ظلم سے باز رہیے مظلوم کا ساتھ دیجیے
ظلم کی تیسری قسم یہ ہے کہ انسان ﷲ کے بندوں اور مخلوقات پر ظلم کرے
آج کل معاشرے میں لوگوں میں بے جا ظلم و زیادتی عام ہو چکی ہے، ناجائز کیس، کسی کا مال غضب کرنا، پڑوسیوں کو پریشان کرنا، کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا، مارپیٹ کرنا، گالم گلوچ کرنا، کم زوروں پر زبان دازی اور ہاتھ دراز کرنا، اس طرح کے کئی اور مظالم و گناہ ایسے ہیں جن کو ہم گناہ تصور ہی نہیں کرتے، بلکہ اس پر ڈٹ جاتے ہیں کہ میں نے ٹھیک کیا ہے، جو ﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے، جس کے بعد مصائب و مشکلات میں وہ انسان گِھر جا تا ہے۔
معاشرے میں آج کل ظلم و زیادتی عموماً غریب سے ہی کی جاتی ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ لوگوں میں ظلم عام ہے جب کہ قرآن کریم اور احادیث میں ظلم کی مذمت اور ظالموں کے بُرے انجام کو بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ظلم کو ﷲ نے لوگوں پر حرام کر رکھا ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے: ''ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور تم میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو حرام کر رکھا ہے، اس لیے دیکھو! تم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرنا۔'' (صحیح مسلم)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''ظلم سے بچو! کیوں کہ قیامت کے دن ظلم ظلمات و تاریکیوں کا باعث ہوگا، اور بخل، شہہ، طمع و لالچ سے بچو! کیوں کہ شہہ نے ان کو ہلاک کردیا جو تم سے پہلے گزرے، یہ وہی چیز تھی جس نے انہیں خون ریزی اور ہتک حرمت پر آمادہ کیا۔'' (صحیح مسلم)
آئمہ لغت کا اس بات پر اتفاق ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا ظلم ہے۔ ظلم کی تین قسمیں ہیں: انسان اپنے رب کے ساتھ ظلم کرے جس کی صورت یہ ہے کہ وہ ﷲ کے ساتھ کفر کرے، فرمان الٰہی ہے اور کافر لوگ ہی ظالم ہیں۔ (البقرہ) اس کی عبادت میں شرک کرے جس کی شکل یہ ہے کہ اس کی بعض عبادتوں کو غیر ﷲ کے لیے پھیر دے اور شرک کے بارے میں ﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: بے شک! شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ (سورہ لقمان)
اس کائنات میں سب سے بڑا ظلم خالق کائنات کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ ظلم کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر ظلم کرے وہ اس طرح کہ انسان خواہشوں کی پیروی کرنے لگ جائے، واجبات میں کوتاہی اور سستی کرے، اپنے آپ کو انواع و اقسام کی جرائم، برائیوں اور گناہوں میں ملوث کرلے جو کہ ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی صریح نافرمانی ہیں۔ فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ''ان پر ﷲ تعالیٰ نے کوئی ظلم نہیں کیا بل کہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔'' (سورہ نحل)
ظلم کی تیسری قسم یہ ہے کہ انسان ﷲ کے بندوں اور مخلوقات پر ظلم کرے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ لوگوں کا مال ناحق کھایا جائے، انہیں ظلماً مارا جائے، گالی گلوچ دیا جائے، زیادتی کی جائے، کم زوروں پر ہاتھ دراز کیا جائے، ظلم عموماً کم زور آدمی کے ساتھ ہوتا ہے جو انتقام لینے پر قادر نہیں ہوتا، ظلم کی کچھ اور شکلیں جو انسان ﷲ کے بندوں اور مخلوقات پر کرتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ''جس نے ایک بالشت کے برابر بھی کسی کی زمین کو ظلماً لے لیا تو (قیامت کے دن) سات زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا۔'' (صحیح بخاری ) حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''مال دار آدمی کا قرض کی ادائی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔'' (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔'' (صحیح بخاری )
حضرت سیدنا معاذ بن جبلؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرما یا، مفہوم : ''مظلوم کی بددعا سے بچو، بلاشبہ! اس کے اور ﷲ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی۔'' (بخاری کتاب المظالم و الغصب)
