زباں فہمی نمبر 164 اردو اراکانی اور چاٹگامی حصہ آخر
بنگال میں عربی رسم الخط میں بنگلہ زبان کا اور عربی و فارسی کے امتزاج سے بنی ہوئی زبان کا بولا جانا، رواجِ عام تھا
ایک روہنگیا /اراکانی محقق محترم امان اللہ کی تحقیق کے مطابق، یہ کہنا غلط ہے کہ روہنگیا بطور قوم، عربوں اور ایرانیوں، پٹھانوں اور مغلوں (یا منگولوں)ہی کی نسل سے ابھرے ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اُن قوموں سے اختلاط کرنے والے مقامی قدیم قبائل کی نسل ہیں جو تاریخ کے زمانہ معلوم سے یہاں آباد ہیں۔یہ بہرحال درست ہے کہ عرب یہاں آٹھویں صدی شمسی میں آئے، مقیم ہوئے اور یہاں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے ساتھ ساتھ، مقامی لوگوں سے رشتے داری قایم کی۔(موصوف نے سہواً ساتویں صدی لکھا ہے)۔ان کے ہاتھوں مسلمان ہونے والوں میں مقامی بُدھ بھی شامل تھے۔
بعداَزآں آنے والے ایرانی، تُرک اور پٹھان مقامی آبادی کا حصہ بنتے گئے اور یوں روہنگ (اراکان کا قدیم نام) کی نسبت سے روہنگیا جیسی لسانی اصطلاح نے جنم لیا۔امان اللہ صاحب نے مَگ سے راکھین بننے والے، قدیم بُدھ باشندوں کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلم روہنگیا کو بھی اسی قدر قدیم اور حقیقی باشندہ سرزمین قراردیا۔انھوں نے اس بابت واضح طورپر قرائن وبراہین سے ثابت کیا کہ اراکان کے حقیقی باشندگان کے طور پر تمام حقوق نہ صرف ان دونوں قوموں بلکہ چِن[Chin]، کمان (کمینKamans:)، تھیٹ[Thet]، دینیٹ[Dinnet]، مرامگئی[Mramagyi]، مرو [Mro]اور کھامی[Khami] کو بھی حاصل ہونے چاہییں۔(گویا موجودہ برما کے ظالم ومتعصب حکمراں، روہنگیا مسلمانوں کو اسی لیے راکھین کہتے ہیں کہ اس نام کے پیچھے ان کی دینی شناخت گُم ہوجائے)۔
یہاں ٹیپو سلطان کے معاصر، ممتا ز اسکاٹش معالج، جغرافیہ داں، حیاتیات داں، فرانسِس بَکنَن (Francis Buchanan)کی گواہی بھی پیش نظر ہے کہ بقول اُس کے(سلطان کے سن شہادت) 1799ء میں بھی اراکان میں مقیم مسلمان، روہنگیا بولتے تھے جو درحقیقت ہندی سے نکلی ہوئی بولی تھی اور وہ اپنے آپ کو 'روئینگا' (Roainga)یعنی اراکان کا مقامی باشندہ کہتے تھے۔یہ نکتہ ماہرین لسانیات کو دعوت ِ تحقیق دیتا ہے۔
فرانسِس بَکنَن(15فروری1762 تا 15 جون 1829) کے متعلق اہم بات یہ ہے کہ اُس نے سرکاری طور پر میسور سمیت جنوبی ہند کے تمام علاقوں کا جائزہ لیا تھا جسے عرف عام میں سروے کہتے ہیں اور ہندوستان کے طول وعرض بشمول بنگال کا دورہ بھی کیا تھا۔
ایک روہنگیا/اراکانی نظم مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اردو سے کس قدر قریب ہے:
Añára oilam Rohingya Zati: ہم ہیں روہنگیا کے اصلی باشندے
By Moulana Zafór: شاعر: مولانا ظفر
Añára óilam Rohingya zati, Añára Arakan dec órbági,
ہم ہیں روہنگیا نسل (کے لوگ)، ہم ہیں سلطنت ِ اراکان کے اصلی(قدیم) باشندے
Házar bosór hóite loti, Añára Arakan dec ót táki.
ہم سلطنت ِ اراکان(کے علاقے)میں ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں
Muráfera haçi kuçí, Ruháng cóhor abad gorí,
ہم نے جنگلوں کو کاٹ کاٹ کر 'روہنگ شہر' بنایاہے
Añára hóilam góre bari, Keén é zaiyoum otón sári.
ہم تو یہاں مستقل قیام پذیر ہیں، ہم کیسے اپنی 'مادرِ وطن' کو چھوڑ کر (کہیں)جاسکتے ہیں؟
Arakan dec ór cúnar meçi, Añára toré ador gorí,
(اے) اراکان کی سنہری سرزمین! ہم تجھ پر فِدا ہیں
Táikoum tor bukot é bazí, Toré félai táai nofarí.
ہم تجھ سے ناتا جوڑے رکھیں گے، ہم تجھے چھوڑ کر کہاں رہ سکتے ہیں
Tor buk ottún zonom loilám, Fali fúli boro óilam,
میں تیری محبت میں پیدا ہوا اور تیری نگہداشت(گود) میں پلا بڑھا
Aizó añára nofarílam, Tor honó hók ada gorí.
