پاکستانی نژاد عرب امارات کے شہری کی 28شادیاں93بچے
خواہش ہے100بچے ہوں، امارات حکومت خصوصی فنڈز دیتی ہے، داد محمد
پاکستانی نژاد عرب امارات کے شہری 64 سالہ داد محمد مراد عبدالرحمٰن نے 28 شادیاں کیں جن سے 93 بچے ہیں، ''میرا مشن ہے کہ 100 بچے ہوں، تین بیویاں امید سے ہیں، برطانیہ، عرب امارات کی حکومتوں نے خصوصی فنڈز دیے۔
بڑا بیٹا 38 سال کا، سب سے چھوٹی بچی کی عمر تین ماہ ہے''۔ کراچی پریس کلب میں ایکسپریس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے خوش اخلاق اور خوش گفتار داد محمد مراد عبدالرحمٰن نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر ایرانی ہوت بلوچ ہیں تاہم ان کی پیدائش 8 اگست 1948 کو سندھ کے شہر میرپور خاص میں ہوئی تھی جس کے بعد ان کے والدین گوادر چلے گئے، اس وقت گوادر مسقط کے والی عبداﷲ کے ماتحت تھا۔ 1955 میں ہم لوگ مسقط چلے گئے جہاں پر آباد ہوگئے،
داد محمد مراد عبدالرحمٰن کی سب سے آخری شادی 8 جولائی 2012 کو انیلا بنت محمد رسول جان کے ساتھ نیو سعید آباد ٹاؤن منوڑہ کینٹ کراچی غربی میں ہوئی جبکہ ان کی پہلی شادی 28 سال کی عمر میں کراچی کے علاقے ملیر میں ہوئی تھی، 93 بچوں میں سے 49 بیٹے جبکہ 44 لڑکیاں ہیں، 38 سالہ بڑے صاحبزادے کا نام ایوب داد محمد مراد جبکہ تین ماہ کی بچی کا نام معضیٰ ہے، کیا آپ کو اپنے بچوں کے نام یاد ہیں؟ اس سوال کے جواب میں داد محمد مراد کا کہنا تھا کہ ان کو اپنے بچوں کے نام یاد نہیں تاہم وہ اپنی بیویوں کی مدد سے بچوں کو یاد رکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں، 16 بیٹے اور 5 بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، بیٹوں میں سے اکثریت کی دو سے تین شادیاں اور پانچ سے زائد بچے ہیں جس کے باعث ہمارا خاندان 150 سے زائد افراد پر مشتمل ہے،
60 سے زائد نوکر اور ڈرائیور ہیں جس کے باعث ہمارے خاندان میں روزانہ 250 افراد کا کھانا بنتا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں ایک ٹانگ سے محروم ہوں، کراچی میں سڑک حادثے کے دوران 1995 میں میری ٹانگ کاٹ دی گئی تھی تاہم اب انڈیا جے پور جا رہا ہوں جہاں پر اپنی ٹانگ کا علاج کرانے کے ساتھ ساتھ ایک شادی بھی کروں گا، انھوں نے بتایا کہ آٹھ بیویاں اب بھی حیات ہیں جبکہ باقیوں میں کچھ انتقال کر چکی ہیں اور بعض کو طلاق دے چکا ہوں، انھوں نے کہا کہ جو خواتین بچے پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے محروم یا عمر رسیدہ ہو جاتی ہیں ان کو طلاق دیتا ہوں، میری صحت کا راز یہ ہے کہ میں ہر سال تین بیویاں تبدیل کرتا ہوں،
انگریزی، اردو، عربی، فارسی، ہندی، سندھی، بلوچی سمیت 12 زبانیں بولنے والے داد محمد مراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی بھی برگر، چٹ پٹے کھانے نہیں کھائے اور نہ ہی وہ ہوٹل کا کھانا کھاتے ہیں وہ زیادہ تر گوشت کھاتے ہیں جو گھر پر بکرے کاٹ کر پکایا جاتا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے مسلمان لڑکیوں سے شادی کی تاہم ایک بیوی عیسائی ہیں جن سے انھوں نے انڈیا میں گووا میں شادی کی تھی تاہم سکھ لڑکی کے ساتھ بھی شادی کا خواہشمند ہوں، انھوں نے بتایا کہ بچوں کو پالنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اگر سو بچے اور بھی ہو جائیں تو بھی مسئلہ نہیں کیونکہ ہر بچے کی پیدائش پر یو اے ای کی حکومت فنڈز میں مزید اضافہ کرتی ہے،
برطانیہ کی حکومت نے انھیں ایک کروڑ ریال فراہم کیے تھے جبکہ ان کو برطانوی حکومت نے یہ سہولت فراہم کی ہے کہ وہ یورپ کے کسی بھی ملک میں جائے ان کا ٹکٹ اور ویزہ برطانوی حکومت فراہم کرتی ہے، اپنی جوانی برقرار رکھنے کے راز بتاتے ہوئے داد محمد مراد نے کہا کہ شادیوں سے انسان کی مینٹیننس ہوتی ہے، بیوی سے بہتر کوئی خوراک یا فروٹ نہیں، زندگی بھر کبھی شراب پیا اور نہ سگریٹ کو ہاتھ لگایا، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ عرب امارات میں ان کے 16 گھر ہیں جن میں مختلف بیویوں کو رکھا ہوا ہے صرف مسقط میں چھ گھر ہیں جبکہ مرکزی گھر اجمان میں ہے، ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ ''ایک بیوی کو دوسری کی ہوا لگے تو معاملہ خراب ہوتا ہے اس لیے سب کو علیحدہ گھروں میں رکھتا ہوں''۔
