پاکستان میں لاکھوں بچے تعلیم صحت اور تحفظ جیسے بنیادی حقوق سے محروم
بنیادی حقوق سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہ اسکی بڑی وجہ ہے
پاکستان میں بچوں کے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں بچے تعلیم، صحت اور تحفظ جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں، پنجاب میں آج تک بچوں کے حقوق سے متعلق پالیسی منظور نہیں کی جاسکی ہے۔
12 سالہ رشیدہ کا تعلق لاہور کے علاقہ شاہدرہ سے ہے، وہ سات بہن بھائی ہیں۔ اس بچی کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے جو اپنے جیسے دوسرے بچوں کے ساتھ ایک غیر رسمی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے رشیدہ نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھروں میں کام کرتی ہیں اور فارغ وقت میں اپنے علاقے میں قائم غیر رسمی اسکول میں پڑھنے آتی ہیں، وہ تیسری کلاس کی طالبہ ہیں۔ رشیدہ کے مطابق اسے سکول جانے کا بہت شوق ہے لیکن اس کے والد جوکہ محنت مزدوری کرتے ہیں ان کی اسکول فیس اور دیگر اخراجات ادا نہیں کرسکتے ہیں۔
شاہدرہ میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے بنائے گئے غیر رسمی اسکول اور مرکز میں رشیدہ سمیت درجنوں اور بھی مقامی بچے پڑھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے خانہ بدوش ہیں۔ یہاں پڑھنے والے محمد اسماعیل نے بتایا کہ کورونا کے دوران والد کا کاروبار بند ہوگیا تو تمام بہن بھائیوں نے اسکول چھوڑ دیا، وہ سارا دن اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ آوارہ گھومتا اور کھیلتا رہتا تھا لیکن اب گزشتہ چند ماہ سے وہ اس اسکول میں پڑھنے آتا ہے۔ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ معاشرے کا مفید شہری بن سکے۔
لاہور کے اس پسماندہ علاقے میں بچوں کو غیر رسمی تعلیم اور ہنرمندی میں مصروف سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہر نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ''اس علاقے میں اکثر نوجوان مختلف قسم کے نشے، جوا کھیلنے سمیت دیگر بری عادات میں مبتلا ہیں۔ بچے جب ان نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو ان پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ان بچوں کو نشے، جوئے، شراب اور سگریٹ نوشی، جیب تراشی، چوری جیسی عادات سے چھٹکارا دلائیں، یہ بچے بھیک نہ مانگیں بلکہ تعلیم حاصل کرکے ہنرمند بنیں۔
فاطمہ طاہر کے مطابق یہاں بچوں کو غیر رسمی تعلیم کے تحت مختلف کورس کروائے جاتے ہیں جس کے بعد وہ نویں اور دسویں کلاس میں کسی بھی اسکول میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کو بیوٹیشن اور سلائی کا ہنر سکھایا جاتا ہے، بچوں کو ایک وقت کا کھانا اور میڈیکل کی سہولت ہے۔ بچوں کو جدید طریقوں سے پڑھانے کے علاوہ ان کی بہتر طریقے سے تربیت بھی کی جاتی ہے۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ڈھائی کروڑ سے زائد جبکہ پنجاب میں 77 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں، پاکستان میں ہر سال 91 ہزار بچے نمونیا اور 53 ہزار سے زائد بچے اسہال کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار اور ہزاروں جنسی و جسمانی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب نے صورتحال کو مزید متاثر کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہیں ہوتا ہے، بچوں کے محفوظ اور روشن مستقبل کے لیے ٹھوس پالیسی سازی اور ان عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
بچوں کے حقوق کی کارکن راشدہ قریشی سمجھتی ہیں پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ فنڈز اور انفراسٹکچر کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ محکموں میں باہمی رابطوں کا فقدان ہے۔ ایک محکمہ پالیسی بناتا ہے لیکن جب عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پالیسی کسی دوسرے محکمے سے متصادم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ابھی تک بچوں کے حقوق سے متعلق پالیسی اسمبلی سے منظور نہیں ہوسکی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو جس کا کام لاوارث اور بے سہارا بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے والے اور گھروں میں کام کرنے والوں بچوں کو پکڑنے میں لگا ہے حالانکہ یہ پولیس اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ جب بھی کوئی پالیسی بنائی جائے تو اس پرعمل درآمد کے لیے دیگر لوازمات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
