مشاہدات و تاثرات

اس سیمینار کا ایک اور مقصد والدین کو یہ آگاہی دینا کہ ہر قدم پر آپ سے مشاورت کی جائے گی

کالج سے جامعہ کی طرف طالب علموں کی منتقلی کے حوالے سے سیمینار کا آغاز 2016 میں جامعہ سرسید نے کیا، جس کا مقصد جامعہ کے نووارد طالب علموں کو یہ رہنمائی دینا مقصود ہے کہ جامعہ کیا ہوتی ہے؟ اس میں کس طرح تعلیم ہوتی ہے اور اب انھیں تعلیم کے اس درجے پر پہنچ کر کن کن باتوں کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ اب وہ بچپن سے نکل کر جوانی کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں اور یہاں سے فارغ ہوکر انھیں عملی زندگی کا آغاز کرنا ہوگا۔

انھیں سمجھدار بننا پڑے گا اور اپنی ذمے داریوں کو توجہ سے لینا ہوگا جس کے لیے حصول علم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی بے انتہا ضرورت ہوتی ہے اور اس تربیت میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے تاکہ جو خواب انھوں نے اپنی اولاد کے حوالے سے دیکھے ہیں کہ وہ کن کن خوبیوں سے مالامال ہوں وہ اپنے ملک و قوم کے لیے باعث فخر ہوں اور اس کی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہوں۔

اس سیمینار کا ایک اور مقصد والدین کو یہ آگاہی دینا کہ ہر قدم پر آپ سے مشاورت کی جائے گی۔ اس لیے اس امر کی ہر ممکن کوشش کی گئی کہ والدین اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اس سیمینار میں ضرور شریک ہوں اور جامعہ سے اپنے تعلق کو زیادہ سے زیادہ فعال بنائیں۔ اس تقریب کا انعقاد مرکز مشاورت و رہنمائی نے کیا جو جامعہ کے وسیع و عریض بشیر ملک آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی۔

تقریب سے ایک روز قبل سنیئر استاد اور چانسلر جاوید انوار کے مشیر سراج خلجی نے مجھے جامعہ بلایا میرے پہنچنے پر انھوں نے سیمینار کے مقاصد سے مجھے آگاہ کیا اور خواہش ظاہر کی کہ میں اس میں المنائی کی حیثیت سے شرکت کرؤں اور جامعہ میں اپنے دور کے حوالے سے نئے آنے والے طالب علموں اور ان کے والدین سے اپنے تاثرات پر اظہار خیال کروں۔

میں اپنے علم کو خود تک محدود نہیں رکھنا چاہتا۔ فرمان نبویﷺ کا مفہوم ہے کہ '' جس شخص سے علم کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کو وہ جانتا ہے اور وہ اس کو چھپا لے (یعنی نہ بتلائے) تو قیامت کے دن (اس کے منہ میں) آگ کی لگام دی جائے گی۔'' (مشکوۃ)۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علم کے حوالے سے کوئی بات مخفی نہ رکھی جائے کیونکہ علم کی ترویج انبیاء کا شیوہ ہے اور یہ دوسروں میں پھیلانے سے بڑھتا ہے ، وہ شخص بد ترین ہے جو اپنے علم کو اپنے تک محدود رکھے یعنی جس سے کسی کو نفع نہ ہو ایسا علم اس خزانے کی مانند ہے جس سے خدا کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے اور یہی بات مجھے ورثے میں ملی ہے۔

جامعہ سر سید میں مزید شعبہ جات قائم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے تقریب کے وقت کا خیال ازحد ضروری تھا۔ بالاخر وہ دن آن پہنچا یعنی 24 ستمبر بروز ہفتہ جب اس عظیم مقاصد سے بھرپور تقریب کا انعقاد ہونا تھا ، میرے نزدیک جامعہ سرسید نے لائق تقلید سیمینار کی روایت کو قائم کیا۔ ملک کی دیگر جامعات کو بھی اس روایت کو جاری کرنا چاہیے کیونکہ وطن عزیز میں جس طرح کی ربوٹک تعلیم عام ہو چلی ہے خصوصا کالج کی سطح پر کہ کالج ویران ہوگئے اور کوچنگ سینٹرز آباد ہوگئے جہاں صرف رٹو طوطے تخلیق ہو رہے ہیں۔

