تصویر کے دونوں رخ

شہیدوں کی قبریں تو سیاسی مورچے بن جاتے ہیں جو دشمن کے دل کو دھکا دیتے ہیں ...

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

میرے پچھلے کالم پر سندھ کے بعض حلقوں کی جانب سے کچھ رد عمل آیا۔ میں نے جسقم کے گرد گھومنے والے واقعات پر اپنی دانست میں تمام تر دیانت داری سے تبصرہ کیا تھا مگر چونکہ آج کل دیانت داری کا زمانہ ہے نہیں۔ بہت سی ایسی باتیں جو سچے دل سے سمجھ آ جانی چاہیے تھیں۔ جذباتی پیرائے میں متضاد تشریح کا باعث بنا دی گئیں۔ میرے موبائل فون پر بھی وہ تمام پیغامات محفوظ ہیں جس میں نازیبا ترین الفاظ استعمال کر کے خواہ مخواہ کا غصہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک پیغام اس چیلنج کے ساتھ بھیج دیا گیا کہ ہمارے پاس لکھنے کی طاقت تو ہے لیکن سننے کا حوصلہ نہیں۔ لطیف جمال کا یہ پیغام جوں کا توں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

میرے گزشتہ کالم کے جن دو پیرا گراف کو جواز بنا کر انھوں نے یہ جواب تحریر کیا ہے وہ پیرا گراف یہ تھے۔

(جئے سندھ قومی محاذ کے قائد مقصود قریشی کی پراسرار ہلاکت نے اس جماعت کو نئے سرے سے اندرون سندھ کی سیاست میں مرکزیت دے دی ہے۔23 مارچ کو کراچی میں منعقد ہونے والا جلسہ شاید جئے سندھ کے اس دھڑے کی اپنی توقعات سے بھی کہیں بڑا تھا۔ اس سے پہلے جب بشیر قریشی کی موت کی خبر پھیلی تو اْن کے ساتھی تمام کوششوں کے باوجود اس واقعے کو سیاسی مقصد میں تبدیل کر نے سے قاصر رہے۔ اْس وقت یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ بشیر قریشی کو خفیہ ہاتھو ں نے زہر دے کر ہلا ک کر دیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹوں سے لے کر بعد از تدفین کی تحقیقات نے ان خدشات کو زائل کر دیا تب بھی سازش کی صدائیں ہونٹوں سے نکل کر کوٹھوں چڑھی رہیں۔)

آپ کیسے کہتے ہیں؟۔
(مقصود قریشی کی قبر وہ سیاسی مزار نہ بن سکی جہاں پر آنے والوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں پراسرار اموات کی تاریخ بڑی طویل ہے۔ اتنی ہی لمبی داستان اْس قومی حافظے کی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ا ن واقعات کو بھول جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی غلط فہمی نہ ہو گی کہ جسقم کی قیادت کے ساتھ ہونے والے اس واقعہ کے صرف وقتی اثرات پیدا ہوئے ہیں۔ )
لطیف صاحب کا موقف یہ ہے
ڈیئر طلعت صاحب!
حق موجود!


''سب سے پہلے یہ بات کہ آپ سندھ وطن کو اندرون سندھ اور بیرون سندھ کہہ کر سندھی قوم کے زخموں پر نمک کا چھڑکاؤ نہ کرو۔ سندھ سندھ ہے اور کوئی اندرون اور بیرون نہیں۔ سندھ میں قوم پرست پارٹیاں دو نقطہ نظر کی ہیں۔ ایک کا نقطہ نظر سندھ کی مکمل قومی خود مختاری ہے۔ جس میں یہ ہے کہ وہ ایوانوں میں جا کر سندھ کو مکمل قومی خود مختاری دلائیں گے۔ جو کسی دور میں سائیں جی ایم سید کے ساتھ تھے اب ان کے نظریات کے حامی نہیں رہے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جا کر کھیل تماشے کے ذریعے سندھ کو اپنے جائز حقوق نہیں ملیں گے۔ لہذا سندھ کا بنیادی سبب قومی غلامی ہے باقی اس کے نتائج ہیں۔ بشیر خان قریشی دوسرے نقطہ نظر کا حامی تھا۔ یہ نقطہ نظر جی ایم سید کا تھا۔ جی ایم سید نے ایسا نقطہ نظر کیوں اختیار کیا اس نے تمام تاریخی حقائق اپنے کتابوں میں واضع طریقے سے لکھے ہیں۔

جسقم اور جی ایم سید کے حامی نظریات رکھنے والے نوجوانوں کو پچھلے 10 سالوں سے پکڑ کر اٹھایا جا رہا ہے۔ ان کے لواحقین کو لاشیں مل رہی ہیں۔ جیسے جیسے ریاستی تشدد بڑھتا ہے ویسے ہی اس نقطہ نظر والے لوگوں کی اکثریت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔2011میں تین نوجوانوں کو سانگھڑ کے قریب باکھوڑی اسٹاپ پر زندہ جلایا گیا جن میں سرائی قربان کھاوڑ، روپلو چولیانی، اور نور اللہ تنیو تھا۔ نور اللہ زخمی تھا جس نے بیان دیا تھا کہ انھیں ریاستی ایجنسیوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا اور اوپر سے کوئی کیمیکل چھڑکایا اور آگ لگا دی۔ وہ بیان رکارڈ پر بھی موجود ہے۔

بشیر خان قریشی نے 23 مارچ 2012سے پہلے فریڈم مارچ کرنے کے لیے سارے سندھ کا دورہ کیا جس میں کراچی میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ جس کو بار بار دھمکیاں ملتی رہیں کہ وہ مارچ ملتوی کرے ورنہ مارا جائے گا۔ لیکن اس نے تاریخی مارچ کر کے کامیابی حاصل کی۔ جس کے 14 دن بعد اسے زہر دے کر شہید کیا گیا۔ ابتدائی رپورٹس میں ڈاکٹروں نے سلو پوائزن کی تصدیق کی تھی۔ لیکن مسلسل رپورٹ دینے میں تاخیر کرتے رہے۔ اس سے پہلے ہتھیار رکھنے کے جرم میں اسے پھنسانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن تمام ہتھیاروں کے لائسنس ثابت ہوئے۔ اور سندھ میں شدید احتجاج بھڑکنے کے خدشے کی وجہ سے اسے بازیاب کیا گیا۔ بشیر خان قریشی پرامن اور عدم تشدد کی سیاست کا حامی تھا۔ لیکن اس کی پارٹی کی اکثریت دیکھ کر اسے سلو پوائزن دے کر شہید کیا گیا۔ اس سے بھی پہلے صفورا چورنگی کراچی میں اس پر حملہ کیا گیا۔ جس میں اس کا ساتھی شہید ہو گیا۔ جب کہ پکڑے گئے حملہ آور سرکاری لوگ نکلے۔ بغض کی بنیاد پر کوئی اس کو سیاسی شہید بیشک نہ بھی مانے' اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن سندھ کا بچہ بچہ اسے سندھ کا قومی سیاسی شہید سمجھتا ہے۔

جس طرح شہید مقصود قریشی اور اس کے ساتھی کی شہادت ہوئی ہے اس کی علامات بھی سانگھڑ کے شہیدوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے جب اتنے نوجوان مارے جاتے ہیں تو ان کے خون کی خوشبو قوم کو کس طرح سونے دے گی؟ پہلے سلسلہ بلوچستان سے شروع ہوا۔ اب سندھ بھی بلوچستان بنتا جا رہا ہے اور جو اپنے بچوں کو بچانے کے لیے آواز اٹھاتا ہے تو آپ لوگ اس پر بھی بغاوت کا الزام لگاتے پھرتے ہو۔23 مارچ کو ان لوگوں کی تعداد کراچی میں کوئی کھیل تماشہ دیکھنے کے لیے اکٹھی نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی سندھ کے لوگ بھوک یا افلاس کی وجہ سے اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ تو آپ لوگوں نے قوموں کی بغاوت کی اک جھلک دیکھی ہے لیکن یہ لوگ اپنے مارے جانے والے نوجوانوں کا ماتم کرنے آئے تھے اور یہ بتانے آئے تھے کہ وہ ایسی ریاست کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ جس ریاست میں ان کے بچوں کو دن دھاڑے اٹھا کر راستوں اور سڑکوں پر پھینکا جاتا ہے۔ یہ وہ بتانے کے لیے آئے تھے کہ اس ریاست کے ساتھ اب ان کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ جس میں بڑا بھائی چھوٹے بھائی کا سارا حق مسلم ہونے کے ناتے ہڑپ کر لیتا ہے۔ طلعت صاحب بنگال کو بھی آپ لوگوں نے بھلا دیا ہے؟ پھر بھی قومی تحریکوں کو قلم سے کچلنے کا جواز چاہیے آپ لوگوں کو؟ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو گالیاں دی گئی ہیں۔ کیا میڈیا نے 23 مارچ کو سندھ کو جو گالی دی کیا وہ کچی گالی نہیں تھی؟ پھر بھی یہ پرامن اور مہذب قوم کی اچھائی ہے جو گالی دیتی ہے لیکن گولی نہیں چلاتی۔

