نونہالوں کا ادب
جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے بچوں کے ادب نے ہمارے ذوق و شوق کو پروان چڑھایا
''بچو! ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ!'' یہ تھے وہ الفاظ جن سے بڑے ماموں جان کہانی کا آغاز کرتے تھے اور ہم موسم سرما کی ٹھٹھراتی ہوئی راتوں میں اپنے اپنے لحافوں میں دبکے ہوئے ماموں جان سے کہانی سن رہے ہوتے تھے۔
کہانی کے آغاز نے ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی کہ کائنات کا بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور ساری حاکمیت اُسی کی ہے۔ یہ تھا بچوں کا وہ ادب جس نے ہمیں کم سِنی کے دور میں اتنا متاثر کیا۔ جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے بچوں کے ادب نے ہمارے ذوق و شوق کو پروان چڑھایا۔
اس کے بعد بچوں کا ادب پڑھنے میں ہماری دلچسپی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوتا گیا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہم بچوں کے رسالوں پھلواری، نونہال اور شمع پبلی کیشنز کے زیرِ انتظام شایع ہونے والے بچوں کے مقبول ترین اور بہترین رسالہ کھلونا کے مداح اور مستقل خریدار بن گئے۔
ہمیں ہر ماہ انتہائی بیتابی سے ماہنامہ کھلونا کے شائع ہونے کا انتظار رہتا۔ ہمیں اب تک یاد ہے کہ کھلونا کے پہلے صفحہ پر موٹے موٹے حُروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی ہوتی تھی کہ 8سے 80 سال تک کے بچوں کا پسندیدہ رسالہ!
اِس وقت ہماری عمر 80 سال سے تجاوز کر چکی ہے لیکن ہماری یادداشت میں یہ عبارت پوری طرح محفوظ ہے۔ اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ بچوں کا یہ رسالہ اُس دور کا بہترین رسالہ تھا اور ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی اِس کے مدیر ہوا کرتے تھے جب کہ شمع دہلی کے مدیر یونس دہلوی تھے۔
کھلونا کا سالنامہ بڑے خاصہ کی چیز ہوا کرتا تھا جس کا بچوں کو پورے سال شدت سے انتظار رہتا تھا۔ یہ سالنامہ بچوں کی دلچسپیوں کا خزانہ ہوتا تھا جس میں برصغیر کے مشاہیر کی تحریریں شامل ہوتی تھیں۔
یہ خزانہ برصغیر کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی بہترین کہانیوں، نظموں، لطیفوں اور کارٹونوں پر مشتمل ہوتا تھا جس میں کرشن چندر، میرزا ادیب، ساحر لدھیانوی، راجہ مہدی علی خاں، قتیل شفائی، یکتا امروہوی شفیع الدین نیّر جیسے مشاہیر شامل ہوتے تھے لیکن اِن میں سرفہرست مولانا اسماعیل میرٹھی کا نامِ نامی ہے۔
اِس وقت ہمیں راجہ مہدی علی خاں کی ایک نظم کے ابتدائی دو مصرعے اور قتیل شفائی صاحب کی ایک پیاری سی نظم''گراموفون''کے اشعار یاد آرہے ہیں۔
ذرا ملاحظہ فرمائیں:
ایک تھا راجہ مہدی علی خاں
قتیل شفائی صاحب کی نظم کا موضوع تھا ایک پرانا کھٹارا گراموفون جس کی ابتدا یوں تھی:
زخمی کوؤں کی پھَر پھَراہٹ ہے
جانیں کیسی یہ کھڑکھڑاہٹ ہے
دیکھنا یہ کیسی آہٹ ہے
بج رہا ہے گراموفون اپنا
کرشن چندر کی کہانی کا عنوان تھا ''الٹا درخت'' یہ کہانی طویل عرصہ تک قسط وار شایع ہوتی رہی۔ برسبیل ِ تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ ہماری شاعری کا آغاز کھلونا میں شایع ہونے والی پہلی نظم با عنوان ''کھلنڈرے لڑکے کی دعا''سے ہوا جو پڑھائی سے جی چُراتا تھا۔ اِس نظم کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو یوں تھا:
الٰہی ٹیچروں کو قید کردے
اسکولوں کو خدایا بند کردے
