واضح معاشی پالیسی کا نفاذ۔۔۔ وقت کی ضرورت
ملک کی مجموعی صنعتی تجارتی اور برآمدی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ اب برآمدات کم ہو رہی ہیں
ملک کی معاشی ترقی کا انحصار صنعتی ترقی پر ہے، کیونکہ پاکستان کی برآمدات پر نظر دوڑائی جائے تو چند ارب ڈالرکا خام زرعی مال برآمد کرنے کے علاوہ 26 یا 27 ارب ڈالر کی برآمدات صنعتی شعبے کی تیار کردہ مصنوعات پر مشتمل ہیں اور اس صنعتی ترقی کا انحصار ملکی معیشت پر ہے، ملک کی معاشی پالیسی پر ہے۔
ملکی مصنوعات کی نکاسی پر ہے ، اگر ملک کے حالات بہتر ہوں گے تو ملک کے اندر معاشی حالات بھی بہتری کی جانب گامزن ہوں گے اور ان سب باتوں کا دار و مدار ملک کے سیاسی حالات پر ہے۔ اس وقت ملک کے سیاسی حالات کیسے ہیں۔
کس طرح ملک میں ایسا سیاسی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے جس سے ملک کے اندر روزمرہ کی تجارت شدید متاثر ہو رہی ہے اور جس سے ملک کا تاجر طبقہ انتہائی مخدوش حالات میں گھر چکا ہے۔ تاجر دہائیاں دے رہے ہیں کہ تجارت سکڑ کر رہ گئی ہے۔ صنعت کار اس بات سے نالاں ہیں کہ ملک کی مبہم معاشی پالیسی صنعت کاری کے عمل کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
ملک کی صنعتی مصنوعات کی تیاری میں ایک بڑا حصہ درآمدی خام مال پر مشتمل ہوتا ہے لیکن درآمدات کے سلسلے میں حکومت وقت کی پالیسی ابہام کا شکار ہے جس کے باعث برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی گومگو پر مبنی پالیسی کے باعث درآمدی خام مال کی صنعتوں میں سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں ظاہر ہے جب کارخانوں کی پیداوار متاثر ہوگی۔۔
خام مال بندرگاہوں میں ہی اٹکا رہے گا اور آیندہ کے لیے اس کی درآمدات کو روک لیا جائے گا یا پالیسی میں ابہام ہوگا ایسی صورت میں ان صنعتوں کا بھرپور پیداوار دینا بھی محال ہوکر رہے گا۔ کارخانے تین شفٹوں سے دو شفٹوں پھر ایک شفٹ پر منتقل ہوکر پیداوار کم برآمدات کم اور زرمبادلہ کی کمائی کم اور بے روزگاری زیادہ بڑھ کر بالآخر ملکی صنعتی ترقی کا انحطاط شروع ہو جائے گا اور حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے۔
ملک کی مجموعی صنعتی تجارتی اور برآمدی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ اب برآمدات کم ہو رہی ہیں، ملک کے اندر خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بیرونی سرمایہ کاری انتہائی کم ہوچکی ہے۔ اس سے مافیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں، خاص طور پر انھوں نے روپے کو نشانہ بنا لیا ہے۔
حکام سمجھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت 200 روپے سے کم ہے لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے ڈالر ریٹ بڑھتا چلا جا رہا ہے اس وقت 225 روپے تک پہنچا ہوا ہے۔ مزید اضافے کا امکان ہے۔ یعنی اس وقت حکومتی اندازوں کے مطابق 200 روپے فی ڈالر کو مدنظر رکھیں تو ڈالر کی قیمت 12 سے 13 فیصد زائد ہے اور یہ تمام باتیں ملک کی معاشی صنعتی تجارتی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کے علاوہ ترسیلات زر میں کمی سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کا مافیاز خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اس کے علاوہ آئی ایم ایف کا دباؤ بھی معاشی حالات کو بگاڑ رہا ہے۔
سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان لیکن اس کے ازالے کا فقدان بھی معیشت کو مضمحل کیے جا رہا ہے اور ملک کی سیاسی کشیدگی بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ایسے میں جب معیشت نرغے میں آ کر لڑکھڑانے لگتی ہے تو سارا بوجھ ملکی کرنسی پر ہی پڑتا ہے اور وہ دھڑام سے نیچے گرنے لگتی ہے۔
