کیا ترکی دہشت گردی کا شکار ہے
ترکی میں انتشارکی صورتحال اشارہ کررہی ہے اورسوال اٹھارہی ہے کہ کیاواقعی دوواضح طاقتیں مذہبی بنیادوں پراٹھنے کاعندیہ ہے
13 نومبرکی شام ترکی کے شہر استنبول کے تقسیم اسکوائرکی تاریخی استقلال اسٹریٹ پرگہما گہمی کا سا سماں تھا۔ تب ہی اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز گونجتی ہے، دھوئیں کے بادل ابھرتے ہیں اور جب چند لمحوں میں ماحول دیکھنے کے قابل ہوتا ہے تو زخمی انسان اور چیخ و پکار کی آوازیں ابھرتی نظر آتی ہیں، خون میں نہائے انسان مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ اچانک یہ کیا ہوگیا تھا۔
ایک خودکش دھماکا ، دہشت گردی کی گھناؤنی واردات ، انجام پائی جس میں کئی جانیں تلف ہوئیں اور 84 کے قریب افراد زخمی ہوگئے۔ ایک اطلاع کے مطابق دھماکے سے چند منٹوں پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق ایک خاتون کو دھماکے کی جگہ پر ایک بنچ پر بیٹھا دیکھا گیا تھا اور پھر وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھیں لیکن وہاں پر ایک شاپنگ بیگ رکھا ہوا تھا۔ خیال ہے کہ اسی بیگ میں دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے گھناؤنا عمل قرار دیا۔
اس خوفناک واردات میں پولیس نے پچاس لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو شک کے زمرے میں آتے ہیں، ان لوگوں میں وہ خاتون بھی شامل ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ وہی خاتون ہیں جو دھماکے سے کچھ وقت قبل بینچ پر بیٹھی تھیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کرد ہیں۔
سرکاری وزیر ڈیریا یانیک نے جوکہ سرکاری وزارت میں شامل ہیں اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ '' ان کی جوان بیٹی بھی اس خطرناک دھماکے کا شکار بن گئی۔'' بی بی سی کی نامہ نگار اورلاگیورن جو اس وقت اسی علاقے میں موجود تھیں ان کے مطابق '' پولیس نے پورے علاقے کی ناکہ بندی کی تھی سائرن بج رہے تھے اور فضا میں ہیلی کاپٹر اڑ رہے تھے۔''
ترکی کے پرسکون، پرامن ماحول میں دہشت گردی کی یہ واردات انھی حالات کا پیش خیمہ ہے جو پچھلے چند مہینوں سے ایک ہاٹ ٹاپک کے طور پر ابھرا ہے۔ ایران میں بائیس سالہ مسااچنی کرد خاتون کے حجاب کی خلاف ورزی پر پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے جو مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس نے اب بظاہر ایک شعلے کی صورت دکھائی ہے، جو ایران سے اب ترکی کی جانب منتقل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ گو اس بات میں کوئی حقیقی عناصر نظر نہیں آتے لیکن یہ پرسکون اسلامی ممالک میں انتشار اور بدامنی کو ہوا دے رہے ہیں۔
یہ لیبل کرد علیحدگی پسند تنظیم پر لگتا ہے یا امریکا اور اس جیسی مغربی طاقتوں پر اس بات کا بھی تعین کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ دعویٰ قبل ازوقت کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن مفروضوں کی بنیاد پر اس میں انھی عناصر کو بنیادی حیثیت دی جاسکتی ہے کہ جس نے ایران سے لے کر دنیا بھر میں ایک عجیب سے رجحان کو ہوا دی ہے۔