ہم تو اَبھی تک تیرا حق ادا نہیں کرسکے
Hotó foran cóhit gorí, Tor bagan ot faní di,
تیرے باغ کو سینچنے کے لیے بہت سی جانوں کا نذرانہ دے کر بھی
Añára ehón acá gorí, Tui honó din no foóráibi.
ہمیں اب بھی امید ہے کہ تُو ہمیں کبھی نہیں بھُولے گی
[ROHINGY POEMSInRohingyalish Collected by Eng. Mohammed Siddique Basu Date: 26th December 2014]
اس سال گیارہ اکتوبر کو بنگلہ، چاٹگامی اور اراکانی کے ایک عظیم محسن، منشی عبدالکریم صاحب[Sahitya-visharad]، ساہتیہ(ساہِتے) وِشارد (1872تا 1953)کی ایک سو اکیاون ویں سال گرہ منائی گئی۔اس محقق، ادیب، مؤرخ، جامع اور ترجمان نے قدیم بنگلہ مخطوطات خصوصاً پوتھیوں پر یادگار کام کیا۔
اُنھوں نے اراکان میں مقیم بنگالی شعراء کے مخطوطات بھی جمع کیے۔کسی زمانے میں جزیرہ نمائے عرب کے اَسفار یا جنگی کارناموں کے بیان پر مبنی قدیم مخطوطات یعنی پوتھیاں ہی اس خطے میں،ترسیل ِ معلومات کا اہم ذریعہ تھیں۔اس میں شامل حکایات ایک مدت تک محض سینہ گزٹ ہی رہیں، پھر اُنھیں منضبط کیا گیا اور سینہ بہ سینہ محفوظ رکھنے کی روایت بیسویں صدی کے اوائل میں دم توڑگئی۔ ان کی اہمیت (خصوصاً) روہنگیا کے دیہی طرز ِحیات کے آئینہ دار ہونے کی وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر سُنوتی بھُوشن قانون گو کی تحقیق کے مطابق، بنگلہ لفظ ' پُوتھی'، سنسکِرِت کے لفظ پُستَک سے مشتق ہے جو پہلے پوتھ بنا اور پھر پُوتھی یعنی کتاب۔مزید وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ کوئی مقفیٰ نظم(یامنظوم بیان) ہے جو اکثر کسی مقامی یا غیرملکی مقبول عام کہانی یا حکایت پر مبنی ہوتی ہے۔قرونِ وسطیٰ کے چٹاگانگ (چاٹگام)میں بہت سے شعراء نے اس ضمن میں اپنے جوہر دکھائے۔تحقیق میں ضلع چٹاگانگ کے دوردراز مقامات سے سیکڑوں (سینکڑوں غلط) پوتھیاں دریافت ہوئی ہیں، جبکہ متعدد اپنے مصنفین کی طرح بے نام ونشاں ہیں۔
منشی عبدالکریم کی عمر بھر کی مساعی کی بدولت،ضلع چٹاگانگ کے مختلف مقامات سے پوتھیوں کے مخطوطات کی دریافت وبحالی کا کام ممکن ہوسکا۔منشی صاحب نے اپنے حینِ حیات ہی خطہ بنگال کی اقوام کی ثقافتی پہچان یہ کہہ کر واضح کی تھی کہ "ایک پوتھی کسی بھی قوم کی واضح تصویر ہوتی ہے"۔انھوں نے ڈاکٹر انعام الحق کے ہمراہ ایک کتاب بعنوان "اراکان راج سبھا بنگلہ ساہتیہ"[Rajsabhaya Bangala Sahitya] (یعنی "اراکانی دربار میں بنگلہ ادب") تحریر کی جس میں انھوں نے ایسی کتب اور ان کے موضوعات کے متعلق بیان کیا۔اُن کا خیال تھا کہ ایسے شعراء اراکانی بادشاہوں کے دربار کی رونق ہواکرتے تھے، لہٰذا انھوں نے کتاب کا یہ عنوان رکھا۔
محولہ بالا کتاب میں شامل مخطوطات میں اراکان کے شعراء دولت قاضی، علاؤل، مردان، قریشی مگن، عبدالکریم خوندکر (کھونڈکر: بنگلہ)، اور بہت سے دیگرکی تحریریں ہیں جن سے ہمیں مسلمانانِ اراکان کے متعلق اور اُن کے معاشرے،ریاست اور دربار پر گہرے اثر ورسوخ کا بخوبی علم ہوتا ہے۔اراکانی بادشاہ اُن پر بہت اعتمادکرتے تھے۔بادشاہان ِاراکان کے وزراء اور مصاحبین اپنے دور کے عالم فاضل لوگ تھے جنھوں نے علم وفضل کی ترویج کے لیے مسلم شعراء ومصنفین کی سرپرستی کی۔بنگلہ میں لکھی ہوئی ایسی بہت سی منظومات دریافت ہوچکی ہیں۔
ایسے وزراء ومصاحبین میں ہمیں 'لشکر وزیر' یعنی وزیر ِ دفاع بُرہان الدین، لشکر وزیر اشرف خان، لشکر وزیر بڑا ٹھاکر، وزیراعظم مگن ٹھاکر، وزیراعظم سید موسیٰ، وزیر اعظم نباراج مجلس(Nabaraj Majlis)، وزیر سید محمد، قاضی دولت، قاضی سید سعود شاہ اور پےِر معصوم شاہ کے اسماء معلوم ہوئے۔
