ادھر بھی توجہ دیں
شہروں کے اندر بڑھتی ٹریفک کا شور سماعتوں کے لیے نقصان دہ ہے
ہمارے ہاں شہروں میں پبلک سیکٹر میں ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اپنی ٹرانسپورٹ رکھنے پر مجبور ہے۔ ٹریفک بڑھتی جا رہی ہے، سوک سینس کا فقدان ہے۔
بے ہنگم ٹریفک کے ساتھ ساتھ ہارن کا انتہائی غیر ضروری استعمال بڑھتا جا رہا ہے جو Noise Pollutionیعنی شور میں اضافے کا موجب ہے۔ پلوشن کا لفظ سنتے ہی یا اس کا خیال آتے ہی ہمارے ذہن کے پردے پر دھواں، کوڑا کرکٹ اور پانی پر تیل کی تہہ جیسے مناظر ابھرتے ہیں لیکن پلوشن یہیں پر بس نہیں ہوتی۔
پلوشن کی ایک قسم حد سے بڑھا ہوا شور بھی ہے لیکن پلوشن کی باقی اقسام کے مقابلے میں شور سے پیدا ہونے والی پلوشن ہمیں نظر نہیں آتی اس لیے اس کی جانب خاطر خواہ توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ شور عام طور پر دو قسم کا ہوتا ہے۔ شور کی ایک قسم قدرتی شور ہے۔ یہ پرندوں سے، جانوروں سے اور قدرتی آفات و عوامل سے پیدا ہوتا ہے۔ پرندوں کے بولنے سے شور پیدا ہوتا ہے۔
صبح سویرے آپ سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی مرغ کی اونچی آذان آپ کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔ سورج کے طلوع سے ذرا پہلے کے اوقات میں چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی کُو کو یا کسی دوسرے پرندے کا نغمہ کانوں میں رس گھولتا ہے۔ شیکسپیئر نے اپنے ایک ڈرامے میں کہا ہے کہ The island is full of noises.شیکسپیئر یہ بتانا چاہتا ہے کہ جزیرے پر پرندوں اور جانوروں کی بے شمار آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن گدھے اور بھینس کی طرح کئی اور جانوروں کی آوازیں بہت بھدی ہوتی ہیں۔
بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کی کڑکڑاہٹ بعض اوقات کانوں کے پردے پھاڑنے والی ہوتی ہے۔ اسی طرح جن علاقوں میں آتش فشانی عمل ہوتا ہے وہاں آتش فشاں کے پھٹنے پر بے پناہ شور پیدا ہوتا ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ قدرتی شور ایک کائناتی نغمہ ہے۔
شور کی دوسری قسم انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔ کبھی آپ کے پڑوس میں بارات آئی ہو۔ڈھول، کریکرز، فائر ورک اور ہتھیاروں کی فائرنگ سے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
یہ بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ اگر کسی کی طبیعت خراب ہوئی تو فائرنگ اور کریکرز اور دھماکوںسے اس کا کیا حال ہو گا۔اسی طرح مختلف مشینوں کے چلنے سے پیدا ہونے والا شور بھی بعض اوقات بہت مشکل صورتحال کو جنم دے دیتا ہے اور دل کرتا ہے کہ ایسی جگہ سے نقل مکانی کر لی جائے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی کان ایک ڈیسی بل تک شور سننے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن یہ بغیر کوئی بڑا نقصان اُٹھائے 85ڈیسی بل تک شور سن سکتا ہے۔
کسی قسم کا بھی شور جب 65ڈیسی بل سے تجاوز کرتا ہے تو ایسے شور سے بلڈ پریشر،دل کی دھڑکن اور اسٹریس ہارمونز میں اضافہ ہو جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ وقت کے ساتھ ہم شور کے عادی ہو جاتے ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہمارا جسم شور سے مطابقت پیدا کر لیتا ہے ۔
نہیں ایسا نہیں دراصل لمبے عرصے تک شور سنتے سنتے ہم اس سے نفسیاتی طور پر بے نیاز اور بے پرواہ ہو جاتے ہیں، زیادہ شور سے ہماری قوتِ سماعتض کمزور پڑنے یا سماعت جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اگر ایک دفعہ قوتِ سماعت زائل ہو جائے تو اس کا لوٹانا مشکل ہوتا ہے۔
ہماری بڑھتی آبادی کے ساتھ، شہروں کے اندر بڑھتی ٹریفک کا شور سماعتوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیں ہارن کا استعمال بہت ہی ناگزیر حالت میں کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