بڑا بیٹا 38 سال کا، سب سے چھوٹی بچی کی عمر تین ماہ ہے''۔ کراچی پریس کلب میں ایکسپریس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے خوش اخلاق اور خوش گفتار داد محمد مراد عبدالرحمٰن نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر ایرانی ہوت بلوچ ہیں تاہم ان کی پیدائش 8 اگست 1948 کو سندھ کے شہر میرپور خاص میں ہوئی تھی جس کے بعد ان کے والدین گوادر چلے گئے، اس وقت گوادر مسقط کے والی عبداﷲ کے ماتحت تھا۔ 1955 میں ہم لوگ مسقط چلے گئے جہاں پر آباد ہوگئے،
داد محمد مراد عبدالرحمٰن کی سب سے آخری شادی 8 جولائی 2012 کو انیلا بنت محمد رسول جان کے ساتھ نیو سعید آباد ٹاؤن منوڑہ کینٹ کراچی غربی میں ہوئی جبکہ ان کی پہلی شادی 28 سال کی عمر میں کراچی کے علاقے ملیر میں ہوئی تھی، 93 بچوں میں سے 49 بیٹے جبکہ 44 لڑکیاں ہیں، 38 سالہ بڑے صاحبزادے کا نام ایوب داد محمد مراد جبکہ تین ماہ کی بچی کا نام معضیٰ ہے، کیا آپ کو اپنے بچوں کے نام یاد ہیں؟ اس سوال کے جواب میں داد محمد مراد کا کہنا تھا کہ ان کو اپنے بچوں کے نام یاد نہیں تاہم وہ اپنی بیویوں کی مدد سے بچوں کو یاد رکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں، 16 بیٹے اور 5 بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، بیٹوں میں سے اکثریت کی دو سے تین شادیاں اور پانچ سے زائد بچے ہیں جس کے باعث ہمارا خاندان 150 سے زائد افراد پر مشتمل ہے،
60 سے زائد نوکر اور ڈرائیور ہیں جس کے باعث ہمارے خاندان میں روزانہ 250 افراد کا کھانا بنتا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں ایک ٹانگ سے محروم ہوں، کراچی میں سڑک حادثے کے دوران 1995 میں میری ٹانگ کاٹ دی گئی تھی تاہم اب انڈیا جے پور جا رہا ہوں جہاں پر اپنی ٹانگ کا علاج کرانے کے ساتھ ساتھ ایک شادی بھی کروں گا، انھوں نے بتایا کہ آٹھ بیویاں اب بھی حیات ہیں جبکہ باقیوں میں کچھ انتقال کر چکی ہیں اور بعض کو طلاق دے چکا ہوں، انھوں نے کہا کہ جو خواتین بچے پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے محروم یا عمر رسیدہ ہو جاتی ہیں ان کو طلاق دیتا ہوں، میری صحت کا راز یہ ہے کہ میں ہر سال تین بیویاں تبدیل کرتا ہوں،
انگریزی، اردو، عربی، فارسی، ہندی، سندھی، بلوچی سمیت 12 زبانیں بولنے والے داد محمد مراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی بھی برگر، چٹ پٹے کھانے نہیں کھائے اور نہ ہی وہ ہوٹل کا کھانا کھاتے ہیں وہ زیادہ تر گوشت کھاتے ہیں جو گھر پر بکرے کاٹ کر پکایا جاتا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے مسلمان لڑکیوں سے شادی کی تاہم ایک بیوی عیسائی ہیں جن سے انھوں نے انڈیا میں گووا میں شادی کی تھی تاہم سکھ لڑکی کے ساتھ بھی شادی کا خواہشمند ہوں، انھوں نے بتایا کہ بچوں کو پالنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اگر سو بچے اور بھی ہو جائیں تو بھی مسئلہ نہیں کیونکہ ہر بچے کی پیدائش پر یو اے ای کی حکومت فنڈز میں مزید اضافہ کرتی ہے،
برطانیہ کی حکومت نے انھیں ایک کروڑ ریال فراہم کیے تھے جبکہ ان کو برطانوی حکومت نے یہ سہولت فراہم کی ہے کہ وہ یورپ کے کسی بھی ملک میں جائے ان کا ٹکٹ اور ویزہ برطانوی حکومت فراہم کرتی ہے، اپنی جوانی برقرار رکھنے کے راز بتاتے ہوئے داد محمد مراد نے کہا کہ شادیوں سے انسان کی مینٹیننس ہوتی ہے، بیوی سے بہتر کوئی خوراک یا فروٹ نہیں، زندگی بھر کبھی شراب پیا اور نہ سگریٹ کو ہاتھ لگایا، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ عرب امارات میں ان کے 16 گھر ہیں جن میں مختلف بیویوں کو رکھا ہوا ہے صرف مسقط میں چھ گھر ہیں جبکہ مرکزی گھر اجمان میں ہے، ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ ''ایک بیوی کو دوسری کی ہوا لگے تو معاملہ خراب ہوتا ہے اس لیے سب کو علیحدہ گھروں میں رکھتا ہوں''۔