اراکان کے شاہوں کے لشکر میں مسلمان بھی شامل ہوا کرتے تھے۔تاریخ میں ذکر آتاہے کہ دومواقع پر مسلمان لشکری نمایاں ہوئے۔1431 میں راجہ مِن سَو مُن(Min Saw-Mun)کی بحالی کے لیے اراکان میں داخل ہونے والی مسلم سپاہ اور 1635میں راجہ ٹھِیری تھوڈاما (Thiri Thudamma) کے جشن تاج پوشی کے موقع پر چھے سو مسلم گھُڑسوار سپاہیوں کے دستے کی قیادت، لشکر وزیر نے کی تھی، علاوہ اَزیں اس موقع پر بعض دیگر کمان داروں کی سربراہی میں مسلم سپاہ موجودتھی۔
اس بات کی شہادت پُرتگیز عیسائی مبلغ وسیاح Fray Sebastien Manrique(1590 - 1669)نے بھی دی جو اپنی تبلیغی مساعی کے لیے بنگال اور اراکان میں بھی مقیم رہا۔اُس نے اپنے سفرنامے میں مسلم، بُدھ اور مظاہر پرست معاشرے کی مذہبی وثقافتی رسوم ورواج کا ذکر کیا۔یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ مسلمان اراکان میں متعدد پیشوں سے وابستہ تھے یعنی سماجی اعتبار سے معزز تھے۔
یہاں بظاہر، قدرے غیرمتعلقہ، مگردرحقیقت، ہمارے موضوع سے جُڑا ہوا ایک تاریخی انکشاف اپنے قارئین کرام کی نذرکرناچاہتاہوں:
مسلمانوں کے عہد عروج سے زوال تک، بنگال میں عربی رسم الخط میں بنگلہ زبان کا لکھا جانا اور مدارس کے طفیل، عربی وفارسی کے امتزاج سے بنی ہوئی زبان کا بولا جانا، رواجِ عام تھا۔مسلمان علماء نے باقاعدہ عربی رسم الخط میں بنگلہ کتب تحریر کیں، مگر افسوس! وہ سب قصہ پارینہ ہوگیا۔انگریز سرکارکے دورمیں متعصب، مگر تعلیم یافتہ ہندواساتذہ کی شعوری کاوش سے بنگلہ کا رُوپ بدلا گیا،اسے ہندومذہب وثقافت سے بہت زیادہ ہم کنارکیا گیا جس کے بعد لسانی تحریک چلی اور اردو کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے، اسے قومی وسرکاری زبان کی مُسلّمہ حیثیت سے محروم کرتے ہوئے، بنگلہ کا عَلَم بلند کیا گیا۔یہ سارامنفی پرچار اس قدر زورشورسے کیا گیا کہ ہمارے بعض اہل قلم بھی بنگلہ تحریک کا حصہ بن گئے۔
اُس دورمیں مولوی ظہیر الدین احمد صاحب نے اس کے سدّ باب کے لیے اپنی سی کوشش کی اور یہ سارا احوال مختصراً اپنی کتاب میں بیان کیا، جس کا حوالہ اسی کالم کی پچھلی قسط میں موجودہے۔
"بنگالی مسلمانوں کوتعلیمی دل چسپی ختم سے عاری کرنے کے لیے، ہندو تعلیم یافتہ لوگوں نے سنسکِرِت زبان کے مرگھٹ سے، پرانے الفاظ کھودکھودکرنکالے اور بنگالی زبان میں ٹھونسنے لگے۔اور روزمرّہ گھرمیں استعمال ہونے فارسی اورعربی الفاظ، بنگالی زبان سے نکال دیے گئے۔اس سے بنگالی زبان کی ہئیت بگڑگئی۔
یہ گھر کی زبان نہ رہی، بلکہ سنسکِرِت پُستَکوں کی زبان بن گئی۔بعد میں تحریری ہندی زبان بھی اسی طرز پر اختراع کی گئی۔.............یہ مصنوعی زبان چاٹگامی سے دورکا بھی رشتہ نہیں رکھتی، اس لیے یہ زبان چاٹگام میں مقبول نہ ہوسکی"۔(مولوی ظہیر الدین احمد)۔بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں چاٹگام، اراکان اور بقیہ برماکے مسلمان علماء، اساتذہ اور مخیر حضرات نے اردو تعلیم عام کرنے کے لیے بہت محنت کی اور اسے اُس پورے خطے کی ترجمان زبان بنادیا، یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں برما وبنگال پرقبضے کی انگریز جاپانی لڑائی میں بھی ہر طرف اردو ہی کا دوردورہ تھا،مگر بعدمیں برما کی متعصب سرکاراور مشرقی بنگال میں ہندوزدہ بنگالیوں نے اس سارے عمل کو جامد کردیا۔
اب آئیے اصل موضوع سے رجوع کرتے ہیں۔پچھلی قسط میں بھی اراکانی اور چاٹگامی کی اردوسے قربت ومماثلت کی بات کی گئی تھی اور اب مزید کچھ خامہ فرسائی کی جارہی ہے۔
چاٹگامی کی اردو سے مماثلت سمجھنے کے لیے اُس کی گنتی جاننا بھی ضروری ہے:
ایک، دُوئی، تِن، کیر، پاس، سو، سات، آشٹ، نُو، دوش
اب کچھ فقرے ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ چاٹگامی میں کتنے اردو الفاظ دخیل ہیں:
او بائی: او بھائی!
