ایک بڑے قانون دان مصنف اور دانشور سے مکالمہ
وقار ملک صاحب سے چند دنوں ہی میں دوستی اور برادرانہ تعلق قائم ہوگیا
کئی سال پہلے کی بات ہے۔ اسلام آباد سے ایک معروف ہفت روزہ ''حرمت'' شائع ہوتا تھا۔ ممتاز اور معروف اخبار نویس، جناب زاہد ملک، اس کے ایڈیٹر انچیف تھے۔
بعد ازاں انھوں نے اُردو اور انگریزی میں بھی دو روزنامے جاری کیے لیکن ''حرمت'' کی اپنی ہی شان اور شہرت تھی۔ مجھے بھی کچھ عرصہ اس ہفت روزہ میں، جناب زاہد ملک کی زیر نگرانی، کام کرنے کے مواقعے ملے۔ اسلام آباد کے ایک جدید سیکٹر میں اُن کا دفتر جس طرح سجا سنورا رہتا تھا، اُن کی اپنی شخصیت بھی اِسی کی عکاس ہوتی تھی۔ زاہد ملک صاحب ہی کے دفتر میں میری اولین ملاقات جناب وقار ملک سے ہوئی تھی۔
وقار ملک ایک نوجوان اور شرمیلا سا لڑکا لگا۔ وہ ''حرمت '' کے باقاعدہ اسٹاف میں شامل تھے اور بڑی محنت اور تندہی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ زاہد ملک صاحب کے قریبی عزیز بھی ہیں اور اُن کا آبائی تعلق وزیر آباد کے قریب واقع ایک معروف قصبے 'سوہدرہ' سے ہے۔
وقار ملک صاحب سے چند دنوں ہی میں دوستی اور برادرانہ تعلق قائم ہوگیا۔ وہ جس عرق ریزی سے اپنی صحافتی اسائنمنٹس تیار کرتے تھے، مجھے اندازہ تھا کہ یہ نوجوان مستقبل قریب میں صحافت اور صحافتی لٹریچر میں اپنا نام منوائے گا۔وقار ملک بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی (لاہور) کے شعبہ ابلاغیات میں بطورِ استاد بروئے کار آگئے تو یہ امر دوستوں کے لیے مزید خوشی کا باعث بنا۔ پھر وقار ملک نے صحافت ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تو یہ ہم ایسے اُن کے خیر خواہوں کے لیے مزید مسرت کی خبر تھی۔
وہ مستند کالم نگار بھی بنے اور کئی وقیع کتابوں کے مصنف بھی ۔اب میرے ہاتھوں میں ڈاکٹر وقار ملک صاحب کی لکھی تازہ ترین ضخیم تصنیف ہے: ''مکالمہ'' مصنف نے اس کتاب کا انتساب بڑے احترام کے ساتھ زاہد ملک صاحب مرحوم کے نام کیا ہے ۔
چھ سو بہتّرصفحات پر پھیلی یہ ذہن افروز کتاب اس لیے بھی منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہے کہ ساری کتاب صرف ایک شخصیت سے کیے گئے مکالمات پر محیط ہے۔اس شخصیت کا اسم گرامی سید محمد ظفر ہے جو ملک بھر میں'' ایس ایم ظفر'' کے نام سے جانے، مانے اور پہچانے جاتے ہیں:پاکستان کے نامور قانون دان،مشہور سیاستدان، سابق وفاقی وزیر اور کئی وقیع کتابوں کے مصنف ایس ایم ظفر صاحب۔اُن کے قانون دان اور وکیل بیٹے ،علی ظفر، کی بھی ملک بھر میں شہرت پھیل چکی ہے۔
وہ بھی ایک نگران دَور میں وفاقی وزیر بنائے گئے ۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے سربراہ بھی کہے جاتے ہیں۔جناب ایس ایم ظفر کی اکلوتی صاحبزادی، روشانے ظفر، بھی قانون دان ہیں،سماجی کارکن بھی اور ایک این جی او کی روحِ رواں اور بانی۔مکالمہ کے مصنف نے اپنے مفصل تعارفی مقدمے میں ایس ایم ظفر صاحب کے بچوں کا ذکر محبت اور اکرام کے ساتھ کیا ہے اور ان دونوں کی زبانی ایس ایم ظفر صاحب کی شخصیت کے کئی روشن پہلو سامنے لانے کی سعی بھی کی ہے۔
