے بس نظر آرہی ہے۔
لاہور کے مختلف علاقوں میں سرکاری اور نجی سوسائٹیوں کے قبرستانوں میں قبر بنانے کے لیے مختلف فیس لی جاتی ہے۔ شہر کے 83 فیصد قبرستانوں میں قبر بنانے کی فیس 25 سے 40 ہزار روپے تک ہے جبکہ پرائیویٹ سوسائٹیوں کے قبرستانوں میں قبر بنانے کا ریٹ 25 ہزار سے 50 ہزار روپے ہے۔
سرکاری قبرستانوں میں قبر بنانے کا ریٹ ساڑھے 10 ہزار روپے ہے، شہر کے سب سے بڑے میانی صاحب قبرستان میں قبر بنانے کی فیس ساڑھے 10 ہزار روپے ہے۔ بی بی پاکدامن قبرستان میں 50 ہزار روپے، شاہ جمال قبرستان میں 10ہزار، میاں میر قبرستان میں 30 ہزار، اقبال ٹاون شہنشاہ قبرستان میں قبر بنانے کی فیس 40 ہزار روپے مقرر ہے، ساندہ قبرستان میں قبر کی فیس 30 ہزار، شہر خاموشاں کاہنہ میں قبر بنانے کی فیس 10 ہزار روپے مقر رہے۔
شہر کے دیگر علاقوں کی بات کی جائے تو یونین کونسل ایک سے 35 میں 65 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 25 ہزار روپے ہے۔ یونین کونسل 36 تا 70 میں 135 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے 35 ہزار روپے، یونین کونسل 71 تا 130 کے 170 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے 40 ہزار روپے، یونین کونسل 131 تا 200 کے 198 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے 50 ہزار روپے ہے۔ یونین کونسل 201 تا 274 کے 177 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے پچاس ہزار روپے ہے۔
میانی صاحب لاہور کے گورکن محمد یوسف نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ مرنے کے بعد ایک دن سب کو یہاں ہی آنا ہے، یہاں کئی طرح کے لوگ آتے ہیں، امیر طبقے کو قبر کی فیس اور اخراجات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے، متوسط طبقہ سرکاری ریٹ کے مطابق فیس ادا کر دیتا ہے جبکہ جو انتہائی غریب ہوں یا فیس ادا کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے ان کی فیس مخیر حضرات/ادارے ادا کر دیتے ہیں۔
محمد یوسف کے مطابق میت کے لیے کفن کا ریٹ ایک ہزار سے پانچ ہزار روپے تک ہے۔ قبر کی گہرائی ساڑھے تین فٹ اور لمبائی 6 فٹ بنانے کی فیس ایک ہزار روپے ہے۔ قبر میں 250 اینٹوں اور چار سلیبوں کے اخراجات 10 ہزار روپے تک لیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری قبرستانوں میں گورکن کی اجرت بمعہ میٹریل 10 ہزار روپے ہے بعض لوگ اپنی خوشی سے زیادہ بھی دے دیتے ہیں جبکہ پرائیویٹ قبرستانوں میں گورکن کی فیس سوسائٹی کے مطابق 10 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک لی جاتی ہے۔
لاہور کی ایک مقامی یونین کونسل کے سابق چیئرمین راشد کرامت بٹ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ''لاہور کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں زیادہ تر قبرستان مشترکہ شاملات اراضی پر بنائے گئے ہیں، یہاں قبر کی کوئی فیس لی جاتی ہے اور نہ ہی گورکن رکھے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت قبرستان میں اپنے خاندان اور برادریوں کے احاطوں میں قبر بناتے اور تدفین کرتے ہیں۔ تاہم ان قبرستانوں میں بعض اوقات ایسی میتیوں کی تدفین مسئلہ بن جاتی ہے جن کا تعلق اس گاؤں اور علاقے سے نہیں ہوتا، وہ کرایہ دار ہوتے ہیں۔ ان قبرستانوں میں گاؤں کی مختلف برادریاں اپنے اپنے خاندان اور برادری کے لیے اراضی خرید کر شامل کرتی ہیں۔ اس وجہ سے یہاں صرف اسی گاؤں اور علاقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہی وفات کے بعد تدفین کی جاتی ہے''۔