کھالوا آر اَونگے دے کھا کھَورَو: مجھ سے کل ملو
شوموشّیہ (ہندی سمسّیا): دِقّت، مسئلہ
اَین اُوگا شوموئیشات: میں مصیبت (دقت)میں ہوں
ڈاکٹورور کھاچے جائر: ڈاکٹر کے پاس (ڈاکٹرکودکھانے)جارہاہوں۔
اعضائے بدن
ماتھا: ماتھا، سوک: آنکھ، کھان: کان، ناک: ناک،گال: گال، آہت: ہاتھ،ٹینگ: ٹانگ،اَول: انگلی، ایڑھی، سُول: بال
رونگ: رنگ
ہالا: کالا، نےِل: نیلا، ڈِیگ رونگ: ہلکا سبز(یہ شاید دیگ سے موسوم ہے یعنی دیگ میں کھُرچن کا رنگ ایسا ہوتا ہے)، ساٹی کھالا/ساٹھی ہالا: گہرا سیاہ، کھوملا رونگ: نارنجی، (بغور دیکھیں تو یہ خوملا یعنی خون جیسا رنگ ہے، کچے خون کارنگ)، ڈولارونگ: سفید، دھواں رنگت: فورا رونگ، کھوسُو پَتا رونگ: پتے جیسا سبز
بیرائیتو جائیر: سیر وسفر
باجار کھورون: بازار جانا
کھَون: کھانا پینا
اراکان، برما اور چاٹگام میں تحقیق وتالیف وتصنیف کا سلسلہ تینوں زبانوں نیز عربی،فارسی وبنگلہ میں مدتوں جاری رہا۔اب یہ حال ہے کہ اس بارے میں کوئی ایک مبسوط کتاب بھی مشکل سے دستیاب ہے۔
خطہ ہند، بنگال، اراکان وبرما کی بعض دیگر زبانوں سے اردو کے تعلق پرایک سرسری نظر
یہاں عنوان میں اضافہ کیے بغیر مواد میں توسیع کرتاچلوں۔معیاری بنگلہ کی بولی، نواکھیلا[Noakhailla ]، خود بنگلہ سے قدرے دور اور کئی اعتبار سے اردوسے قریب ہے۔یہ بولی ایک زبان کی طرح مستحکم ہے اور اس کے ڈانڈے قدیم مگدھی پراکرِت اور چاٹگام و اَکیاب (برما) کی زبانوں سے ملتے ہیں۔یہ زبان یا بولی فارسی و اردو کے ذخیرہ الفاظ سے مالامال ہے، مگر فارسی، اردو اور بنگلہ سے اس لحاظ سے یکسر مختلف بھی ہے کہ اس میں حرف 'پ' کی جگہ 'ہ' بولااورلکھاجاتاہے، مثلاً پانی کو ہانی کہتے ہیں۔نواکھیلا میں عربی کے 'خ' سے مماثل آواز موجودہے جو معیاری بنگلہ میں ناپیدہے۔
اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو ہمیں سلہٹ (بنگلہ دیش) کی زبان سلہٹی سے واسطہ پڑتا ہے جسے مختلف ادوارمیں مختلف ناموں سے پکاراگیا اور آج بھی اس کے متعدد نام ہیں۔اس زبان کی تحریرواشاعت کے لیے سلہٹی ناگری کے علاوہ بنگلہ۔آسامی اور لاطینی رسم الخط کا استعما ل بھی کیا جاتا ہے۔سلہٹی کا دیرینہ تعلق تبتی برمی زبانو ں اور تِری پورہ (بھارت) کی قدیم زبانوں Kokborok اور Reang[سے بھی رہا ہے۔اس کی بنیادیں پراکِرِت خصوصاً مگدھی پراکرت، نیزمگہی، بھوج پوری، آسامی، میتھلی، اُڑیا اور بنگلہ سے ملی ہوئی ہیں۔اب اس کے کچھ ایسے الفاظ دیکھیں جو اردو سے مماثل یا قریب ہیں: ڈھاخا(ڈھاکا)، مَنُش (منش یعنی آدمی: ہندی)، مین شور ذات (بنی نوع آدم)، اَنگُلی(اُنگلی یا پنجہ)، انگٹی (انگوٹھی)،فکیا (پکھی یعنی پرندہ)، فورندا(پرندہ)،فورے/بعدے(بعدمیں)، شوب/تمام (سب، تمام)، داماند(داماد)،بِلَئی (بِلّی)،آلو(آلو)، سالُونتا(سالن)۔
میں بوجوہ اس وسیع ووقیع موضوع کو مختصر وجامع کرنے کی شعوری کوشش کررہاہوں۔جو قارئین خصوصاً اہل تحقیق اس بابت مزید جاننا چاہیں، اُن کے لیے محولہ بالا کتاب اور اس سے جڑی ہوئی قدیم کتب کا خزانہ مع دیگر حوالہ جات دستیاب ہے، شرط ہے تو بس تلاش، جستجو اور تحقیقی لگن کی، بقول کسے جویندہ، یابندہ (جو تلاش کرتا ہے، وہی پالیتا ہے)!
