انتہا پسندی ہم اور ہماری جامعات
جوابی بیانیہ تشکیل دینے سے پہلے ہمیں سماج اور نوجوانوں کے ذہنوں میں موجود انتہا پسندی کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا
21 ویں صدی بلاشبہ بے رحم مقابلے کی صدی ہے جہاں صرف غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والی اقوام ہی کامیاب ہوں گی۔ دنیا نے جتنی تیز رفتار سماجی و ثقافتی تبدیلیوں کا سامنا صرف اس ایک صدی میں کیا شاید ہی ماضی میں اس کی مثال موجود ہو۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور انفارمیشن کے بہاؤ نے جہاں روایتی معیشت کو تبدیل کردیا وہیں دیگر شعبہ ہائے زندگی بھی اس کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے بہاؤ نے سیکیورٹی اور دفاع کی روایتی تعریف کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ مستقبل نئے امکانات کے ساتھ ساتھ نئے چیلنجز بھی لے کر آرہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے سیکیورٹی سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ جنگوں کی نوعیت یکسر بدل چکی ہے۔ اب ماضی کی طرح جنگیں بھاری بھرکم افواج یا اسلحے کے بل بوتے پر نہیں بلکہ بیانیے کی قوت سے نفسیاتی طور پر لڑی جاتی ہے۔
کوئی بھی ریاست بجائے بھاری بھرکم فوج اور اسلحے پر اربوں کھربوں لگانے کے بجائے با آسانی دشمن کو صرف بیانیے اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے سیاسی اور سفارتی سطح پرکنارے لگا سکتی ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے اسی انتہا پسندی کے بیانیے کو ہمارے خلاف ایف اے ٹی ایف، آئی اے ای اے ، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی ، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں بارہا استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت کے ان نفسیاتی اور سفارتی حربوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی سطح پرکاؤنٹر بیانیہ تشکیل دیا جاتا ، بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا اس حوالے سے مختلف بین الاقوامی فورمز پر رویہ ہمیشہ معذرت خواہانہ اور دبا دبا نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے کہنا پڑے گا کہ بیانیے کی اس جنگ کا مقابلہ کرنا تو دورکی ہماری جامعات اور ان میں زیر تعلیم طلباء خود انتہا پسندی کے عفریت کا شکار بن رہے ہیں۔
تعلیمی درس گاہیں اور جامعات ایسے فورمز ہوتے ہیں جہاں آپ مختلف موضوعات اور مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ آپ کے سامنے ایک مثال رکھتی ہوں۔ 9/11 امریکی تاریخ کا سب سے بھیانک حملہ تھا۔ اس حملے کے بعد امریکی حکومت نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغازکیا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور 9/11 کے واقعے پر امریکی ردعمل سے متعلق سب سے زیادہ مباحثے اور ڈائیلاگ امریکی جامعات میں ہوا۔
دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے خلاف سب سے مؤثر تنقیدی آوازیں بھی امریکی جامعات سے ہی سامنے آئیں۔ عالمی دہشت گردی کو ہر حال میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے متفقہ قومی کے تشکیل پانے کے بعد امریکی قوم نے مسلسل 20 سال عالمی دہشتگردی کے خاتمے کو ترجیح میں رکھا۔ آپ اس دوران دنیا بھر چھپنے والا لٹریچر ، اخبارات ، جرائد اور رسالے اٹھا کر دیکھ لیں۔
ان میں لکھنے والے امریکی اسکالرز ، رائٹرز ، ناول نگاروں اور صحافیوں کی اکثریت کا موضوع دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ اور امریکی کا قائدانہ کردار نظر آئے گا۔ یعنی عالمی دہشتگردی کے خلاف امریکا کے قومی بیانیے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار امریکی جامعات ، پروفیسرز ، لکھاری ، ادیب اور صحافیوں کا نظر آئے گا۔ امریکی معاشرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہاں تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
دہشتگردی کے خلاف متفقہ قومی بیانیہ ہونے کے باوجود اس جنگ میں جہاں جہاں انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں ہوئی ان پر سب سے زیادہ تنقید بھی امریکی سماج کے اندر سے ہوئی۔ ہمارے ہاں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان دہشتگردی کی جنگ میں امریکی اتحادی ہونے کے باوجود ایک طرف خود بدترین دہشتگردی کا شکار رہا۔
دوسری طرف امریکی ڈرون حملوں کی صورت پاکستان کے ہی سیکڑوں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں۔اس کے باوجود دنیا بھر میں پاکستان کا امیج دہشتگردوں کی حمایت کرنیوالے ملک کا مشہور ہوگیا۔ مغرب اور امریکا کے اس بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی سطح پرکیا کوششیں کی گئیں ؟
