کراچی و حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہوں گے الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنادیا
مقررہ تاریخ پر شفاف اور پُرامن الیکشن کا انعقاد ہرصورت یقینی بنایا جائے، سیکیورٹی ادارے تیاری مکمل کریں، الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، کراچی اور حیدرآباد ڈویژنز میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہوں گے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی اتنخابات کے انعقاد سے متعلق پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت کی جس میں کراچی اور حیدرآباد کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی سمیت دیگر کا موقف سنا گیا، آئی جی سندھ کا موقف بھی لیا گیا اور 15 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جو کہ آج سنادیا گیا۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد ہونے پر سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو 90 روز کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی جسے الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیا۔
الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی جانب سے پولیس نفری نہ ہونے اور سیلابی صورتحال کے جواز کو مسترد کرتے ہوئے کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کردیا۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں انتظامی اور سیکیورٹی اداروں کو اپنی تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 15 جنوری کو ان دونوں ڈویژنز میں بلدیاتی انتخابات کا ہرممکن انعقاد یقینی بنایا جائے،انتخابات کو شفاف اور پرامن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
15 نومبر کو سندھ حکومت کی جانب سے بیرسٹر مرتضی وہاب نے الیکشن کمیشن میں پیشی کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ اگر انتخابات کرائے گئے تو امن و امان کی ضمانت نہیں دے سکتے، ماضی کی طرح کے واقعات متوقع ہیں اس لیے 90 روز کے لیے انتخابات ملتوی کردیے جائیں۔
اسی طرح ایم کیو ایم کی جانب سے وسیم اختر پیش ہوئے اور انتخابات ملتوی کرنے کے حق میں دلائل دیے جبکہ تحریک انصاف کے وکیل نے انتخابات کے انعقاد کے لیے دلائل دیے جب کہ آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری نے سفارش کی کہ الیکشن ابھی نہ کرائے جائیں۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق سندھ حکومت نے 17 ہزار پولیس نفری کی شارٹیج کا موقف اپنایا اور کہا کہ ہماری نفری سیلاب متاثرین کی امداد میں مصروف ہے جس پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمان نے کہا کہ ہم ریلیف کے کاموں میں مشغول ہیں ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کتنی نفری ہے۔ آئی جی سندھ نے بھی کہا کہ جتنی تعداد سندھ حکومت بتارہی ہے اہلکاروں کی اتنی قلت نہیں ہے۔
سندھ حکومت نے یہ بھی کہا کہ ہمارے دس ہزار اہلکار ایک سیاسی جماعت کے دھرنے کے پیش نظر اسلام آباد میں موجود ہیں، وفاق نے ہم سے یہ نفری طلب کی ہوئی ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن نے تجویز دی کہ ہم پنجاب حکومت سے اہلکار لے کر یہ شارٹیج پوری کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی جانب سے نعیم الرحمان پیش ہوئے تھے جنہوں نے رضامندی ظاہر کی کہ سندھ حکومت کو 45 دن کا وقت دے دیا جائے تاکہ سندھ حکومت بھی اپنی تیاری مکمل کرلے۔ انہوں ںے کہا کہ 45 دن کے بعد انتخابات کا انعقاد کردیا جائے لیکن یقین دلایا جائے کہ اگر45 روز بعد کی تاریخ دی جائے گی تو ہرگز اسے ملتوی نہ کیا جائے اور اسی تاریخ کو انتخابات ہوں۔
واضح رہے کہ سندھ کے بقیہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں تاہم کراچی اور حیدرآباد ڈویژنز میں باقی ہے تاہم سندھ حکومت نے سیلاب کو بنیاد بناکر ان شہروں میں انتخابات دو سے تین بار ملتوی کرانے کی درخواستیں دیں جو منظور ہوتی رہیں تاہم اس بار الیکشن کمیشن نے درخواستیں مسترد کردیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی اتنخابات کے انعقاد سے متعلق پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت کی جس میں کراچی اور حیدرآباد کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی سمیت دیگر کا موقف سنا گیا، آئی جی سندھ کا موقف بھی لیا گیا اور 15 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جو کہ آج سنادیا گیا۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد ہونے پر سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو 90 روز کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی جسے الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیا۔
الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی جانب سے پولیس نفری نہ ہونے اور سیلابی صورتحال کے جواز کو مسترد کرتے ہوئے کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کردیا۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں انتظامی اور سیکیورٹی اداروں کو اپنی تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 15 جنوری کو ان دونوں ڈویژنز میں بلدیاتی انتخابات کا ہرممکن انعقاد یقینی بنایا جائے،انتخابات کو شفاف اور پرامن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
15 نومبر کو سندھ حکومت کی جانب سے بیرسٹر مرتضی وہاب نے الیکشن کمیشن میں پیشی کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ اگر انتخابات کرائے گئے تو امن و امان کی ضمانت نہیں دے سکتے، ماضی کی طرح کے واقعات متوقع ہیں اس لیے 90 روز کے لیے انتخابات ملتوی کردیے جائیں۔
اسی طرح ایم کیو ایم کی جانب سے وسیم اختر پیش ہوئے اور انتخابات ملتوی کرنے کے حق میں دلائل دیے جبکہ تحریک انصاف کے وکیل نے انتخابات کے انعقاد کے لیے دلائل دیے جب کہ آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری نے سفارش کی کہ الیکشن ابھی نہ کرائے جائیں۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق سندھ حکومت نے 17 ہزار پولیس نفری کی شارٹیج کا موقف اپنایا اور کہا کہ ہماری نفری سیلاب متاثرین کی امداد میں مصروف ہے جس پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمان نے کہا کہ ہم ریلیف کے کاموں میں مشغول ہیں ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کتنی نفری ہے۔ آئی جی سندھ نے بھی کہا کہ جتنی تعداد سندھ حکومت بتارہی ہے اہلکاروں کی اتنی قلت نہیں ہے۔
سندھ حکومت نے یہ بھی کہا کہ ہمارے دس ہزار اہلکار ایک سیاسی جماعت کے دھرنے کے پیش نظر اسلام آباد میں موجود ہیں، وفاق نے ہم سے یہ نفری طلب کی ہوئی ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن نے تجویز دی کہ ہم پنجاب حکومت سے اہلکار لے کر یہ شارٹیج پوری کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی جانب سے نعیم الرحمان پیش ہوئے تھے جنہوں نے رضامندی ظاہر کی کہ سندھ حکومت کو 45 دن کا وقت دے دیا جائے تاکہ سندھ حکومت بھی اپنی تیاری مکمل کرلے۔ انہوں ںے کہا کہ 45 دن کے بعد انتخابات کا انعقاد کردیا جائے لیکن یقین دلایا جائے کہ اگر45 روز بعد کی تاریخ دی جائے گی تو ہرگز اسے ملتوی نہ کیا جائے اور اسی تاریخ کو انتخابات ہوں۔
واضح رہے کہ سندھ کے بقیہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں تاہم کراچی اور حیدرآباد ڈویژنز میں باقی ہے تاہم سندھ حکومت نے سیلاب کو بنیاد بناکر ان شہروں میں انتخابات دو سے تین بار ملتوی کرانے کی درخواستیں دیں جو منظور ہوتی رہیں تاہم اس بار الیکشن کمیشن نے درخواستیں مسترد کردیں۔