بعداَزآں آنے والے ایرانی، تُرک اور پٹھان مقامی آبادی کا حصہ بنتے گئے اور یوں روہنگ (اراکان کا قدیم نام) کی نسبت سے روہنگیا جیسی لسانی اصطلاح نے جنم لیا۔امان اللہ صاحب نے مَگ سے راکھین بننے والے، قدیم بُدھ باشندوں کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلم روہنگیا کو بھی اسی قدر قدیم اور حقیقی باشندہ سرزمین قراردیا۔انھوں نے اس بابت واضح طورپر قرائن وبراہین سے ثابت کیا کہ اراکان کے حقیقی باشندگان کے طور پر تمام حقوق نہ صرف ان دونوں قوموں بلکہ چِن[Chin]، کمان (کمینKamans:)، تھیٹ[Thet]، دینیٹ[Dinnet]، مرامگئی[Mramagyi]، مرو [Mro]اور کھامی[Khami] کو بھی حاصل ہونے چاہییں۔(گویا موجودہ برما کے ظالم ومتعصب حکمراں، روہنگیا مسلمانوں کو اسی لیے راکھین کہتے ہیں کہ اس نام کے پیچھے ان کی دینی شناخت گُم ہوجائے)۔
یہاں ٹیپو سلطان کے معاصر، ممتا ز اسکاٹش معالج، جغرافیہ داں، حیاتیات داں، فرانسِس بَکنَن (Francis Buchanan)کی گواہی بھی پیش نظر ہے کہ بقول اُس کے(سلطان کے سن شہادت) 1799ء میں بھی اراکان میں مقیم مسلمان، روہنگیا بولتے تھے جو درحقیقت ہندی سے نکلی ہوئی بولی تھی اور وہ اپنے آپ کو 'روئینگا' (Roainga)یعنی اراکان کا مقامی باشندہ کہتے تھے۔یہ نکتہ ماہرین لسانیات کو دعوت ِ تحقیق دیتا ہے۔
فرانسِس بَکنَن(15فروری1762 تا 15 جون 1829) کے متعلق اہم بات یہ ہے کہ اُس نے سرکاری طور پر میسور سمیت جنوبی ہند کے تمام علاقوں کا جائزہ لیا تھا جسے عرف عام میں سروے کہتے ہیں اور ہندوستان کے طول وعرض بشمول بنگال کا دورہ بھی کیا تھا۔
ایک روہنگیا/اراکانی نظم مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اردو سے کس قدر قریب ہے:
Añára oilam Rohingya Zati: ہم ہیں روہنگیا کے اصلی باشندے
By Moulana Zafór: شاعر: مولانا ظفر
Añára óilam Rohingya zati, Añára Arakan dec órbági,
ہم ہیں روہنگیا نسل (کے لوگ)، ہم ہیں سلطنت ِ اراکان کے اصلی(قدیم) باشندے
Házar bosór hóite loti, Añára Arakan dec ót táki.
ہم سلطنت ِ اراکان(کے علاقے)میں ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں
Muráfera haçi kuçí, Ruháng cóhor abad gorí,
ہم نے جنگلوں کو کاٹ کاٹ کر 'روہنگ شہر' بنایاہے
Añára hóilam góre bari, Keén é zaiyoum otón sári.
ہم تو یہاں مستقل قیام پذیر ہیں، ہم کیسے اپنی 'مادرِ وطن' کو چھوڑ کر (کہیں)جاسکتے ہیں؟
Arakan dec ór cúnar meçi, Añára toré ador gorí,
(اے) اراکان کی سنہری سرزمین! ہم تجھ پر فِدا ہیں
Táikoum tor bukot é bazí, Toré félai táai nofarí.
ہم تجھ سے ناتا جوڑے رکھیں گے، ہم تجھے چھوڑ کر کہاں رہ سکتے ہیں
Tor buk ottún zonom loilám, Fali fúli boro óilam,
میں تیری محبت میں پیدا ہوا اور تیری نگہداشت(گود) میں پلا بڑھا
Aizó añára nofarílam, Tor honó hók ada gorí.
ہم تو اَبھی تک تیرا حق ادا نہیں کرسکے
Hotó foran cóhit gorí, Tor bagan ot faní di,
تیرے باغ کو سینچنے کے لیے بہت سی جانوں کا نذرانہ دے کر بھی
Añára ehón acá gorí, Tui honó din no foóráibi.