میں کہتا ہوں شہیدوں کی قبریں تو سیاسی مورچے بن جاتے ہیں جو دشمن کے دل کو دھکا دیتے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ شہیدوں کی وہ قبریں سیاسی مزاروں سے بھی آگے درگاہوں میں بدل جاتی ہیں۔ سندھ میں ان کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ شہید مخدوم بلاول، شہید شاہ عنایت، دولھ دریا خان کیا وہ کوئی سندھ کے پیر تھے؟ نہیں وہ سندھ کے باغی تھے لیکن وقت نے انھیں اتنا عظیم بنا دیا ہے کہ لوگ ان کو اپنا مرشد سمجھتے ہیں۔ اسی طرح معاملہ سیاسی مزاروں تک نہیں رکتا۔ کہیں آگے نکل جاتا ھے۔ یاد رکھیں پرامن لوگوں کے ساتھ ظلم ، جبر اور تشدد کرنے سے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے''۔۔

میں ان نقطہ نظر کا جواب نہیں دینا چاہتا کیوں کہ نظریاتی بنیادوں پر بنایا ہوا نقطہ فکر منطق کے اثر سے عاری ہوتا ہے۔ جو اپنی رائے کو پہلے سے ہی درست مان چکا ہو اس کو ہزاروں افراد لاکھوں کا مجمع نظر آئے گا۔ اپنی طرف سے کی ہوئی غلطیاں دوسرے کی اعمال کے نتائج کے طور پر سمجھ آئیں گی ۔ کوئی قیادت کتنی مقبول ہے، اس کا جمہوری پیمانہ انتخابات ہوتے ہیں۔ انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ باقی رہی بات سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تو میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ سندھیوں کے اصل مسائل میں سے ایک ان کی بے بسی پر ہونے والی سیاست ہے۔ تمام تر فلسفے اور نعروں کے باوجود نہ ان علاقوں میں وڈیرے کمزور پڑے اور نہ ہی عوام کے حقوق کا فلسفہ بیان کرنے والوں نے بھوکے بچوں اور فاقہ زدہ خاندانوں کو کوئی راحت فراہم کی۔ سیلاب کے دنوں میں سندھ میں سفر کرتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی اصل معاملہ اندر سے ہونے والا استحصال ہے۔

جب تک سوچنے سمجھنے والے طبقے چاہے وہ پنجاب میں ہوں یا بلوچستان میں، سندھ میں یا خیبر پختونخوا میں اپنے گریبان میں نہیں جھانکیں گے اور اپنی منتخب قیادت کے گریبان نہیں پکڑیں گے۔ وہ لاشوں کی سیاست کرتے رہیں گے۔ جسقم کی قیادت کی ہلاکت کے بارے میں میرا موقف واضح ہے اس کی گہری اور شفاف تحقیق ہونی چاہیے تا کہ سچ اور جھوٹ سامنے آجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ کے طول و عرض میں دہشت گردی اور باہر سے آنے والے پیسے کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے۔ سچ اگر سامنے لانا ہے تو پورا سامنے آئے گا۔ تصویر کے دونوں رخ بیان کیے بغیر تصویر مکمل نہیں ہوتی ۔
Load Next Story