سندھ نصاب میں تبدیلی
نصاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی۔ 2008 کے انتخابات کے بعد پنجاب کے نصاب میں تبدیلی ہوئی
جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت اس لحاظ سے تباہ کن تھا کہ انتہاپسندی کو پروان چڑھانے کے لیے تمام ریاستی وسائل استعمال کیے گئے۔ تعلیم کے شعبے کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اساتذہ کی بھرتی کے علاوہ نصاب کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ سائنسی مضامین میں رجعت پسندانہ نظریات کو داخل کیا گیا۔ اس دور میں اردو، اسلامیات، تاریخ، انگریزی، سماجی علوم، سیاسیات، معاشیات اور عمرانیات کے مضامین کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اسلامیات کے نصاب کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔ یونیورسٹی کی سطح پر تو مختلف فرقوں کے اساتذہ کا کوٹہ مقرر ہوگیا۔اس نصاب نے فرقہ وارانہ خلیج کو وسیع کیا۔ اردو سندھی اور انگریزی زبانوں کے نصاب میں جنون پیدا کرنے والے ابواب شامل کیے گئے۔ ان ابواب میں دوسرے مذاہب سے نفرت کرنے والا مواد بھی شامل کیا گیا۔ پھر اردو اور انگریزی کے کلاسیکل ادب کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ بقول ایک استاد کے میر تقی میر کی غزل 'ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے، پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے' کو فحاشی کے زمرے میں شامل کرکے حذف کیا گیا۔ اسی طرح اکبر الہٰ آبادی کی شاعری کو کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں اس طرح شامل کیا گیا کہ نوجوانوں کو سائنسی طریقے اور نئی ایجادات سے نفرت ہوجائے۔ وہ ماضی کا اسیر ہو کر معاشرے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کریں۔ پھر عصمت چغتائی منٹو پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اردو اور سماجی علوم کا نصاب تیار کرنے والے ماہرین نے سب سے زیادہ برا سلوک معروف ریفارمر سرسید احمدخان کے ساتھ کیا۔ سرسید انگریزی تعلیم کے زبردست حامی تھے۔
ان کاکہنا تھا کہ مسلمانوں کو سیاست سے علیحدہ ہوکر جدید تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور انگریز انتظامیہ میں ملازمتیں حاصل کرنی چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی سرسید نے نیچر کے ساتھ زندگی گزارنے کا نظریہ بھی پیش کیا تھا۔ سرسید کے نیچری کا نظریہ کا مقصد سائنسی طرزِ فکر اختیار کرنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مذہبی خیالات جو ماضی سے متصادم ہیں ان کو ترک کردینا چاہیے۔ سرسید دو رسالے اخبار سائنٹیفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق شایع کرتے تھے۔ اخبار سائنٹیفک سوسائٹی میں آسان اردو میں سائنس سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے۔ تہذیب الاخلاق میں عام معاملات پر بحث ہوتی تھی۔ اسی طرح انھوں نے کثیر الازواج کی بھی مخالفت کی ہے۔ سرسید کے ان خیالات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ نصاب کی کسی کتاب میں سرسید کے ان خیالات کے خلاف تنقید بھی نہیں ملتی کہ کہیں قاری تنقید پڑھ کر ہی سرسید کے حقیقی خیالات سے آگاہ ہوجائیں۔ یوں نئی نسل کے سامنے سرسید کا امیج محض انگریز حکومت حامی کے طور پر ابھرا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سرسید کی زندگی کے اس اہم حصے کو نصاب سے علیحدہ کردیا گیا۔ اس طرح سماجی علوم اور تاریخ کے مضامین کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کی اپنی زبان، ثقافت اور تاریخ میں خاص طور پر سندھی زبان کا ماضی تابناک ہے مگر نصاب کی کتابوں میں سندھ، بلوچستان، پختونخواہ اور پنجاب کی قدیم تاریخ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ موئنجودڑو کی تہذیب سے اس خطے کی ثقافت کی تاریخ کا آغاز کرنے کے بجائے محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے تاریخ بیان کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس خطے کو مشرقِ وسطیٰ سے منسلک کرکے تاریخی ورثے کو پامال کیا گیا۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے 1947 تک کی تاریخ سے استعماریت کے پھیلاؤ ، اس کے نقصان مقامی آبادی پر مظالم اور ہندوستانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ پر مشتمل باب نصاب میں نظر نہیں آتے۔ صرف کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش اور ہندو مسلمان جھگڑے کو پورے نوآبادیاتی دور پر مسلط کردیا گیا۔ یوں اس مسخ شدہ تاریخ نے محمد علی جناح کے کردار کو بھی فراموش کیا۔ جناح صاحب ایک قوم پرست رہنما کے طور پر ابھرے۔ انھوں نے گزشتہ صدی کے آغاز کے بعد آزادئ صحافت، خواتین کے حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے طویل جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے دوران انھوں نے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی اور پسند کی شادی جیسے بنیادی حقوق کے لے لڑائی لڑی۔ کانگریس سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما تلک کے اخبار کیسری پر پابندی لگادی گئی اور تلک گرفتار ہوئے۔ پھر جناح صاحب نے وکیل کی حیثیت سے ان کا دفاع کیا۔ اسی طرح قائد اعظم نے آزادئ صحافت کے لیے جدوجہد کی۔ ممبئی کرانیکل کے معاملے میں حکومت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔
جب اخبار کے انگریز ایڈیٹر ہیرمین کو ہندوستان بدر کیا گیا اور اخبار پر سنسر لگایا گیا تو قائد اعظم نے احتجاجاً اخبار بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح اپنی اہلیہ رتی اور پھر اپنی چھوٹی بہن فاطمہ جناح کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔ مگر نصاب کی کتابوں میں جناح صاحب کی زندگی کے ان روشن ابواب کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اسی طرح ان کی 11 اگست 1947 کی آئینی اسمبلی میں کی گئی تقریر بھی نصاب میں نظر نہیں آتی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں صرف زبانوں کے علوم اور سماجی علوم کو ہی محدود نہیں کیا گیا بلکہ بنیادی سائنس کے مضامین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور زولوجی وغیرہ کے نصاب قرآنی آیات اور احادیث کو شامل کر کے سائنس پر مبنی سوالات کا حجم کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب نائن الیون کا سانحہ ہوا تو پتہ چلا کہ اس سانحے کے ذمے دار سعودی نوجوان ہیں جن میں سے کئی نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس طرح ثقافت میں تبدیلی کا سوال بین الاقوامی ایجنڈا بن گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نصاب سے انتہاپسندانہ مواد نکالنے کا منصوبہ پیش ہوا۔ ممتاز ماہرِ تعلیم ڈاکٹر نیر اور دانش ور احمد سلیم پر مشتمل کمیٹی نے نصاب کا جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ تیار کی ۔اس رپورٹ پر دائیںبازو کے سیاست دانوں نے زبردست تنقید کی۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پھر مسلم لیگ ق کی قیادت نے اس معاملے پر رجعت پسندانہ مؤقف اختیار کیا ۔
بہرحال نصاب کی تبدیلی کا معاملہ اہم رہا۔ مگر نصاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی۔ 2008 کے انتخابات کے بعد پنجاب کے نصاب میں تبدیلی ہوئی مگر دائیں بازو کے صحافیوں کے واویلے کی بناء پر تبدیلی کا عمل منسوخ ہوگیا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت وفاق اور تین صوبوں میں قائم ہوئی تو اس بات کی امید تھی کہ نصاب سے انتہاپسندانہ مواد کے اخراج کے لیے جنگی بنیادوں پر فیصلے ہونگے مگر اسلام آباد میں وزارتِ تعلیم کے نصاب بیورو میں تعینات رجعت پسندانہ افسروں نے کسی قسم کے سمجھوتے سے انکار کردیا۔ 18 ویں ترمیم کے تحت وفاق سے تعلیم کی وزارت ختم ہوئی اور صوبے مکمل طور پر خودمختار ہوگئے ، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ کی حکومتوں کو مواقعے ملے۔ مگر کوئی بنیادی کام نہیں ہوا۔ 