ہمیں اب بھی امید ہے کہ تُو ہمیں کبھی نہیں بھُولے گی
[ROHINGY POEMSInRohingyalish Collected by Eng. Mohammed Siddique Basu Date: 26th December 2014]
اس سال گیارہ اکتوبر کو بنگلہ، چاٹگامی اور اراکانی کے ایک عظیم محسن، منشی عبدالکریم صاحب[Sahitya-visharad]، ساہتیہ(ساہِتے) وِشارد (1872تا 1953)کی ایک سو اکیاون ویں سال گرہ منائی گئی۔اس محقق، ادیب، مؤرخ، جامع اور ترجمان نے قدیم بنگلہ مخطوطات خصوصاً پوتھیوں پر یادگار کام کیا۔
اُنھوں نے اراکان میں مقیم بنگالی شعراء کے مخطوطات بھی جمع کیے۔کسی زمانے میں جزیرہ نمائے عرب کے اَسفار یا جنگی کارناموں کے بیان پر مبنی قدیم مخطوطات یعنی پوتھیاں ہی اس خطے میں،ترسیل ِ معلومات کا اہم ذریعہ تھیں۔اس میں شامل حکایات ایک مدت تک محض سینہ گزٹ ہی رہیں، پھر اُنھیں منضبط کیا گیا اور سینہ بہ سینہ محفوظ رکھنے کی روایت بیسویں صدی کے اوائل میں دم توڑگئی۔ ان کی اہمیت (خصوصاً) روہنگیا کے دیہی طرز ِحیات کے آئینہ دار ہونے کی وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر سُنوتی بھُوشن قانون گو کی تحقیق کے مطابق، بنگلہ لفظ ' پُوتھی'، سنسکِرِت کے لفظ پُستَک سے مشتق ہے جو پہلے پوتھ بنا اور پھر پُوتھی یعنی کتاب۔مزید وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ کوئی مقفیٰ نظم(یامنظوم بیان) ہے جو اکثر کسی مقامی یا غیرملکی مقبول عام کہانی یا حکایت پر مبنی ہوتی ہے۔قرونِ وسطیٰ کے چٹاگانگ (چاٹگام)میں بہت سے شعراء نے اس ضمن میں اپنے جوہر دکھائے۔تحقیق میں ضلع چٹاگانگ کے دوردراز مقامات سے سیکڑوں (سینکڑوں غلط) پوتھیاں دریافت ہوئی ہیں، جبکہ متعدد اپنے مصنفین کی طرح بے نام ونشاں ہیں۔
منشی عبدالکریم کی عمر بھر کی مساعی کی بدولت،ضلع چٹاگانگ کے مختلف مقامات سے پوتھیوں کے مخطوطات کی دریافت وبحالی کا کام ممکن ہوسکا۔منشی صاحب نے اپنے حینِ حیات ہی خطہ بنگال کی اقوام کی ثقافتی پہچان یہ کہہ کر واضح کی تھی کہ "ایک پوتھی کسی بھی قوم کی واضح تصویر ہوتی ہے"۔انھوں نے ڈاکٹر انعام الحق کے ہمراہ ایک کتاب بعنوان "اراکان راج سبھا بنگلہ ساہتیہ"[Rajsabhaya Bangala Sahitya] (یعنی "اراکانی دربار میں بنگلہ ادب") تحریر کی جس میں انھوں نے ایسی کتب اور ان کے موضوعات کے متعلق بیان کیا۔اُن کا خیال تھا کہ ایسے شعراء اراکانی بادشاہوں کے دربار کی رونق ہواکرتے تھے، لہٰذا انھوں نے کتاب کا یہ عنوان رکھا۔
محولہ بالا کتاب میں شامل مخطوطات میں اراکان کے شعراء دولت قاضی، علاؤل، مردان، قریشی مگن، عبدالکریم خوندکر (کھونڈکر: بنگلہ)، اور بہت سے دیگرکی تحریریں ہیں جن سے ہمیں مسلمانانِ اراکان کے متعلق اور اُن کے معاشرے،ریاست اور دربار پر گہرے اثر ورسوخ کا بخوبی علم ہوتا ہے۔اراکانی بادشاہ اُن پر بہت اعتمادکرتے تھے۔بادشاہان ِاراکان کے وزراء اور مصاحبین اپنے دور کے عالم فاضل لوگ تھے جنھوں نے علم وفضل کی ترویج کے لیے مسلم شعراء ومصنفین کی سرپرستی کی۔بنگلہ میں لکھی ہوئی ایسی بہت سی منظومات دریافت ہوچکی ہیں۔
ایسے وزراء ومصاحبین میں ہمیں 'لشکر وزیر' یعنی وزیر ِ دفاع بُرہان الدین، لشکر وزیر اشرف خان، لشکر وزیر بڑا ٹھاکر، وزیراعظم مگن ٹھاکر، وزیراعظم سید موسیٰ، وزیر اعظم نباراج مجلس(Nabaraj Majlis)، وزیر سید محمد، قاضی دولت، قاضی سید سعود شاہ اور پےِر معصوم شاہ کے اسماء معلوم ہوئے۔