دنیا بھر سے خواتین کے پلیٹ فارمز سے بڑے چھوٹے نام اپنے اپنے حصے ڈال کر تشہیری شہرت بھی حاصل کر رہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے اتنی شدت پسندی ظاہر کی جا رہی ہے جس سے سوائے نفسیاتی مسائل کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔ بات اگر صرف اینٹی حجاب تک ہی رہتی تو شاید یہ اپنی اپنی سوچ کے محور پر ہی رہتی لیکن اس آگ کو بھڑکانے والے کچھ اور سوچ رہے ہیں اور عمل درآمد تک کی پہنچ پر ہیں۔
کیا ترکی کو بھی ان شعلوں کی زد میں لانے کا پروگرام ہے جس کا یہ خطرناک ٹریلر تھا۔ کیونکہ ابھی تک ایک خاتون کو شک کی بنیاد پر زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔ ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے استنبول دھماکے کی ذمے دار کردستان ورکرز پارٹی کو قرار دیا ہے جب کہ ترکی میں ابلاغ عامہ کے ڈائریکٹر فحرتین التون نے کہا کہ ہماری ریاست کے تمام ادارے اور تنظیمیں اس واقعے کے حوالے سے تیز، باریک بیں اور موثر تحقیقات کر رہے ہیں۔
ایک اچھی بات جو اس قسم کے حادثوں میں بہت سے ذمے داروں کو باخبر رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں وہ ہے سوشل میڈیا، بصری اور آڈیو خبری ذرایع جس پر استنبول کریمنل کورٹ آف پیس نے دھماکے سے متعلق ان تمام پر پابندی لگا دی۔
اس طرح جرائم پیشہ اور حادثے کے ذمے داران ، سہولت کار تک وقتاً فوقتاً خبریں نہیں پہنچ سکیں گی اور تفتیشی کارروائیاں باآسانی انجام پاسکیں گی، کیونکہ بہت سے گمراہ کن مواد اور بیانات عوام میں انتشار پیدا کرسکتے ہیں، اسی لیے ترکی کے ابلاغ عامہ کے ڈائریکٹر فحرتین التون نے کہا ہے کہ ''ہم میڈیا اداروں کو ذمے دار بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے حاصل کردہ گمراہ کن مواد پر انحصار نہ کریں اور متعلقہ سرکاری حکام کے بیانات کو بنیادی ذریعہ برائے خبر بنائیں۔''
ایران کے بعد ترکی میں انتشار کی صورت حال اشارہ کر رہی ہے اور سوال اٹھا رہی ہے کہ کیا واقعی دو واضح طاقتیں مذہبی بنیادوں پر اٹھنے کا عندیہ ہے۔ بات اب مسلم اور اینٹی مسلم کے سوال پر بٹ رہی ہے اور جن ممالک میں جو کمزور مقامات یا اشارے نظر آ رہے ہیں اسی جانب سے وار کرنے اور بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی ترکیبیں سنی جا رہی ہیں۔
اتوار کو ترکی کی جانب سے پہلے بیانات میں امریکا اور یورپی یونین کو بھی الزامات کی زد میں دیکھا گیا تھا۔ کیا یہ محض افواہیں ہی ہیں یا اس کے پیچھے وہ عوامل بھی شامل ہیں جن پر شبہ کیا جانا ناگزیر تھا۔
انڈونیشیا میں ہونے والی جی ٹوئنٹی کی سمٹ کانفرنس سے پہلے دہشت گردی کی یہ واردات کیا پیغام دے رہی ہے کہ ترکی بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آسکتا ہے یا کالعدم کرد تنظیم اس قدر بااثر ہو چکی ہے جس کا شاخسانہ 13 نومبر کو مل گیا۔ ان دونوں باتوں میں کس حد تک صداقت شامل ہے اس کے اصل محرک کیا ہیں اور ان کے اصل منبع کہاں ہیں۔ امید ہے کہ یہ عقدہ بھی جلد ہی کھل جائے گا۔
آج اسرائیل ایک اچھا بزنس کرتے بظاہر بہت اچھا ہونے کا مظاہرہ کرتے بھی فلسطینی عوام کے لیے اسی طرح جارحانہ انداز لیے ہوئے ہے جس نے دنیا بھر میں اپنا مکروہ چہرہ اور چالیں تو دکھا ہی دی ہیں لیکن اپنی ہائی ٹیک سوسائٹی کو دنیا میں نمایاں کرتے ماضی کو بھلا دینے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔
پھر بھی اس کی جانب سے حالیہ فلسطینیوں کے خلاف خونی کارروائی سے خود کو نہ روک سکا تو کیا ترکی میں دہشت گردی میں وہ بھی اسٹاک ہولڈر ہے یا نہیں؟ سوال تو اٹھتا ہے۔ امید ہے کہ اصل ہاتھ جلد ہی سامنے آجائے گا اور پتا چل ہی جائے گا کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانے والے دو منہ والے صاحب لوگ خود کون ہیں؟
ایک خودکش دھماکا ، دہشت گردی کی گھناؤنی واردات ، انجام پائی جس میں کئی جانیں تلف ہوئیں اور 84 کے قریب افراد زخمی ہوگئے۔ ایک اطلاع کے مطابق دھماکے سے چند منٹوں پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق ایک خاتون کو دھماکے کی جگہ پر ایک بنچ پر بیٹھا دیکھا گیا تھا اور پھر وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھیں لیکن وہاں پر ایک شاپنگ بیگ رکھا ہوا تھا۔ خیال ہے کہ اسی بیگ میں دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے گھناؤنا عمل قرار دیا۔
اس خوفناک واردات میں پولیس نے پچاس لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو شک کے زمرے میں آتے ہیں، ان لوگوں میں وہ خاتون بھی شامل ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ وہی خاتون ہیں جو دھماکے سے کچھ وقت قبل بینچ پر بیٹھی تھیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کرد ہیں۔
سرکاری وزیر ڈیریا یانیک نے جوکہ سرکاری وزارت میں شامل ہیں اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ '' ان کی جوان بیٹی بھی اس خطرناک دھماکے کا شکار بن گئی۔'' بی بی سی کی نامہ نگار اورلاگیورن جو اس وقت اسی علاقے میں موجود تھیں ان کے مطابق '' پولیس نے پورے علاقے کی ناکہ بندی کی تھی سائرن بج رہے تھے اور فضا میں ہیلی کاپٹر اڑ رہے تھے۔''
ترکی کے پرسکون، پرامن ماحول میں دہشت گردی کی یہ واردات انھی حالات کا پیش خیمہ ہے جو پچھلے چند مہینوں سے ایک ہاٹ ٹاپک کے طور پر ابھرا ہے۔ ایران میں بائیس سالہ مسااچنی کرد خاتون کے حجاب کی خلاف ورزی پر پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے جو مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس نے اب بظاہر ایک شعلے کی صورت دکھائی ہے، جو ایران سے اب ترکی کی جانب منتقل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ گو اس بات میں کوئی حقیقی عناصر نظر نہیں آتے لیکن یہ پرسکون اسلامی ممالک میں انتشار اور بدامنی کو ہوا دے رہے ہیں۔
یہ لیبل کرد علیحدگی پسند تنظیم پر لگتا ہے یا امریکا اور اس جیسی مغربی طاقتوں پر اس بات کا بھی تعین کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ دعویٰ قبل ازوقت کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن مفروضوں کی بنیاد پر اس میں انھی عناصر کو بنیادی حیثیت دی جاسکتی ہے کہ جس نے ایران سے لے کر دنیا بھر میں ایک عجیب سے رجحان کو ہوا دی ہے۔
دنیا بھر سے خواتین کے پلیٹ فارمز سے بڑے چھوٹے نام اپنے اپنے حصے ڈال کر تشہیری شہرت بھی حاصل کر رہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے اتنی شدت پسندی ظاہر کی جا رہی ہے جس سے سوائے نفسیاتی مسائل کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔ بات اگر صرف اینٹی حجاب تک ہی رہتی تو شاید یہ اپنی اپنی سوچ کے محور پر ہی رہتی لیکن اس آگ کو بھڑکانے والے کچھ اور سوچ رہے ہیں اور عمل درآمد تک کی پہنچ پر ہیں۔
