وحید مراد باکمال اداکار تھے

فلم ’’ کنیز‘‘ وحید مراد کی وجہ سے ہٹ ہوئی

meemsheenkhay@gmail.com

وحید مراد کو مرحوم لکھتے ہوئے بہت دل دکھتا ہے مگر ہر آنے والے کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے مانا کہ ان کے بارے میں لکھتے ہوئے اداس رنگ بکھر جاتے ہیں وہ واقعی باکمال اداکار تھے۔

وحید مراد مرحوم کہتے تھے کہ میں نے اپنے فلمی کیریئر کے بارے میں جیسا سوچا تھا اس سے بڑھ کر مجھے شہرت ملی مگر اس میں شک نہیں زندگی کے آخری ایام خاصے تکلیف دہ تھے۔ ان کے پرستاروں کی چاہت کا یہ عالم ہے کہ ان کے نام سے بے شمار تنظیمیں بنیں، جب کہ ان کا انتقال 23 نومبر 1983 کو ہوا تھا۔

معروف مصنف علی سفیان آفاقی ہمارے لیے استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ انھوں نے بتایا تھا وحید مراد بہت کم گو تھے، لوگ انھیں مغرور سمجھتے تھے حالانکہ ایسی بات نہیں تھی، فلم ''کنیز'' اور ''عندلیب'' کے حوالے سے ان سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔ علی سفیان آفاقی کہتے تھے وحید مجھے سفیان کہتے تھے،

انڈسٹری مجھے آفاقی کہتی ہے۔ فلم '' کنیز'' وحید مراد کی وجہ سے ہٹ ہوئی۔ موسیقار نثار بزمی سے انٹرویو کیا تو وہ بتا رہے تھے کہ فلم '' انجمن'' اور ''ناگ منی'' کے گیت بہت ہٹ تھے، انھوں نے بتایا کہ انڈ و پاک میں گانے کی فلم بندی کے حوالے سے وحید کا کوئی ثانی نہیں تھا اور یہ بات بھارتی اداکار راجیش کھنہ نے بھی کہی تھی جب کہ راجیش کھنہ بڑے فنکار تھے، انڈیا کی فلم ''ناگ منی'' کے گیت میں تو انھوں نے کمال کر دیا تھا۔

وہ واقعی انمول اداکار تھے۔ اب وحید پیدا نہیں ہوگا، وحید مراد کی ذاتی پنجابی فلم '' مستانہ ماہی'' جس کا گیت ''سیو نی میرا ماہی مینوں ہیر بناون آگیا'' اس خوبصورت گیت کو ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا تھا، اس گیت کے حوالے سے میڈم نور جہاں نے ہمیں بتایا تھا کہ وحید مراد بڑا آرٹسٹ ہے۔

اس گیت پر عالیہ نے خوبصورت پرفارمنس دی ہے۔ ماضی میں ریڈیو پاکستان سے ایک پروگرام گانوں کا ''ہٹ پرے'' آتا تھا اس میں نمبر گیت کے حوالے سے ہوتے تھے ہفتوں فلم ''مستانہ ماہی'' کا گیت پہلے نمبر پر رہا، فلم کی ہیروئن عالیہ تھیں۔

کراچی کے مشہور آرگنائزر تنویر نقوی نے ایک شام صحافیوں کے نام کراچی کے مقامی بڑے ہوٹل میں منائی تھی اس ایوارڈ کے سلسلے میں عالیہ کراچی میں تنویر نقوی کے ہاں مقیم تھیں۔

یہ 1994 کی بات ہے۔ ہم بھی اس ایوارڈ کی جیوری میں تھے، اس حوالے سے کئی مرتبہ تنویر کے ہاں عالیہ سے ملاقات ہوئی اپنے وقت کی فلم انڈسٹری میں معروف ڈانسر تھیں۔ بہت سلجھی ہوئی اداکارہ تھیں۔ عالیہ نے بتایا '' وحید مراد خواتین کا بہت احترام کرتے تھے۔

ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ صف اول کے ہیرو ہیں۔میں نے ان کی فلم '' انجمن'' دیکھی تھی مجھے اس وقت حیرت ہوئی کہ سینما صرف اور صرف خواتین کی وجہ سے ہاؤس فل ہوتے تھے۔ خواتین وحید مراد کو بہت پسند کرتی تھیں۔ یہ فلم میں نے لاہور میں دیکھی تھی جب کہ میں سمجھتی تھی کہ صرف کراچی کی خواتین ہی ان کی فلمیں دیکھتی ہیں۔ احمد بٹ وحید مراد کے بہت گہرے دوست تھے۔

انھوں نے مستانہ ماہی کی کامیابی کی خوشی میں ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں نور جہاں بھی موجود تھیں احمد بٹ انھیں بہن کا درجہ دیتے تھے جب وحید مراد محفل میں داخل ہوئے تو نور جہاں نے ان کی ذاتی فلم ''مستانہ ماہی'' کی کامیابی پر مبارک باد دی تو وحید مراد برجستہ بولے کہ فلم کا کوئی کمال نہیں، آپ کے خوبصورت گیت ''سیو نی میرا ماہی'' اور عالیہ کی پرفارمنس نے فلم کو سپر ہٹ کیا اور پھر عالیہ نے تنویر نقوی کے پروگرام میں اسی گیت پر پرفارمنس دے کر لوگوں کے دل جیت لیے یہ وہ پروگرام تھا جس میں عمر شریف اور معین اختر موجود تھے اور انھوں نے اسٹیج پر آ کر عالیہ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔

نوجوان نسل کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ''ارمان'' تھی جس کے ہیرو وحید مراد تھے۔ ہدایات کار ایم اے رشید مرحوم کو لوگ انڈسٹری میں ڈیڈی کہتے تھے یہ بھی قابلیت کے حوالے سے ایم اے تھے۔ ان کی پہلی فلم ''پاٹے خاں'' تھی۔ ہمارا ان سے بہت محبت کا رشتہ تھا کراچی اور لاہور میں کافی ملاقاتیں رہتی تھیں اور انڈسٹری کے حوالے سے آگاہی بھی ہوتی تھی۔


ایم اے رشید بتا رہے تھے ہم کو کہ جب میں نے فلم '' تم سلامت رہو'' کا اعلان کیا تو وحید مراد اور محمد علی کو کافی عرصے کے بعد یکجا کیا۔ وحید مراد ہدایت کار پرویز ملک اور محمد علی سفیان آفاقی کی کوششوں سے اس فلم میں کاسٹ ہوئے۔

فلم کی خاص بات یہ تھی کہ آسیہ کو علی اور ممتاز کو وحید کی وجہ سے کاسٹ کیا جب کہ میری ذاتی رائے زیبا اور شبنم کو کاسٹ کرنے کی تھی۔ آسیہ اس زمانے میں کچھ پریشان تھیں، علی بھائی نے کہا کہ '' آپ زیبا کے بجائے آسیہ کو کاسٹ کرلیں وہ آج کل کچھ پریشان ہیں۔ یہ علی کا نیک جذبہ تھا جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور پھر علی کی ضد کی وجہ سے مجھے آسیہ کو کاسٹ کرنا پڑا۔'' فلم ریلیز ہو کر سپرہٹ ہوئی ایم اے رشید کہتے تھے کہ وحید تو تراشا ہوا ہیرا تھے۔

ہدایت کار گوہر علی نے ماضی میں فلم ''مانگ میری بھر دو'' بنائی تھی۔ وحید مراد مرحوم کے تذکرے پر رو دیتے کیونکہ ان کی فلم میں وحید اور علی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ انھوں نے دو واقعات سناتے ہوئے کہا میرے ایک عزیز کے بچے کو گردن توڑ بخار ہوا، بچے کو اس وقت کراچی کے بڑے اسپتال میں داخل کیا گیا میرے عزیز بہت غریب تھے مگر گردن توڑ بخار کے حوالے سے وہ اسپتال بہت بہتر تھا۔

