ایف آئی آر کے تماشے
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مفاہمت کا راستہ بھی نکل آتا ہے اور معاملہ طے کرنے کے لیے بات چیت بھی ہو رہی ہوتی ہے
آج کل سابق وزیر اعظم عمران خان کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر درج نہ ہونے کے معاملے پر میڈیا میں بات ہورہی ہے۔ویسے تو ملک بھر میں مشہور ہے کہ پولیس جلد ایف آئی آر نہیں کاٹتی۔ ایف آئی آر کا اندراج پولیس کے لیے جرائم کی نشان دہی کا مرحلہ نہیں بلکہ کمائی کا آغاز ہوتا ہے۔
مرضی کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مدعی کی کمائی اور اس کی خوشامد بھی شروع ہو جاتی ہے اور بااثر افراد درمیان میں آ کر معاملہ طے کرا دیتے ہیں جس میں ایف آئی آر سے نام خارج کرانے کے لیے رقم طے کی جاتی ہے جو ملزم پارٹی ادا کرتی ہے ۔پھر مدعی مقدمہ اور پولیس کا حصہ نکال کر فیصلہ کرانے والا بااثر شخص اپنا حصہ وصول کرتا ہے، یوں پولیس ایف آئی آر سے نام خارج کرا دیتی ہے۔
ملک بھر میں پولیس تھانوں میں شناختی کارڈ اور اہم کاغذات جن میں لائسنس اور پاسپورٹ بھی شامل ہوتے ہیں کی گمشدگی کی ایف آئی آر کا اندراج قانونی تقاضا ہے جس کا پولیس بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ملک بھر میں ہی چوریوں اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں عام ہیں جن کی ایف آئی آر پولیس جان بوجھ کی درج نہیں کرتی کیونکہ ایسا کرنے سے مذکورہ تھانوں کی حد میں ہونے والے جرائم کی رپورٹیں اوپر بھیجنا پڑتی ہیں اور اوپر والوں کی سرزنش اور سزا کا بھی خوف ہوتا ہے، اس لیے پولیس نے اس کا بہترین طریقہ یہ نکالا ہے کہ اس کی ایف آئی آر ہی درج نہ ہو اور مدعی کو پریشان کرکے بھگا دیا جائے تاکہ نہ ایف آئی آر کٹے گی نہ جرائم کی نشان دہی ہوگی۔
نہ تھانوں میں لگے بورڈز پر تفصیلات لکھنا پڑیں گی اور نہ ہی جرائم بڑھنے پر اعلیٰ افسران کا ایکشن ہوگا اور علاقے میں چین ہی چین نظر آئے گا اور تھانہ افسران یہ دعوے کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ علاقے میں مکمل امن و امان اور نئے ایس ایچ او کی کارکردگی بہتر اور جرائم پولیس کے کنٹرول میں بتائے جاتے ہیں۔
گاڑیاں، موبائل، این آئی سی اور اہم کاغذات کی گم شدگی کی رپورٹ پولیس میں جمع کرانا ہر متاثرہ شخص کی مجبوری بن چکی ہے۔ چوری ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم کے واقعات مجبوری میں بعض لوگ رپورٹ کراتے ہیں، اکثر نہیں کراتے کیونکہ پولیس کو تو این آئی سی کی گمشدگی کی رپورٹ لکھنے پر بخار چڑھتا ہے اور رشوت یا سفارش کے بغیر انٹری ممکن نہیں ہوتی۔
ہر واردات کی ایف آئی آر فوری طور پر درج نہیں کی جاتی بلکہ کچی انٹری کی جاتی ہے۔ ویسے اکثر لوگ ایف آئی آر بھی غلط درج کراتے ہیں۔ قتل اور اقدام قتل کے مقدمات میں بہت سے افراد خصوصاً دیہاتوں کے رہنے والے کبھی ایف آئی آر میں ایک ملزم کو درست لکھنے کے بجائے ملزموں کی تعداد زیادہ لکھواتے ہیں۔