ان کی تحقیقی صلاحیتیں بالکل ختم کی جا رہی ہیں ، وہ شارٹ کٹ کے راستوں پر گامزن ہوچکے ہیں۔ نقل ان کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے ، جب کہ ابتدائی پاکستان کے زمانے کے اساتذہ خواہ وہ اسکول ، کالج یا جامعہ کے ہوں کبھی پرائیویٹ ٹیوشنز کو فروغ نہیں دیتے جو پڑھاتے درس گاہ میں ہی پڑھاتے لیکن دور حاضر میں کالج میں حاضری اور پڑھائی نہ ہونے کے باعث طالب علموں نے کوچنگ سینٹرزکی راہ اختیار کر لی ہے محض صرف پاس ہونے کے لیے جب کہ جامعہ کے دور سے نکل کر طالب علموں کو عملی زندگی میں قدم رکھنا پڑتا ہے اور عملی زندگی میں رٹو طوطا بن کر چلا نہیں جاسکتا ، وہاں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔


سیمینار میں شرکت کے لیے جب میں پہنچا تو منتظمین سید محمد ریاض الحق ، فرقان حسن نے بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ ناظم شعبہ ڈاکٹر شکیل احمد سے تعارف کروایا وہ بھی میری آمد سے بے انتہا خوش ہوئے اور یوں منتظمین ہمیں آڈیٹوریم کی طرف لے گئے۔

پروگرام کی نظامت کے فرائض شعبہ بائیو میڈیکل کی آنسہ ماہ نور نے انجام دیے اور ہمیں اس بات کی بے انتہا خوشی ہوئی کہ ہمارے شعبے کے طالب علم صرف تعلیم میں ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں نمایاں کارکردگی کا عملی مظاہرہ کررہے ہیں۔ تقریب کا آغاز اللہ رب العزت کے با برکت کلام سے ہوا اور پھر سرور کونینﷺ کی شان میں ہدیہ نعت پیش کی گئی۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ نئے آنے والے طالبعلموں نے بھی اس سے اپنی ہی تقریب سمجھ کر اور پہلے دن سے اس سے اپنا ہی ادارہ سمجھا اور آگے بڑھ کر اس کی رونق میں اضافے کا باعث بنے۔ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے بھر پور وسائل بھی دیے امتِ محمدی کو ، بات صرف سمجھنے اور عمل کرنے کی ہے۔

وطن عزیز کے بچے بہت ذہین ہیں بات صرف درست رہنمائی کی ہے جو والدین ، اساتذہ اور معاشرے کے دیگر بزرگ ان کی کریں تو انھیں آگے بڑھنے اور مادر وطن کی ترقی خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ ہماری تو خوش قسمتی ہے کہ ہماری جامعہ میں اسکول کا سا ماحول ہے۔

یونیفارم ہے ، کلاس رومز میں ڈسپلن ہے نوٹس اساتذہ کلاس میں ہی مرتب کروا دیتے ہیں وقت پر امتحانی عمل نتائج کانوکیشن جب کہ ملک کی دیگر جامعات میں ایسا ماحول نہیں ، صرف تدریس ہی نہیں دی جاتی یہاں بلکہ طالبعلموں کے دیگر ٹیلنٹ کے حوالے سے مختلف سوسائٹیز بھی قائم ہیں تاکہ طالبعلم ایک خوشگوار ماحول میں بغیر ذہنی تناؤ کے اپنی من پسند سرگرمیوں کے ساتھ اپنی ہر طرح کی مخفی صلاحیتوں کو ابھار سکیں ، جو کہ ہماری مادر علمی کی لائق ستائش کاوش ہے کہ وہ اپنے طالبعلموں کو ہر طرح کے مواقع دینا چاہتی ہے تاکہ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔

بہرحال شعبہ تعلیم کے زوال کی طرف گامزن ہونے کی میرے نزدیک دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو والدین کی عدم توجہی جنھوں نے اپنی اولاد کو جدید تخلیقات کی طرف مائل کر کے اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس لیے جامعہ کی یہ کوشش ہے کہ والدین کو بھی اس علمی دھارے میں شریک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے جو کہ ایک احسن اقدام ہے جس کے لیے ہر طرح کی کوشش کو بروئے کار لایا جائے تاکہ صرف یونیورسٹی میں ہی نہیں گھر میں بھی تربیت کا ایک ماحول بنا رہے ۔

دوسرا اہم محرک میری نظر میں آج کے اساتذہ جنھوں نے اپنے فرائض کی اصل روح کو فراموش کرکے فکر معاش میں لگ کر اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگے ہیں۔ معلمین کو چاہیے کہ وہ طالبعلموں کے ساتھ بالکل اپنی اولاد جیسا شفقت کا سلوک کریں کیونکہ "Teacher is next your Parents" معلم کو چاہیے کہ وہ صرف تعلیم پر ہی نہیں بلکہ طلبہ کی کردار سازی پر خاص توجہ دیں۔
Load Next Story