افواج پاکستان ۔قومی وحدت کی علامت

ہمارے سیاسی لیڈر جو کچھ بھی کہتے رہیں، قوم اپنی سلامتی کے لیے ہمیشہ افواج پاکستان کی طرف محبت سے دیکھتی ہے


اطہر قادر حسن November 23, 2022
[email protected]

ان دنوں ملک میں افواہوں کا وہ طوفان گرم ہے کہ الامان الحفیظ۔ جس کے منہ میں جو کچھ آرہا ہے وہ بول رہا ہے اور جو لکھنے والے ہیں وہ بغیر کسی مصدقہ اطلاع کے اپنی خواہشات کے مطابق لکھتے جارہے ہیں۔

جب سے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم متعارف ہوا ہے تب سے مخصوص گروہوں اور سیاسی پارٹیوں نے اپنے پروردہ یوٹیوبرز کے ذریعے شوشل میڈیا پر پروپیگنڈے اور جھوٹ کا طوفان برپا کررکھا ہے،ہر شخص عقل کل کا درجہ رکھتا ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہے۔ ہم پاکستانی ویسے بھی خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی بات پسند کرتے ہیں جو ہمارے کانوں میںرس گھولے ۔ خوابوں اور مزاج کے برعکس گفتگو ہمارے ہاں انتہائی ناپسندیدہ گفتگو تصور کی جاتی ہے ۔

افواہوں کے طوفان کا ذکر یوں ہے کہ ان دنوں نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل آخری مراحل سے گزر رہا ہے اور چند روز میں یہ عمل مکمل ہوجائے، لہٰذا اس پر سیاسی شورشرابے کو ہوا دینے کی کیا ضرورت ہے۔

حالات اس نہج پر ہیں کہ پاکستان کے نوجوان وزیرخارجہ کو اس حوالے سے سخت انبتا ہی بیان دینا پڑا ، انھیں اس بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کے متعلق تو وہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔

پاکستانی عوام کی افواج پاکستان سے محبت اور لگاؤ انتہائی حدوں کو چھوتاہے، انھیں ریاستی اداروں اور ان کی اہم شخصیات کو متنازع بنانے کی مہم پر خوش نہیں ہیں۔ ہماری فوجی طاقت کی شان ہی نرالی رہی ہے، ہماری افواج نے حرب و ضرب کے ایسے کارنامے انجام دیے ہیںجن کی گواہی تاریخ کی کتابیں دے رہی ہیں، ہماری افواج کی بہادری اور پروفیشنل ازم مثالی ہے۔

وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت ہمارے فوجی کے لیے سب سے بڑا انعام ہوتی ہے ۔ مسلمان فوج کے جرنیل خالد بن ولید جن کا نام ہی فتح کی علامت تھا ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بستر مرگ پرتھے اور مسلمانوں سے کہتے تھے کہ دیکھو! میرے جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جس پر زخموں کا نشان نہ ہو لیکن میری قسمت میں جنگ کے میدان میں شہادت نہیں تھی اور میں بستر پر جان دے رہا ہوں، وہ میدان جنگ میرے نصیب میں نہیں تھا جس پر میرا خون بہتا اور میں اﷲ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جاتا۔ ہمارے سپاہی محض نوکری نہیں کرتے بلکہ وہ کسی مقصد کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ میں حضرت خالدبن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے بہادر جرنیلوں اور سپہ سالاروں کا ذکر ہمارے سپہ گری کی تاریخ کا روشن دور رہا ہے ۔ آج حرب و حزب کے جدیددور میں جنگ کے تمام خطرناک آلات وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور ہمارے پاس تو ایٹم بم بھی ہے جو ان تمام خطرناک ہتھیاروں کی ماں ہے۔

تربیت کا بہترین ماحول بھی ہے اور ہمارے آج کے سپاہی کادل اسی ایمان سے آباد اور سرشار ہے جو ماضی میں ہمارا طرہ امتیاز رہا ہے۔ اللہ کا نام لے کر لڑنے والوں کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ،کامیابی ایک مسلمان سپاہی کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے جس نے اللہ کے لیے جان دی اور اپنے نظریے پر مر مٹا۔

آج کی یہ معروضات نئے سپہ سالار کو خوش آمدید کہنے کے لیے لکھ رہا ہوں ۔ والد مرحوم بتایا کرتے تھے کہ وہ ہمارے ایک حکمران کے ساتھ ہندوستان کے دورے پر گئے تو وہاں پر ایک ہندو لیڈر نے ہمارے حکمران سے جنگ پر بات کی تو اسے جواب دیا گیا کہ آپ جنگ کی باتیں نہ کیا کریں، آپ کے لیے خاموشی بہتر ہے، اگر جنگ ہو ہی گئی تو دونوں ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کو ختم کر دیں گی لیکن ایک بات یاد رہے کہ مسلمان صرف پاکستا ن نہیں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کوختم کرنا ممکن نہیں لیکن ہندو ؤں کا صرف ایک ملک ہے اور اگر ہندوستان ختم ہو گیا تو ہندو ختم ہو جائے گا ۔

اندرا گاندھی نے پاکستان کے دولخت ہونے پر ایک جلسے میں کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہندوستان پر ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے ، لیکن آج کے جدید دور کے ہندو کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے سپہ سالار کی سربراہی میں اپنی حفاظت کرنا اور کسی جارحیت کا جواب دینا جانتی ہے۔

اس لیے ہندوستان کی قیادت کے لیے مفت مشورہ یہی ہے کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے ،دونوں ملکوں کے لیے امن ہی بہتر راستہ ہے جو بقاء اور سلامتی کا راستہ ہے اور دونوں ملکوں کے لیے زندگی کا یہی راستہ سب سے بہتر ہے اور عقل بھی اسے ہی تسلیم کرتی ہے۔پاکستانی قوم کی جو عقیدت اپنی مسلح افواج سے ہے، ہم پاکستانی اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔

ہمارے سیاسی لیڈر جو کچھ بھی کہتے رہیں، قوم اپنی سلامتی کے لیے ہمیشہ افواج پاکستان کی طرف محبت سے دیکھتی ہے اور ان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکالنا بھی جانتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں