تحریف شدہ ترجمہ قرآن کی اشاعت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری و دیگر طلب
بغیر اجازت اور تحریف شدہ تراجم چھاپنے کیخلاف درخواست پر متعلقہ محکموں کے کم از کم 20 گریڈ کے افسران بھی طلب
تحریف شدہ ترجمہ قرآن کی اشاعت پر عدالت نے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹریز کو طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قرآن پاک کے ترجمے میں تحریف اور قرآن بورڈ کی اجازت کے بغیر اشاعت کے خلاف درخواست کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی، جس میں عدالت نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹریز کو 7 دسمبر کو ذاتی حثیت میں طلب کر لیا۔
جسٹس شجاعت علی خان نے حسن معاویہ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دیگر افسران کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ متعلقہ محکموں کے پیش ہونے والے افسران گریڈ 20 سے کم نہ ہوں۔
درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت کے 2019ء میں جاری فیصلے پر عمل نہیں ہو رہا۔قرآن پاک کے ترجمے میں تحریف کرکے بغیر اجازت چھاپا جا رہا ہے جب کہ عدالتی حکم میں قرآن پاک کی اشاعت کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ قانون کے تحت قرآن پاک کی اشاعت کے لیے قرآن بورڈ کی اجازت ضروری ہے۔ بغیر اجازت کچھ پرنٹنگ پریس میں تحریف شدہ ترجمے والے قران پاک چھاپے جا رہے ہیں۔متعلقہ ادارےایسے پرنٹنگ پریس کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قرآن پاک کے ترجمے میں تحریف اور قرآن بورڈ کی اجازت کے بغیر اشاعت کے خلاف درخواست کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی، جس میں عدالت نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹریز کو 7 دسمبر کو ذاتی حثیت میں طلب کر لیا۔
جسٹس شجاعت علی خان نے حسن معاویہ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دیگر افسران کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ متعلقہ محکموں کے پیش ہونے والے افسران گریڈ 20 سے کم نہ ہوں۔
درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت کے 2019ء میں جاری فیصلے پر عمل نہیں ہو رہا۔قرآن پاک کے ترجمے میں تحریف کرکے بغیر اجازت چھاپا جا رہا ہے جب کہ عدالتی حکم میں قرآن پاک کی اشاعت کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ قانون کے تحت قرآن پاک کی اشاعت کے لیے قرآن بورڈ کی اجازت ضروری ہے۔ بغیر اجازت کچھ پرنٹنگ پریس میں تحریف شدہ ترجمے والے قران پاک چھاپے جا رہے ہیں۔متعلقہ ادارےایسے پرنٹنگ پریس کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