موجودہ حکومت کی کئی مبہم معاشی پالیسیاں صنعتکاری کے عمل میں اندیشوں کو جنم دے رہی ہیں۔ سیاسی کشیدگی بڑھ کر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں ہر شخص متاثر ہو رہا ہے۔ مافیاز کھل کر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آٹا مہنگا ہو رہا ہے۔ پھل، سبزیاں، انڈے، مرغی، دال، گوشت ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ ملک کی معاشی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔
جلد ہی ملک میں گیس کی قلت پیدا ہوکر صنعتی عمل کو مزید زک پہنچا سکتی ہے بلکہ کراچی میں گیس کی قلت نے گھریلو خواتین سے لے کر مل اونرز تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق صرف کراچی میں 150 صنعتی یونٹس کی توانائی کی ضرورت لکڑیاں جلا کر پوری کی جا رہی ہے۔
اور 60 یا70 یونٹس کوئلے پر چلائے جا رہے ہیں۔ گیس کی قلت توانائی بحران پیدا کرکے برآمدات کو شدید خطرات سے دوچار کردے گی۔ گھروں کے لیے بھی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ تک ہو رہی ہے۔ اس طرح لکڑی اور کوئلے کے استعمال سے ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ امریکی، یورپی برآمدی آرڈرز منسوخ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد یورپی ملکوں کے لیے برآمدات میں اضافے کی توقعات دم توڑ جائیں گی۔ حکومت اس کا فوری حل نکالے۔
جس طرح روس سے گندم اور پٹرول کی خریداری کی جائے گی اسی طرح ایران سے سستی گیس حاصل کی جاسکتی ہے تاکہ ہم اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ کراچی کی صنعتوں کا متاثر ہونے کا مطلب ہے کہ ملک کی برآمدات کا بڑا حصہ شدید متاثر ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ترسیلات زر میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ یورپی یونین سے پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 11 فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جولائی 2022 تا اکتوبر 22 تک ان چار ماہ کے دوران یورپی یونین کے مختلف ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے علاوہ دنیا بھر سے سمندر پار ملکوں سے پاکستانیوں کی مجموعی طور پر بھیجی گئی ترسیلات زر میں مجموعی طور پر 8 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اس سال قبل سالہا سال سے اس مد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، لیکن اس کمی کی کئی وجوہات میں سے اہم وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ہونا بھی ہے۔ ماہ نومبر کے آخر میں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہونے والے ہیں اور ملک میں شدید سیلاب کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے کسی قسم کی نرمی کے آثار نظر نہیں آرہے۔
حکام اس جانب بھی توجہ دیں کہ چین سے لیے گئے قرضوں کو اس طرح سے ری شیڈول کیا جائے کہ پاکستان موجودہ معاشی بحران سے نکل آئے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جوکہ پانچ روز جاری رہیں گے جس کی حتمی تاریخ کا ملک میں سیاسی کشیدگی کے باعث ابھی تک اعلان نہیں ہوا۔ بہرحال پاکستانی حکام پہلے بھی کئی بار شرائط میں مزید نرمی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی ادارہ پاکستان کو سخت ترین شرائط پر ہی معاہدہ کرنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔
پہلے یہ مذاکرات 15 نومبر کو ہوتے تھے لیکن اب سیاسی درجہ حرارت میں اضافے نے اسے تعطل میں ڈال دیا ہے۔ جس سے مافیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کرنسی بھی کمزور ہو رہی ہے اور ڈالر مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ کس طرح ان صنعتوں کو رواں دواں رکھا جائے۔ درآمدی خام مال استعمال کرکے برآمدات کے آرڈرز پورے کرتے ہیں۔
