خواجہ سراؤں کا عالمی دن کراچی میں مورت مارچ کا انعقاد
قدیم ثقافتی ورثے سے تعلق ہونے کے باوجود تشدد اور ہراسانی سمیت بیشتر مشکلات کا سامنا ہے، خواجہ سراؤں کا شکوہ
شہر قائد میں خواجہ سراؤں کے عالمی دن کے موقع پر مورت مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں ٹرانسجینڈرز نے شرکت کی جب کہ ذوالفقار بھٹو جونیئر، خواجہ سرا رہنما بندیا رانا اور رہنما پیپلز پارٹی شہلا رضا سمیت سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے شرکت کی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ مورت مارچ سندھ بھر میں مقیم خواجہ سرا افراد کے حقوق کے تحفظ کے کام کرنے والی مقامی تحریک کی جانب سے منعقد کیا گیا جس کا مقصد خواجہ سراؤں کے عالمی دن پر اس کو درپیش مسائل بیان کرنا تھا۔
اس موقع پر خواجہ سراؤں کی جانب سے شکوہ کیا گیا کہ جنوبی ایشیاء کے ایک باوقار اور قدیم ثقافتی ورثے سے منسوب ہونے کے باوجود ہمیں اپنے ہی ملک میں تشدد اور ہراسانی سمیت بیشتر مشکلات کا سامنا ہے- خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے ایکٹ 2018 پاکستان کے آئین سے ہی بنا ہے اور اس کے ذریعے ہمیں تعلیم،ملامت اور ترقی حاصل کرنے کا موقع ملے گا،خواجہ سرا سب کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کئی سال گزر جانے کے باوجود خواجہ سراؤں کے بنیاد حقوق ہی نہیں فراہم ہوسکے ہیں۔
مورت مارچ کا باقاعدہ آغاز خواجہ سرا افراد کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سینر کارکن بندیا رانا کی جانب سے ابتدائی تقریر سے ہوا - بندیا رانا نے اپنی تقریر میں خواجہ سراؤں کو روز مرا کی بنیاد پر درپیش مسائل کی جانب توجہ مرکوز کروائی-
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کس اس طبقے کے افراد کو بھیک مانگنے اور ناچ گانا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔کئی خواجہ سرا تعلیم حاصل کرکے نوکری کرنا چاہیتے ہیں، معاشرے کے ساتھ برابری کرنے کے لیئے مشقت کرتے ہیں لیکن شاید یہ مثبت پیش رفت معاشرے کے لئے ناقابل قبول ہے-انہوں نے کہا کہ اب ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہمارے درمیان ڈاکٹرز اور وکلا جیسے پیشہ ورانہ لوگ موجود ہیں۔
بندیا کے بعد عورت مارچ کی منظم، خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی کارکن اور تحریک نسواں کی بانی شیمہ کرمانی، حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا کارکن مس ثنا نے اپنا موقف سامنے رکھا-
اس موقع پر انسانی اور خواتین کے حقوق کی کارکن اور وکیل سارہ ملکانی، خواتین جمہوری فرنٹ کی منظم نورین فاطمہ، چیرمین کمیشن برائے درجہ خواتین نزہت شریں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا- کراچی بچاو تحریک کے رہنما خرم علی نے ٹرانس فوبیا، جنسی ہراسانی اور جنسی اقلیتوں کو درپیش مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی-
صوبائی وزیر شہلا رضا نے اپنی تقریر میں خواجہ سرا طبقے کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی، صوبائی وزیر حقوق نسواں شہلازضا نے کہا کہ خواجہ سراوں کے تحفظ کیلئے سندھ حکومت متحرک ہے،خواجہ سراوں کے شناختی کارڈ کا مقدمہ پیپلزپارٹی نے لڑا، بہت سے قوانین متنازعہ تھے جنہیں سندھ اسمبلی سے پاس کروایا، خواجہ سرؤں کے بل پر تمام سیاسی جماعتوں نے کام کیا، خواجہ سراوں کے قوانین پرغیر ضروری بحث نہ کریں، دنیا میں جانور، چرند پرند اور شجر کے حقوق ہیں، خواجہ سراوں کو نوکریاں ملنا چاہیئں، کب تک خواجہ سراؤں کی شناخت ناچ گانا رہے گا، خواجہ سراء پڑھے لکھے ہیں اور معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔
فنکار اور جنگلی حیات کے حقوق لئے کام کرنے والے کارکن ذوالفقار علی بھوٹو جونیئر نے کہا کہ میں خود سندھ کا باسی ہوں،سندھ کے عوام خواجہ سراؤں کے ساتھ ہے،مجھے سیاست میں دلچسپی نہیں،خواجہ سرا اپنے حقوق کے لیئے انگریزوں کے دور سے جدوجہد کررہے ہیں،یہ جدوجہد بہت اہم ہے اور ہمیں اس میں ان کا ساتھ لینا چاہیۓ،لیکن اگر ہم صرف جیئے بھوٹو کے نعرے بلند کریں گے،تو ہم اپنی 22کڑوڑ کی عوام کو بھول جائیں گے،ہماری عوام بہت مشقت کرتی ہے ،ہم عوام کا احساس کرنا چاہیۓ،میں وائلڈ لائف آرٹسٹ ہوں اور عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔
ان کے بعد پاکستانی کینیڈین گلوکار عروا خان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور صوفیانہ کلام پر دھمال بھی ڈالا۔سندھ مورت مارچ کی منظم اور رہنما شہزادی رائے نے اسٹیج کا انتظام سنبھال کر میزبانی کی اور خواجہ سرا طبقے کو درپیش مسائل کو تفصیل سے زیر بحث لائیں- انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ خواجہ سراؤں کے خلاف ہونے والے مظالم پر سخت اور فوری ایکشن لیا جائے- بعد ازاں منتظمیں، اسپیکرز اور شرکاء فرئیر ہال کے باہر سڑک پر نکل آئے- درجنوں کی تعداد میں خواجہ سرا اور دیگر شرکاء پلےکاڑدز اور بینرز اٹھائے خواجہ سرا طبقے کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے دکھائی دیئے-
خواجہ سرا افراد کے حقوق کے لئے سندھ میں ہونے والا اپنی نویت کا یہ پہلا مارچ تھا- جس میں سندھ بھر سے بڑی تعداد میں افراد نے کراچی کا رخ کیا-