فلم اور سنسر پالیسی

حال ہی میں جوائے لینڈ نامی فلم کے حوالے باتیں ہورہی ہیں


مزمل سہروردی November 18, 2022
[email protected]

پاکستان میں فلموں کی سنسر پالیسی ہمیشہ سے ہی ایک ایشو رہا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے زوال میں سنسر پالیسی کا بھی اہم کردار ہے۔

شاید سنسر بورڈ میں قدامت پسندی کا غلبہ بڑھ گیا ہے، یا پھر بورڈ کے اراکین فلم انڈسٹری کی باریکیوں اور نزاکتوں سے آگاہی نہیں رکھتے ہیں اور وہ معاشرے کو اپنے مخصوص نظریے، علم اور مشاہدے کی بنیاد پر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، اس وجہ سے پاکستان میں تفریحی اور سماجی مسائل پر مبنی فلمیں بنانے اور انھیں ریلیز کرنے کی گنجائش کم رہتی ہے۔

حال ہی میں جوائے لینڈ نامی فلم کے حوالے باتیں ہورہی ہیں، ویسے پاکستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جب کسی فلم کو سنسر بورڈ کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ضیاء الحق کے دور سے لے اب تک یہ کام تسلسل سے جاری ہے حالانکہ سول سوسائٹی نے ایسی تمام کوششوں کو ہمیشہ افسوسناک قرار دیا گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایسی تمام کوششوں کے نہ تو ماضی میں کوئی مثبت نتائج نکلے ہیں اور نہ ہی اب نکل سکتے ہیں۔

آج انٹرنیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے، انٹرنیٹ پر ایسے پلیٹ فارمز آگئے ہیں جہاں ہر قسم کی فلم موجود ہے، جہاں سنسر کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

نیٹ فلیکس اور دوسرے ایسے پلیٹ فارمز پر دنیا بھر کی فلمیں اور ٹی وی سیریلز موجود ہیں۔ ڈیجٹل میڈیا اور انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں ہمارے سنسر بورڈ کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے، لہٰذا حکومت کو سنسر بورڈ کے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے بلکہ سنسر بورڈ کو ازخود ہی اپنا جائزہ لینا چاہیے۔

آپ جب کوئی مواد، تصویر یا فلم عوا م تک پہنچنے سے روک ہی نہیں سکتے تو پھر سنسر کیا کر رہے ہیں۔ میں کسی مخصوص اور ایک فلم کی بات نہیں کر رہا بلکہ کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں، حال ہی میں سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال پر فلم بنی ہے، اسے بھی سنسر بورڈ سے اجازت نہیں ملی ہے۔ حالانکہ یہ فلم دنیا بھر میں دیکھی جارہی ہے لیکن پاکستان میں اجازت نہیں ملی ہے۔

اسی طرح دیگر بہت سی فلموں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ چند برس قبل قائد اعظم پر بننے والی فلم جناح پر بھی تنازعات سامنے آئے تھے اور اس کی ریلیز کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا تھا۔ پھر زندگی تماشا کی بھی مثال موجود ہے۔ دنیا بھر میں یہ فلم ریلیز ہوئی، اسے عالمی ایوارڈ بھی مل رہے ہیں لیکن ہم پاکستان میں اسے ریلیز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے لوگوں کو ایسی فلمیں دیکھنے سے روک لیا ہے، اگر ایسا نہیں ہوسکا تو پھر ہمیں اپنی سنسر پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی فلموں کو ستر کی دہائی کے سنسر قوانین کے تا بع رکھ کر ہم اپنی فلم انڈسٹری کو زوال سے نہیں بچا سکتے۔ ہمیں جدید دور کے جدید تقاضے سمجھنا ہوں گے۔

میں مانتا ہوں کہ فلم بھی پراپیگنڈا وار میں ایک موثر ہتھیار ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے فلم کا سہارا لیتے ہیں۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے فلم کا سہارا لیا جاتا ہے۔ دشمن کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے لیے فلم کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔

لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب کوئی فلم انڈسٹری توانا ، موثر اور ترقی یافتہ ہوگی اور دنیا آپ کی فلم دیکھتی ہو۔ اگر آپ کی فلموں کی کوئی عالمی و مقامی حیثیت ہی نہیں ہو گی تو آپ اسے استعمال بھی نہیں کر سکیں گے۔ بھارت اپنی فلم انڈسٹری کو پاکستان مخالف پراپیگنڈے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اپنی فوج کے فلاپ آپریشنز کو بھی فلموں میں گلوری فائی کرتا ہے ، ایسا اس لیے کہ بھارتی فلم انڈسڑی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کام کررہی ہے جب کہ پاکستان میں بے جا سنسر شپ نے فلم انڈسٹری کو زوال کا شکار کردیا ہے۔

اسی لیے ہم خود بھی اپنے ملک میں تیار کی گئی فلم دیکھنے کے لیے سنیما ہاؤسز میں جانے کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر ہم نے بھارت کی فلموں کی نمائش پاکستان میں بند کرنی ہے تو کم از کم اپنی فلم انڈسٹری کو تو اس معیار پر لانا ہوگا۔

ہر موضوع پر فلم بنانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ دیکھنے والوں کی مرضی ہے کہ وہ کونسی فلم دیکھتے ہیں ،کونسی نہیں دیکھتے ہیں۔جب معاشرے میں ہر موضوع پر ڈرامے بن سکتے ہیں تو ہر موضوع پر فلم کیوں نہیں بن سکتی۔ آج دیکھیں ڈرامہ انڈسٹری فلم سے آگے نظر آرہی ہے۔

میں ذاتی طورپر اداکار شان کے اس اعتراض کا حامی ہوں کہ ڈرامہ اور فلم کو الگ الگ رکھنے کی ضرورت ہے۔ عوام جن اداکاروںکو ڈراموں میں دیکھ لیتے ہیں، ان کوشاید فلم میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اداکار شان کے مطابق فلم ٹی ٹونٹی اور ڈرامہ ٹیسٹ میچ ہے، بہر حال ان کی بھی نئی فلم آرہی ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میںکم فلمیں بن رہی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ اسکرینیں کم ہیں۔ اتنی کم اسکرینیں ہوتے ہوئے فلم بنانا منافع بخش کام نہیں رہا ہے۔ فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے مزید اسکرینیں ناگزیر ہیں لیکن اب تو صورتحال یہ بن گئی ہے کہ فلموں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے مزید اسکرینیں لگ نہیں سکتیں۔

یہ دنوں معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سال میں دو تین فلمیں بن جائیں تو یہ کوئی فلم انڈسٹری نہیں۔ دو تین فلمیں بنانے سے فلم انڈسٹری چل سکتی ہے اور نہ سینما انڈسٹری چل سکتی۔ انھیں ماہانہ کم از تین نئی فلمیں چاہیے۔ لوگ بار بار ایک فلم نہیں دیکھ سکتے۔

نئی فلمیں لگیں گی تو لوگ دوبارہ سینما آئیں گے۔ اگر کئی کئی ماہ نئی فلم آئے گی ہی نہیں تو لوگ کیوں آئیں گے۔ سینما ویران ہو جائیں گے۔ اس لیے سنسر بورڈ کو سمجھنا ہوگا کہ صرف فلم نہیں سنسر کرنا بلکہ فلم اور سینما انڈسٹری کے مفاد کو بھی سامنے رکھنا ہے۔

ہمیں فحاشی اور تفریح میں موجود فرق کو سمجھنا ہوگا، فلم کو سات پردوں میں بند نہیں کیا جا سکتا، ہر طبقے کی پسند الگ الگ ہوتی ہے، فلمساز لوگوں کی پسند کو سامنے رکھ کر وہی فلم بنائے گا جو انھیں پسند ہے ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے لوگوں کو اپنی فلمیں دکھائیں تو فلموں کو بننے دینا ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ فلمیں بنیں اور فلم انڈسٹری منافع بخش بزنس بن جائے اور روزگار کا ذریعہ بھی بنے، اس کے لیے فلم میکنگ کو بے جا بندیوں سے آزاد کرنا ہوگا، اسے پرسکون اور آزادانہ ماحول دینا ہوگا، جیسے سن ستر سے پہلے فلم انڈسٹری کو ماحول میسر تھا۔

سنسر شپ کی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت جب کہ بورڈ کے غیر ضروری اور بیورو کریٹک قسم کے اختیارات کم سے کم ہونے چاہیے۔معاشرتی مسائل پر بننے والی فلموں کوکسی بھی صو رت میں روکنا نہیں چاہیے، ایسا ہوگا تو تب ہی فلم انڈسٹری چل سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں