کتنا مجبور ہے قیدی

مملکت سے شکایت کا رونا صرف سلمان بہاری جیسے نوجوانوں کا نہیں ہے، بلکہ اس کی آنے والی ان نسلوں کے اذہان کا ۔۔۔

میرا جب بھی جیل کے حوالے سے کالم شایع ہوتا ہے تو اسیر قیدی، اپنی داستانیں لے کر تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر بھی کچھ لکھا جائے اور ان کے دل کی آواز، الفاظ کو زبان دے کر ہر انسان تک پہنچا دی جائے۔

میرا مطمع نظر اتنا ہوتا ہے کہ کسی قیدی کی کہانی، پریشانی اور جذبات کو انسانی ہمدردی کے تحت روزنامہ ایکسپریس کے توسط سے ارباب اختیار تک پہنچاؤں، اسے میرا اولین فریضہ سمجھ لیں۔ کیونکہ یہ میری استطاعت میں ہے کہ میں مشاق قرطاس نہ ہونے کے باوجود ایسے انسانوں کی سوچوں اور مشکلات کو لفظوں کی چادر پہناؤں، جس میں ہم سب ڈھکے ہوئے ہیں۔ عموماً میرے نزدیک ایسے واقعات باعث نصیحت ہوتے ہیں جس میں اجتماعی خاکہ چھلک رہا ہو اور اسے دل پر محسوس کیا جاسکے۔

ایک قیدی ''سلیمان خان بہاری'' چوری چھپے ایک رجسٹر میں روزانہ کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا، میں نے ازراہ مذاق کہا کہ تم یقیناً اسکول سے چھپتے ہوگے اس لیے جیل میں ڈائری لکھ رہے ہو، وہ ہنس پڑا کہ یقیناً ایسا ہی ہے''۔ میں نے اس کی ڈائری پڑھنے کے لیے مانگی اور اجازت لی کہ اگر مجھے کچھ اچھا لگے تو اپنے کالم میں اسے نقل کرلوں، تو اس نے مسکرا کر کہا کہ بھائی کیوں شرمندہ کرتے ہو۔''

ٹوٹی پھوٹی، غلط سلط اردو میں لکھی تحریریں بڑی واضح طور پر پڑھی جاسکتی تھیں، ایک جگہ اس نے لکھا تھا کہ ''قید انسان کا کچھ نہیں بگاڑتی، کوئی اپنے ماں باپ کا واحد کفیل ہوتا ہے، کوئی بیوی بچوں کا، مگر جو قید میں ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے پریشان، لیکن جو قیدی کے گھر والے ہوتے ہیں، وہ قیدی سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں، قیدی تو پھر بھی جیل میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے، جیل کا کھانا پینا، جیل میں قیدی کو کھانے پینے، سونے کی کسی چیز کی پریشانی نہیں ہوتی، لیکن کچھ قیدی ایسے ہیں جو اکیلے اپنے گھر کو چلاتے ہیں، جب وہ بند ہوجاتے ہیں تو کس طرح ان کا گھر چلتا ہوگا، آج کل ویسے ہی اتنی مہنگائی کا دور ہے، ایک جان کو پالنا مشکل ہے، جب میں جیل میں اپنے جیسے لوگوں کو سنتا ہوں تو دل پھٹ جاتا ہے۔ جب ملاقات روم میں کسی کی ماں کو، کسی کی بیوی کو ،کسی کے بچوں کو روتا دیکھتا ہوں تو بے جان سا ہوجاتا ہوں، زیادہ تر جیل میں بے گناہ آتے ہیں، جیل میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بہت سے لوگوں کے گھر اجڑ گئے، کیا ہماری پولیس کو یہ سب نظر نہیں آتا۔ جان کر اپنے سرگناہ لیتے ہیں۔ پتا نہیں اللہ پاک کا ڈر ان کو ہے بھی یا نہیں۔ سلیمان بہاری کے جذبات فرد واحد کے عکاس نہیں تھے، یہ تمام قیدیوں کی ملی جلی کہانیوں کا خلاصہ ہے۔ زیادہ تر قیدیوں کو ان ہی حالات وواقعات کا سامنا رہتا ہے۔

