پاکستانی سیاست کی چند بڑی خرابیاں

پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑھتا جا رہا ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کا مقدمہ کافی کمزور ہے اور ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست اور جمہوریت پر سنجیدہ سوالات موجود رہتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل کامیاب نہیں ہوسکا ۔ اس سے جڑے تین سوالات اہم ہیں۔

اول کیا وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑھتا جا رہا ہے اور سیاست عملاً طاقتور طبقات کے کنٹرول میں ہے۔ حکومت، سیاست اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو عدم توازن ہے، اسے کیسے ختم کیا جائے۔

دوئم جو سیاست سیاسی جماعتوں کی قیادت جس انداز میں پارٹی چلا رہی ہیں کیا وہ جمہوری سیاست کی عکاسی کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں آمریت کی موجودگی میں کیا ملکی سیاست کو جمہوری خطوط پر استوار کرسکیں گے۔ سوئم کیا موجودہ سیاسی نظام اور بالخصوص حکمرانی یا گورننس کا نظام مزید اپنا بوجھ اٹھا سکے گا۔

کیا عام آدمی کا مقدمہ مضبوط اور مربوط ہوسکے گا۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں اور برملا اس کا اظہار کر رہے ہیں کہ حالیہ سیاسی لڑائی سے عام آدمی یا اس ملک کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ عام آدمی کی سوچ ہے اوراس کی وجہ معاشی پریشانیاں ہیں۔

معاشرے کا پڑھا لکھا یا علمی و فکری سوچ رکھنے والا طبقہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس رسہ کشی کے نتیجے میں سسٹم بہتر ہوجائے گا؟ ایک طبقہ کی رائے یہ بھی ہے کہ اس وقت جو لڑائی نظر آرہی ہے، کیا یہ واقعی سول بالادستی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے؟ یا فریقین اسے ''بطور سیاسی ہتھیار'' استعمال کرکے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ۔

ایک بات یہاں کہ اہل دانش یا علمی و فکری حلقوں کو سمجھنی ہوگی کہ پاکستان کی ریاست، سیاست، جمہوریت اور معیشت سمیت قانون کا نظام زیادہ لمبے عرصہ تک روایتی طور طریقوں سے نہیں چلایا جاسکے گا۔ آج ہم 2022میں کھڑے ہیں جو نہ صرف گوبل دنیا کی سیاست سے جڑا ہوا ہے بلکہ آج کا دور جہاں آزادی اظہار کو یقینی بناتا ہے وہیں ڈیجیٹل دنیا کے ابلاغ نے پردے کے پیچھے چھپے ہوئے سوالات کو داخلی و خارجی محاذ پر بے نقاب کردیا ہے۔ لوگ حساس موضوعات سمیت ان معاملات پر بھی سنجیدگی یا جذباتیت دونوں بنیادوں پر سوالات اٹھارہے ہیں۔

اگر ان سوالات کا راستہ روکنے کے لیے ہم علمی و فکری بنیادوں یا بات چیت کے عمل کے بجائے طاقت کے انداز سے ان سوالات کو روکنے یا جوابات نہ دینے کی پالیسی اختیار کریں گے تو لوگوں کا ردعمل ہوگا۔

اسی طرح یہ بھی سمجھنا کہ اگر اہل سیاست محض سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے عمل کو محض ایک سیاسی نعرے، جذباتیت پر مبنی مباحث یا عام لوگوں کی سیاسی ، سماجی، معاشی عدم طاقت کو دیے بغیر وہ ایک مضبوط سیاسی نظام قائم نہیں کرسکیں گے۔


یہ جو سیاست اور جمہوریت یا عوام کی سطح پر جو ایک بڑی لاتعلقی یا عدم ملکیت یا مایوسی کا پہلو نمایاں یا مضبوط نظر آتا ہے اس پر سنجیدگی سے غور کیے بغیر اوراس مسئلہ کا حل نکالے بغیر یہاں اہل سیاست بھی کچھ نہیں کرسکیں گے ۔اگر انھوں نے سیاسی بالادستی کی جنگ جیتنی ہے تو پہلے اپنے اندر خود احتسابی کا نظام قائم کریں جو غلطیاں یا کمزوریاں ان میں ہیں ان کو تسلیم بھی کریں اور پھر ان کی اصلاح کی طرف توجہ بھی دیں۔

سب سے بڑھ کر ریاستی یا سیاسی نظام عدم مرکزیت پر مبنی نظام کا خاتمہ کرے اور سیاسی ، انتظامی ومالی اختیارات کو اوپر سے نیچے تک منتقل کی پالیسی کو اپنی قومی ترجیحات میں فوقیت دے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کے نظام کو مکمل خود مختاری اور اسے ہر سطح پر بالادست کرے ۔

کیونکہ گورننس یا حکمرانی کے بحران کے حل کی کنجی مربوط، مضبوط اورخود مختار مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑی ہوئی ہے اوراس میں سب سے بڑی رکاو ٹ صوبائی حکومتوں سمیت سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہے جو عدم مرکزیت کے نعرے لگا کر اختیار کو اپنی ذات تک محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں عام آدمی کا سب سے بڑا مقدمہ کمزور حکمرانی کا نظام ہے جو ان کی روزمرہ کی زندگیوں میں عذاب بنا ہوا ہے۔اسی طرح ہم بھاری بھرکم انتظامی ڈھانچوں کی مدد کے ساتھ نظام کو چلانا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ، یہ نظام سرکاری خزانے پر بوجھ بنا ہوا ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم سیاست میں تسلسل کے ساتھ نظام چلانے میں دلچسپی کم رکھتے ہیں۔ حکومت کے مقابلے میں اسٹیبلیشمنٹ اور حزب اختلاف کا باہمی گٹھ جوڑ بھی سیاسی نظام کو کمزور کرتا ہے۔ تواترکے ساتھ سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کا ہونا یا حکومتوں کو سازش کے تحت بنانا یا گرانا بھی مستحکم جمہوریت میں بڑی رکاوٹ ہے۔

جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں سیاست سے زیادہ معیشت کو اپنی ترجیح بنانا چاہیے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مضبوط سیاسی نظام یا سیاسی استحکام کے بغیر بھی معیشت مضبوط نہیں ہوسکے گی۔ سیاست دان بلاوجہ سیاسی نظام کی کمزوری کے لیے اپنے کندھے طاقتو رطبقوں کو پیش کرنے سے گریز کرے۔اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ماضی کی پالیسیوں یا سوچ سمیت طریقہ کار سے باہر نکلنا ہوگا ۔

اس وقت پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے ایک بڑے روڈ میپ کی ضرورت ہے جو صرف طاقت کے طبقوں کے بجائے ملک کو نہ صرف ایک درست سمت دے سکے بلکہ ہم عملی اقدامات کی مدد سے بہتری کے نئے امکانات کو بھی پیدا کرسکیں ۔

اس وقت جو ہمیں سیاست او راسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراو یا تناو نظر آرہا ہے اس پر بھی غور ہونا چاہیے کیونکہ اداروں کی سطح پر ٹکراو کی سیاست کسی بھی لحاظ سے قومی مفاد میں نہیں اور اداروں کو مستحکم کرکے ہی ہم بہتری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سیاست اورجمہوریت میں بند دروازوں کو کھولیں۔ نفرت، انتشار، انتقام اور کشیدگی ختم کی جائے ، اس کے آگے سب فریقین کو بندھ باندھنا ہوگا ۔
Load Next Story