ایجنڈا تعلیم نہیں ہے
صورتحال کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے تویہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم اپنے فرائض میں ناکام رہاہے
دیا رام جتھومل سندھ گورنمنٹ کالج (Dayaram Jethumal Sindh Government College) جو ڈی جے کالج کے نام سے معروف ہے 1887 میں کراچی میں قائم ہوا ، یہ سندھ میں قائم ہونے والا پہلا کالج تھا۔ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے ڈی جے کالج بمبئی یونیورسٹی سے منسلک تھا۔
کراچی یونیورسٹی اور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے قیام کے بعد یہ کالج ان اداروں سے منسلک ہوا۔ ڈی جے کالج میں ایک زمانہ میں پوسٹ گریجویٹ کلاس بھی ہوتی تھی۔ ڈی جے کالج نے سندھ میں نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ڈی جے کالج نے ہر دورِ حکومت میں اپنے معیارکو برقرار رکھا۔ میٹرک کا امتحان دینے والے ذہین طلبہ ہمیشہ اس کالج میں داخلہ کی خواہش کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اس کالج کو مزید ترقی دینے پر سوچ بچارکے بجائے اس کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ڈی جے کالج میں نئے جدید تعلیمی شعبے قائم کرنے کے بجائے سرکاری دفاتر قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس تاریخی عمارت میں مسلسل توڑ پھوڑ ہو رہی ہے۔
اس کے ہاسٹل پر برسوں سے غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس سال ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت کالج میں فرسٹ ایئر کے داخلوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ ہر سال فرسٹ ایئر کے پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے شعبوں میں 500 داخلے ہوتے تھے مگر صرف 85 طلبہ کو داخلے دیے گئے۔
جب ڈی جے کالج کی اہمیت کو محسوس کرنے والی طلبہ ایکشن کمیٹی اور اساتذہ کی تنظیم نے آواز بلند کی اور الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر رپورٹیں وائرل ہوئیں تو محکمہ تعلیم کے افسروں کو اپنی پالیسی کے منفی اثرات کا اندازہ ہوا تو داخلے ختم ہونے کے تین ماہ بعد نئی داخلہ فہرست جاری کی گئی۔
اس پری انجینئرنگ کی میرٹ لسٹ میں کل نمبر 519 سے کم کر کے 468 کر دیے گئے۔ ان نمبروں کے حامل طلبہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اب اس تاریخی کالج میں داخلہ لیے سکتے ہیں۔
ڈی جے کالج کی طلبہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ تیمور احمد نے کہا کہ ڈی جے کالج کو قائم ہوئے 135 سال گزرچکے مگر اتنے کم نمبر لانے والے طلبہ کو کبھی اس کالج میں داخلہ نہیں دیا گیا۔ محکمہ تعلیم کے افسروں نے جان بوجھ کر اساتذہ کی تعداد کم کر دی ہے ، کالج میں محض 42 اساتذہ تعینات ہیں۔
ایم ایس سی بلا ک کی تعمیر دس سال قبل مکمل ہوگئی تھی مگر ابھی تک کلاسیں شروع نہیں ہوئیں۔ کمپیوٹر سائنس کی لیباریٹری میں اسکول ڈائریکٹریٹ کا دفتر قائم کردیا گیا ہے۔ اب کمپیوٹر سائنس کے طلبہ پری انجینئرنگ کے طلبہ کے ساتھ کلاسیں لینے پر مجبور ہیں۔ کراچی یونیورسٹی نے کمپیوٹر سائنس میں بنیادی سہولت نہ ہونے کی بناء پر الحاق کی درخواست مسترد کردی ہے۔
بی ایس سی پری میڈیکل کی ایک طالبہ نے ایک ٹی وی چینل کی رپورٹر کو بتایا تھا کہ سیشن شروع ہوئے کئی ماہ ہوچکے مگر کئی مضامین کے اساتذہ موجود نہیں ہیں۔ جب بھی کالج کے پرنسپل صاحب کی توجہ اساتذہ کی کمی کی طرف مبذول کروائی جاتی ہے تو وہ جلد ہی کئی اساتذہ کے تقرر کی نوید دیتے ہیں مگر سیشن آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جدید مضامین کی تدریس اور ان کے پریکٹیکل کے لیے استاد موجود نہیں ہیں۔
ڈی جے کالج ضیاء الدین روڈ پر واقع ہے۔ اس کی تاریخی عمارت ایک وسیع قطع اراضی پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ کالج آئی آئی چندریگر روڈ کی متوازی سڑک پر قائم ہے۔
آئی آئی چندریگر روڈ پاکستان کی وال اسٹریٹ ہے جہاں مالیاتی اداروں کی عمارتیں ہیں۔ تاریخی'' پاکستان چوک '' ہے، یوں اس علاقے کی زمین انتہائی قیمتی ہے۔ گزشتہ 14برسوں میں شہرکے اہم علاقوں میں قائم اسکول اور کالج جنھیں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں قومیایا گیا تھا ، اب ان کی عمارتیں نجی شعبے کے پاس ہیں۔