کوئی بھی مصائب کو خوش دلی سے قبول نہیں کرتا۔ مصائب، اعمال کے سبب ہی وارد ہوتی ہے، گوکہ ہم انسان ان مصائب کو اسباب کا چولا پہنا دیتے ہیں۔ سلمان بہاری کی داستان میں ان گنت انسانوں کی کہانی پوشیدہ ہے۔ قیدی سلمان بہاری بتاتا ہے کہ ان کا گھر بکنے کے بعد حالات خراب ہوئے۔ کرایے کے مکان میں منتقل ہوئے۔ وہ کام کاج کر رہا تھا، لیکن کام چھوٹ گیا اپنے بھائیوں کے ساتھ رہنے لگا، لیکن اس کے بال بچوں کا بوجھ وہ کب تک اٹھاتے، اس نے سرجانی ٹاؤن سے اجمیر نگری میں کرایے کا مکان حاصل کیا، بیماری کی وجہ سے گھر کا تمام سامان فروخت کردیا تھا۔ بستر، پنکھا اور گرہستی کا کوئی سامان نہیں بچا، کچھ برتن اور ایک چٹائی تھی، جس پر 5 افراد سوتے تھے، سر کے نیچے کپڑوں کی تھیلی رکھ دیتے تھے۔ والدہ نے مانگ تانگ کر گھر چلانے کی کوشش کی۔ بیماری سے اٹھا تو عید سر پر آگئی۔ لیکن بچوں کے لیے کھانے کو کچھ نہیں تھا تو ان کے لیے کپڑے کہاں سے خریدتے۔ سلمان بہاری رو پڑا کہ لوگوں کو شاپنگ کرتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا، رکشہ چلانا شروع کردیا، لیکن KDA چورنگی پر پولیس والوں نے بے گناہ گرفتار کرلیا اور رشوت طلب کی۔

رشوت نہ دینے کی وجہ سے مجھ پر جھوٹی FIR کاٹ دی گئی، میری بیوی حاملہ ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں، رکشہ چلاتا تھا، لیکن مجھ پر پولیس مقابلے کا مقدمہ بنادیا گیا، گھر میں کوئی کفیل نہیں ہے، گھر اجڑ گیا ہے، مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں گریبان پر ہاتھ ڈال کر انصاف طلب کرسکوں، اس لیے یہ سب میں اللہ پاک کے سپرد کرتا ہوں۔''


گوکہ یہ کسی قیدی کی عام سی کہانی ہے، لیکن اس کہانی میں بہت سے دکھ درد اور معاشرے کا تلخ رویہ پوشیدہ ہے کہ کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کو یہ ادراک بہت کم ہوگا کہ اگر وہ کسی سے زیادتی کر رہا ہے تو وہ کسی فرد واحد سے زیادتی نہیں کر رہا بلکہ وہ پورے خاندان کو سزا دے رہا ہے۔ سلمان بہاری کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں، لیکن اس کی استطاعت ہی نہیں ہے کہ 25 ہزار روپے کی سیکیورٹی جمع کراسکے، اس کے گھر والے در بدر پھر رہے ہیں۔ اس نے اپنے بچوں اور حاملہ بیوی کو عدالت میں پیش کیا، جس پر مجسٹریٹ کو ترس بھی آیا اور اس نے زرضمانت کی رقم مزید کم کردی، لیکن اس قدر کم رقم کا بندوبست بھی اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔(مخیر حضرات این جی اوز میری سطریں پڑھ رہے ہوں تو مدد کو آگے بڑھیں)

