کیا بحران ٹل سکے گا
کیا پاکستان کا سیاسی ، معاشی اور ریاستی بحران ٹل سکے گا؟ کیا اس بحران کے نتیجے میں ریاست ایک مستحکم سیاست اور معیشت کی طرف بڑھ سکے گی کیونکہ بحران ختم ہونے کے بجائے اور زیادہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایک غیر یقینی ، ہیجان ، ابہام اور محاذ آرائی کے کھیل کا حصہ بن کر ایک بڑے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ٹکراؤ بھی ایسا ہے جو محض سیاسی مسائل یا قومی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بحران میں ہمیں شخصی ٹکراؤ ، انفرادی انا پرستی ، تضاد اور ذاتی مفادات کی بھی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ ایسے میں ریاستی سطح کے مسائل یا قومی سیاست سے جڑے اہم اور سنجیدہ نوعیت کے مسائل پر کون توجہ دے گا ۔
کیونکہ ہم نے عملی طور پر قومی یا ریاستی مسائل کو بنیاد بناکر اپنا بیانیہ تو پیش کیا ہے مگر اس بیانیہ کے پیچھے اصل کھیل ہمیں طاقت کی حکمرانی یا شخصی حکمرانی کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ یہ منظر نامہ ظاہر کرتا ہے کہ جب سیاست دائروں میں گھومے گی اور دائرہ کا مرکز بھی ہماری ذات یا ادارہ ہوگا تو ایسے میں بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں ۔
ہم سیاست ، معیشت اور دیگر قومی معاملات کو محض جذباتیت یا سیاسی نعروں سمیت الزام تراشیوں کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں ۔ اسی حکمت عملی کو ہم اپنی بڑی سیاسی کامیابی کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔
اس کامیابی کے نتیجے میں ہمیں اگر قومی معاملات کو پس پشت بھی ڈالنا پڑے تو اس کی بھی کوئی پروا نہیں ۔ یہ سوچ اور فکر اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب اجتماعیت کے مقابلے میں انفرادیت کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اور اسی نقطہ کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف خود کو دھکیل رہے ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس غیر یقینی یا ہیجان سمیت ابہام کی وجہ کوئی شعوری عمل نہیں بلکہ غیر شعوری عمل ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہم اپنے طرز عمل سے کیسے ریاستی عمل کو کمزور کررہے ہیں۔
جب کہ دوسری وجہ لوگوں کے خیال میں یہ سارا بحران یا ابہام جان بوجھ کر یا شعوری طور پر پیدا کیا جارہا ہے ۔کیونکہ کچھ لوگ داخلی اور خارجی محاذ پر ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ پاکستان عدم استحکام کا ہی شکار رہے تاکہ وہ اسے دباؤ میں رکھ کر اپنے مفادات کے کھیل کو تقویت دے سکیں ۔لیکن بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہم شعوری یا لا شعوری طور پر خود ہی اپنے بڑے مجرم بنے ہوئے ہیں۔
عمران خان کے بقول ملک کے بحران کا فوری حل نئے انتخابات سے جڑا ہوا ہے اور جتنی بھی انتخابات میں تاخیر اختیار کی جائے گی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ شدت اختیار کرے گا۔ دوسری طرف عمران خان کے سیاسی مخالفین ہیں جو اس وقت تیرہ جماعتی اتحاد کی صور ت میں وفاقی حکومت کا حصہ ہے۔
وہ نہ تو فوری انتخابات کے حامی ہیں اور نہ ہی عمران خان کی اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہیں کہ آرمی چیف کی تقرری میں ان سے مشاورت کی جائے۔ ان کے بقول یہ صوابدیدی حق وزیر اعظم کا ہے وہ ہی اس کو اختیار کریں گے ۔
سیاسی اور معاشی بحران کی ایک بڑی ناکامی مفاہمت یا ڈائیلاگ کی ناکامی بھی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان درمیانی راستہ نکالنے کے لیے پس پردہ مذاکرات کی میز بھی سجائی گئی۔ اس مذاکرات میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا بھی اہم کردار رہا۔ لیکن یہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکے ۔
یقینی طورپر اس کی وجہ فریقین کا اپنے اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنا اور کوئی درمیانی راستہ یا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مسئلہ کے حل پر عدم اتفاق تھا ۔ اس مذاکرات کی ناکامی کا اعتراف بھی فریقین کی جانب سے برملا کیا گیا ، لیکن مذاکرات ختم نہیں بلکہ ڈیڈ لاک کا شکار ہوئے۔ مگرآج بھی پس پردہ کچھ نہ کچھ فریقین ایک دوسرے کی مدد سے لانگ مارچ کے مقابلے میں مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اگرچہ مفاہمت کا امکان کمزور ہے لیکن مسئلہ کا حل بھی مفاہمت ہی ہے۔
جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ فوری انتخابات کے بجائے عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونگے تو سوال یہ ہے کہ کیا اس موجودہ بحران کو اگلے برس اکتوبر تک چلایا جاسکتا ہے اور کیا اس بحران کا بوجھ ہم بطور ریاست یا معاشرہ معاشی یا سیاسی بدحالی کی صورت میں برداشت کرسکتے ہیں۔
فوری طور پر مسائل کا حل اتفاق رائے پر مبنی تلاش نہیں کیا گیا تو حالات کی سنگینی ہمیں اور پیچھے کی طرف لے جائے گی۔ سیاسی و غیر سیاسی فریقین یہ سمجھنے کی کوشش کریں ہم اس طرز کے بحران کو لمبے عرصہ تک چلانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔
اس بحران سے نکلنے کا ہمیں راستہ تلاش کرنا ہے اور اسی کی بنیاد پر ہم سیاست اور معیشت کو درست سمت بھی دے سکتے ہیں جو معاشی استحکام کا سبب بن سکتی ہے ۔لیکن یہ کام نہ تو سیاسی تنہائی میں ہونا ہے اور نہ ہی کوئی ایک فریق کرسکتا ہے۔ جو سیاست یا جمہوریت یہاں چل رہی ہے یہ وہ نہیں جو ہونی چاہیے تھی ۔