2013کے انتخابات کے بعد سندھ کے وزیرِ تعلیم نثار کھوڑو نے ماہرینِ تعلیم پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جس کا کام سندھ ٹیسٹ بورڈ سے شایع ہونے والی کتابوں کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے پہلی سے چوتھی جماعت تک کا نصاب تبدیل کیا۔ بعد میں شاہ عبدالطیف شیخ سعدی، جی ایم سید، بے نظیر بھٹو، ارفع کریم، عبدالستار ایدھی، کیپٹن کرنل شیر خان اور ملالہ یوسف زئی کے بارے میں ابواب شامل ہوئے۔ مگر صرف اردو، سندھی ، تاریخ یا انگریزی میں تبدیلی سے رجعت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوگا، بلکہ اس دائرے میں سائنس کے مضامین کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ یوں سائنسی مضامین کو سائنسی طرزِ فکر کے تحت پڑھائے جانے کا رجحان مستحکم کرنا ہوگا تاکہ ایک سائنسی ذہن تیار ہوسکے جو مستقبل میں عقل و دانش کے مطابق فیصلے کرے۔ اس طرح فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہوگی ، تاہم یہ تبدیلی خوش آیند ہے، باقی صوبوں کو بھی اس تبدیلی کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ رجعت پسندی ختم ہوسکے۔
ان کاکہنا تھا کہ مسلمانوں کو سیاست سے علیحدہ ہوکر جدید تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور انگریز انتظامیہ میں ملازمتیں حاصل کرنی چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی سرسید نے نیچر کے ساتھ زندگی گزارنے کا نظریہ بھی پیش کیا تھا۔ سرسید کے نیچری کا نظریہ کا مقصد سائنسی طرزِ فکر اختیار کرنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مذہبی خیالات جو ماضی سے متصادم ہیں ان کو ترک کردینا چاہیے۔ سرسید دو رسالے اخبار سائنٹیفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق شایع کرتے تھے۔ اخبار سائنٹیفک سوسائٹی میں آسان اردو میں سائنس سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے۔ تہذیب الاخلاق میں عام معاملات پر بحث ہوتی تھی۔ اسی طرح انھوں نے کثیر الازواج کی بھی مخالفت کی ہے۔ سرسید کے ان خیالات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ نصاب کی کسی کتاب میں سرسید کے ان خیالات کے خلاف تنقید بھی نہیں ملتی کہ کہیں قاری تنقید پڑھ کر ہی سرسید کے حقیقی خیالات سے آگاہ ہوجائیں۔ یوں نئی نسل کے سامنے سرسید کا امیج محض انگریز حکومت حامی کے طور پر ابھرا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سرسید کی زندگی کے اس اہم حصے کو نصاب سے علیحدہ کردیا گیا۔ اس طرح سماجی علوم اور تاریخ کے مضامین کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کی اپنی زبان، ثقافت اور تاریخ میں خاص طور پر سندھی زبان کا ماضی تابناک ہے مگر نصاب کی کتابوں میں سندھ، بلوچستان، پختونخواہ اور پنجاب کی قدیم تاریخ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ موئنجودڑو کی تہذیب سے اس خطے کی ثقافت کی تاریخ کا آغاز کرنے کے بجائے محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے تاریخ بیان کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس خطے کو مشرقِ وسطیٰ سے منسلک کرکے تاریخی ورثے کو پامال کیا گیا۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے 1947 تک کی تاریخ سے استعماریت کے پھیلاؤ ، اس کے نقصان مقامی آبادی پر مظالم اور ہندوستانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ پر مشتمل باب نصاب میں نظر نہیں آتے۔ صرف کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش اور ہندو مسلمان جھگڑے کو پورے نوآبادیاتی دور پر مسلط کردیا گیا۔ یوں اس مسخ شدہ تاریخ نے محمد علی جناح کے کردار کو بھی فراموش کیا۔ جناح صاحب ایک قوم پرست رہنما کے طور پر ابھرے۔ انھوں نے گزشتہ صدی کے آغاز کے بعد آزادئ صحافت، خواتین کے حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے طویل جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے دوران انھوں نے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی اور پسند کی شادی جیسے بنیادی حقوق کے لے لڑائی لڑی۔ کانگریس سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما تلک کے اخبار کیسری پر پابندی لگادی گئی اور تلک گرفتار ہوئے۔ پھر جناح صاحب نے وکیل کی حیثیت سے ان کا دفاع کیا۔ اسی طرح قائد اعظم نے آزادئ صحافت کے لیے جدوجہد کی۔ ممبئی کرانیکل کے معاملے میں حکومت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔
جب اخبار کے انگریز ایڈیٹر ہیرمین کو ہندوستان بدر کیا گیا اور اخبار پر سنسر لگایا گیا تو قائد اعظم نے احتجاجاً اخبار بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح اپنی اہلیہ رتی اور پھر اپنی چھوٹی بہن فاطمہ جناح کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔ مگر نصاب کی کتابوں میں جناح صاحب کی زندگی کے ان روشن ابواب کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اسی طرح ان کی 11 اگست 1947 کی آئینی اسمبلی میں کی گئی تقریر بھی نصاب میں نظر نہیں آتی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں صرف زبانوں کے علوم اور سماجی علوم کو ہی محدود نہیں کیا گیا بلکہ بنیادی سائنس کے مضامین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور زولوجی وغیرہ کے نصاب قرآنی آیات اور احادیث کو شامل کر کے سائنس پر مبنی سوالات کا حجم کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب نائن الیون کا سانحہ ہوا تو پتہ چلا کہ اس سانحے کے ذمے دار سعودی نوجوان ہیں جن میں سے کئی نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس طرح ثقافت میں تبدیلی کا سوال بین الاقوامی ایجنڈا بن گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نصاب سے انتہاپسندانہ مواد نکالنے کا منصوبہ پیش ہوا۔ ممتاز ماہرِ تعلیم ڈاکٹر نیر اور دانش ور احمد سلیم پر مشتمل کمیٹی نے نصاب کا جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ تیار کی ۔اس رپورٹ پر دائیںبازو کے سیاست دانوں نے زبردست تنقید کی۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پھر مسلم لیگ ق کی قیادت نے اس معاملے پر رجعت پسندانہ مؤقف اختیار کیا ۔
بہرحال نصاب کی تبدیلی کا معاملہ اہم رہا۔ مگر نصاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی۔ 2008 کے انتخابات کے بعد پنجاب کے نصاب میں تبدیلی ہوئی مگر دائیں بازو کے صحافیوں کے واویلے کی بناء پر تبدیلی کا عمل منسوخ ہوگیا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت وفاق اور تین صوبوں میں قائم ہوئی تو اس بات کی امید تھی کہ نصاب سے انتہاپسندانہ مواد کے اخراج کے لیے جنگی بنیادوں پر فیصلے ہونگے مگر اسلام آباد میں وزارتِ تعلیم کے نصاب بیورو میں تعینات رجعت پسندانہ افسروں نے کسی قسم کے سمجھوتے سے انکار کردیا۔ 18 ویں ترمیم کے تحت وفاق سے تعلیم کی وزارت ختم ہوئی اور صوبے مکمل طور پر خودمختار ہوگئے ، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ کی حکومتوں کو مواقعے ملے۔ مگر کوئی بنیادی کام نہیں ہوا۔ 2013کے انتخابات کے بعد سندھ کے وزیرِ تعلیم نثار کھوڑو نے ماہرینِ تعلیم پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جس کا کام سندھ ٹیسٹ بورڈ سے شایع ہونے والی کتابوں کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے پہلی سے چوتھی جماعت تک کا نصاب تبدیل کیا۔ بعد میں شاہ عبدالطیف شیخ سعدی، جی ایم سید، بے نظیر بھٹو، ارفع کریم، عبدالستار ایدھی، کیپٹن کرنل شیر خان اور ملالہ یوسف زئی کے بارے میں ابواب شامل ہوئے۔ مگر صرف اردو، سندھی ، تاریخ یا انگریزی میں تبدیلی سے رجعت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوگا، بلکہ اس دائرے میں سائنس کے مضامین کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ یوں سائنسی مضامین کو سائنسی طرزِ فکر کے تحت پڑھائے جانے کا رجحان مستحکم کرنا ہوگا تاکہ ایک سائنسی ذہن تیار ہوسکے جو مستقبل میں عقل و دانش کے مطابق فیصلے کرے۔ اس طرح فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہوگی ، تاہم یہ تبدیلی خوش آیند ہے، باقی صوبوں کو بھی اس تبدیلی کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ رجعت پسندی ختم ہوسکے۔