اکیڈمک لیول پر ہمارے ریسرچ اسکالرز نے بین الاقوامی سطح کے مقالے لکھے؟ کتنے لکھاریوں نے بین الاقوامی اخبارات میں مغرب کے اینٹی اسلام اور اینٹی پاکستان بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے آرٹیکل لکھے ؟ بہت افسوس سے کہنا پڑے گا بیانیے کی جنگ میں ہم آج بھی اپنے دشمن سے کئی سال پیچھے ہیں۔ ہماری آبادی کا 60 فیصد یعنی نصف سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہی نوجوان ہمارے ملک و قوم کا مستقبل ہیں جنھوں نے آگے چل کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پڑھے لکھے نوجوان سب سے زیادہ انتہا پسندی کا شکار ہیں۔
ہماری جامعات اور وہاں پڑھانیوالے اساتذہ کی اکثریت میں سب کی بات نہیں کر رہی انتہا پسندی جیسے عفریت کے خلاف نوجوانوں کی ذہن سازی اور بیانیے کی تشکیل میں قطعی طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔جامعہ کراچی میں چینی پروفیسرز کی گاڑی پر خودکش حملہ کرنیوالی خاتون دہشتگرد ہو یا سانحہ صفورا گوٹھ میں ملوث اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر دہشتگرد بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر دہشتگردی کے حملوں میں ملوث طالب علمہو، طلباء کی ذہن سازی اور کردار سازی میں ناکامی کی ذمے دار ہماری ریاست سے پہلے ہماری جامعات اور پڑھانیوالے اساتذہ ہیں۔
عام لوگوں کی تو کیا بات کی جائے جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنیوالے نوجوانوں کی اکثریت بھی بنیاد پرستی سے متاثر ہے۔ مسائل کا ادراک مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے ، جب تک ہم بنیادی مسائل کا ادراک کرکے ان کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک کبھی مسائل کے حل کی طرف آگے نہیں بڑھ سکتے۔
جوابی بیانیہ تشکیل دینے سے پہلے ہمیں سماج اور نوجوانوں کے ذہنوں میں موجود انتہا پسندی کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، اس کے بعد جامعات میں مختلف موضوعات پر مباحثوں کے فروغ ، ثقافتی تقریبات اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی سے ہم با آسانی انتہا پسندی کو شکست دے سکتے ہیں، جب تک ہم نوجوانوں اور سماج کی مختلف تہوں میں موجود انتہا پسندی پر قابو نہیں پالیتے تب تک دشمن کے بیانیے کا توڑکرنا یا جواب دینا ناممکن حد تک مشکل ہوگا۔
اس میں سب سے اہم کردار ہماری جامعات اور اساتذہ کا ہے۔ جب تک ہماری جامعات میں تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی اور بنیاد پرستی کا خاتمہ نہیں ہوتا ، تب تک سماج سے انتہا پسندی کا خاتمہ اور دشمن کے بیانیے کا جواب ناممکن حد تک مشکل ہوگا۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور انفارمیشن کے بہاؤ نے جہاں روایتی معیشت کو تبدیل کردیا وہیں دیگر شعبہ ہائے زندگی بھی اس کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے بہاؤ نے سیکیورٹی اور دفاع کی روایتی تعریف کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ مستقبل نئے امکانات کے ساتھ ساتھ نئے چیلنجز بھی لے کر آرہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے سیکیورٹی سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ جنگوں کی نوعیت یکسر بدل چکی ہے۔ اب ماضی کی طرح جنگیں بھاری بھرکم افواج یا اسلحے کے بل بوتے پر نہیں بلکہ بیانیے کی قوت سے نفسیاتی طور پر لڑی جاتی ہے۔
کوئی بھی ریاست بجائے بھاری بھرکم فوج اور اسلحے پر اربوں کھربوں لگانے کے بجائے با آسانی دشمن کو صرف بیانیے اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے سیاسی اور سفارتی سطح پرکنارے لگا سکتی ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے اسی انتہا پسندی کے بیانیے کو ہمارے خلاف ایف اے ٹی ایف، آئی اے ای اے ، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی ، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں بارہا استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت کے ان نفسیاتی اور سفارتی حربوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی سطح پرکاؤنٹر بیانیہ تشکیل دیا جاتا ، بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا اس حوالے سے مختلف بین الاقوامی فورمز پر رویہ ہمیشہ معذرت خواہانہ اور دبا دبا نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے کہنا پڑے گا کہ بیانیے کی اس جنگ کا مقابلہ کرنا تو دورکی ہماری جامعات اور ان میں زیر تعلیم طلباء خود انتہا پسندی کے عفریت کا شکار بن رہے ہیں۔