ذرائع کے مطابق لاہور میں 70 فیصد پرائیویٹ سوسائٹیاں ایسی ہیں جو ڈی ایچ اے سے منظور ہی نہیں ہیں۔ ان سوسائٹیوں نے قبرستانوں کے لیے بھی کوئی جگہ مختص نہیں کی ہے اس لیے ان سوسائٹیوں میں رہنے والوں میں سے اگر کسی کی وفات ہوجائے تو پھر تدفین یا تو کسی قریبی علاقے کے قبرستان میں کی جاتی ہے یا پھر یہ لوگ میت واپس اپنے آبائی علاقوں میں لے جاتے ہیں۔
شہر کے اکثر قبرستانوں کی حالت بھی کافی خراب ہے، چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے آوارہ کتوں اور نشیئوں نے قبرستانوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آوارہ کتے قبروں کو کھود کر بے حرمتی کرتے ہیں۔ ایکسپریس ٹربیون کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق شہر میں 80 فیصد سے زائد قبرستان چار دیواری اور وضوخانوں کی سہولتوں سے محروم ہیں، قبرستانوں کی سیکیورٹی بڑا مسئلہ ہے۔ شہر کے 845 قبرستانوں کی بحالی کا منصوبہ اور 4 بڑے سرکاری قبرستانوں کی تعمیر التواء کا شکار ہے۔ پنجاب حکومت نے اس مقصد کے لیے گزشتہ برس 4 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے تھے جو استعمال نہیں ہوسکے تھے۔
لاہور میں چار نئے قبرستانوں کی 1654 کنال 14 مرلے سرکاری اراضی پر چار دیواری نہیں ہوسکی ہے۔ موضع بھائی کوٹ میں 127 کنال 11 مرلے پر قبرستان کی تعمیر التواء کا شکار ہے۔ بیدیاں روڈ پر 276 کنال 6 مرلے اراضی پر قبرستان کی چار دیواری کی تعمیر التوا میں ہے، بابو صابو میں قبرستان کی 525 کنال اراضی کی چار دیواری نہیں ہو سکی۔ قصور روڈ پر 825 کنال 17 مرلہ اراضی پر قبرستان کی تعمیر زیر التواء ہے۔
یونین کونسل ایک سے 35 تک کے 165 قبرستانوں میں سے بیشتر چار دیواری سے محروم ہیں، یو سی 36 سے 70 کے 135 قبرستانوں میں سے بیشتر میں جنازگاہ اور وضو خانے نہیں بنائے جا سکے جبکہ یونین کونسل 71 سے 130 کے 170 قبرستانوں میں سے بیشتر میں تعمیر و مرمت کا کام التوا میں ہے۔ یوسی 131 سے 274 کے 198 قبرستانوں میں داخلی گیٹ اور راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
مسلم آبادی کے قبرستانوں کے ساتھ ساتھ لاہور میں بسنے والی مسیحی برادری کو بھی اس حوالے سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔ لاہورسے تعلق رکھنے والے مسیحی سماجی رہنما سلیم اقبال کا کہنا ہے کہ لاہور میں مسیحی آبادی کے لیے قبرستان انتہائی ناکافی ہیں۔
