سیاسی ناکامی
انتخابی شکستوں سے کے پی میں جے یو آئی اور اے این پی کی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مقبولیت میں فرق آیا
کرم ، خیبرپختون خوا میں بھی پی ڈی ایم کو قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حسب سابق شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کے پی کے میں اکتوبر میں قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوا اور چاروں نشستوں پر عمران خان، جے یو آئی اور اے این پی کے امیدواروں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔
چاروں نشستیں پہلے بھی پی ٹی آئی کے پاس تھیں جن میں دو پر جے یو آئی اور دو پر اے این پی کے امیدوار کھڑے تھے اور تمام نشستوں پر چاروں ہارنے والوں کو اپنی پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔
ایک نشست پشاور کی تھی اور پشاور کے میئر کا انتخاب جے یو آئی نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اس وقت جیتا تھا جب کے پی کے ساتھ وفاق میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت اور جے یو آئی حزب اختلاف میں تھی اور اس کامیابی کے بعد مولانا فضل الرحمن کے پی کے سیاسی دعویدار تھے مگر دوسرے مرحلے میں جے یو آئی کی مقبولیت ناکامی میں بدل گئی تھی۔
جے یو آئی کے پی کی بڑی جماعت کہلاتی ہے جب کہ مسلم لیگ پنجاب میں اور پیپلز پارٹی سندھ کی بڑی جماعتیں کہلاتی تھیں مگر پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کو کے پی میں ضمنی انتخابات میں مسلسل شکست ہو رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے کراچی اور ملتان میں پی ٹی آئی اور عمران خان کو شکست دے کر پی ٹی آئی سے اس کی دو نشستیں چھین لیں اور اپنی مقبولیت ثابت کردی جب کہ پی ڈی ایم مسلسل ہار رہی ہے۔
جس کی وفاق میں 6 ماہ سے حکومت ہے اور 22 جولائی تک پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور وہاں پی ٹی آئی کی 20 خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم اور پی پی کے مشترکہ 15 امیدواروں کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی جس کے نتیجے میں (ن) لیگ کی پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے ایک متنازعہ فیصلے کے نتیجے میں ختم ہوگئی تھی اور پنجاب سے پی ٹی آئی کی 5 نشستیں جیت لینے کے باوجود پی ڈی ایم کو شدید سیاسی دھچکا لگا تھا اور پیپلز پارٹی نے پنجاب میں (ن) لیگ کی حمایت کی تھی۔
پنجاب اور کے پی میں پی ڈی ایم کی شکست کی ذمے داری جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ن کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ اکتوبر میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی جن تینوں نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوا ان میں (ن) لیگ صرف ایک نشست بچا سکی اور اس کی دو نشستیں پی ٹی آئی نے چھین لیں اور قومی اسمبلی کی اپنی دو نشستیں تحریک انصاف بچانے میں کامیاب رہی۔
پنجاب کو مسلم لیگ (ن) اپنا گڑھ کہتی تھی جہاں وہ پی ڈی ایم کی حمایت کے باوجود قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی پی ٹی آئی سے نہ چھین سکی اور اپنی دو صوبائی نشستیں بھی گنوا بیٹھی جس کی ذمے داری مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے 16 اکتوبر کے ضمنی انتخابات کے لیے پنجاب میں سنجیدگی سے انتخابی مہم نہیں چلائی، اگر وہ ضمنی الیکشن میں بھرپور مہم چلا لیتی تو رزلٹ کچھ مختلف ہو سکتا تھا۔وفاق میں پی ڈی ایم اور پی پی کی اتحادی حکومت کے سات ماہ ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں مسلم لیگ (ن) کے بعض وزیروں کا سوٹ پہننے کا شوق ضرور پورا ہوا اور مولانا فضل الرحمن کو چار اہم وزارتیں ملیں ۔
وزیر اعظم عمران خان نے کے پی کے بلدیاتی الیکشن میں خود بھرپور مہم چلا کر سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی تھی اور مولانا پہلی کامیابی کے بعد دوسرے بلدیاتی مرحلے کو بھول گئے تھے اور اپنے آبائی حلقے ڈی آئی خان میں بھی بلدیاتی شکست سے دوچار ہوئے تھے مگر بلدیاتی شکست کے باوجود مولانا فضل الرحمن اپنے صوبے میں حکومت میں ہوتے ہوئے، پی ٹی آئی سے قومی اسمبلی کی کوئی شکست نہ چھین سکے کیونکہ جے یو آئی وزارتوں کے مزے لیتی رہی اورجے یو آئی نے بھی بھرپور انتخابی مہم نہیں چلائی جس سے اس کے دونوں امیدواروں کو عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور جے یو آئی کے بھرم کو زک پہنچ جو بلدیاتی الیکشن میں پہلے مرحلے میں قائم ہوئی تھی اور اپنی اسی کامیابی کے باعث مولانا کے پی میں سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کا دعویٰ کرکے صوبہ کے پی اور بلوچستان میں بھی جے یو آئی کے گورنر مقرر کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انتخابی شکستوں سے کے پی میں جے یو آئی اور اے این پی کی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مقبولیت میں فرق آ یا اور پنجاب میں اپنی دو نشستیں کھو دینا (ن) لیگ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور موجودہ صورت حال میں تینوں صوبوں میں شاید کوئی پی ڈی ایم کا ٹکٹ لے کر الیکشن میں حصہ لینے پر تیار نہیں ہوگا۔حکومت میں شامل پارٹیاں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ ان کے پاس ایسی وزارتیں ہیں جن سے عوام کا کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔
چاروں نشستیں پہلے بھی پی ٹی آئی کے پاس تھیں جن میں دو پر جے یو آئی اور دو پر اے این پی کے امیدوار کھڑے تھے اور تمام نشستوں پر چاروں ہارنے والوں کو اپنی پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔
ایک نشست پشاور کی تھی اور پشاور کے میئر کا انتخاب جے یو آئی نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اس وقت جیتا تھا جب کے پی کے ساتھ وفاق میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت اور جے یو آئی حزب اختلاف میں تھی اور اس کامیابی کے بعد مولانا فضل الرحمن کے پی کے سیاسی دعویدار تھے مگر دوسرے مرحلے میں جے یو آئی کی مقبولیت ناکامی میں بدل گئی تھی۔
جے یو آئی کے پی کی بڑی جماعت کہلاتی ہے جب کہ مسلم لیگ پنجاب میں اور پیپلز پارٹی سندھ کی بڑی جماعتیں کہلاتی تھیں مگر پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کو کے پی میں ضمنی انتخابات میں مسلسل شکست ہو رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے کراچی اور ملتان میں پی ٹی آئی اور عمران خان کو شکست دے کر پی ٹی آئی سے اس کی دو نشستیں چھین لیں اور اپنی مقبولیت ثابت کردی جب کہ پی ڈی ایم مسلسل ہار رہی ہے۔
جس کی وفاق میں 6 ماہ سے حکومت ہے اور 22 جولائی تک پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور وہاں پی ٹی آئی کی 20 خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم اور پی پی کے مشترکہ 15 امیدواروں کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی جس کے نتیجے میں (ن) لیگ کی پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے ایک متنازعہ فیصلے کے نتیجے میں ختم ہوگئی تھی اور پنجاب سے پی ٹی آئی کی 5 نشستیں جیت لینے کے باوجود پی ڈی ایم کو شدید سیاسی دھچکا لگا تھا اور پیپلز پارٹی نے پنجاب میں (ن) لیگ کی حمایت کی تھی۔
پنجاب اور کے پی میں پی ڈی ایم کی شکست کی ذمے داری جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ن کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ اکتوبر میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی جن تینوں نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوا ان میں (ن) لیگ صرف ایک نشست بچا سکی اور اس کی دو نشستیں پی ٹی آئی نے چھین لیں اور قومی اسمبلی کی اپنی دو نشستیں تحریک انصاف بچانے میں کامیاب رہی۔
پنجاب کو مسلم لیگ (ن) اپنا گڑھ کہتی تھی جہاں وہ پی ڈی ایم کی حمایت کے باوجود قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی پی ٹی آئی سے نہ چھین سکی اور اپنی دو صوبائی نشستیں بھی گنوا بیٹھی جس کی ذمے داری مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے 16 اکتوبر کے ضمنی انتخابات کے لیے پنجاب میں سنجیدگی سے انتخابی مہم نہیں چلائی، اگر وہ ضمنی الیکشن میں بھرپور مہم چلا لیتی تو رزلٹ کچھ مختلف ہو سکتا تھا۔وفاق میں پی ڈی ایم اور پی پی کی اتحادی حکومت کے سات ماہ ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں مسلم لیگ (ن) کے بعض وزیروں کا سوٹ پہننے کا شوق ضرور پورا ہوا اور مولانا فضل الرحمن کو چار اہم وزارتیں ملیں ۔
وزیر اعظم عمران خان نے کے پی کے بلدیاتی الیکشن میں خود بھرپور مہم چلا کر سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی تھی اور مولانا پہلی کامیابی کے بعد دوسرے بلدیاتی مرحلے کو بھول گئے تھے اور اپنے آبائی حلقے ڈی آئی خان میں بھی بلدیاتی شکست سے دوچار ہوئے تھے مگر بلدیاتی شکست کے باوجود مولانا فضل الرحمن اپنے صوبے میں حکومت میں ہوتے ہوئے، پی ٹی آئی سے قومی اسمبلی کی کوئی شکست نہ چھین سکے کیونکہ جے یو آئی وزارتوں کے مزے لیتی رہی اورجے یو آئی نے بھی بھرپور انتخابی مہم نہیں چلائی جس سے اس کے دونوں امیدواروں کو عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور جے یو آئی کے بھرم کو زک پہنچ جو بلدیاتی الیکشن میں پہلے مرحلے میں قائم ہوئی تھی اور اپنی اسی کامیابی کے باعث مولانا کے پی میں سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کا دعویٰ کرکے صوبہ کے پی اور بلوچستان میں بھی جے یو آئی کے گورنر مقرر کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انتخابی شکستوں سے کے پی میں جے یو آئی اور اے این پی کی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مقبولیت میں فرق آ یا اور پنجاب میں اپنی دو نشستیں کھو دینا (ن) لیگ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور موجودہ صورت حال میں تینوں صوبوں میں شاید کوئی پی ڈی ایم کا ٹکٹ لے کر الیکشن میں حصہ لینے پر تیار نہیں ہوگا۔حکومت میں شامل پارٹیاں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ ان کے پاس ایسی وزارتیں ہیں جن سے عوام کا کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