یہ تو تھی برصغیر کی تقسیم سے پہلے کے دور کی مختصر روداد۔قیامِ پاکستان کے بعد بچوں کے ادب نے ایک نئی کروٹ لی اور بچوں کے ادب کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔بچوں کے کئی رسالے شایع ہوئے جس میں آنکھ مچولی،ساتھی،ٹوٹ بٹوٹ وغیرہ شامل ہیں۔اس سلسلہ میں صوفی غلام مصطفٰی تبسم اور اشتیاق احمد کے نام انتہائی قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ بچوں کا اسلام بھی بہت مقبول ہے۔
وطن ِ عزیز میں بچوں کے ادب کے سلسلہ میں حکیم محمد سعید کی حیثیت رہبر کی ہے جن کے تذکرہ کے بغیر ساری کہانی ادھوری رہ جائے گی۔بچوں سے جتنی انسیت شہید حکیم صاحب کو تھی وہ اور کسی کو ہو ہی نہیں سکتی جس کا ثبوت اُن کے زیرِ نگرانی شایع ہونے والے دو رسالوں''ہمدرد، نونہال ''کی ہے ۔
برسبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ بچوں کے لیے لکھنا بڑوں کے لیے لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ریڈیو پاکستان کے ہمارے ایک ساتھی محمد علی نے بچوں کا ایک منفرد ماہنامہ نکالا تھا جس کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا۔صرف اتنا یاد ہے کہ انھوں نے مجھ سے یہ فرمائش کی تھی کہ میں بھی اس کے لیے کچھ تحریر کروں۔ میں نے انتہائی مختصر نظم پیش کی تھی جس کا عنوان تھا ''چاند۔''
ملاحظہ فرمائیں:
سمجھ رہا ہے خود کو آسمان کا ہیرو چاند
لیکن مجھ کو تو لگتا ہے ایک بڑا سا زیرو چاند
بچوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی وی نے تین پروگرام نشر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں اے حمید کا تحریر کردہ''عینک والا جن'' ، قمر علی عباسی کا ''بہادر علی'' اور فاروق قیصر کا''کلیاں''شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بچوں کے ادب کے حوالے سے اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر ِ اہتمام منعقد ہونے والا سہ روزہ سیمینار قابلِ ذکر ہے۔
یہ ناقابلِ تلافی ناانصافی ہو گی اگر بچوں کے ادب کی بات کی جائے اور شاعرِ بے بدل علامہ اقبال کا تذکرہ نہ کیا جائے جنھوں نے بچوں کے لیے بھی بے مثال اور لافانی نظمیں لکھی ہیں جو خالص بچوں کے لیے ہیں جیسے دعا ''لب پہ آتی ہے دعا ...'' جو مکاتب و اسکول میں آج بھی صبح کے وقت پڑہی جاتی ہے، ایک مکڑا اور مکھی ، ہمدردی،ایک گائے اور بکری، ماں کا خواب،پرندے کی فریاد،ایک پہاڑ اور گلہری، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت،''ترانہ ہندی'' وغیرہ۔
چلتے چلتے بچوں کے لیے لکھی گئی ایک دلکش نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
گپی انکل نام ہے میرا
سچ نہ کہنا کام ہے میرا
بچوں میں مشہور بہت ہوں
چرچا صبح وشام ہے میرا
شیر پکڑ کر کھایا میں نے
سن لو یہ اِعلام ہے میرا
ہاتھی کو دَم بھر میں پٹخا
شہرہ ہر اک گام ہے میرا
اک انگلی سے ریل کو روکا
ایسا استحکام ہے میرا
یہ نظم ہمارے مُربی کُہنہ مشق صحافی، شاعر اور ادیب ندیم صدیقی نے بذریعہ واٹس ایپ ممبئی بھارت سے ارسال کی ہے۔کلیم چغتائی کی اِس نظم کا عنوان ہے'' گپی انکل۔''
بچوں کے لیے خاص طور پر نظم کہنے والوں میں بڑے بڑے نام قابلِ ذکر ہیں جن میں میر تقی میرؔ، حفیظ جالندھریؔ، اسماعیل میرٹھی، ابن انشا، الطاف حسین حالیؔ، نظیر اکبر آبادی، افسر میرٹھی، صوفی تبسم، احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، کیف احمد صدیقی، احمد حاطب صدیقی، زہرا نگاہ، سید ضمیر جعفری، رضا علی عابدی کے علاوہ اور بہت سے نام شامل ہیں جن کا احاطہ کرنے کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