داد دینی چاہیے '' مکالمہ'' کے مصنف کو کہ انھوں نے صبر،محنت اور مشقت سے ایک نامور شخصیت سے برسہابرس تک ڈائیلاگ کیا۔ یوں اس کتاب کے مطالعہ سے قاری پر روشن ہو جاتا ہے کہ وطنِ عزیز کے نامور قانون دان ،جناب ایس ایم ظفر، کے کس کس موضوع پر کیا کیا خیالات و نظریات ہیں اور اُن کی سوچ کے مراجع و محور کیا ہیں؟ اُردو کے کلاسیکی شاعر،اسداللہ خان غالب ،کے مکاتیب پڑھنے کے بعد ہم اُن کی شخصیت کو محیط تفصیلی خاکہ لکھ سکتے ہیں۔
بعینہ میرا خیال ہے کہ'' مکالمہ'' پڑھنے کے بعد ہم آسانی کے ساتھ جناب ایس ایم ظفر کی فکری سوانح حیات بھی مرتب کر سکتے ہیں۔ تاریخ، سیاست اور سماج کو درپیش کونسا موضوع ایسا ہے جس پر مصنف نے اپنے ممدوح ،ایس ایم ظفر، سے اپنے دل اور دماغ کی بات نہیں کہلوائی؟مثال کے طور پر''مکالمہ'' کے موضوعات کا زرا تنوع ملاحظہ فرمائیے:تصورِ پاکستان، انسانی حقوق و حقوقِ نسواں، عدلیہ، جمہوریت، مذہب، سائنسی اُمور، مسئلہ کشمیر و پاک بھارت تعلقات، مسئلہ فلسطین و اسرائیل، بین الاقوامی اُمور، اہم قومی مسائل، دہشت گردی، کالا باغ ڈیم، ذرایع ابلاغ، طنزو مزاح، تفریح۔
حقوقِ نسواں کے باب میںجن مضامین پر مصنف نے جناب ایس ایم ظفر صاحب سے اُن کے خیالات جاننے کی کوشش کی ہے ، ان میں نمایاں یہ ہیں(1) خواتین کے حقوق اور کربلا کی خواتین (2) کیا عورت ناقص العقل ہو تی ہے ؟(3) مخلوط میراتھن ریس کیوں ضروری ہے ؟(4) اگر مختاراں مائی ہندوستان میں ہوتی تو (5) حقوق کی خواہشمند خواتین توجہ فرمائیں ۔ان موضوعات پر جناب شاہ صاحب نے لب کشائی فرما کر بہت سے عقدے حل کر دیے ہیں ۔ یہ کمال ایک باکمال، نہایت تجربہ کار اور جہاندیدہ قانون دان ہی کا ہو سکتا ہے ۔
اصل کمال مگر یہ بھی ہے کہ مصنف نے بڑی مشاقی سے خواتین کے موضوع پر ایس ایم ظفر صاحب کو آمادئہ فکر کیا ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ ''مکالمہ'' دراصل کئی فکر انگیز مکالمات کا خوبصورت مرقع ہے ۔ کتاب کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ ہر باب دو چار صفحات سے زائد نہیں ہے ۔ یہ اسلوب قاری کو بوریت اور تھکن سے محفوط رکھتا ہے ۔
آجکل پی ٹی آئی والے ہر دوسرے روز کسی نہ کسی بہانے عدالتوں کے دروازوں پر دستک دیتے اور فریاد کرتے نظر آرہے ہیں ۔جب سے عمران خان اقتدار سے رخصت کیے گئے ہیں، یہ دستکیں بڑھ گئی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ آئے تو وہ عدالتوں کی واہ واہ کرنے لگتی ہے اور اگر خلاف فیصلہ آئے تو جناب عمران خان کی قیادت میں تنقید اور یلغار بڑھ جاتی ہے ۔ اس صورتحال نے عجب منظر بنا رکھا ہے ۔
عوام الگ پریشان ہیں۔ اگر پی ٹی آئی والے ''مکالمہ'' نامی زیر تبصرہ کتاب کا مطالعہ کر لیں تو انھیں بار بار عدالتوں کے دروازوں پر دستک نہیں دینا پڑے گی ۔ جناب ایس ایم ظفر نے ''مکالمہ'' میں عدالتوں اور عوام کو پریشانیوں سے بچنے کی شاہ کلیدبھی بتائی ہے ۔
کتاب میں ''عدلیہ'' والے باب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ اِن ابواب کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے عوام ، قانون دانوں اور صحافیوں کا بھلا ہو سکتا ہے ۔''مکالمہ'' نامی یہ کتاب ہے تو شاندار اور دلکشا لیکن 3500روپے قیمت رکھ کر پبلشر نے قارئین سے زیادتی کی ہے ۔ لوگ پہلے ہی مطالعہ سے دُور ہو رہے ہیں ۔ مہنگی کتاب کون خریدے گا؟ یہاں تو روٹی کمانا مشکل ہو گئی ہے ۔