انہوں نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ لاہور میں یوحنا آباد جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی مسیحی آبادی ہے جہاں دو قبرستان ہیں، ایک قبرستان میں گنجائش ختم ہوچکی جبکہ دوسرے میں تھوڑی جگہ باقی ہے۔ بہار کالونی کوٹ لکھپت قبرستان میں بھی گنجائش ختم ہوچکی ہے، یہاں پہلے سے موجود پرانی قبروں کے اوپر نئی قبریں بنانا پڑتی ہیں، یہاں پختہ قبریں بنانے پر پابندی ہے، اسی طرح چلڈرن اسپتال کے قریب مسیحی قبرستان کی جگہ اسپتال میں شامل کی جا چکی ہے۔ سنگھ پورہ کے علاقہ میں بدھوکا آوا قبرستان موجود ہے جبکہ جیل روڈ پر نیوگورا قبرستان اور ٹکسالی کے قریب پراناگورا قبرستان ہے۔
سلیم اقبال کے مطابق یہاں صرف قبر کی جگہ کی فیس 6 سے 8 ہزار روپے تک ہے، گورگن اور میٹریل کے اخراجات الگ ہیں۔ گورا قبرستان کو امیروں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں فیس بہت زیادہ ہے۔
سرکاری قبرستانوں کی دیکھ بھال، یہاں سہولیات کی فراہمی محکمہ بلدیات پنجاب کی ذمہ داری ہے۔ بلدیہ کی ترجمان کے مطابق لاہور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں ماڈل قبرستانوں کے قیام اور پہلے سے موجود قبرستانوں کی چار دیواری، سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک ہزار224 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ تمام میٹرو پولیٹن کارپوریشنوں کو ہدایات کی گئی ہیں کہ اپنے شہروں میں قبرستانوں کی صورتحال بہتر بنائیں۔
ترجمان کے مطابق قبرستانوں کی دیکھ بھال حکومت اور مقامی کمیونٹی مل کر کرتے ہیں۔ پنجاب میں لاہور کے شہر خموشاں کی طرز پر مزید نئے قبرستانوں کی تعمیر پر جلد کام شروع ہوجائے گا۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جہاں ایک طرف 80 فیصد قبرستان چار دیواری سمیت دیگر سہولتوں سے محروم ہیں وہیں مختلف قبرستانوں میں قبر کی جگہ اور تیاری کی فیسوں میں بھی نمایاں فرق ہے۔ نئے قبرستانوں کے تعمیر بھی التوا کا شکار، غریب آدمی کے لیے اپنے پیاروں کی تدفین بھی ایک مسئلہ بن گئی ہے جبکہ شہر خموشاں اتھارٹی بھی بے بس نظر آرہی ہے۔
لاہور کے مختلف علاقوں میں سرکاری اور نجی سوسائٹیوں کے قبرستانوں میں قبر بنانے کے لیے مختلف فیس لی جاتی ہے۔ شہر کے 83 فیصد قبرستانوں میں قبر بنانے کی فیس 25 سے 40 ہزار روپے تک ہے جبکہ پرائیویٹ سوسائٹیوں کے قبرستانوں میں قبر بنانے کا ریٹ 25 ہزار سے 50 ہزار روپے ہے۔
سرکاری قبرستانوں میں قبر بنانے کا ریٹ ساڑھے 10 ہزار روپے ہے، شہر کے سب سے بڑے میانی صاحب قبرستان میں قبر بنانے کی فیس ساڑھے 10 ہزار روپے ہے۔ بی بی پاکدامن قبرستان میں 50 ہزار روپے، شاہ جمال قبرستان میں 10ہزار، میاں میر قبرستان میں 30 ہزار، اقبال ٹاون شہنشاہ قبرستان میں قبر بنانے کی فیس 40 ہزار روپے مقرر ہے، ساندہ قبرستان میں قبر کی فیس 30 ہزار، شہر خاموشاں کاہنہ میں قبر بنانے کی فیس 10 ہزار روپے مقر رہے۔
شہر کے دیگر علاقوں کی بات کی جائے تو یونین کونسل ایک سے 35 میں 65 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 25 ہزار روپے ہے۔ یونین کونسل 36 تا 70 میں 135 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے 35 ہزار روپے، یونین کونسل 71 تا 130 کے 170 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے 40 ہزار روپے، یونین کونسل 131 تا 200 کے 198 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے 50 ہزار روپے ہے۔ یونین کونسل 201 تا 274 کے 177 قبرستانوں میں قبر کا ریٹ 10 سے پچاس ہزار روپے ہے۔