موجودہ حکومت کے کئی ناقدین کو خدشہ ہے کہ ڈی جے کالج اگرچہ انگریز سرکار نے قائم کیا تھا مگر محکمہ تعلیم کے افسروں کی اس پالیسی سے خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ ڈی جے کالج کو کسی دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں غور ہو رہا ہے کہ مگر ڈی جے کالج کی صورتحال پر کیا ماتم کیا جائے؟ سندھ میں شعبہ تعلیم پورا ہی زوال پذیر ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرنے والے صاحبان علم و دانش نے کچھ عرضداشتیں داخل کی تھیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے صوبہ میں تعلیمی اصلاحات، مفت تعلیم، سیکیورٹی اور دیگر معاملات پر درخواستوں پر چیف سیکریٹری اور سیکریٹری تعلیم سے رپورٹیں طلب کی تھیں۔ عرض داشتوں میں یہ مؤقف اختیارکیا گیا تھا کہ تعلیمی سہولیات کے لیے بنانے کے 2013ء کے قانون پر اب تک عمل نہیں کیا گیا۔
سیکریٹری تعلیم نے اپنے جواب میں تحریری طور پر بتایا ہے کہ اب بھی سندھ کے 4 ہزار 533 اساتذہ غیر حاضر ہیں اور 4 ہزار کے قریب اسکول بند ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے صوبے میں 40 ہزار 529 اسکولز ہیں۔ ان میں 6 ہزار 407 اسکول بغیر چھتوں کے ہیں۔
بغیر چھت والے اسکولوں میں بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس سال مختلف اسکیموں کے تحت 6 سو 22 اسکول زیر تعمیر ہیں۔ سیکریٹری تعلیم نے اقرار کیا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں فرنیچر کی کمی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فرنیچر کی خریداری کا معاملہ عدالتوں میں ہونے کی بناء پر التواء کا شکار ہیں۔
سیکریٹری تعلیم نے اساتذہ کی غیر حاضری کی ذمے داری اساتذہ تنظیموں پر عائد کی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر حاضر اساتذہ کو تحفظ افسروں کی ملی بھگت سے ملتا ہے۔ سیکریٹری تعلیم کی یہ رپورٹ سندھ میں سنگین تعلیمی بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔
شعبہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکین کی کوششوں سے اس میں کی گئی 18ویں ترمیم کی شق 25-A شامل کی گئی تھی۔ اس شق کے تحت ریاست ہر فرد کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی اولین ترجیح میں تعلیم شامل نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں 14 سال قبل قائم ہوئی مگر اس حکومت نے تعلیم کے بارے میں ایک متعصبانہ پالیسی اختیار کی۔ محکمہ تعلیم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بیشتر جونیئر افسروں و سینئر آسامیوں پر تعینات کیا گیا جن کے لیے امتیازی طریقہ کار استعمال ہوا ہے۔
محکمہ تعلیم کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہاں رشوت اور سفارش سے ہی کوئی کام ہوسکتا ہے۔ اساتذہ کی تقرریوں میں شفاف طریقہ کار اختیار کرنے سے گریز کیا گیا۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب میں 12گریڈ سے اوپر کی تمام تقرریاں متعلقہ صوبہ کے پبلک سروس کمیشن کے دائرہ کار میں آتی ہیں اور ان دونوں صوبوں میں پبلک سروس کمیشن کے شفاف طریقہ کار پر تنقید نہیں ہوتی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے پبلک سروس کمیشن کی شفافیت کو پامال کیا اور اور براہِ راست اساتذہ کے تقررکا سلسلہ شروع ہوا۔ سندھ کے شعبہ تعلیم کی فنڈنگ ورلڈ بینک کرتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اساتذہ کی تقرریوں کے لیے ایک ٹیسٹ لازمی قرار دیا۔
جب ورلڈ بینک نے قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کرنے پر فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا تو سابق صدر آصف زرداری کے قریبی عزیز کو سیکریٹری تعلیم کے عہدہ پر تعینات کیا گیا۔ لاکھوں روپے ادا کر کے اساتذہ بننے والے افراد کو برطرف کردیا گیا۔ ان اساتذہ نے مہینوں احتجاج کیا۔ اب پھر آئی بی اے سکھر کے امتحان میں پاس ہونے والے اساتذہ کنٹریکٹ میں توسیع نہ ہونے پر مجبور ہوئے۔