اس کے علا وہ عبدﷲ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالکؓ سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ اما م الا نبیاء حضرت محمد رسول ﷲ ﷺ سے (لوگوں کو برملا نصیحت کرتے) سنا: لوگو! مظلوم کی بددعا سے بچو! اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ! اس کی آہ و بد دُعا اور ﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہوتی۔'' (مسند احمد)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ کو یمن بھیجا تو ان اسے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''مظلوم کی بد دعا سے بچے رہنا، کیوں کہ اس کے اور ﷲ کے درمیان کوئی پردہ (یعنی رکاوٹ) نہیں ہے۔''
نبی کریم ﷺ ہمیشہ اپنے صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کو ظلم کے ارتکاب سے سخت تنبیہ فرماتے رہتے تھے اور انہیں ظلم کے برے نتائج اور دردناک اثرات سے آگاہ فرماتے رہتے تھے، نیز دوسری طرف مختلف جائز طریقوں سے مظلوم کی نصرت و حمایت کرنے، دوسروں کی عزت و آبرو، ان کی و املاک و جائیداد کی حفاظت کرنے اور ہر حال میں لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے پر ابھارتے رہتے تھے، اور انہیں بتاتے کہ مظلوم کی دعا کے لیے آسمان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
لہٰذا اس کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ہے، کیوں کہ جس طرح سے ﷲ تعالیٰ نے اپنی ذات کریمہ کے اوپر ظلم کو حرام فرما لیا ہے اسی طرح سے اس نے لوگوں کے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے، چناں چہ جو ظلم و ستم کرتا ہے اسی کے اوپر اس کے ظلم و ستم کا وبال آگرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کے فرمان اس کے اور ﷲ کے درمیان کوئی پردہ (یعنی رکاوٹ) نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی دعا بنا کسی قید و شرط کے قبول ہوتی ہے اور اسے سیدھے ﷲ کی بارگاہ میں قبولیت کا پروانہ ملتا ہے تاکہ ﷲ تعالیٰ حق کا فیصلہ فرمائے۔ چناں چہ جب مظلوم ﷲ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے اور وہ قبولیت کا یقین رکھتا ہے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سب گناہوں میں سے ظلم ایسا بے رحم گناہ اور بدتر خطا ہے کہ چاہے کافر کے ساتھ بھی کیا جارہا ہو تو ﷲ کریم کو برداشت نہیں ہے۔ لہٰذا ہر حال میں ظلم سے بچنے کی تاکیدی وصیت فرمائی گئی ہے۔
ﷲ رب العزت ہم سب کو ظلم سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہمارے اندر فکر آخرت پیدا فرمائے۔ آمین
معاشرے میں آج کل ظلم و زیادتی عموماً غریب سے ہی کی جاتی ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ لوگوں میں ظلم عام ہے جب کہ قرآن کریم اور احادیث میں ظلم کی مذمت اور ظالموں کے بُرے انجام کو بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ظلم کو ﷲ نے لوگوں پر حرام کر رکھا ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے: ''ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور تم میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو حرام کر رکھا ہے، اس لیے دیکھو! تم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرنا۔'' (صحیح مسلم)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''ظلم سے بچو! کیوں کہ قیامت کے دن ظلم ظلمات و تاریکیوں کا باعث ہوگا، اور بخل، شہہ، طمع و لالچ سے بچو! کیوں کہ شہہ نے ان کو ہلاک کردیا جو تم سے پہلے گزرے، یہ وہی چیز تھی جس نے انہیں خون ریزی اور ہتک حرمت پر آمادہ کیا۔'' (صحیح مسلم)
آئمہ لغت کا اس بات پر اتفاق ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا ظلم ہے۔ ظلم کی تین قسمیں ہیں: انسان اپنے رب کے ساتھ ظلم کرے جس کی صورت یہ ہے کہ وہ ﷲ کے ساتھ کفر کرے، فرمان الٰہی ہے اور کافر لوگ ہی ظالم ہیں۔ (البقرہ) اس کی عبادت میں شرک کرے جس کی شکل یہ ہے کہ اس کی بعض عبادتوں کو غیر ﷲ کے لیے پھیر دے اور شرک کے بارے میں ﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: بے شک! شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ (سورہ لقمان)