تعلیمی درس گاہیں اور جامعات ایسے فورمز ہوتے ہیں جہاں آپ مختلف موضوعات اور مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ آپ کے سامنے ایک مثال رکھتی ہوں۔ 9/11 امریکی تاریخ کا سب سے بھیانک حملہ تھا۔ اس حملے کے بعد امریکی حکومت نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغازکیا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور 9/11 کے واقعے پر امریکی ردعمل سے متعلق سب سے زیادہ مباحثے اور ڈائیلاگ امریکی جامعات میں ہوا۔
دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے خلاف سب سے مؤثر تنقیدی آوازیں بھی امریکی جامعات سے ہی سامنے آئیں۔ عالمی دہشت گردی کو ہر حال میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے متفقہ قومی کے تشکیل پانے کے بعد امریکی قوم نے مسلسل 20 سال عالمی دہشتگردی کے خاتمے کو ترجیح میں رکھا۔ آپ اس دوران دنیا بھر چھپنے والا لٹریچر ، اخبارات ، جرائد اور رسالے اٹھا کر دیکھ لیں۔
ان میں لکھنے والے امریکی اسکالرز ، رائٹرز ، ناول نگاروں اور صحافیوں کی اکثریت کا موضوع دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ اور امریکی کا قائدانہ کردار نظر آئے گا۔ یعنی عالمی دہشتگردی کے خلاف امریکا کے قومی بیانیے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار امریکی جامعات ، پروفیسرز ، لکھاری ، ادیب اور صحافیوں کا نظر آئے گا۔ امریکی معاشرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہاں تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
دہشتگردی کے خلاف متفقہ قومی بیانیہ ہونے کے باوجود اس جنگ میں جہاں جہاں انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں ہوئی ان پر سب سے زیادہ تنقید بھی امریکی سماج کے اندر سے ہوئی۔ ہمارے ہاں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان دہشتگردی کی جنگ میں امریکی اتحادی ہونے کے باوجود ایک طرف خود بدترین دہشتگردی کا شکار رہا۔
دوسری طرف امریکی ڈرون حملوں کی صورت پاکستان کے ہی سیکڑوں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں۔اس کے باوجود دنیا بھر میں پاکستان کا امیج دہشتگردوں کی حمایت کرنیوالے ملک کا مشہور ہوگیا۔ مغرب اور امریکا کے اس بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی سطح پرکیا کوششیں کی گئیں ؟
اکیڈمک لیول پر ہمارے ریسرچ اسکالرز نے بین الاقوامی سطح کے مقالے لکھے؟ کتنے لکھاریوں نے بین الاقوامی اخبارات میں مغرب کے اینٹی اسلام اور اینٹی پاکستان بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے آرٹیکل لکھے ؟ بہت افسوس سے کہنا پڑے گا بیانیے کی جنگ میں ہم آج بھی اپنے دشمن سے کئی سال پیچھے ہیں۔ ہماری آبادی کا 60 فیصد یعنی نصف سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہی نوجوان ہمارے ملک و قوم کا مستقبل ہیں جنھوں نے آگے چل کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پڑھے لکھے نوجوان سب سے زیادہ انتہا پسندی کا شکار ہیں۔
ہماری جامعات اور وہاں پڑھانیوالے اساتذہ کی اکثریت میں سب کی بات نہیں کر رہی انتہا پسندی جیسے عفریت کے خلاف نوجوانوں کی ذہن سازی اور بیانیے کی تشکیل میں قطعی طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔جامعہ کراچی میں چینی پروفیسرز کی گاڑی پر خودکش حملہ کرنیوالی خاتون دہشتگرد ہو یا سانحہ صفورا گوٹھ میں ملوث اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر دہشتگرد بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر دہشتگردی کے حملوں میں ملوث طالب علمہو، طلباء کی ذہن سازی اور کردار سازی میں ناکامی کی ذمے دار ہماری ریاست سے پہلے ہماری جامعات اور پڑھانیوالے اساتذہ ہیں۔
عام لوگوں کی تو کیا بات کی جائے جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنیوالے نوجوانوں کی اکثریت بھی بنیاد پرستی سے متاثر ہے۔ مسائل کا ادراک مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے ، جب تک ہم بنیادی مسائل کا ادراک کرکے ان کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک کبھی مسائل کے حل کی طرف آگے نہیں بڑھ سکتے۔
جوابی بیانیہ تشکیل دینے سے پہلے ہمیں سماج اور نوجوانوں کے ذہنوں میں موجود انتہا پسندی کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، اس کے بعد جامعات میں مختلف موضوعات پر مباحثوں کے فروغ ، ثقافتی تقریبات اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی سے ہم با آسانی انتہا پسندی کو شکست دے سکتے ہیں، جب تک ہم نوجوانوں اور سماج کی مختلف تہوں میں موجود انتہا پسندی پر قابو نہیں پالیتے تب تک دشمن کے بیانیے کا توڑکرنا یا جواب دینا ناممکن حد تک مشکل ہوگا۔
اس میں سب سے اہم کردار ہماری جامعات اور اساتذہ کا ہے۔ جب تک ہماری جامعات میں تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی اور بنیاد پرستی کا خاتمہ نہیں ہوتا ، تب تک سماج سے انتہا پسندی کا خاتمہ اور دشمن کے بیانیے کا جواب ناممکن حد تک مشکل ہوگا۔