بعد ازاں انھوں نے اُردو اور انگریزی میں بھی دو روزنامے جاری کیے لیکن ''حرمت'' کی اپنی ہی شان اور شہرت تھی۔ مجھے بھی کچھ عرصہ اس ہفت روزہ میں، جناب زاہد ملک کی زیر نگرانی، کام کرنے کے مواقعے ملے۔ اسلام آباد کے ایک جدید سیکٹر میں اُن کا دفتر جس طرح سجا سنورا رہتا تھا، اُن کی اپنی شخصیت بھی اِسی کی عکاس ہوتی تھی۔ زاہد ملک صاحب ہی کے دفتر میں میری اولین ملاقات جناب وقار ملک سے ہوئی تھی۔
وقار ملک ایک نوجوان اور شرمیلا سا لڑکا لگا۔ وہ ''حرمت '' کے باقاعدہ اسٹاف میں شامل تھے اور بڑی محنت اور تندہی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ زاہد ملک صاحب کے قریبی عزیز بھی ہیں اور اُن کا آبائی تعلق وزیر آباد کے قریب واقع ایک معروف قصبے 'سوہدرہ' سے ہے۔
وقار ملک صاحب سے چند دنوں ہی میں دوستی اور برادرانہ تعلق قائم ہوگیا۔ وہ جس عرق ریزی سے اپنی صحافتی اسائنمنٹس تیار کرتے تھے، مجھے اندازہ تھا کہ یہ نوجوان مستقبل قریب میں صحافت اور صحافتی لٹریچر میں اپنا نام منوائے گا۔وقار ملک بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی (لاہور) کے شعبہ ابلاغیات میں بطورِ استاد بروئے کار آگئے تو یہ امر دوستوں کے لیے مزید خوشی کا باعث بنا۔ پھر وقار ملک نے صحافت ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تو یہ ہم ایسے اُن کے خیر خواہوں کے لیے مزید مسرت کی خبر تھی۔
وہ مستند کالم نگار بھی بنے اور کئی وقیع کتابوں کے مصنف بھی ۔اب میرے ہاتھوں میں ڈاکٹر وقار ملک صاحب کی لکھی تازہ ترین ضخیم تصنیف ہے: ''مکالمہ'' مصنف نے اس کتاب کا انتساب بڑے احترام کے ساتھ زاہد ملک صاحب مرحوم کے نام کیا ہے ۔
چھ سو بہتّرصفحات پر پھیلی یہ ذہن افروز کتاب اس لیے بھی منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہے کہ ساری کتاب صرف ایک شخصیت سے کیے گئے مکالمات پر محیط ہے۔اس شخصیت کا اسم گرامی سید محمد ظفر ہے جو ملک بھر میں'' ایس ایم ظفر'' کے نام سے جانے، مانے اور پہچانے جاتے ہیں:پاکستان کے نامور قانون دان،مشہور سیاستدان، سابق وفاقی وزیر اور کئی وقیع کتابوں کے مصنف ایس ایم ظفر صاحب۔اُن کے قانون دان اور وکیل بیٹے ،علی ظفر، کی بھی ملک بھر میں شہرت پھیل چکی ہے۔
وہ بھی ایک نگران دَور میں وفاقی وزیر بنائے گئے ۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے سربراہ بھی کہے جاتے ہیں۔جناب ایس ایم ظفر کی اکلوتی صاحبزادی، روشانے ظفر، بھی قانون دان ہیں،سماجی کارکن بھی اور ایک این جی او کی روحِ رواں اور بانی۔مکالمہ کے مصنف نے اپنے مفصل تعارفی مقدمے میں ایس ایم ظفر صاحب کے بچوں کا ذکر محبت اور اکرام کے ساتھ کیا ہے اور ان دونوں کی زبانی ایس ایم ظفر صاحب کی شخصیت کے کئی روشن پہلو سامنے لانے کی سعی بھی کی ہے۔