12 سالہ رشیدہ کا تعلق لاہور کے علاقہ شاہدرہ سے ہے، وہ سات بہن بھائی ہیں۔ اس بچی کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے جو اپنے جیسے دوسرے بچوں کے ساتھ ایک غیر رسمی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے رشیدہ نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھروں میں کام کرتی ہیں اور فارغ وقت میں اپنے علاقے میں قائم غیر رسمی اسکول میں پڑھنے آتی ہیں، وہ تیسری کلاس کی طالبہ ہیں۔ رشیدہ کے مطابق اسے سکول جانے کا بہت شوق ہے لیکن اس کے والد جوکہ محنت مزدوری کرتے ہیں ان کی اسکول فیس اور دیگر اخراجات ادا نہیں کرسکتے ہیں۔
شاہدرہ میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے بنائے گئے غیر رسمی اسکول اور مرکز میں رشیدہ سمیت درجنوں اور بھی مقامی بچے پڑھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے خانہ بدوش ہیں۔ یہاں پڑھنے والے محمد اسماعیل نے بتایا کہ کورونا کے دوران والد کا کاروبار بند ہوگیا تو تمام بہن بھائیوں نے اسکول چھوڑ دیا، وہ سارا دن اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ آوارہ گھومتا اور کھیلتا رہتا تھا لیکن اب گزشتہ چند ماہ سے وہ اس اسکول میں پڑھنے آتا ہے۔ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ معاشرے کا مفید شہری بن سکے۔
لاہور کے اس پسماندہ علاقے میں بچوں کو غیر رسمی تعلیم اور ہنرمندی میں مصروف سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہر نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ''اس علاقے میں اکثر نوجوان مختلف قسم کے نشے، جوا کھیلنے سمیت دیگر بری عادات میں مبتلا ہیں۔ بچے جب ان نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو ان پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ان بچوں کو نشے، جوئے، شراب اور سگریٹ نوشی، جیب تراشی، چوری جیسی عادات سے چھٹکارا دلائیں، یہ بچے بھیک نہ مانگیں بلکہ تعلیم حاصل کرکے ہنرمند بنیں۔
فاطمہ طاہر کے مطابق یہاں بچوں کو غیر رسمی تعلیم کے تحت مختلف کورس کروائے جاتے ہیں جس کے بعد وہ نویں اور دسویں کلاس میں کسی بھی اسکول میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کو بیوٹیشن اور سلائی کا ہنر سکھایا جاتا ہے، بچوں کو ایک وقت کا کھانا اور میڈیکل کی سہولت ہے۔ بچوں کو جدید طریقوں سے پڑھانے کے علاوہ ان کی بہتر طریقے سے تربیت بھی کی جاتی ہے۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ڈھائی کروڑ سے زائد جبکہ پنجاب میں 77 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں، پاکستان میں ہر سال 91 ہزار بچے نمونیا اور 53 ہزار سے زائد بچے اسہال کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار اور ہزاروں جنسی و جسمانی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب نے صورتحال کو مزید متاثر کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہیں ہوتا ہے، بچوں کے محفوظ اور روشن مستقبل کے لیے ٹھوس پالیسی سازی اور ان عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
بچوں کے حقوق کی کارکن راشدہ قریشی سمجھتی ہیں پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ فنڈز اور انفراسٹکچر کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ محکموں میں باہمی رابطوں کا فقدان ہے۔ ایک محکمہ پالیسی بناتا ہے لیکن جب عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پالیسی کسی دوسرے محکمے سے متصادم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ابھی تک بچوں کے حقوق سے متعلق پالیسی اسمبلی سے منظور نہیں ہوسکی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو جس کا کام لاوارث اور بے سہارا بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے والے اور گھروں میں کام کرنے والوں بچوں کو پکڑنے میں لگا ہے حالانکہ یہ پولیس اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ جب بھی کوئی پالیسی بنائی جائے تو اس پرعمل درآمد کے لیے دیگر لوازمات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