ہم شادیوں میں بہت کھانا ضایع کرتے ہیں۔ ہم نے لڑکی والوں پر بے جا بہت بوجھ ڈال رکھا ہے۔ پہلے تو لڑکی کو جہیز دیں،زیورات سے لادیں،دلہا اور اس کے خاندان کے افراد کے کپڑے بنوائیں اور پھر ایک بڑے کھانے کا اہتمام کریں۔ ہمارے دین میں لڑکی والوں پر اس بوجھ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ولیمے کی دعوت ایک طرح سے اس مبارک بندھن کا اعلان ہے لیکن ایسی دعوتوں میں کھانا بہت ضایع ہوتا ہے۔
ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ پہلے ہم اپنی ضرورت کی اجناس اگانے میں خود کفیل تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ باہر سے اجناس منگوانے میں قیمتی زرِ مبادلہ صرف ہوتا ہے۔
ایسے میں اگر روزانہ کی بنیاد پر سارے پاکستان میں شادی کی دعوتوں میں جو کھانا بچ کر ضایع ہو جاتا ہے اس کا حساب لگائیں تو افسوس ہوتا ہے۔ یہی کھانا اگر ہم ضایع نہ کریں، سلیقے سے کھائیں اور جو کھانا بچ جائے اسے غریبوں اور نا داروں میں تقسیم کرنے کا، ان کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے، مناسب بندوبست ہو تو شاید پاکستان میں کوئی بھی بھوکا نہ رہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں کیش کرنسی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ دیہات میں رہتا ہے۔
آن لائن ٹرانزکشن کا دیہاتوں میں ابھی کوئی رواج نہیں۔ زیادہ تر دیہات میں بینک ہی نہیں تو آن لائن ٹرانزکشن کیسے ہوگی۔ شہروں میں بھی بہت ہی کم لوگ بڑے اسٹورز پر ڈیجیٹل کرنسی یا کریڈٹ کارڈ سے ٹرانزکشن کرتے ہیں۔ عام بازاروں میں تو چلتی ہی کرنسی ہے۔ہمارا روپیہ اپنی قدر کھوتے کھوتے بہت نیچے چلا گیا ہے۔
بہت لمبے عرصے تک سب سے بڑا کرنسی نوٹ 100 روپے کا رہا۔ پھر 500روپے کا کرنسی نوٹ جاری ہوا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کینیا سے چائے منگوا کر تجارت کرنے والے ایک تاجر نے پہلی دفعہ پانچ سو روپے کا نوٹ دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب بہت آسانی ہوگئی ہے۔ وہ ایک بڑے ادارے میں چائے کی پتی سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
اُن کے خیال میں اتنا بڑا نوٹ جاری ہونے سے ٹھیکہ لینے میں بڑی سہولت مل گئی تھی۔ پانچ سو کے بعد ایک ہزار روپے کا نوٹ جاری ہوا اور غالباً 2006/2007 میں پانچ ہزار روپے کا کرنسی نوٹ جاری ہوا۔ اتنی بڑی رقم کے نوٹوں کے جاری ہونے سے کرپشن، رشوت لینے اور دینے میں بڑی مدد ملی۔ رشوت لینے اور دینے کا معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہوتا ہے۔ اس میں چیک جاری نہیں کیا جاتا، بینکوں کے ذریعے یہ کام نہیں ہوتا۔ سوچیں ملکوں کے درمیان تجارت ڈالروں میں ہوتی ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر میں سودے ہوتے ہیں۔ یہ سودے بہت بڑی رقم کے ہوتے ہیں لیکن امریکی کرنسی کا سب سے بڑا نوٹ 100ڈالر کا ہے جب کہ ہم سو روپے کے نوٹ سے بڑھتے بڑھتے 5000روپے کے نوٹ پر جا پہنچے ہیں۔ اگر کرپشن اور رشوت ستانی کو قابو کرنا ہے تو سو روپے سے بڑے تمام کرنسی نوٹوں کو منسوخ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا کر لیا جائے تو کرپشن کرنے، رشوت دینے اور لینے والوں کو بہت مشکل پیش آئے گی جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ کرپشن رک جائے گی، ختم ہو جائے گی۔
ایسا کسی معاشرے میں بھی نہیں ہوتا لیکن بڑے کرنسی نوٹوں کی وجہ سے اس میں جو مدد مل رہی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ کوئی بھی سو روپے کے نوٹوں کی بوری لے کر کسی کے پاس نہیں جائے گا۔ جب صرف سو روپے کا کرنسی نوٹ ہو گا تو کرپشن اور رشوت ستانی کے سدِ باب میں بہت مدد ملے گی۔