رہا گردشوں میں ہر دم
حالیہ سیلاب کے تناظر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں غربت مزید بڑھنے کا امکان ہے
وہ بچپن میں بھی زیادہ تر بھوکا ہی سوتا رہا تھا اور اس کے والدین نے اپنی بساط کے مطابق اسے پڑھانے کی کوشش بھی کی تھی مگر یہاں بھی اس کی غربت آڑے آئی تھی اور وہ مشکل سے بی۔اے کر پایا تھا اور یہی اس کے لیے بہت تھا، اس کے ماں باپ اتنی تعلیم دے کر اسے افسر بنا دیکھنے کی خواہش اپنی آنکھوں میں بسائے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
انھیں کون سمجھاتا کہ اس معاشرے میں صرف تعلیم نہیں نوکری وہ بھی افسری رشوت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ سو گزارا چلتا رہا اور اب جوانی میں گھر بسانے کے بعد بھی اس کی خواہش تھی کہ اس کی کہانی دہرائی نہ جائے، اس کی اولاد اور بیوی جو اس کی ذمے داری ہیں کم از کم پیٹ بھر کھا سکیں، وہ ان کی ضرورتیں اور خواہشیں پوری کر سکے۔
اس کے لیے اس نے بہت کوششیں کی تھیں وہ سخت محنت کرتا، دن رات کام کرتا مگر وقت آگے بڑھتا گیا اور اس کی کمر گزرتے وقت کے ساتھ ٹوٹتی رہی۔ آج ان کی حالت فاقوں تک تو نہ تھی مگر وہ زندگی کو گھسیٹ رہے تھے، جی نہیں رہے تھے۔
آہ! تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک اور سب کو چھوڑیں ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو ہر غریب کی یہی کہانی ہے وہ زندگی کو گھسیٹ رہا ہے اور مشکل سے گذارا ہو رہا ہے دیکھا جائے تو ہر شخص پرانے زمانے کو بہتر اور اچھا کہتا ہے مہنگائی کے رونے ہیں مگر ہر زمانے میں غریبوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوئی ہے۔
غربت کی تعریف ایک ایسی حالت کے طور پر کی جاتی ہے جس میں ایک فرد یا گروہ کے پاس زندگی کی بنیادی سطح کے لیے مالی وسائل اور ضروریات کی کمی ہوتی ہے یا یہ کہا جائے کہ انسان کی کمائی اس کی بنیادی ضروریات کے لیے ناکافی ہوں۔
چلیں! پہلے ذرا دنیا کی بات کرتے ہیں عالمی غربت کو کم کرنا اگلے بیس سالوں کا اہم عالمی چیلنج ہے سب سے پہلے اخلاقی وجوہات، انصاف اور توازن کی خاطر ایسی دنیا جہاں بیس فیصد سے بھی کم لوگ 85 فیصد اشیاء اور خدمات استعمال کرتے ہیں صرف قابل عمل نہیں ہے عالمی طور پر دیکھا جائے تو 3 بلین سے بھی زیادہ لوگ 2.50 ڈالر سے کم پر زندگی گزارتے ہیں اور ایک اندازے کیمطابق 1.3 بلین سے بھی زیادہ انتہائی غربت میں رہتے ہیں جو روزانہ 1.25 ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔
ہم سوچ سکتے ہیں کہ دن کو بھی کافی کھانا نہ ہونا اور رات کو بھوکے سوجانا کیسا ہے؟ غربت آج بھی دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ورلڈ بینک نے اعلان کیا تھا کہ 2020 تک غربت کو 10% تک کم کرنا اور پھر 2030 تک اس کو 3% تک کم کر دینے کا اعلان کیا تھا مگر یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے اس کو انتہائی توجہ سے حل کیا جانا چاہیے۔
ورنہ عالمی طور پر بھی حالات کافی خراب ہوجائیں گے، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک کی تو نہ صرف اپنے لوگوں کے لیے امداد ہیں بلکہ ان کے ہاں مختلف فلاحی تنظیمیں بھی بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں، وہ لوگ نچلے طبقے کے 40% لوگوں کی آمدنی میں اضافے کو فروغ دینے اور مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں مگر پھر بھی یہ مشکل کام نظر آتا ہے۔