داد دینی چاہیے '' مکالمہ'' کے مصنف کو کہ انھوں نے صبر،محنت اور مشقت سے ایک نامور شخصیت سے برسہابرس تک ڈائیلاگ کیا۔ یوں اس کتاب کے مطالعہ سے قاری پر روشن ہو جاتا ہے کہ وطنِ عزیز کے نامور قانون دان ،جناب ایس ایم ظفر، کے کس کس موضوع پر کیا کیا خیالات و نظریات ہیں اور اُن کی سوچ کے مراجع و محور کیا ہیں؟ اُردو کے کلاسیکی شاعر،اسداللہ خان غالب ،کے مکاتیب پڑھنے کے بعد ہم اُن کی شخصیت کو محیط تفصیلی خاکہ لکھ سکتے ہیں۔
بعینہ میرا خیال ہے کہ'' مکالمہ'' پڑھنے کے بعد ہم آسانی کے ساتھ جناب ایس ایم ظفر کی فکری سوانح حیات بھی مرتب کر سکتے ہیں۔ تاریخ، سیاست اور سماج کو درپیش کونسا موضوع ایسا ہے جس پر مصنف نے اپنے ممدوح ،ایس ایم ظفر، سے اپنے دل اور دماغ کی بات نہیں کہلوائی؟مثال کے طور پر''مکالمہ'' کے موضوعات کا زرا تنوع ملاحظہ فرمائیے:تصورِ پاکستان، انسانی حقوق و حقوقِ نسواں، عدلیہ، جمہوریت، مذہب، سائنسی اُمور، مسئلہ کشمیر و پاک بھارت تعلقات، مسئلہ فلسطین و اسرائیل، بین الاقوامی اُمور، اہم قومی مسائل، دہشت گردی، کالا باغ ڈیم، ذرایع ابلاغ، طنزو مزاح، تفریح۔
حقوقِ نسواں کے باب میںجن مضامین پر مصنف نے جناب ایس ایم ظفر صاحب سے اُن کے خیالات جاننے کی کوشش کی ہے ، ان میں نمایاں یہ ہیں(1) خواتین کے حقوق اور کربلا کی خواتین (2) کیا عورت ناقص العقل ہو تی ہے ؟(3) مخلوط میراتھن ریس کیوں ضروری ہے ؟(4) اگر مختاراں مائی ہندوستان میں ہوتی تو (5) حقوق کی خواہشمند خواتین توجہ فرمائیں ۔ان موضوعات پر جناب شاہ صاحب نے لب کشائی فرما کر بہت سے عقدے حل کر دیے ہیں ۔ یہ کمال ایک باکمال، نہایت تجربہ کار اور جہاندیدہ قانون دان ہی کا ہو سکتا ہے ۔
اصل کمال مگر یہ بھی ہے کہ مصنف نے بڑی مشاقی سے خواتین کے موضوع پر ایس ایم ظفر صاحب کو آمادئہ فکر کیا ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ ''مکالمہ'' دراصل کئی فکر انگیز مکالمات کا خوبصورت مرقع ہے ۔ کتاب کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ ہر باب دو چار صفحات سے زائد نہیں ہے ۔ یہ اسلوب قاری کو بوریت اور تھکن سے محفوط رکھتا ہے ۔
آجکل پی ٹی آئی والے ہر دوسرے روز کسی نہ کسی بہانے عدالتوں کے دروازوں پر دستک دیتے اور فریاد کرتے نظر آرہے ہیں ۔جب سے عمران خان اقتدار سے رخصت کیے گئے ہیں، یہ دستکیں بڑھ گئی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ آئے تو وہ عدالتوں کی واہ واہ کرنے لگتی ہے اور اگر خلاف فیصلہ آئے تو جناب عمران خان کی قیادت میں تنقید اور یلغار بڑھ جاتی ہے ۔ اس صورتحال نے عجب منظر بنا رکھا ہے ۔
عوام الگ پریشان ہیں۔ اگر پی ٹی آئی والے ''مکالمہ'' نامی زیر تبصرہ کتاب کا مطالعہ کر لیں تو انھیں بار بار عدالتوں کے دروازوں پر دستک نہیں دینا پڑے گی ۔ جناب ایس ایم ظفر نے ''مکالمہ'' میں عدالتوں اور عوام کو پریشانیوں سے بچنے کی شاہ کلیدبھی بتائی ہے ۔
کتاب میں ''عدلیہ'' والے باب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ اِن ابواب کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے عوام ، قانون دانوں اور صحافیوں کا بھلا ہو سکتا ہے ۔''مکالمہ'' نامی یہ کتاب ہے تو شاندار اور دلکشا لیکن 3500روپے قیمت رکھ کر پبلشر نے قارئین سے زیادتی کی ہے ۔ لوگ پہلے ہی مطالعہ سے دُور ہو رہے ہیں ۔ مہنگی کتاب کون خریدے گا؟ یہاں تو روٹی کمانا مشکل ہو گئی ہے ۔