معیشت اور عالمی امداد

پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے بارڈر سیکیورٹی کا فول پروف سسٹم ہونا چاہیے

پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے بارڈر سیکیورٹی کا فول پروف سسٹم ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

عالمی بینک کی رپورٹ کے حوالے سے میڈیا نے بتیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کے مشترکہ خطرات ختم نہ کیے گئے تو پاکستانی معیشت پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی 2050 تک 18 سے 20 فیصد تک کم ہوسکتی ہے،جب کہ پانی کی قلت کے باعث زرعی پیداوار میں میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے موسمیاتی تبدیلی کے باعث غیر زرعی مقاصد کے لیے پانی کے استعمال میں اضافے کا امکان ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرم موسم کے باعث طلب میں 15 فیصد اضافہ ہوگا۔

عالمی بینک کی رپورٹ پاکستان کے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کی کافی ہونی چاہیے۔پانی کی قلت کے حوالے سے بھی ماہرین برسوں سے انتباہ کررہے ہیں لیکن پانی کے ضیایع اور ذخائرہ کی تعمیر پھر کوئی توجہ نہیں دی گی ہے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ کوپ 27 کانفرنس نے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ فنڈز بروڈ ڈونر بیس (وسیع عطیہ کنندگان کی بنیاد) پر فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستان کے لیے یہ غیرمعمولی اقدام ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے شفاف اعدادوشمار کی تیار انتہائی ضروری ہے۔

ادھر یہ خبر ہے کہ وزارتِ خزانہ آیندہ ہفتے آئی ایم ایف کو حالیہ سیلاب سے متعلق اخراجات کی تمام مطلوبہ تفصیلات آیندہ ہفتے فراہم کر دے گی جس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے حالیہ سیلاب کے اعدوشمار پر مبنی تمام تفصیلات طلب کی ہیں۔

رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی اقتصادی کارکردگی سے متعلق اعدادوشمار پہلے ہی آئی ایم ایف کو دیے جاچکے ہیں،اب آئی ایم ایف نے سیلاب سے متعلق اخراجات کی تفصیلات سمیت بحالی اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو پر آنے والے اخراجات کی تفصیلات مانگی ہیں ۔پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے کام جلد ازجلد مکمل کرنا چاہیے تاکہ آئی ایم ایف کی ڈیڈ لائن پوری کی جاسکے ۔

پاکستان کو اپنی معیشت کی بہتری کے لیے سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس سسٹم کو بھی جدید تقاضوں سے ہم کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں آدھی معاشی سرگرمیاں بغیر ٹیکس سے چل رہے ہیں،پاکستانی ٹیکس پیئرز کو سوچنا چاہیے کہ ملک کی معیشت میں ان کا حصہ ہونا چاہیے، انھوں نے کہا کہ ایف بی آر کو نئے ٹیکس نادہندگان کو رجسٹر کرنا چاہیے۔

مرتصی جاوید عباسی نے بتایا کہ حالیہ سیلاب کے بعد ابھی نقصان کا حتمی تخمینہ نہیں لگایا جا سکا ہے، پنجاب اور گلگت بلتستان میں نقصانات کا تخمینہ مکمل ہو چکا ہے،سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ابھی تک پانی نہیں اترا،اس لیے سروے مکمل نہیں ہو سکا، مکمل ڈیٹا پی ڈی ایم اے کے پاس موجود ہو گا،پہلے مرحلے میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز نے جاں بحق ہونے والوں کا تخمینہ لگایا تھاجس کے بعد متاثرہ خاندانوں کو ادائیگیاں بھی کر دی گئی۔


وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ورلڈ بینک کی مشاورت سے فیصلہ کیا ہے کہ 12.5 ایکڑ اراضی رکھنے والے چھوٹے کاشتکاروں کو بیج اور کھاد کے لیے زیادہ رقم فراہم کی جائے گی نیز 5000 روپے فی ایکڑ ادائیگی کا فیصلہ ہوا ہے۔

یہ بات ورلڈ بینک کے ریجنل ڈائریکٹر جان روم کے ساتھ ایک ملاقات میں سامنے آئی جو حالیہ سیلاب میں اپنے گھروں سے محروم ہونے والے چھوٹے کسانوں اور گھرانوں کے سروے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے وضع کردہ طریقہ کار کا معائنہ کرنے آئے تھے۔

پاکستان کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے فرانس کی زیر قیادت انٹرنیشنل ڈونرز کانفرنس رواں ماہ منعقد نہیں ہو گی کیونکہ بحالی اور تعمیر نو کا فریم ورک تاحال مشاورتی مرحلے میں ہے۔ اس فریم ورک کو آئی ایم ایف کو اپنا مشن پاکستان بھیجنے کے لیے قائل کرنا ہے اور انٹرنشنل ڈونرز کانفرنس کا انعقاد بھی کرانا ہے۔

واضح رہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو مالی مدد کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کے تعاون سے عالمی ڈونرز کانفرنس منعقد کرنے کی پیشکش کر رکھی ہے۔

گزشتہ ماہ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ توقع ہے ڈونرزکانفرنس سال کے آخر میں یا نومبر میں ہوگی لیکن لگتا ہے کہ ڈونرز کانفرنس 20 دسمبر سے پہلے نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے شرم الشیخ میںCOP27 موسمیاتی کانفرنس سے پہلے اپنے کیس میں پرزور استدعا کی تھی اور دنیا پر زور دیا تھاکہ وہ پاکستان کی مددکرے کیونکہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے درآمدی بل میں کمی کے لیے غیر ضروری و لگژری درآمدی اشیاء کی حوصلہ شکنی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں رواں مالی سال 2022-23کے پہلے چار ماہ(جولائی تا اکتوبر) کے دوران موبائل فون کی درآمدات میں 65 فیصد جب کہ کاروں کی درآمدات میں 80 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جس سے ملک کے تجارتی خسارے میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ سے واضع ہورہا ہے کہ غیر ضروری لگژری درآمدی اشیاء کی حوصلہ شکنی کی حکومتی کوششیں کامیاب ہورہی ہیں جس کے باعث مالی سال کے پہلے چار ماہ میں موبائل فونز اور کاروں کی درآمد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے عرصے میں 22 کروڑ 60 لاکھ ڈالر یعنی 50 ارب 41 کروڑ روپے کے موبائل فون درآمد کیے گئے، جب کہ گزشتہ سال اسی مدت میں 64 کروڑ 46 لاکھ ڈالر کے فون درآمد ہوئے تھے۔خیبر پختونخوا میں طورخم پر 2 اسمگلروں سے40 ہزار ڈالر کی رقم پکڑی گئی ہے۔

پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے بارڈر سیکیورٹی کا فول پروف سسٹم ہونا چاہیے تاکہ اسمگلنگ کے ناسور کا خاتمہ کیا جاسکتے ، اس کے ساتھ منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے بھی سخت جدوجہد کی ضرورت ہے۔

 
Load Next Story