ویسے ہم غربت کی پیمائش کیسے کر سکتے ہیں؟ ہر شخص کی غربت کا الگ لیول ہے کسی کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے تو کسی کے پاس دو وقت کا کھانا نہیں کوئی بے یار و مدد گار پڑا ہے۔ یونیسیف کیمطابق 22,000 بچے دنیا میں غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں بھوک، صفائی کی کمی، صاف پانی تک رسائی نہ ہونا اور صحت کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور وسائل کی کمی اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
2011 میں 165 ملین بچے غذائی قلت کی وجہ سے انتہائی مخدوش حالت میں یا تو بیمار ہیں یا کسمپر سی کی مثالی تصویر ہیں تقریبا ایک بلین لوگوں نے 21 ویں صدی کا خیر مقدم کیا ان میں غربت کے مارے اور غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے۔
حالیہ سیلاب کے تناظر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں غربت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کے لیے فیصلہ کن امداد اور بحالی کی کوششوں کے بغیر قومی غربت کی شرح 2.5 سے بڑھ کر 4% تک ہو سکتی ہے جس سے 5.8 سے 9 ملین افراد غربت کا شکار ہوں گے۔
ماہانہ بچوں کی غربت کی شرح دسمبر 2021 میں 12.1 فیصد سے بڑھ کر جنوری 2022 میں 17 فیصد ہو گئی جو کہ 2020 کے اختتام کے بعد سب سے زیادہ شرح ہے غربت میں 4.9 فیصد پوائنٹ (41 فیصد) اضافہ 3.7ملین مزید بچوں کی نمایندگی کرتا ہے۔
بہت سے عوامل کسی ملک کی دولت میں حصہ ڈالتے ہیں بشمول اس کے قدرتی وسائل، تعلیمی نظام، سیاسی استحکام اور قومی قرض جس کی وجہ سے کوئی ملک ترقی کرتا ہے یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے۔ پاکستان اس وقت بہت سے سماجی اور سیاسی مسائل کا شکار ہے اور مسائل پر بات کرنے میں بہت محنت اور وقت درکار ہوتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کم آمدنی والی ترقی پذیر معیشت ہے قوت خرید کی بنیاد پر جی ڈی پی کے لحاظ سے یہ دنیا بھر میں 23 نمبر پر ہے 2021 کے تخمینے کیمطابق ملک کی آبادی 227 ملین افراد پر مشتمل ہے اور یہ دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔ غربت کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے اس کے لیے کچھ تجاویز ہیں۔ جیسے مساوات کے ذریعے غربت کا خاتمہ غربت کی سب سے بڑی وجہ عدم مساوات ہے۔
لچک کے ساتھ غربت کو کم کرنا یعنی خیال رکھنا دوسروں کو حقوق دینا ان کی ضروریات پوری کرنا، موسمیاتی تبدیلیوں کے حل اور موسمیاتی انصاف یعنی ترقی یافتہ لوگوں کے تجربات اور چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے دوسرے غریب اور الگ براعظم کے لوگوں کو جس طرح مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے، تعلیم کے زریعے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، بھوک اور پیاس کو ختم کر کے، ایک دوسرے کا خیال رکھ کر بھی غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
امن کے ذریعے غربت کا خاتمہ کہ جنگ و جدل یا لڑائی میں بھی لوگوں اور ملکوں کا نقصان ہوتا ہے غربت میں اضافہ ہوتا ہے، کرپشن کو جڑ سے ختم کیا جائے تاکہ سب کو ان کا حصہ برابری سے مل سکے۔ اگر ہمارے بچوں نے ثانوی تعلیم مکمل کر لی تو ہم عالمی غربت کی شرح نصف کر سکتے ہیں کیونکہ تعلیم مہارتوں اور صلاحیتوں کو فروغ دیتی ہے۔
