سردی میں پریشان سیلاب متاثرین
سیلاب سے دادو، جامشورو، نواب شاہ، خیرپور کے اضلاع بہت متاثر ہوئے تھے جہاں کے متاثرین سڑکوں کے کنارے رہنے پر مجبور ہیں
سردیوں کی پہلی بارش کے بعد کراچی میں سیلاب زدگان کی خیمہ بستیوں میں بارش کا پانی جمع ہوگیا، جس سے ہزاروں متاثرین سخت پریشان اس لیے ہوئے ہیں کہ ان کے خیمے واٹر پروف نہیں ہیں۔ پکی سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بارش سے خیموں میں کیچڑ جمع ہوگئی ہے اور وہاں رہنے والے متاثرین کے لیے پانی کی جو ٹنکیاں فراہم کی گئی ہیں ان میں بھی برساتی پانی شامل ہو گیا ہے۔
اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سیلاب متاثرین عارضی طور پر قائم خیمہ بستیوں میں اس لیے رہنے پر مجبور ہیں کہ ان کے علاقے دو تین ماہ بعد بھی زیر آب ہیں۔ بارشوں سے ان کا سامان اور کپڑے بھیگ گئے اور وہ اپنے زیر آب علاقوں سے پانی نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے آبائی گھروں کو واپس جا سکیں۔
یہ صورت حال کراچی میں سرکاری طور پر قائم کی گئی خیمہ بستیوں کی ہے جب کہ اندرون سندھ انڈس ہائی وے اور دیگر سڑکوں کی ہے جہاں تین ماہ سے سڑکوں کے اطراف بعض سماجی تنظیموںاور متاثرین کی طرف سے بنائی گئی عارضی جھونپڑیاں، خیمے اور کپڑوں سے ڈھانپی گئی رہائش گاہیں ہیں جو کچی دیواروں سے بھی محروم ہیں۔
راقم کو 2 نومبر کو پنجاب اپنی گاڑی میں جانے اور سیلاب متاثرین کی بدتر حالت دیکھنے کا موقعہ ملا جو انتہائی ناگفتہ بہ اور سخت پریشان کن تھی۔
ہمیں سپر ہائی وے پر سفر کے بعد حیدرآباد کے بجائے جامشورو اور دادو کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ دادو سے پہلے دریائے سندھ عبور کر کے آمری کے راستے نیشنل ہائی وے کے بجائے نواب شاہ شہر کے قریب انڈس ہائی وے کا پرانا راستہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ قاضی احمد، سکرنڈ سے رانی پور تک دو طرفہ بنی نیشنل ہائی وے کی خراب حالت کے باعث بسیں اور پرائیویٹ گاڑیاں بھی نیشنل ہائی وے کے بجائے نواب شاہ والا متبادل راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور اس یک طرفہ سڑک پر رش بڑھا ہوا ہے اور ٹریفک زیادہ اور سڑکوں کے دونوں طرف سیلاب متاثرین نے عارضی طور پر رہائش اختیار کر رکھی ہے جو پھٹے ہوئے خیموں، پلاسٹک سے ڈھانپی گئی جھونپڑیوں، درختوں کی شاخیں کاٹ کر بنائی گئی عارضی رہائش گاہوں پر مشتمل ہیں۔
سیلاب سے دادو، جامشورو، نواب شاہ، خیرپور کے اضلاع بہت متاثر ہوئے تھے جہاں کے متاثرین سڑکوں کے کنارے رہنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ان کے گھر زیرآب ہیں اور وہ اپنے علاقوں سے سیلابی اور برساتی پانی نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
