آہ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید

عراق کے شہر بغداد میں صدر صدام حسین سمیت متعدد اہل علم آپ کا فصاحت و بلاغت سے لبریز خطاب سُن کر انگشت بدندان تھے

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک انسان کے ناحق قتل کوساری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قراردیا ہے یہ بات واقعتاً حق ہے کیونکہ ہر فرد سے نسل آدم کا ایک سلسلہ جاری ہوتا ہے جب کہ ایک شخص کی قابلیت،خداداد صلاحیتوں اورجدوجہد کے باعث انسانیت فلاح اورکامیابی کے راستے پرگامزن ہوجاتی ہے وہ ایک شخص ہی ہوتا ہے جو کبھی اکیلا اُمت قرار پاتا ہے اور کبھی تنہا نقیبِ انقلاب ۔ 23مارچ1987 کو لاہور میں جمعیت اہلحدیث کے سربراہ علامہ احسان الٰہی ظہیر پر جان لیوا حملہ کر کے ظالم دہشت گردوں نے وطن عزیز کو اُس روشن اور پُر امن مستقبل سے محروم کردیا جو نفاذ قرآن و سنت کی صورت میں چند ہی سالوں میں ظاہر ہونا تھا ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر وہ دلیر مجاہد تھے جنکی زندگی کا مقصد پاکستان کی فضاؤں میں کلمہ توحید کا پرچم سر بُلند کرنا تھا، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں میں جو لیڈر جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جُرات رکھتا تھا ، جو عالم دین ، دلائل اور براھین سے فرقوں کا ابطال ببانگ دہل واضح کرتا تھا اور جو مخصوص فقہ کے مقابلے میں خالص قرآن و سنت کے نفاذ کے لیے مردانہ وار لڑتا تھا ایسا لیڈر اور بے باک قائد علامہ احسان الٰہی ظہیر کے سوا دوسرا نہ تھا ۔

ہاں اللہ تُو نے با لکل سچ کہا ہے کہ ایک شخص کا قتل گویا تمام انسانوں کا قتل ہے آج دین اسلام کی ٹھنڈی اور راحت بخش فضاؤں سے محروم کروڑوں لوگ ایک کامیاب اور آسودہ زندگی کو ترس رہے ہیں ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو اللہ نے صرف 42 سالہ زندگی میں بے شمار خوبیوں اور اوصاف کا مالک بنا دیا تھا، 9 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد جامع اسلامیہ مدینہ منورہ سے سند فراغت حاصل کی زمانہ طالبعلمی میں ہی مصنف بن گئے متعدد زبانوں پر دسترس حاصل کرلی سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو آناً فاناً ہم عصروں کو پیچھے چھوڑ گئے ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو اُن کی خطابت کی مہارت نے مختصر عرصے میں انتہائی معروف بنادیا تھا اُس وقت کے عالم عرب کے سب سے بڑے خطیب اور دمشق یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفی سباعی نے جب علامہ صاحب کو مسجد نبوی ﷺ میں عربی میں خطاب کرتے ہوئے سنا تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ لوگ مجھے عالم عرب کا سب سے بڑا خطیب کہتے ہیں لیکن آج میں کہتا ہوں کہ عرب کا سب سے بڑا خطیب اب میں نہیں بلکہ احسان الٰہی ہے۔


عراق کے شہر بغداد میں صدر صدام حسین سمیت متعدد اہل علم آپ کا فصاحت و بلاغت سے لبریز خطاب سُن کر انگشت بدندان تھے ، شہنشاہ خطابت آغا شورش کاشمیری جب علامہ ظہیر کا خطاب سنتے ہیں تو بے اختیار گلے سے لگا کر دعائیں دیتے ہیں اور لکھنے والے نے لکھا ہے کہ علامہ ظہیر کی خطابت سُن کر محسوس ہوتا ہے کہ خوبصورت الفاظ لائن لگا کر کھڑے ہیں اور علامہ حُسن انتخاب کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ علامہ شہید کا سفر جدوجہد انقلاب بڑا تیز تھا جس میدان میں قدم رکھتے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے، ہمیں کیا معلوم تھا کہ سفر آخرت پر بھی بہت تیز اور چاہنے والوں کو روتا چھوڑ جائیں گے ۔ علامہ ظہیر کی شہادت سے ملکی سیاست ایک مدبر سیاستدان سے اور جماعت اہلحدیث دلیر اور باہمت قائد سے محروم ہوگئی ہے ۔ آج سیاست میں نہ وہ سچائی ہے ، جلسہ گاہوں میں نہ وہ گونج اور للکار ہے ، اسٹیجوں پر نہ وہ وقار اور شان ہے ، قلم و قرطاس میں نہ وہ جراٗت اور حق گوئی ہے ، اتحادوں میں نہ وہ تحریک اور ولولہ ہے جو علامہ ظہیر کے دور میں نظر آتا تھا ۔ اللہ رب العزت کے کلام کو سینے میں محفوظ کرنے اور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کو اپنے قلب و اذھان میں راسخ کرنے کے بعد علامہ ظہیر نے حجاز مقدس میں متعدد علمی جہتوں میں کام کرنے سے زیادہ اہم وطن عزیز پاکستان میں رہ کر نفاذ شریعت اسلامی کی جدو جہد کو قرار دیا ۔

آپ کے سامنے تحریک استقلال اور ایم آر ڈی کے سیاسی اور وقت کے مشہور پلیٹ فارم بھی تھے لیکن آپ نے دینی تڑپ رکھنے والے لوگوں کو منظم اور ان کی تربیت کے ذریعے ملک کو توحید پرست اور صالح قیادت اور جماعت دینے کا پروگرام بنایا اور دن رات دیوانہ وار جدوجہد کر کے ملک کے طول و عرض میں احیائے اسلام کی زبردست تحریک پیدا کردی ۔ ملک کے تمام شہروں میں تاریخی جلسوں کا انعقاد کیا اور متعدد جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کتاب و سنت کے متوالوں کو اسلامی انقلاب کے لیے ایک واضح راستہ دکھایا ۔ اہل دانش کو 1987 کے شروع میں واضح نظر آرہا تھا کہ علامہ ظہیر کی قیادت میں سرفروش نوجوانوں کا یہ قافلہ بہت جلد نفاذ اسلام کے سلسلے میں کوئی غیر معمولی نتائج دے گا ۔

ان حالات میں ملکی اور بین الاقوامی اسلام دشمن قوتوں نے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی زندگی کا چراغ گُل کردیا جائے۔ دشمن اگرچہ اپنی اس سازش میں کامیاب ہوا لیکن علامہ شہید کی تحریک اور فراہم کردہ شعور اور بیداری لاکھوں اہل توحید کے دلوں میں اُسی طرح متحرک اور بیدار ہے اور ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا جب فرزندان توحید رسالت مآب ﷺ کی سیرت طیبہ کے قالب میں ڈھل کر وطن عزیز کو ایک امن و خوشحالی کی حامل اسلامی ریاست بنائیں گے ۔ پاکستان میں با اختیار اور قوت کے نشے میں مست طاقتیں بارہا مرتبہ بعض شخصیات کے زندگی کے چراغ گُل کرا دیتی ہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیکڑوں لوگ تہہ تیغ کر دیے جاتے ہیں ان نادیدہ قوتوں کے کرتا دھرتا کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی کو زندگی کی نعمت سے محروم کردینا کوئی سادہ سا معاملہ نہیں ۔
Load Next Story