عدم توازن کو درست کرتی ہے جو پسماندگی سے نکلتے ہیں اور خطرے اور کمزوری کو دور کرتی ہے۔ حل تو بہت سارے ہیں مگر شرط تو صرف نیک نیتی ہے عدم استحکام اور سیاسی چپقلشوں میں ہمارے لوگوں کا نقصان ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ دیر ہو جائے اور غریب کا ستارہ گردش میں ہی رہے۔
انھیں کون سمجھاتا کہ اس معاشرے میں صرف تعلیم نہیں نوکری وہ بھی افسری رشوت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ سو گزارا چلتا رہا اور اب جوانی میں گھر بسانے کے بعد بھی اس کی خواہش تھی کہ اس کی کہانی دہرائی نہ جائے، اس کی اولاد اور بیوی جو اس کی ذمے داری ہیں کم از کم پیٹ بھر کھا سکیں، وہ ان کی ضرورتیں اور خواہشیں پوری کر سکے۔
اس کے لیے اس نے بہت کوششیں کی تھیں وہ سخت محنت کرتا، دن رات کام کرتا مگر وقت آگے بڑھتا گیا اور اس کی کمر گزرتے وقت کے ساتھ ٹوٹتی رہی۔ آج ان کی حالت فاقوں تک تو نہ تھی مگر وہ زندگی کو گھسیٹ رہے تھے، جی نہیں رہے تھے۔
آہ! تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک اور سب کو چھوڑیں ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو ہر غریب کی یہی کہانی ہے وہ زندگی کو گھسیٹ رہا ہے اور مشکل سے گذارا ہو رہا ہے دیکھا جائے تو ہر شخص پرانے زمانے کو بہتر اور اچھا کہتا ہے مہنگائی کے رونے ہیں مگر ہر زمانے میں غریبوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوئی ہے۔
غربت کی تعریف ایک ایسی حالت کے طور پر کی جاتی ہے جس میں ایک فرد یا گروہ کے پاس زندگی کی بنیادی سطح کے لیے مالی وسائل اور ضروریات کی کمی ہوتی ہے یا یہ کہا جائے کہ انسان کی کمائی اس کی بنیادی ضروریات کے لیے ناکافی ہوں۔
چلیں! پہلے ذرا دنیا کی بات کرتے ہیں عالمی غربت کو کم کرنا اگلے بیس سالوں کا اہم عالمی چیلنج ہے سب سے پہلے اخلاقی وجوہات، انصاف اور توازن کی خاطر ایسی دنیا جہاں بیس فیصد سے بھی کم لوگ 85 فیصد اشیاء اور خدمات استعمال کرتے ہیں صرف قابل عمل نہیں ہے عالمی طور پر دیکھا جائے تو 3 بلین سے بھی زیادہ لوگ 2.50 ڈالر سے کم پر زندگی گزارتے ہیں اور ایک اندازے کیمطابق 1.3 بلین سے بھی زیادہ انتہائی غربت میں رہتے ہیں جو روزانہ 1.25 ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔
ہم سوچ سکتے ہیں کہ دن کو بھی کافی کھانا نہ ہونا اور رات کو بھوکے سوجانا کیسا ہے؟ غربت آج بھی دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ورلڈ بینک نے اعلان کیا تھا کہ 2020 تک غربت کو 10% تک کم کرنا اور پھر 2030 تک اس کو 3% تک کم کر دینے کا اعلان کیا تھا مگر یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے اس کو انتہائی توجہ سے حل کیا جانا چاہیے۔
ورنہ عالمی طور پر بھی حالات کافی خراب ہوجائیں گے، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک کی تو نہ صرف اپنے لوگوں کے لیے امداد ہیں بلکہ ان کے ہاں مختلف فلاحی تنظیمیں بھی بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں، وہ لوگ نچلے طبقے کے 40% لوگوں کی آمدنی میں اضافے کو فروغ دینے اور مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں مگر پھر بھی یہ مشکل کام نظر آتا ہے۔