قتل کی واردات میں دیہاتوں میں چند افراد کو نامزد کیا جاتاہے اور شک کی بنیاد پر اپنے مخالفین کے نام لکھوائے جاتے ہیں اور باقی کو نامعلوم قرار دے کر ان کے نام بھی ایف آئی آر میں یہ کہہ کر لکھوا دیے جاتے ہیں کہ بعد میں پہچان کر تصدیق کریں گے۔ اس طریقے سے کیس کمزور ہوتا ہے اور جن لوگوں سے صلح ہو جاتی ہے، انھیں بعد میں شناخت کے وقت ملزم ماننے سے انکار کردیا جاتا ہے اور اس انحراف کے لیے رقم بھی لی جاتی ہے یا علاقے کے بڑوں کے پاس جا کر فیصلہ کرایا جاتا ہے۔
قتل کے مقدمات میں پنچائتیں اب تک چل رہی ہیں ۔ یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ پاکستان میں روزانہ ہزاروں جھوٹی ایف آئی آر درج ہوتی ہیں کیونکہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154 کے تحت ہر شخص کو ایف آئی آر درج کرانے کا حق ہے خواہ وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ ملک میں تقریباً نوے فیصد ایف آئی آر درج ہوتی ہیں اور عدالتیں بھی جھوٹی ایف آئی آر کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
عدالتوں اور پولیس کا موقف یہ ہوتا ہے کہ اگر ایف آئی آر جھوٹی ہوئی تو وہ مقدمے کی سماعت یا پولیس تفتیش میں خارج ہوجائے گی۔ قانون کے مطابق کسی کو جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج سے نہیں روکا جاسکتا۔ سماعت اور تفتیش میں ثبوت نہ ہونے پر ملزم تو بری ہو جاتے ہیں مگر جھوٹے مدعی کو سزا نہیں ہوتی۔
پولیس کی ملی بھگت سے انتقامی طور پر اپنے مخالفین کو پھنسایا جاتا ہے، اگر ملزم بااثر ہو تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہی نہیں ہوتی، اگر ہو بھی جائے تو پولیس شہادتوں کو کمزور کردیتی ہے۔ گواہوں کو خرید لیا جاتا ہے، وہ عدالتوں میں منحرف ہو جاتے ہیں اور اس طرح قتل کے ملزم بھی چھوٹ جاتے ہیں اور عدالتیں قرار دیتی ہیں کہ پولیس نے درست تفتیش نہیں کی اور شک کا فائدہ لے کر حقیقی قاتل بھی عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مفاہمت کا راستہ بھی نکل آتا ہے اور معاملہ طے کرنے کے لیے بات چیت بھی ہو رہی ہوتی ہے اور مفاد پورا نہ ہونے اور معاملہ طے نہ ہونے پر پولیس کیس عدالت میں چالان کردیتی ہے۔ برسوں مقدمات چلتے رہتے ہیں اس دوران مدعی یا ملزم فوت ہو جاتے ہیں مگر عدالتوں سے جلد فیصلہ نہیں ہوتا۔ عدالت پولیس کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ پولیس بھی جان بوجھ کر مقدمات کو طول دیتی ہے مگر ناقص تفتیش کرنے والوں پر کوئی جرمانہ ہوتا ہے نہ سزا ملتی ہے۔ عدالتیں مقدمات کے جلد فیصلے کی پابند نہیں ہوتیں۔
ان پڑھ لوگ اپنے وکیلوں کے کہنے پر ایف آئی آر غلط اور زیادہ نام لکھوا دیتے ہیں۔ مقدمات کی طوالت سے ہی وکیلوں کی فیس بڑھتی ہے اور مدعی زمینیں اور گھر فروخت کرکے عدالتوں، پولیس اور وکیلوں پر رقم خرچ کرتے کرتے خود کنگال ہو جاتا ہے۔ غلط ایف آئی آر بغیر ثبوت درج کرائی جاتی ہیں جس سے عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر سماعت ہیں اور جھوٹے مدعی سزا سے محفوظ رہتے ہیں۔