میانی صاحب لاہور کے گورکن محمد یوسف نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ مرنے کے بعد ایک دن سب کو یہاں ہی آنا ہے، یہاں کئی طرح کے لوگ آتے ہیں، امیر طبقے کو قبر کی فیس اور اخراجات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے، متوسط طبقہ سرکاری ریٹ کے مطابق فیس ادا کر دیتا ہے جبکہ جو انتہائی غریب ہوں یا فیس ادا کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے ان کی فیس مخیر حضرات/ادارے ادا کر دیتے ہیں۔
محمد یوسف کے مطابق میت کے لیے کفن کا ریٹ ایک ہزار سے پانچ ہزار روپے تک ہے۔ قبر کی گہرائی ساڑھے تین فٹ اور لمبائی 6 فٹ بنانے کی فیس ایک ہزار روپے ہے۔ قبر میں 250 اینٹوں اور چار سلیبوں کے اخراجات 10 ہزار روپے تک لیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری قبرستانوں میں گورکن کی اجرت بمعہ میٹریل 10 ہزار روپے ہے بعض لوگ اپنی خوشی سے زیادہ بھی دے دیتے ہیں جبکہ پرائیویٹ قبرستانوں میں گورکن کی فیس سوسائٹی کے مطابق 10 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک لی جاتی ہے۔
لاہور کی ایک مقامی یونین کونسل کے سابق چیئرمین راشد کرامت بٹ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ''لاہور کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں زیادہ تر قبرستان مشترکہ شاملات اراضی پر بنائے گئے ہیں، یہاں قبر کی کوئی فیس لی جاتی ہے اور نہ ہی گورکن رکھے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت قبرستان میں اپنے خاندان اور برادریوں کے احاطوں میں قبر بناتے اور تدفین کرتے ہیں۔ تاہم ان قبرستانوں میں بعض اوقات ایسی میتیوں کی تدفین مسئلہ بن جاتی ہے جن کا تعلق اس گاؤں اور علاقے سے نہیں ہوتا، وہ کرایہ دار ہوتے ہیں۔ ان قبرستانوں میں گاؤں کی مختلف برادریاں اپنے اپنے خاندان اور برادری کے لیے اراضی خرید کر شامل کرتی ہیں۔ اس وجہ سے یہاں صرف اسی گاؤں اور علاقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہی وفات کے بعد تدفین کی جاتی ہے''۔
ذرائع کے مطابق لاہور میں 70 فیصد پرائیویٹ سوسائٹیاں ایسی ہیں جو ڈی ایچ اے سے منظور ہی نہیں ہیں۔ ان سوسائٹیوں نے قبرستانوں کے لیے بھی کوئی جگہ مختص نہیں کی ہے اس لیے ان سوسائٹیوں میں رہنے والوں میں سے اگر کسی کی وفات ہوجائے تو پھر تدفین یا تو کسی قریبی علاقے کے قبرستان میں کی جاتی ہے یا پھر یہ لوگ میت واپس اپنے آبائی علاقوں میں لے جاتے ہیں۔
شہر کے اکثر قبرستانوں کی حالت بھی کافی خراب ہے، چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے آوارہ کتوں اور نشیئوں نے قبرستانوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آوارہ کتے قبروں کو کھود کر بے حرمتی کرتے ہیں۔ ایکسپریس ٹربیون کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق شہر میں 80 فیصد سے زائد قبرستان چار دیواری اور وضوخانوں کی سہولتوں سے محروم ہیں، قبرستانوں کی سیکیورٹی بڑا مسئلہ ہے۔ شہر کے 845 قبرستانوں کی بحالی کا منصوبہ اور 4 بڑے سرکاری قبرستانوں کی تعمیر التواء کا شکار ہے۔ پنجاب حکومت نے اس مقصد کے لیے گزشتہ برس 4 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے تھے جو استعمال نہیں ہوسکے تھے۔