اراکان کے شاہوں کے لشکر میں مسلمان بھی شامل ہوا کرتے تھے۔تاریخ میں ذکر آتاہے کہ دومواقع پر مسلمان لشکری نمایاں ہوئے۔1431 میں راجہ مِن سَو مُن(Min Saw-Mun)کی بحالی کے لیے اراکان میں داخل ہونے والی مسلم سپاہ اور 1635میں راجہ ٹھِیری تھوڈاما (Thiri Thudamma) کے جشن تاج پوشی کے موقع پر چھے سو مسلم گھُڑسوار سپاہیوں کے دستے کی قیادت، لشکر وزیر نے کی تھی، علاوہ اَزیں اس موقع پر بعض دیگر کمان داروں کی سربراہی میں مسلم سپاہ موجودتھی۔
اس بات کی شہادت پُرتگیز عیسائی مبلغ وسیاح Fray Sebastien Manrique(1590 - 1669)نے بھی دی جو اپنی تبلیغی مساعی کے لیے بنگال اور اراکان میں بھی مقیم رہا۔اُس نے اپنے سفرنامے میں مسلم، بُدھ اور مظاہر پرست معاشرے کی مذہبی وثقافتی رسوم ورواج کا ذکر کیا۔یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ مسلمان اراکان میں متعدد پیشوں سے وابستہ تھے یعنی سماجی اعتبار سے معزز تھے۔
یہاں بظاہر، قدرے غیرمتعلقہ، مگردرحقیقت، ہمارے موضوع سے جُڑا ہوا ایک تاریخی انکشاف اپنے قارئین کرام کی نذرکرناچاہتاہوں:
مسلمانوں کے عہد عروج سے زوال تک، بنگال میں عربی رسم الخط میں بنگلہ زبان کا لکھا جانا اور مدارس کے طفیل، عربی وفارسی کے امتزاج سے بنی ہوئی زبان کا بولا جانا، رواجِ عام تھا۔مسلمان علماء نے باقاعدہ عربی رسم الخط میں بنگلہ کتب تحریر کیں، مگر افسوس! وہ سب قصہ پارینہ ہوگیا۔انگریز سرکارکے دورمیں متعصب، مگر تعلیم یافتہ ہندواساتذہ کی شعوری کاوش سے بنگلہ کا رُوپ بدلا گیا،اسے ہندومذہب وثقافت سے بہت زیادہ ہم کنارکیا گیا جس کے بعد لسانی تحریک چلی اور اردو کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے، اسے قومی وسرکاری زبان کی مُسلّمہ حیثیت سے محروم کرتے ہوئے، بنگلہ کا عَلَم بلند کیا گیا۔یہ سارامنفی پرچار اس قدر زورشورسے کیا گیا کہ ہمارے بعض اہل قلم بھی بنگلہ تحریک کا حصہ بن گئے۔
اُس دورمیں مولوی ظہیر الدین احمد صاحب نے اس کے سدّ باب کے لیے اپنی سی کوشش کی اور یہ سارا احوال مختصراً اپنی کتاب میں بیان کیا، جس کا حوالہ اسی کالم کی پچھلی قسط میں موجودہے۔
"بنگالی مسلمانوں کوتعلیمی دل چسپی ختم سے عاری کرنے کے لیے، ہندو تعلیم یافتہ لوگوں نے سنسکِرِت زبان کے مرگھٹ سے، پرانے الفاظ کھودکھودکرنکالے اور بنگالی زبان میں ٹھونسنے لگے۔اور روزمرّہ گھرمیں استعمال ہونے فارسی اورعربی الفاظ، بنگالی زبان سے نکال دیے گئے۔اس سے بنگالی زبان کی ہئیت بگڑگئی۔
یہ گھر کی زبان نہ رہی، بلکہ سنسکِرِت پُستَکوں کی زبان بن گئی۔بعد میں تحریری ہندی زبان بھی اسی طرز پر اختراع کی گئی۔.............یہ مصنوعی زبان چاٹگامی سے دورکا بھی رشتہ نہیں رکھتی، اس لیے یہ زبان چاٹگام میں مقبول نہ ہوسکی"۔(مولوی ظہیر الدین احمد)۔بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں چاٹگام، اراکان اور بقیہ برماکے مسلمان علماء، اساتذہ اور مخیر حضرات نے اردو تعلیم عام کرنے کے لیے بہت محنت کی اور اسے اُس پورے خطے کی ترجمان زبان بنادیا، یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں برما وبنگال پرقبضے کی انگریز جاپانی لڑائی میں بھی ہر طرف اردو ہی کا دوردورہ تھا،مگر بعدمیں برما کی متعصب سرکاراور مشرقی بنگال میں ہندوزدہ بنگالیوں نے اس سارے عمل کو جامد کردیا۔
اب آئیے اصل موضوع سے رجوع کرتے ہیں۔پچھلی قسط میں بھی اراکانی اور چاٹگامی کی اردوسے قربت ومماثلت کی بات کی گئی تھی اور اب مزید کچھ خامہ فرسائی کی جارہی ہے۔
چاٹگامی کی اردو سے مماثلت سمجھنے کے لیے اُس کی گنتی جاننا بھی ضروری ہے:
ایک، دُوئی، تِن، کیر، پاس، سو، سات، آشٹ، نُو، دوش
اب کچھ فقرے ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ چاٹگامی میں کتنے اردو الفاظ دخیل ہیں:
او بائی: او بھائی!