اس کائنات میں سب سے بڑا ظلم خالق کائنات کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ ظلم کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر ظلم کرے وہ اس طرح کہ انسان خواہشوں کی پیروی کرنے لگ جائے، واجبات میں کوتاہی اور سستی کرے، اپنے آپ کو انواع و اقسام کی جرائم، برائیوں اور گناہوں میں ملوث کرلے جو کہ ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی صریح نافرمانی ہیں۔ فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ''ان پر ﷲ تعالیٰ نے کوئی ظلم نہیں کیا بل کہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔'' (سورہ نحل)
ظلم کی تیسری قسم یہ ہے کہ انسان ﷲ کے بندوں اور مخلوقات پر ظلم کرے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ لوگوں کا مال ناحق کھایا جائے، انہیں ظلماً مارا جائے، گالی گلوچ دیا جائے، زیادتی کی جائے، کم زوروں پر ہاتھ دراز کیا جائے، ظلم عموماً کم زور آدمی کے ساتھ ہوتا ہے جو انتقام لینے پر قادر نہیں ہوتا، ظلم کی کچھ اور شکلیں جو انسان ﷲ کے بندوں اور مخلوقات پر کرتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ''جس نے ایک بالشت کے برابر بھی کسی کی زمین کو ظلماً لے لیا تو (قیامت کے دن) سات زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا۔'' (صحیح بخاری ) حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''مال دار آدمی کا قرض کی ادائی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔'' (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔'' (صحیح بخاری )
حضرت سیدنا معاذ بن جبلؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرما یا، مفہوم : ''مظلوم کی بددعا سے بچو، بلاشبہ! اس کے اور ﷲ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی۔'' (بخاری کتاب المظالم و الغصب)
اس کے علا وہ عبدﷲ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالکؓ سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ اما م الا نبیاء حضرت محمد رسول ﷲ ﷺ سے (لوگوں کو برملا نصیحت کرتے) سنا: لوگو! مظلوم کی بددعا سے بچو! اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ! اس کی آہ و بد دُعا اور ﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہوتی۔'' (مسند احمد)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ کو یمن بھیجا تو ان اسے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''مظلوم کی بد دعا سے بچے رہنا، کیوں کہ اس کے اور ﷲ کے درمیان کوئی پردہ (یعنی رکاوٹ) نہیں ہے۔''
نبی کریم ﷺ ہمیشہ اپنے صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کو ظلم کے ارتکاب سے سخت تنبیہ فرماتے رہتے تھے اور انہیں ظلم کے برے نتائج اور دردناک اثرات سے آگاہ فرماتے رہتے تھے، نیز دوسری طرف مختلف جائز طریقوں سے مظلوم کی نصرت و حمایت کرنے، دوسروں کی عزت و آبرو، ان کی و املاک و جائیداد کی حفاظت کرنے اور ہر حال میں لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے پر ابھارتے رہتے تھے، اور انہیں بتاتے کہ مظلوم کی دعا کے لیے آسمان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
لہٰذا اس کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ہے، کیوں کہ جس طرح سے ﷲ تعالیٰ نے اپنی ذات کریمہ کے اوپر ظلم کو حرام فرما لیا ہے اسی طرح سے اس نے لوگوں کے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے، چناں چہ جو ظلم و ستم کرتا ہے اسی کے اوپر اس کے ظلم و ستم کا وبال آگرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کے فرمان اس کے اور ﷲ کے درمیان کوئی پردہ (یعنی رکاوٹ) نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی دعا بنا کسی قید و شرط کے قبول ہوتی ہے اور اسے سیدھے ﷲ کی بارگاہ میں قبولیت کا پروانہ ملتا ہے تاکہ ﷲ تعالیٰ حق کا فیصلہ فرمائے۔ چناں چہ جب مظلوم ﷲ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے اور وہ قبولیت کا یقین رکھتا ہے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سب گناہوں میں سے ظلم ایسا بے رحم گناہ اور بدتر خطا ہے کہ چاہے کافر کے ساتھ بھی کیا جارہا ہو تو ﷲ کریم کو برداشت نہیں ہے۔ لہٰذا ہر حال میں ظلم سے بچنے کی تاکیدی وصیت فرمائی گئی ہے۔
ﷲ رب العزت ہم سب کو ظلم سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہمارے اندر فکر آخرت پیدا فرمائے۔ آمین