راقم الحروف نے جامشورو سے روہڑی تک سڑک کنارے رہنے والوں کی حالت زار دیکھی جنھیں اب فلاحی اداروں کی طرف سے ملنے والی خوراک کی سہولت ختم ہوگئی ہے اور وہ بعض مخیر حضرات اور سماجی اداروں سے ملنے والے راشن پر گزارا کر رہے ہیں۔ راقم الحروف کو کراچی سے روہڑی موٹروے تک پہنچنے میں 8 گھنٹے لگے اور بعض علاقوں میں سڑکوں کے دونوں اطراف دور دور تک پانی ہی پانی نظر آیا۔ کھیتوں میں لگائی گئی مختلف فصلیں زیرآب رہنے سے تباہ ہوچکی ہیں۔
کیلے کے باغات سوکھے پڑے تھے، ضلع خیرپور کھجوروں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے جہاں کھجور کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ کھجوروں کے ہزاروں درخت زیر آب چلے آ رہے ہیں جس کا نتیجہ آنے والے رمضان المبارک میں کھجور کی قلت اور باہر سے آنے والی کھجور کے مزید مہنگا ہونے سے ظاہر ہوگا۔
بعض علاقوں میں لوگوں کے کچے پکے گھر جو گرنے سے بچ گئے وہ اب بھی زیر آب ہیں بس کشتیوں پر سفر ختم ہوا ہے لوگ پانی سے گزر کر اپنے گھروں کو آتے جاتے ہیں۔ متاثرین کے لیے سڑکوں کے دونوں اطراف آباد لوگوں نے سر چھپانے کے لیے جو جگہیں بنائی تھیں وہ پھٹ چکی ہیں، پرانے کپڑوں اور پلاسٹک سے بنائی گئی ان کی جگہیں اب رہنے کے قابل نہیں رہیں کیونکہ وہاں لگے کپڑے اور پلاسٹک پھٹ چکا ہے۔
متاثرین نے بتایا کہ بارشوں سے قبل جو پلاسٹک 50 روپے گز مل جاتی تھی وہ گراں فروشوں نے تین سو روپے گز تک فروخت کی۔ بعض اداروں اور حکومت نے جو خیمے فراہم کیے وہ اب تک پھٹنے سے محفوظ ہیں مگر دھوپ میں شکستہ ہوچکے ہیں مگر ان مضبوط خیموں کی تعداد کم اور متاثرین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ خیمے صرف خوش نصیبوں اور سفارشیوں کو ملے اور اکثریت نے اپنی مدد آپ کے تحت بانسوں، درختوں سے توڑے گئے ٹہنیوں کے سہارے جھونپڑیاں بنائیں اور ان پر کپڑا، پلاسٹک اور پرانی رلیاں لگا کر گزارا کیا مگر اب گرمیاں ختم اور موسم سرد ہونا شروع ہو چکا ہے۔
دن میں دھوپ کے باعث گزارا ہو جاتا ہے مگر رات سرد ہوگئی اور متاثرین کا اب ان عارضی جگہوں پر گزارا مشکل ہو گیا ہے اور وہ دو تین ماہ سے ملیریا، گیسٹرو اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ درجنوں ہلاکتیں ہو چکیں ہزاروں افراد بیمار مگر ان کے علاج کی سہولت برائے نام ہے۔
سیلاب سے کراچی و روہڑی کے درمیان ٹرین سروس بند ہوگئی تھی جو اب بحال ہو رہی ہے مگر ریلوے ٹریک مضبوط نہ ہونے سے ٹرینوں کی رفتار کم ہے۔ راقم کو پنجاب سے ٹرین کے ذریعے واپسی پر ٹرین نے روہڑی سے کراچی تقریباً دس گھنٹوں میں پہنچایا۔ بعض علاقوں میں ریلوے ٹریک کے دونوں طرف پانی موجود ہے اور سفر تاخیر سے ہو رہا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر بیرونی امداد آئی مگر وہ کہاں گئی؟ سندھ حکومت کراچی کی خیمہ بستیوں کو بارش سے نہ بچا سکی تو اندرون سندھ سڑکوں کنارے رہنے والے ہزاروں متاثرین پر حالیہ بارش اور موسم کی تبدیلی سے کیا گزر رہی ہوگی ، اس کا احساس صرف متاثرین کو ہے حکومتوں اور مفاد پرست سیاستدانوں اور سیلاب کو کمائی کا ذریعہ بنانے والوں کو نہیں ہے۔ متاثرین کی حالت اب بھی قابل رحم ہے اور انھیں بڑی تعداد میں حکومتی مدد کی اشد ضرورت ہے۔