نئے طریقوں کے باوجود غریب طبقہ روایتی انداز میں روزگار کمانے پر مجبور
سائیکل اورپیدل گلی گلی گھوم کر بلبلے، غبارے اورکھلونے بیچنے والے افراد روزانہ 300سے400روپے کماتے ہیں
دور جدید میں روزگار کے جدید اور نئے مواقعوں کے باوجود اب بھی ملک اور شہر میں ایک ایسا غریب طبقہ بھی موجود ہے جو روزگار کے حصول کے لیے روایتی انداز میں روزگار کمانے پر مجبور ہے کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ جدید طرز روزگار کو اپنا کر اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کما سکیں۔
اس طبقے میں سائیکل یا پیدل گلی گلی گھوم کر بلبلے ، غبارے اور بچوں کے چھوٹے موٹے کھلونے بیچنے والے پیشے سے منسلک افراد شامل ہیں ، جو روزانہ کی بنیاد پر300 سے 400 روپے کما کر اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں، امن وامان کی خراب صورتحال یا ہڑتال کے باعث ان کے گھروں کے چولہے بھی بجھ جاتے ہیں ،ایکسپریس نے شہر کے مختلف علاقوں میں بلبلے ، غبارے اور بچوں کے چھوٹے کھلونے فروخت کرنے والوں کے حالات زندگی کا جائزہ لینے کے حوالے سے سروے کیا، اس سروے کے دوران نارتھ کراچی یوپی موڑ پر اسکول کے باہر یہ اشیا فروخت کرنے والے شخص محمد افضل نے بتایا کہ وہ 10 سال سے اس پیشے سے منسلک ہے ،انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے 40 فیصد سندھی ، 30 فیصد سرائیکی اور 30 فیصد دیگربرادریوں کے لوگ وابستہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے وابستہ افراد کے معاشی حالات انتہائی خراب ہوتے ہیں اور وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اندازاً 10 سے 12 ہزار افراد اس پیشے سے منسلک ہوں گے،انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ1500 روپے میں اس کام کو شروع کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس غربت کے دور میں پیٹ کی آگ کو بجھانے اور دو وقت کی روٹی کمانے کیلیے یہ پرانے طرز کا روزگار کمانے کا طریقہ تو ہے لیکن زندگی کی گاڑی کو دھکا دینے کے لیے یہ محنت طلب کام کرکے ہم باعزت طریقے سے حق حلال طریقے سے کما کر اپنے خاندان کی کفالت کر لیتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہماری زندگی بہت کٹھن ہے۔
صبح اٹھ کر بلبلے فروخت کرنے کے لیے اس کا محلول تیار کیا جاتا ہے، غبارے اور بچوں کے چھوٹے کھلونے اٹھا کر اپنے ہمراہ شہر کے مختلف علاقوں میں نکل جاتے ہیں اور 12 سے 14 گھنٹے سائیکل یا پیدل گلی گلی گھومتے ہیں اور آوازیں لگا کر یہ چیزیں فروخت کرتے ہیں ،انھوں نے بتایا کہ گلی گلی ہم آواز لگاتے ہیں، بلبلے والا آیا بلبلے لے لو ، بچوں کے بلبلے ،انھوں نے بتایا کہ اس کام میں ہمارے بچے بھی ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور وہ کم عمری میں ہی اس پیشے سے منسلک ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک وقت میں ایک شخص اکیلا اپنے گھرانے کی کفالت نہیں کر سکتا ،انھوں نے بتایا کہ ناخواندہ افراد کے علاوہ بے روزگار افراد کی بھی بڑی تعداد اس پیشے سے منسلک ہے ، انھوں نے بتایا کہ کبھی اس کام میں 200 کبھی 400 روپے کی بچت ہو جاتی ہے۔
اس طبقے میں سائیکل یا پیدل گلی گلی گھوم کر بلبلے ، غبارے اور بچوں کے چھوٹے موٹے کھلونے بیچنے والے پیشے سے منسلک افراد شامل ہیں ، جو روزانہ کی بنیاد پر300 سے 400 روپے کما کر اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں، امن وامان کی خراب صورتحال یا ہڑتال کے باعث ان کے گھروں کے چولہے بھی بجھ جاتے ہیں ،ایکسپریس نے شہر کے مختلف علاقوں میں بلبلے ، غبارے اور بچوں کے چھوٹے کھلونے فروخت کرنے والوں کے حالات زندگی کا جائزہ لینے کے حوالے سے سروے کیا، اس سروے کے دوران نارتھ کراچی یوپی موڑ پر اسکول کے باہر یہ اشیا فروخت کرنے والے شخص محمد افضل نے بتایا کہ وہ 10 سال سے اس پیشے سے منسلک ہے ،انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے 40 فیصد سندھی ، 30 فیصد سرائیکی اور 30 فیصد دیگربرادریوں کے لوگ وابستہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے وابستہ افراد کے معاشی حالات انتہائی خراب ہوتے ہیں اور وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اندازاً 10 سے 12 ہزار افراد اس پیشے سے منسلک ہوں گے،انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ1500 روپے میں اس کام کو شروع کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس غربت کے دور میں پیٹ کی آگ کو بجھانے اور دو وقت کی روٹی کمانے کیلیے یہ پرانے طرز کا روزگار کمانے کا طریقہ تو ہے لیکن زندگی کی گاڑی کو دھکا دینے کے لیے یہ محنت طلب کام کرکے ہم باعزت طریقے سے حق حلال طریقے سے کما کر اپنے خاندان کی کفالت کر لیتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہماری زندگی بہت کٹھن ہے۔
صبح اٹھ کر بلبلے فروخت کرنے کے لیے اس کا محلول تیار کیا جاتا ہے، غبارے اور بچوں کے چھوٹے کھلونے اٹھا کر اپنے ہمراہ شہر کے مختلف علاقوں میں نکل جاتے ہیں اور 12 سے 14 گھنٹے سائیکل یا پیدل گلی گلی گھومتے ہیں اور آوازیں لگا کر یہ چیزیں فروخت کرتے ہیں ،انھوں نے بتایا کہ گلی گلی ہم آواز لگاتے ہیں، بلبلے والا آیا بلبلے لے لو ، بچوں کے بلبلے ،انھوں نے بتایا کہ اس کام میں ہمارے بچے بھی ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور وہ کم عمری میں ہی اس پیشے سے منسلک ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک وقت میں ایک شخص اکیلا اپنے گھرانے کی کفالت نہیں کر سکتا ،انھوں نے بتایا کہ ناخواندہ افراد کے علاوہ بے روزگار افراد کی بھی بڑی تعداد اس پیشے سے منسلک ہے ، انھوں نے بتایا کہ کبھی اس کام میں 200 کبھی 400 روپے کی بچت ہو جاتی ہے۔