صورتحال کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم اپنے فرائض میں ناکام رہا ہے اور اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا ایجنڈا تعلیم نہیں ہے۔
کراچی یونیورسٹی اور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے قیام کے بعد یہ کالج ان اداروں سے منسلک ہوا۔ ڈی جے کالج میں ایک زمانہ میں پوسٹ گریجویٹ کلاس بھی ہوتی تھی۔ ڈی جے کالج نے سندھ میں نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ڈی جے کالج نے ہر دورِ حکومت میں اپنے معیارکو برقرار رکھا۔ میٹرک کا امتحان دینے والے ذہین طلبہ ہمیشہ اس کالج میں داخلہ کی خواہش کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اس کالج کو مزید ترقی دینے پر سوچ بچارکے بجائے اس کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ڈی جے کالج میں نئے جدید تعلیمی شعبے قائم کرنے کے بجائے سرکاری دفاتر قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس تاریخی عمارت میں مسلسل توڑ پھوڑ ہو رہی ہے۔
اس کے ہاسٹل پر برسوں سے غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس سال ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت کالج میں فرسٹ ایئر کے داخلوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ ہر سال فرسٹ ایئر کے پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے شعبوں میں 500 داخلے ہوتے تھے مگر صرف 85 طلبہ کو داخلے دیے گئے۔
جب ڈی جے کالج کی اہمیت کو محسوس کرنے والی طلبہ ایکشن کمیٹی اور اساتذہ کی تنظیم نے آواز بلند کی اور الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر رپورٹیں وائرل ہوئیں تو محکمہ تعلیم کے افسروں کو اپنی پالیسی کے منفی اثرات کا اندازہ ہوا تو داخلے ختم ہونے کے تین ماہ بعد نئی داخلہ فہرست جاری کی گئی۔
اس پری انجینئرنگ کی میرٹ لسٹ میں کل نمبر 519 سے کم کر کے 468 کر دیے گئے۔ ان نمبروں کے حامل طلبہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اب اس تاریخی کالج میں داخلہ لیے سکتے ہیں۔
ڈی جے کالج کی طلبہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ تیمور احمد نے کہا کہ ڈی جے کالج کو قائم ہوئے 135 سال گزرچکے مگر اتنے کم نمبر لانے والے طلبہ کو کبھی اس کالج میں داخلہ نہیں دیا گیا۔ محکمہ تعلیم کے افسروں نے جان بوجھ کر اساتذہ کی تعداد کم کر دی ہے ، کالج میں محض 42 اساتذہ تعینات ہیں۔
ایم ایس سی بلا ک کی تعمیر دس سال قبل مکمل ہوگئی تھی مگر ابھی تک کلاسیں شروع نہیں ہوئیں۔ کمپیوٹر سائنس کی لیباریٹری میں اسکول ڈائریکٹریٹ کا دفتر قائم کردیا گیا ہے۔ اب کمپیوٹر سائنس کے طلبہ پری انجینئرنگ کے طلبہ کے ساتھ کلاسیں لینے پر مجبور ہیں۔ کراچی یونیورسٹی نے کمپیوٹر سائنس میں بنیادی سہولت نہ ہونے کی بناء پر الحاق کی درخواست مسترد کردی ہے۔
بی ایس سی پری میڈیکل کی ایک طالبہ نے ایک ٹی وی چینل کی رپورٹر کو بتایا تھا کہ سیشن شروع ہوئے کئی ماہ ہوچکے مگر کئی مضامین کے اساتذہ موجود نہیں ہیں۔ جب بھی کالج کے پرنسپل صاحب کی توجہ اساتذہ کی کمی کی طرف مبذول کروائی جاتی ہے تو وہ جلد ہی کئی اساتذہ کے تقرر کی نوید دیتے ہیں مگر سیشن آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جدید مضامین کی تدریس اور ان کے پریکٹیکل کے لیے استاد موجود نہیں ہیں۔
ڈی جے کالج ضیاء الدین روڈ پر واقع ہے۔ اس کی تاریخی عمارت ایک وسیع قطع اراضی پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ کالج آئی آئی چندریگر روڈ کی متوازی سڑک پر قائم ہے۔
آئی آئی چندریگر روڈ پاکستان کی وال اسٹریٹ ہے جہاں مالیاتی اداروں کی عمارتیں ہیں۔ تاریخی'' پاکستان چوک '' ہے، یوں اس علاقے کی زمین انتہائی قیمتی ہے۔ گزشتہ 14برسوں میں شہرکے اہم علاقوں میں قائم اسکول اور کالج جنھیں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں قومیایا گیا تھا ، اب ان کی عمارتیں نجی شعبے کے پاس ہیں۔