گیس کی فراہمی کے علاوہ بار بار بجلی نرخوں میں اضافہ نے ملک بھر کے صارفین، صنعتی اداروں کو سخت متاثر کردیا ہے۔ نتیجتاً برآمدی لاگت بڑھنے سے ہر ماہ برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ملک کی معاشی پالیسی سے تمام ابہام کو دورکرکے واضح معاشی پالیسی کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔
ملکی مصنوعات کی نکاسی پر ہے ، اگر ملک کے حالات بہتر ہوں گے تو ملک کے اندر معاشی حالات بھی بہتری کی جانب گامزن ہوں گے اور ان سب باتوں کا دار و مدار ملک کے سیاسی حالات پر ہے۔ اس وقت ملک کے سیاسی حالات کیسے ہیں۔
کس طرح ملک میں ایسا سیاسی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے جس سے ملک کے اندر روزمرہ کی تجارت شدید متاثر ہو رہی ہے اور جس سے ملک کا تاجر طبقہ انتہائی مخدوش حالات میں گھر چکا ہے۔ تاجر دہائیاں دے رہے ہیں کہ تجارت سکڑ کر رہ گئی ہے۔ صنعت کار اس بات سے نالاں ہیں کہ ملک کی مبہم معاشی پالیسی صنعت کاری کے عمل کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
ملک کی صنعتی مصنوعات کی تیاری میں ایک بڑا حصہ درآمدی خام مال پر مشتمل ہوتا ہے لیکن درآمدات کے سلسلے میں حکومت وقت کی پالیسی ابہام کا شکار ہے جس کے باعث برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی گومگو پر مبنی پالیسی کے باعث درآمدی خام مال کی صنعتوں میں سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں ظاہر ہے جب کارخانوں کی پیداوار متاثر ہوگی۔۔
خام مال بندرگاہوں میں ہی اٹکا رہے گا اور آیندہ کے لیے اس کی درآمدات کو روک لیا جائے گا یا پالیسی میں ابہام ہوگا ایسی صورت میں ان صنعتوں کا بھرپور پیداوار دینا بھی محال ہوکر رہے گا۔ کارخانے تین شفٹوں سے دو شفٹوں پھر ایک شفٹ پر منتقل ہوکر پیداوار کم برآمدات کم اور زرمبادلہ کی کمائی کم اور بے روزگاری زیادہ بڑھ کر بالآخر ملکی صنعتی ترقی کا انحطاط شروع ہو جائے گا اور حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے۔
ملک کی مجموعی صنعتی تجارتی اور برآمدی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ اب برآمدات کم ہو رہی ہیں، ملک کے اندر خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بیرونی سرمایہ کاری انتہائی کم ہوچکی ہے۔ اس سے مافیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں، خاص طور پر انھوں نے روپے کو نشانہ بنا لیا ہے۔
حکام سمجھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت 200 روپے سے کم ہے لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے ڈالر ریٹ بڑھتا چلا جا رہا ہے اس وقت 225 روپے تک پہنچا ہوا ہے۔ مزید اضافے کا امکان ہے۔ یعنی اس وقت حکومتی اندازوں کے مطابق 200 روپے فی ڈالر کو مدنظر رکھیں تو ڈالر کی قیمت 12 سے 13 فیصد زائد ہے اور یہ تمام باتیں ملک کی معاشی صنعتی تجارتی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کے علاوہ ترسیلات زر میں کمی سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کا مافیاز خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اس کے علاوہ آئی ایم ایف کا دباؤ بھی معاشی حالات کو بگاڑ رہا ہے۔
سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان لیکن اس کے ازالے کا فقدان بھی معیشت کو مضمحل کیے جا رہا ہے اور ملک کی سیاسی کشیدگی بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ایسے میں جب معیشت نرغے میں آ کر لڑکھڑانے لگتی ہے تو سارا بوجھ ملکی کرنسی پر ہی پڑتا ہے اور وہ دھڑام سے نیچے گرنے لگتی ہے۔
موجودہ حکومت کی کئی مبہم معاشی پالیسیاں صنعتکاری کے عمل میں اندیشوں کو جنم دے رہی ہیں۔ سیاسی کشیدگی بڑھ کر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں ہر شخص متاثر ہو رہا ہے۔ مافیاز کھل کر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آٹا مہنگا ہو رہا ہے۔ پھل، سبزیاں، انڈے، مرغی، دال، گوشت ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ ملک کی معاشی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔
