شوگر ایکسپورٹ تنازع حکومت اور مل مالکان کے مابین ڈیڈلاک برقرار
اسحاق ڈار کی زیرصدارت اجلاس غیرنتیجہ خیز رہا،’پاسما‘ کیساتھ اگلی میٹنگ جمعرات کو ہوگی
حکومت نے پیر کو منعقدہ اجلاس میں شوگر مل مالکان کی جانب سے کرشنگ سیزن شروع کرنے سے پہلے دس لاکھ ٹن فاضل چینی برآمد کرنے کی اجازت دیئے جانے کا مطالبہ مسترد کردیا۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن (پاسما) کے نمائندوں کے ساتھ گزشتہ روز ہونے والا اجلاس غیرنتیجہ خیز رہا۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ نے 'پاسما' کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا کہ ملک میں 1.065ملین میٹرک ٹن فاضل چینی موجود ہے۔
طارق بشیر چیمہ نے اجلاس کے بعد بتایا کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ہم جمعرات کو بھی میٹنگ کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک چینی کی فاضل مقدار کی غیرجانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہوجاتی، اس وقت تک برآمد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سندھ میں گنے کی 40 فیصد فصل کو سیلاب بہا لے گیا، ہمیں چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دینے سے قبل اگلے سال کی ملکی ضروریات کو بھی دیکھنا ہوگا۔
دوسری جانب 'پاسما' نے دھمکی دی ہے کہ جب تک دس لاکھ ٹن فاضل چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں مل جاتی، شوگر ملیں کرشنگ سیزن شروع نہیں کریں گی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں چیئرمین 'پاسما' نے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے نقطہ نظر کی سختی سے مخالفت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر برآمد کی اجازت دیدی گئی تو ملکی مارکیٹ میں چینی مزید مہنگی ہوجائے گی، جس کی موجودہ حکومت اس وقت متحمل نہیں ہوسکتی۔
وزارت خزانہ کے مطابق اجلاس کے دوران وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ملک میں چینی کے اسٹریٹجک ذخائر برقرار رکھنے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے لیے چینی کی قیمت مستحکم رکھنے پر زور دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی اوسط ماہانہ کھپت596,000 ٹن ہے اور اس کے موجودہ ملکی ذخائر صرف 54 روز کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔
حکومت کا تخمینہ ہے کہ گنے کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اگلے سال چینی کی پیداوار اس کی سالانہ کھپت سے 260,000 میٹرک ٹن کم ہوگی۔ تاہم شوگر مل مالکان اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگلے سال بھی ان کے پاس750,000 میٹرک ٹن فاضل چینی کے ذخائر ہوں گے۔
پنجاب حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس سال چینی کے فاضل ذخائر کی مقدار چار لاکھ ٹن ہوگی، تاہم وفاقی حکومت یہ اعدادوشمار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اجلاس کے بعد چیئرمین 'پاسما' عاصم غنی عثمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے گنے کی سرکاری قیمت میں 33 فیصد اضافہ کرکے 300 روپے فی40کلوگرام مقرر کردی ہے، پیداواری لاگت میں 33 فیصد اضافے کے بعد چینی کی قیمت موجودہ سطح پر کس طرح برقرار رہ سکتی ہے؟
شوگر مل مالکان کے مطابق گنے کی قیمت 300 روپے فی 40کلوگرام مقرر ہونے کے بعد چینی کی پیداواری لاگت105-115 روپے فی کلوگرام تک جاپہنچے گی، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں چینی کی تھوک اور خوردہ قیمتوں میں لازماً اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ گنے کا کرشنگ سیزن شروع ہونے میں تاخیر کے باعث وہ گندم کی بوائی نہیں کر پارہے، جس کے باعث اگلے سال گندم کا بحران پیدا ہوجانے کا بھی خطرہ ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن (پاسما) کے نمائندوں کے ساتھ گزشتہ روز ہونے والا اجلاس غیرنتیجہ خیز رہا۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ نے 'پاسما' کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا کہ ملک میں 1.065ملین میٹرک ٹن فاضل چینی موجود ہے۔
طارق بشیر چیمہ نے اجلاس کے بعد بتایا کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ہم جمعرات کو بھی میٹنگ کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک چینی کی فاضل مقدار کی غیرجانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہوجاتی، اس وقت تک برآمد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سندھ میں گنے کی 40 فیصد فصل کو سیلاب بہا لے گیا، ہمیں چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دینے سے قبل اگلے سال کی ملکی ضروریات کو بھی دیکھنا ہوگا۔
دوسری جانب 'پاسما' نے دھمکی دی ہے کہ جب تک دس لاکھ ٹن فاضل چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں مل جاتی، شوگر ملیں کرشنگ سیزن شروع نہیں کریں گی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں چیئرمین 'پاسما' نے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے نقطہ نظر کی سختی سے مخالفت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر برآمد کی اجازت دیدی گئی تو ملکی مارکیٹ میں چینی مزید مہنگی ہوجائے گی، جس کی موجودہ حکومت اس وقت متحمل نہیں ہوسکتی۔
وزارت خزانہ کے مطابق اجلاس کے دوران وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ملک میں چینی کے اسٹریٹجک ذخائر برقرار رکھنے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے لیے چینی کی قیمت مستحکم رکھنے پر زور دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی اوسط ماہانہ کھپت596,000 ٹن ہے اور اس کے موجودہ ملکی ذخائر صرف 54 روز کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔
حکومت کا تخمینہ ہے کہ گنے کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اگلے سال چینی کی پیداوار اس کی سالانہ کھپت سے 260,000 میٹرک ٹن کم ہوگی۔ تاہم شوگر مل مالکان اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگلے سال بھی ان کے پاس750,000 میٹرک ٹن فاضل چینی کے ذخائر ہوں گے۔
پنجاب حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس سال چینی کے فاضل ذخائر کی مقدار چار لاکھ ٹن ہوگی، تاہم وفاقی حکومت یہ اعدادوشمار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اجلاس کے بعد چیئرمین 'پاسما' عاصم غنی عثمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے گنے کی سرکاری قیمت میں 33 فیصد اضافہ کرکے 300 روپے فی40کلوگرام مقرر کردی ہے، پیداواری لاگت میں 33 فیصد اضافے کے بعد چینی کی قیمت موجودہ سطح پر کس طرح برقرار رہ سکتی ہے؟
شوگر مل مالکان کے مطابق گنے کی قیمت 300 روپے فی 40کلوگرام مقرر ہونے کے بعد چینی کی پیداواری لاگت105-115 روپے فی کلوگرام تک جاپہنچے گی، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں چینی کی تھوک اور خوردہ قیمتوں میں لازماً اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ گنے کا کرشنگ سیزن شروع ہونے میں تاخیر کے باعث وہ گندم کی بوائی نہیں کر پارہے، جس کے باعث اگلے سال گندم کا بحران پیدا ہوجانے کا بھی خطرہ ہے۔