موجودہ حکومت کے کئی ناقدین کو خدشہ ہے کہ ڈی جے کالج اگرچہ انگریز سرکار نے قائم کیا تھا مگر محکمہ تعلیم کے افسروں کی اس پالیسی سے خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ ڈی جے کالج کو کسی دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں غور ہو رہا ہے کہ مگر ڈی جے کالج کی صورتحال پر کیا ماتم کیا جائے؟ سندھ میں شعبہ تعلیم پورا ہی زوال پذیر ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرنے والے صاحبان علم و دانش نے کچھ عرضداشتیں داخل کی تھیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے صوبہ میں تعلیمی اصلاحات، مفت تعلیم، سیکیورٹی اور دیگر معاملات پر درخواستوں پر چیف سیکریٹری اور سیکریٹری تعلیم سے رپورٹیں طلب کی تھیں۔ عرض داشتوں میں یہ مؤقف اختیارکیا گیا تھا کہ تعلیمی سہولیات کے لیے بنانے کے 2013ء کے قانون پر اب تک عمل نہیں کیا گیا۔
سیکریٹری تعلیم نے اپنے جواب میں تحریری طور پر بتایا ہے کہ اب بھی سندھ کے 4 ہزار 533 اساتذہ غیر حاضر ہیں اور 4 ہزار کے قریب اسکول بند ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے صوبے میں 40 ہزار 529 اسکولز ہیں۔ ان میں 6 ہزار 407 اسکول بغیر چھتوں کے ہیں۔
بغیر چھت والے اسکولوں میں بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس سال مختلف اسکیموں کے تحت 6 سو 22 اسکول زیر تعمیر ہیں۔ سیکریٹری تعلیم نے اقرار کیا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں فرنیچر کی کمی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فرنیچر کی خریداری کا معاملہ عدالتوں میں ہونے کی بناء پر التواء کا شکار ہیں۔
سیکریٹری تعلیم نے اساتذہ کی غیر حاضری کی ذمے داری اساتذہ تنظیموں پر عائد کی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر حاضر اساتذہ کو تحفظ افسروں کی ملی بھگت سے ملتا ہے۔ سیکریٹری تعلیم کی یہ رپورٹ سندھ میں سنگین تعلیمی بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔
شعبہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکین کی کوششوں سے اس میں کی گئی 18ویں ترمیم کی شق 25-A شامل کی گئی تھی۔ اس شق کے تحت ریاست ہر فرد کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی اولین ترجیح میں تعلیم شامل نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں 14 سال قبل قائم ہوئی مگر اس حکومت نے تعلیم کے بارے میں ایک متعصبانہ پالیسی اختیار کی۔ محکمہ تعلیم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بیشتر جونیئر افسروں و سینئر آسامیوں پر تعینات کیا گیا جن کے لیے امتیازی طریقہ کار استعمال ہوا ہے۔
محکمہ تعلیم کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہاں رشوت اور سفارش سے ہی کوئی کام ہوسکتا ہے۔ اساتذہ کی تقرریوں میں شفاف طریقہ کار اختیار کرنے سے گریز کیا گیا۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب میں 12گریڈ سے اوپر کی تمام تقرریاں متعلقہ صوبہ کے پبلک سروس کمیشن کے دائرہ کار میں آتی ہیں اور ان دونوں صوبوں میں پبلک سروس کمیشن کے شفاف طریقہ کار پر تنقید نہیں ہوتی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے پبلک سروس کمیشن کی شفافیت کو پامال کیا اور اور براہِ راست اساتذہ کے تقررکا سلسلہ شروع ہوا۔ سندھ کے شعبہ تعلیم کی فنڈنگ ورلڈ بینک کرتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اساتذہ کی تقرریوں کے لیے ایک ٹیسٹ لازمی قرار دیا۔
جب ورلڈ بینک نے قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کرنے پر فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا تو سابق صدر آصف زرداری کے قریبی عزیز کو سیکریٹری تعلیم کے عہدہ پر تعینات کیا گیا۔ لاکھوں روپے ادا کر کے اساتذہ بننے والے افراد کو برطرف کردیا گیا۔ ان اساتذہ نے مہینوں احتجاج کیا۔ اب پھر آئی بی اے سکھر کے امتحان میں پاس ہونے والے اساتذہ کنٹریکٹ میں توسیع نہ ہونے پر مجبور ہوئے۔
صورتحال کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم اپنے فرائض میں ناکام رہا ہے اور اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا ایجنڈا تعلیم نہیں ہے۔