ویسے ہم غربت کی پیمائش کیسے کر سکتے ہیں؟ ہر شخص کی غربت کا الگ لیول ہے کسی کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے تو کسی کے پاس دو وقت کا کھانا نہیں کوئی بے یار و مدد گار پڑا ہے۔ یونیسیف کیمطابق 22,000 بچے دنیا میں غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں بھوک، صفائی کی کمی، صاف پانی تک رسائی نہ ہونا اور صحت کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور وسائل کی کمی اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
2011 میں 165 ملین بچے غذائی قلت کی وجہ سے انتہائی مخدوش حالت میں یا تو بیمار ہیں یا کسمپر سی کی مثالی تصویر ہیں تقریبا ایک بلین لوگوں نے 21 ویں صدی کا خیر مقدم کیا ان میں غربت کے مارے اور غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے۔
حالیہ سیلاب کے تناظر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں غربت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کے لیے فیصلہ کن امداد اور بحالی کی کوششوں کے بغیر قومی غربت کی شرح 2.5 سے بڑھ کر 4% تک ہو سکتی ہے جس سے 5.8 سے 9 ملین افراد غربت کا شکار ہوں گے۔
ماہانہ بچوں کی غربت کی شرح دسمبر 2021 میں 12.1 فیصد سے بڑھ کر جنوری 2022 میں 17 فیصد ہو گئی جو کہ 2020 کے اختتام کے بعد سب سے زیادہ شرح ہے غربت میں 4.9 فیصد پوائنٹ (41 فیصد) اضافہ 3.7ملین مزید بچوں کی نمایندگی کرتا ہے۔
بہت سے عوامل کسی ملک کی دولت میں حصہ ڈالتے ہیں بشمول اس کے قدرتی وسائل، تعلیمی نظام، سیاسی استحکام اور قومی قرض جس کی وجہ سے کوئی ملک ترقی کرتا ہے یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے۔ پاکستان اس وقت بہت سے سماجی اور سیاسی مسائل کا شکار ہے اور مسائل پر بات کرنے میں بہت محنت اور وقت درکار ہوتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کم آمدنی والی ترقی پذیر معیشت ہے قوت خرید کی بنیاد پر جی ڈی پی کے لحاظ سے یہ دنیا بھر میں 23 نمبر پر ہے 2021 کے تخمینے کیمطابق ملک کی آبادی 227 ملین افراد پر مشتمل ہے اور یہ دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔ غربت کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے اس کے لیے کچھ تجاویز ہیں۔ جیسے مساوات کے ذریعے غربت کا خاتمہ غربت کی سب سے بڑی وجہ عدم مساوات ہے۔
لچک کے ساتھ غربت کو کم کرنا یعنی خیال رکھنا دوسروں کو حقوق دینا ان کی ضروریات پوری کرنا، موسمیاتی تبدیلیوں کے حل اور موسمیاتی انصاف یعنی ترقی یافتہ لوگوں کے تجربات اور چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے دوسرے غریب اور الگ براعظم کے لوگوں کو جس طرح مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے، تعلیم کے زریعے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، بھوک اور پیاس کو ختم کر کے، ایک دوسرے کا خیال رکھ کر بھی غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
امن کے ذریعے غربت کا خاتمہ کہ جنگ و جدل یا لڑائی میں بھی لوگوں اور ملکوں کا نقصان ہوتا ہے غربت میں اضافہ ہوتا ہے، کرپشن کو جڑ سے ختم کیا جائے تاکہ سب کو ان کا حصہ برابری سے مل سکے۔ اگر ہمارے بچوں نے ثانوی تعلیم مکمل کر لی تو ہم عالمی غربت کی شرح نصف کر سکتے ہیں کیونکہ تعلیم مہارتوں اور صلاحیتوں کو فروغ دیتی ہے۔
عدم توازن کو درست کرتی ہے جو پسماندگی سے نکلتے ہیں اور خطرے اور کمزوری کو دور کرتی ہے۔ حل تو بہت سارے ہیں مگر شرط تو صرف نیک نیتی ہے عدم استحکام اور سیاسی چپقلشوں میں ہمارے لوگوں کا نقصان ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ دیر ہو جائے اور غریب کا ستارہ گردش میں ہی رہے۔