لاہور میں چار نئے قبرستانوں کی 1654 کنال 14 مرلے سرکاری اراضی پر چار دیواری نہیں ہوسکی ہے۔ موضع بھائی کوٹ میں 127 کنال 11 مرلے پر قبرستان کی تعمیر التواء کا شکار ہے۔ بیدیاں روڈ پر 276 کنال 6 مرلے اراضی پر قبرستان کی چار دیواری کی تعمیر التوا میں ہے، بابو صابو میں قبرستان کی 525 کنال اراضی کی چار دیواری نہیں ہو سکی۔ قصور روڈ پر 825 کنال 17 مرلہ اراضی پر قبرستان کی تعمیر زیر التواء ہے۔
یونین کونسل ایک سے 35 تک کے 165 قبرستانوں میں سے بیشتر چار دیواری سے محروم ہیں، یو سی 36 سے 70 کے 135 قبرستانوں میں سے بیشتر میں جنازگاہ اور وضو خانے نہیں بنائے جا سکے جبکہ یونین کونسل 71 سے 130 کے 170 قبرستانوں میں سے بیشتر میں تعمیر و مرمت کا کام التوا میں ہے۔ یوسی 131 سے 274 کے 198 قبرستانوں میں داخلی گیٹ اور راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
مسلم آبادی کے قبرستانوں کے ساتھ ساتھ لاہور میں بسنے والی مسیحی برادری کو بھی اس حوالے سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔ لاہورسے تعلق رکھنے والے مسیحی سماجی رہنما سلیم اقبال کا کہنا ہے کہ لاہور میں مسیحی آبادی کے لیے قبرستان انتہائی ناکافی ہیں۔
انہوں نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ لاہور میں یوحنا آباد جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی مسیحی آبادی ہے جہاں دو قبرستان ہیں، ایک قبرستان میں گنجائش ختم ہوچکی جبکہ دوسرے میں تھوڑی جگہ باقی ہے۔ بہار کالونی کوٹ لکھپت قبرستان میں بھی گنجائش ختم ہوچکی ہے، یہاں پہلے سے موجود پرانی قبروں کے اوپر نئی قبریں بنانا پڑتی ہیں، یہاں پختہ قبریں بنانے پر پابندی ہے، اسی طرح چلڈرن اسپتال کے قریب مسیحی قبرستان کی جگہ اسپتال میں شامل کی جا چکی ہے۔ سنگھ پورہ کے علاقہ میں بدھوکا آوا قبرستان موجود ہے جبکہ جیل روڈ پر نیوگورا قبرستان اور ٹکسالی کے قریب پراناگورا قبرستان ہے۔
سلیم اقبال کے مطابق یہاں صرف قبر کی جگہ کی فیس 6 سے 8 ہزار روپے تک ہے، گورگن اور میٹریل کے اخراجات الگ ہیں۔ گورا قبرستان کو امیروں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں فیس بہت زیادہ ہے۔
سرکاری قبرستانوں کی دیکھ بھال، یہاں سہولیات کی فراہمی محکمہ بلدیات پنجاب کی ذمہ داری ہے۔ بلدیہ کی ترجمان کے مطابق لاہور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں ماڈل قبرستانوں کے قیام اور پہلے سے موجود قبرستانوں کی چار دیواری، سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک ہزار224 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ تمام میٹرو پولیٹن کارپوریشنوں کو ہدایات کی گئی ہیں کہ اپنے شہروں میں قبرستانوں کی صورتحال بہتر بنائیں۔
ترجمان کے مطابق قبرستانوں کی دیکھ بھال حکومت اور مقامی کمیونٹی مل کر کرتے ہیں۔ پنجاب میں لاہور کے شہر خموشاں کی طرز پر مزید نئے قبرستانوں کی تعمیر پر جلد کام شروع ہوجائے گا۔