جلد ہی ملک میں گیس کی قلت پیدا ہوکر صنعتی عمل کو مزید زک پہنچا سکتی ہے بلکہ کراچی میں گیس کی قلت نے گھریلو خواتین سے لے کر مل اونرز تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق صرف کراچی میں 150 صنعتی یونٹس کی توانائی کی ضرورت لکڑیاں جلا کر پوری کی جا رہی ہے۔
اور 60 یا70 یونٹس کوئلے پر چلائے جا رہے ہیں۔ گیس کی قلت توانائی بحران پیدا کرکے برآمدات کو شدید خطرات سے دوچار کردے گی۔ گھروں کے لیے بھی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ تک ہو رہی ہے۔ اس طرح لکڑی اور کوئلے کے استعمال سے ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ امریکی، یورپی برآمدی آرڈرز منسوخ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد یورپی ملکوں کے لیے برآمدات میں اضافے کی توقعات دم توڑ جائیں گی۔ حکومت اس کا فوری حل نکالے۔
جس طرح روس سے گندم اور پٹرول کی خریداری کی جائے گی اسی طرح ایران سے سستی گیس حاصل کی جاسکتی ہے تاکہ ہم اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ کراچی کی صنعتوں کا متاثر ہونے کا مطلب ہے کہ ملک کی برآمدات کا بڑا حصہ شدید متاثر ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ترسیلات زر میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ یورپی یونین سے پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 11 فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جولائی 2022 تا اکتوبر 22 تک ان چار ماہ کے دوران یورپی یونین کے مختلف ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے علاوہ دنیا بھر سے سمندر پار ملکوں سے پاکستانیوں کی مجموعی طور پر بھیجی گئی ترسیلات زر میں مجموعی طور پر 8 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اس سال قبل سالہا سال سے اس مد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، لیکن اس کمی کی کئی وجوہات میں سے اہم وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ہونا بھی ہے۔ ماہ نومبر کے آخر میں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہونے والے ہیں اور ملک میں شدید سیلاب کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے کسی قسم کی نرمی کے آثار نظر نہیں آرہے۔
حکام اس جانب بھی توجہ دیں کہ چین سے لیے گئے قرضوں کو اس طرح سے ری شیڈول کیا جائے کہ پاکستان موجودہ معاشی بحران سے نکل آئے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جوکہ پانچ روز جاری رہیں گے جس کی حتمی تاریخ کا ملک میں سیاسی کشیدگی کے باعث ابھی تک اعلان نہیں ہوا۔ بہرحال پاکستانی حکام پہلے بھی کئی بار شرائط میں مزید نرمی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی ادارہ پاکستان کو سخت ترین شرائط پر ہی معاہدہ کرنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔
پہلے یہ مذاکرات 15 نومبر کو ہوتے تھے لیکن اب سیاسی درجہ حرارت میں اضافے نے اسے تعطل میں ڈال دیا ہے۔ جس سے مافیاز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کرنسی بھی کمزور ہو رہی ہے اور ڈالر مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ کس طرح ان صنعتوں کو رواں دواں رکھا جائے۔ درآمدی خام مال استعمال کرکے برآمدات کے آرڈرز پورے کرتے ہیں۔
گیس کی فراہمی کے علاوہ بار بار بجلی نرخوں میں اضافہ نے ملک بھر کے صارفین، صنعتی اداروں کو سخت متاثر کردیا ہے۔ نتیجتاً برآمدی لاگت بڑھنے سے ہر ماہ برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ملک کی معاشی پالیسی سے تمام ابہام کو دورکرکے واضح معاشی پالیسی کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