کیا ترکی کو بھی ان شعلوں کی زد میں لانے کا پروگرام ہے جس کا یہ خطرناک ٹریلر تھا۔ کیونکہ ابھی تک ایک خاتون کو شک کی بنیاد پر زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔ ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے استنبول دھماکے کی ذمے دار کردستان ورکرز پارٹی کو قرار دیا ہے جب کہ ترکی میں ابلاغ عامہ کے ڈائریکٹر فحرتین التون نے کہا کہ ہماری ریاست کے تمام ادارے اور تنظیمیں اس واقعے کے حوالے سے تیز، باریک بیں اور موثر تحقیقات کر رہے ہیں۔
ایک اچھی بات جو اس قسم کے حادثوں میں بہت سے ذمے داروں کو باخبر رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں وہ ہے سوشل میڈیا، بصری اور آڈیو خبری ذرایع جس پر استنبول کریمنل کورٹ آف پیس نے دھماکے سے متعلق ان تمام پر پابندی لگا دی۔
اس طرح جرائم پیشہ اور حادثے کے ذمے داران ، سہولت کار تک وقتاً فوقتاً خبریں نہیں پہنچ سکیں گی اور تفتیشی کارروائیاں باآسانی انجام پاسکیں گی، کیونکہ بہت سے گمراہ کن مواد اور بیانات عوام میں انتشار پیدا کرسکتے ہیں، اسی لیے ترکی کے ابلاغ عامہ کے ڈائریکٹر فحرتین التون نے کہا ہے کہ ''ہم میڈیا اداروں کو ذمے دار بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے حاصل کردہ گمراہ کن مواد پر انحصار نہ کریں اور متعلقہ سرکاری حکام کے بیانات کو بنیادی ذریعہ برائے خبر بنائیں۔''
ایران کے بعد ترکی میں انتشار کی صورت حال اشارہ کر رہی ہے اور سوال اٹھا رہی ہے کہ کیا واقعی دو واضح طاقتیں مذہبی بنیادوں پر اٹھنے کا عندیہ ہے۔ بات اب مسلم اور اینٹی مسلم کے سوال پر بٹ رہی ہے اور جن ممالک میں جو کمزور مقامات یا اشارے نظر آ رہے ہیں اسی جانب سے وار کرنے اور بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی ترکیبیں سنی جا رہی ہیں۔
اتوار کو ترکی کی جانب سے پہلے بیانات میں امریکا اور یورپی یونین کو بھی الزامات کی زد میں دیکھا گیا تھا۔ کیا یہ محض افواہیں ہی ہیں یا اس کے پیچھے وہ عوامل بھی شامل ہیں جن پر شبہ کیا جانا ناگزیر تھا۔
انڈونیشیا میں ہونے والی جی ٹوئنٹی کی سمٹ کانفرنس سے پہلے دہشت گردی کی یہ واردات کیا پیغام دے رہی ہے کہ ترکی بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آسکتا ہے یا کالعدم کرد تنظیم اس قدر بااثر ہو چکی ہے جس کا شاخسانہ 13 نومبر کو مل گیا۔ ان دونوں باتوں میں کس حد تک صداقت شامل ہے اس کے اصل محرک کیا ہیں اور ان کے اصل منبع کہاں ہیں۔ امید ہے کہ یہ عقدہ بھی جلد ہی کھل جائے گا۔
آج اسرائیل ایک اچھا بزنس کرتے بظاہر بہت اچھا ہونے کا مظاہرہ کرتے بھی فلسطینی عوام کے لیے اسی طرح جارحانہ انداز لیے ہوئے ہے جس نے دنیا بھر میں اپنا مکروہ چہرہ اور چالیں تو دکھا ہی دی ہیں لیکن اپنی ہائی ٹیک سوسائٹی کو دنیا میں نمایاں کرتے ماضی کو بھلا دینے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔
پھر بھی اس کی جانب سے حالیہ فلسطینیوں کے خلاف خونی کارروائی سے خود کو نہ روک سکا تو کیا ترکی میں دہشت گردی میں وہ بھی اسٹاک ہولڈر ہے یا نہیں؟ سوال تو اٹھتا ہے۔ امید ہے کہ اصل ہاتھ جلد ہی سامنے آجائے گا اور پتا چل ہی جائے گا کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانے والے دو منہ والے صاحب لوگ خود کون ہیں؟