کھالوا آر اَونگے دے کھا کھَورَو: مجھ سے کل ملو
شوموشّیہ (ہندی سمسّیا): دِقّت، مسئلہ
اَین اُوگا شوموئیشات: میں مصیبت (دقت)میں ہوں
ڈاکٹورور کھاچے جائر: ڈاکٹر کے پاس (ڈاکٹرکودکھانے)جارہاہوں۔
اعضائے بدن
ماتھا: ماتھا، سوک: آنکھ، کھان: کان، ناک: ناک،گال: گال، آہت: ہاتھ،ٹینگ: ٹانگ،اَول: انگلی، ایڑھی، سُول: بال
رونگ: رنگ
ہالا: کالا، نےِل: نیلا، ڈِیگ رونگ: ہلکا سبز(یہ شاید دیگ سے موسوم ہے یعنی دیگ میں کھُرچن کا رنگ ایسا ہوتا ہے)، ساٹی کھالا/ساٹھی ہالا: گہرا سیاہ، کھوملا رونگ: نارنجی، (بغور دیکھیں تو یہ خوملا یعنی خون جیسا رنگ ہے، کچے خون کارنگ)، ڈولارونگ: سفید، دھواں رنگت: فورا رونگ، کھوسُو پَتا رونگ: پتے جیسا سبز
بیرائیتو جائیر: سیر وسفر
باجار کھورون: بازار جانا
کھَون: کھانا پینا
اراکان، برما اور چاٹگام میں تحقیق وتالیف وتصنیف کا سلسلہ تینوں زبانوں نیز عربی،فارسی وبنگلہ میں مدتوں جاری رہا۔اب یہ حال ہے کہ اس بارے میں کوئی ایک مبسوط کتاب بھی مشکل سے دستیاب ہے۔
خطہ ہند، بنگال، اراکان وبرما کی بعض دیگر زبانوں سے اردو کے تعلق پرایک سرسری نظر
یہاں عنوان میں اضافہ کیے بغیر مواد میں توسیع کرتاچلوں۔معیاری بنگلہ کی بولی، نواکھیلا[Noakhailla ]، خود بنگلہ سے قدرے دور اور کئی اعتبار سے اردوسے قریب ہے۔یہ بولی ایک زبان کی طرح مستحکم ہے اور اس کے ڈانڈے قدیم مگدھی پراکرِت اور چاٹگام و اَکیاب (برما) کی زبانوں سے ملتے ہیں۔یہ زبان یا بولی فارسی و اردو کے ذخیرہ الفاظ سے مالامال ہے، مگر فارسی، اردو اور بنگلہ سے اس لحاظ سے یکسر مختلف بھی ہے کہ اس میں حرف 'پ' کی جگہ 'ہ' بولااورلکھاجاتاہے، مثلاً پانی کو ہانی کہتے ہیں۔نواکھیلا میں عربی کے 'خ' سے مماثل آواز موجودہے جو معیاری بنگلہ میں ناپیدہے۔
اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو ہمیں سلہٹ (بنگلہ دیش) کی زبان سلہٹی سے واسطہ پڑتا ہے جسے مختلف ادوارمیں مختلف ناموں سے پکاراگیا اور آج بھی اس کے متعدد نام ہیں۔اس زبان کی تحریرواشاعت کے لیے سلہٹی ناگری کے علاوہ بنگلہ۔آسامی اور لاطینی رسم الخط کا استعما ل بھی کیا جاتا ہے۔سلہٹی کا دیرینہ تعلق تبتی برمی زبانو ں اور تِری پورہ (بھارت) کی قدیم زبانوں Kokborok اور Reang[سے بھی رہا ہے۔اس کی بنیادیں پراکِرِت خصوصاً مگدھی پراکرت، نیزمگہی، بھوج پوری، آسامی، میتھلی، اُڑیا اور بنگلہ سے ملی ہوئی ہیں۔اب اس کے کچھ ایسے الفاظ دیکھیں جو اردو سے مماثل یا قریب ہیں: ڈھاخا(ڈھاکا)، مَنُش (منش یعنی آدمی: ہندی)، مین شور ذات (بنی نوع آدم)، اَنگُلی(اُنگلی یا پنجہ)، انگٹی (انگوٹھی)،فکیا (پکھی یعنی پرندہ)، فورندا(پرندہ)،فورے/بعدے(بعدمیں)، شوب/تمام (سب، تمام)، داماند(داماد)،بِلَئی (بِلّی)،آلو(آلو)، سالُونتا(سالن)۔
میں بوجوہ اس وسیع ووقیع موضوع کو مختصر وجامع کرنے کی شعوری کوشش کررہاہوں۔جو قارئین خصوصاً اہل تحقیق اس بابت مزید جاننا چاہیں، اُن کے لیے محولہ بالا کتاب اور اس سے جڑی ہوئی قدیم کتب کا خزانہ مع دیگر حوالہ جات دستیاب ہے، شرط ہے تو بس تلاش، جستجو اور تحقیقی لگن کی، بقول کسے جویندہ، یابندہ (جو تلاش کرتا ہے، وہی پالیتا ہے)!