اسپتال کا بل800 روپے آیا۔ یہ 1970 کی بات ہے میں نے کچھ پیسے وحید مراد سے مانگے انھوں نے وجہ پوچھی میں نے بتا دیا۔ انھوں نے اسی وقت 800 روپے نکال کر دیے اور کہا بل ادا کردیں۔ گوہر علی نے بتایا وحید مراد پان کھاتے تھے اور اکثر پان مجھ سے منگواتے تھے کیونکہ میں لسبیلہ میں رہتا تھا اور گڑیا پان شاپ بہت مشہور دکان تھی وہ اکثر مجھ سے وہیں سے پان منگواتے۔

روحی بانو نے ہمیں بتایا کہ ان کے ساتھ ایک فلم میں کام کیا تھا۔ ایسا نفیس انسان میں نے نہیں دیکھا۔ جب بھی سیٹ پر آتے تو کہتے '' اور ٹی وی کی شہزادی کیسی ہو؟'' وہ فلم انڈسٹری کا ستارہ تھے۔ جو وقت سے پہلے ٹوٹ گیا۔ وحید مراد ایک کار کے حادثے میں زخمی ہوئے ، چونکہ شوبزنس میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انڈسٹری کے لوگوں نے انھیں نظر انداز کردیا پھر انھوں نے اپنی ذاتی فلم ''ہیرو'' بنائی جو ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی، مگر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب راقم الحروف فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ ہمارے ایک عزیز DK اختر جو بہت ہی کامیاب اسٹل فوٹوگرافر تھے ان سے ہم نے کہا کہ '' ہمیں وحید مراد سے ملوا دیں وہ زمانہ ایسٹرن اور ماڈرن اسٹوڈیو کا تھا ساری فلمیں یہاں بنتی تھیں پشتو، سندھی اور اردو فلمیں شامل تھیں ، ہمیں لے کر وہ وحید مراد کے پاس گئے وہ بڑے آرام سے اپنے کمرے میں بیٹھے تھے پرکشش چہرہ خوبصورت ماتھے پر بال چہرے پر مسکراہٹ ہم نے انھیں سلام کیا۔

DK اختر نے بتایا کہ برخوردار آپ سے ملنے آئے ہیں بڑی محبت سے ہمارا ہاتھ تھام لیا پوچھا '' پڑھتے ہو؟'' میں نے کہا ''جی ہاں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہوں'' '' فلموں میں مستقبل میں کام کرنا چاہتے ہو؟'' ہم نے جواب دیا'' نہیں صرف آپ سے ملنے کی خواہش تھی'' بہت خوش ہوئے اور کہا کہ '' بیٹا ! پہلے تعلیم پر توجہ دینا، اگر تعلیم یافتہ ہوگئے تو زندگی اچھی گزرے گی۔''

اپنی زندگی کے آخری ایام انھوں نے اداکارہ انیتا ایوب کے والد کرنل ایوب کے گھر پر گزارے۔ ان کی سپر ہٹ فلموں میں ناگ منی، دل میرا دھڑکن تیری، دولت اور دنیا، سالگرہ، دوراہا، وعدہ، شمع، ثریا بھوپالی، کنیز، ہیرا پتھر، بہارو پھول برساؤ، انجمن، مستانہ ماہی قابل ذکر ہیں۔

وحید مراد مرحوم نے کراچی کے بڑے صنعت کار کی صاحبزادی سلمیٰ سے شادی کی جن سے ان کے دو بچے عالیہ مراد اور عادل مراد ہیں۔ سلمیٰ مراد صحت مند اور حیات ہیں، کراچی میں رہتی ہیں۔ ان سے بھی بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ بہت ہی نیک سیرت اور تہذیب دار خاتون ہیں۔ نومبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے وحید مراد کے چاہنے والوں کو اداس کرکے ان کی یاد دلاتا ہے۔ رب مغفرت کرے کیا خوب اس موقع پر شاعر سلیم بیتاب نے کہا ہے:

چہرے پر اس کے اشک کی تحریر بن گئی

دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی
Load Next Story