جرم، دو طرح کے ہوتے ہیں، جس میں بحالت مجبوری کیے جاتے ہیں اور شوقیہ بھی افعال سر انجام دیے جاتے ہیں، دونوں کا مقدر، جیل و قید کی سختی و اسیری ہے لیکن جہاں پولیس کے بعض اہلکار خود فراموش ہوجاتے ہیں وہاں جرم کرنے والے بھی خود پسند ہوجاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے پورے خاندان کو کتنے غم و مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انھیں اپنی پریشانیوں میں کہاں کہاں جانا ہوگا، عادی مجرموں سے تو گھر والے بھی لاتعلق ہوجاتے ہیں، لیکن اندھے کنوئیں دانستہ یا غیر دانستہ گر جانے والے افراد کے اہل خانہ دہرے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں ان کے گھر والوں، بال بچوں کو ان گنت معاشرتی و نفسیاتی مسائل کا سامنا رہتا ہے، ان کی اولاد احساس محرومی کا شکار ہوکر معاشرے کے ہر فرد سے نفرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور انتقامی جذبوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔معاشرے کا کارآمد فرد بننے کے بجائے، معاشرے کو بوجھ سمجھ کر معاشرے کے ہر فرد سے اپنے احساس محرومی کا انتقام لیتے ہیں، چور کا بیٹا چور کبھی نہ بنے، اگر معاشرہ درست کردار ادا کرے۔معاشرے کے انحطاط و ناہمواری کے سبب ایسے ناگفتہ افراد پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں جیلیں، اصلاحاتی درس گاہیں نہیں ہیں کہ یہاں کردار کی پختگی کو ترویج دی جاتی ہو، یہاں کرپٹ سسٹم اور عدالتی نظام کے سبب بھیڑ بکریوں کے ایسے ریوڑ کو جمع کیا جاتا ہے جس کا کوئی مقصد حیات نہیں ہوتا۔

مملکت سے شکایت کا رونا صرف سلمان بہاری جیسے نوجوانوں کا نہیں ہے، بلکہ اس کی آنے والی ان نسلوں کے اذہان کا برین واش کون کرے گا، جو ابھی دنیا میں قدم بھی نہیں رکھ سکے ہیں۔ اس کا نومولود بچہ، ماں کی کوکھ میں، اپنی والدہ کے ان جذبات کو محفوظ کیے جا رہا ہے جس سے آنے والے وقت میں اسے نبردآزما ہونا ہوگا، اسے اپنے والدین سے بھی شکایت ہوگی، رشتے داروں سے بھی شکوہ ہوگا اور معاشرے سے بھی نفرت کا لاوا، دماغ میں امڈ رہا ہوگا۔

کیا کسی صحت مند معاشرے میں کسی کارآمد شہری کے لیے یہ اسباب و وسائل سودمند اور لائق توجہ ہیں کہ ایسے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا جو ابھی دنیا میں آئے بھی نہیں اور ایسے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا، جن پر ان کے والد کا سایہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے۔

گرفتاری صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک خاندان اور ایک نسل کی ہوتی ہے۔ قصور وار صرف ایک شخص نہیں بلکہ پورے خاندان و نسل کو قصوروار بنادیا جاتا ہے، جرم کی سزا ایک فرد نہیں بلکہ اس کا پورا خاندان اور آنے والی اس کی نسل کو ملتی ہے۔ توانا صحت مند ماں ایک اچھی نسل کی آبیاری جب کرے، جب اسے حالات ایسے مہیا ہوں لیکن جہاں اس کا کفیل، اس کا انسانی سہارا معاشرے کی ناہمواریوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے تو پھر وہ اصلاح و نیک اولاد کے لیے کس طور پر یکسو ہوسکتی ہے۔

احساس محرومی اور زیادتی کی شکار، نسل کی بنیاد رکھنے والی کی کوکھ میں زہر ڈال کر خوشبو والے گلاب کی نمو کی امید رکھنا، کائنات کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔ صحت مند معاشرے کے لیے اسباب و وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ریاست کی جانب سے حقوق کا تحفظ ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ خدارا! کسی بے گناہ کی گرفتاری کے وقت اتنا ضرور سوچیے کہ ایک فرد میں ایک نسل کا مستقبل پنہاں ہے۔
Load Next Story