آشفتہ سر سعید حسن خان پہلا حصہ

40ء کی دہائی میں نوجوان اگر گھر سے کچھ کہے بغیر غائب ہوجائیں تو گھر والے انھیں بمبئی میں ڈھونڈتے تھے


Zahida Hina November 23, 2022
[email protected]

ان کی رخصت میرے لیے ایک ذاتی سانحہ ہے۔ وہ چلے گئے اور ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ ہمارے درمیان سے کیسا بے بدل شخص اٹھا لیا گیا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا ہوئے۔

سعید حسن خان بریلی کی خاک سے اٹھے۔ ملکوں ملکوں اور شہروں شہروں وہ پھرتے رہے، بلا مبالغہ سیکڑوں نہیں ہزاروں دوست بنائے اور اب کراچی کی خاک میں آسودہ ہیں۔

40ء کی دہائی میں نوجوان اگر گھر سے کچھ کہے بغیر غائب ہوجائیں تو گھر والے انھیں بمبئی میں ڈھونڈتے تھے اور پھر جب ہندوستان میں بٹوارے کی کالی آندھی چلی اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان گھر سے کسی انجانی منزل کی طرف چل پڑے تو گھر والے صبر کر لیتے تھے کہ ان کا پرعزم بیٹا یا بھتیجا ، سنہرے خوابوں کی سر زمین پاکستان چلا گیا ہے۔ سعید حسن خان کے والد اپنے علاقے کے کلاں زمیندار تھے۔

بیٹا پاکستان گیا تو انھوں نے اس کا خاص خیال رکھا کہ ان کا فرزند کہیں کلرکی نہ کر لے اور نہ کسی کا زیر بار احساں ہو۔ بریلی سے منی آرڈر آتے رہے اور سعید خان گورنمنٹ کالج لاہور میں وہاں کی اشرافیہ کے نوجوانوں کے ساتھ پڑھتے رہے اور یہیں سے اس آشفتہ سر نوجوان کی زندگی کا آغاز ہوا جسے جانیے تو حیرت ہوتی ہے۔

سعید بھائی نے جنرل ایوب کے مارشل لاء تک کا زمانہ دیکھا۔ وہ ہمیں انتخابی دھاندلیوں کا ذکر بلا کم و کاست بتاتے ہیں اور یہ بھی کہ اثر و رسوخ رکھنے والوں کے کام کس طرح پلک جھپکتے ہوجاتے تھے۔

وہ رفتہ رفتہ اپنے اس خواب سے مایوس ہوتے گئے جس کے تعاقب میں انھوں نے اپنا گھر چھوڑا تھا اور پھر وہ بین الاقوامی امن تحریکوں سے وابستہ ہوتے چلے گئے جس میں ویانا ، لندن ، برسلز ، ویتنام ، ماسکو اور دوسرے بہت سے شہر شامل ہیں۔

وہ ان میں سے تھے جن کے بارے میں ہماری بڑی بوڑھیاں کہتی تھیں کہ ان کے پیر پر سنیچر سوار ہے۔ وہ امن کانفرنسوں میں لیکچر دیتے رہے، عشق کرتے رہے، ان میں کامیاب اور ناکام ہوتے رہے۔ انھوں نے کئی مغربی صحافیوں کے ساتھ مل کر کالم لکھے۔

ان لوگوں میں مشہور صحافی ڈیوڈ پیج اور کرٹ شامل تھے۔ ہم لوگوں کے اصرار پر انھوں نے خود نوشت لکھی جس کا ترجمہ آخری زمانوں میں ندیم اختر نے کیا۔ افسوس کہ یہ ترجمہ سعید بھائی کی زندگی میں چھپ کر نہ آسکا۔ انھوں نے پنجاب میںمذہبی معاملے پر ہونے والے بلوے کی تفصیلات بھی لکھی ہیں۔

انھوں نے لکھا ہے۔ یہ سیاسی داؤ پیج اس وقت کھیلے جا رہے تھے جب پاکستان کو فوجی معاہدے میں لانے کے لیے امریکا کی دلچسپی میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت امریکا کی خواہش پوری کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ امریکا بھی ناظم الدین حکومت کو تبدیل کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ محمد علی بوگرہ امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے جنھیں ناظم الدین کی جگہ ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔

ملک کی مرکزی حکومت پر نوکر شاہی کا تسلط تھا۔ حکومت کو سیاسی طور پر باشعور بنگالی اکثریت سے معاملات طے کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ پارلیمنٹ میں بنگالی اکثریت نے گورنر جنرل غلام محمد کے اختیارات کم کرنے کے لیے ایک قرارداد آگے بڑھائی۔ اس بار غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو ہی برطرف کر کے ایوب خان کو محمد علی بوگرہ کی دوسری کابینہ میں وزیر دفاع مقرر کر دیا۔

ایوب خان دفاع کے ساتھ فوج کی کمانڈر انچیف کے عہدے پر بھی براجمان تھے۔ یہ وہ مہلک اقدام تھا جس کے ذریعے فوج ملک کی سیاست میں باضابطہ طور پر داخل ہوگئی جس کے ساتھ ہی پینٹاگون اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات کی ابتدا ہوگئی۔ کچھ ہی دنوں بعد پاکستان سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں بھی شامل ہوگیا۔

مولوی تمیز الدین خان پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کی برطرفی کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ ایک سندھی جج محمد بخش میمن اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے سربراہ تھے۔ عدالت نے گورنر جنرل کی جانب سے پارلیمنٹ کی برطرفی کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔

حکومت پاکستان نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ لاہور میں اپیل دائر کردی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وہی جسٹس محمد منیر تھے جو قادیانی مخالف فسادات کے حوالے سے قائم انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی رہ چکے تھے۔

مولوی تمیز الدین مقدمے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ برطانیہ کے دو بہت ممتاز قانون دان فریقین کی جانب سے مقدمہ لڑنے کے لیے پاکستان آئے تھے۔ حکومت نے اپنے مقدمے کا دفاع کرنے کے لیے ڈیپلاک جب کہ برطانیہ کے کمیونسٹ نواز بیرسٹر ڈی این پرٹ نے حزب اختلاف کے لیے کوئی معاوضہ لیے بغیر مقدمہ لڑنے کی پیش کش کی تھی۔ یہ وہی دن تھے جب میرے ایک دوست پر نرس کو قتل کرنے کا الزام تھا جس نے غالبا زیادہ مقدار میں گولیاں کھا لی تھیں۔

دوست کے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ میں ڈی این پرٹ سے اس کا دفاع کرنے کے لیے بات کروں۔ میں نے پرٹ سے بات کی لیکن وہ اس نوعیت کے مقدمے میں کسی ملزم کی مفت پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے معمول کا معاوضہ لیں گے جو کئی ہزار روپے تھے اور اس کے علاوہ یومیہ الاؤنس بھی وصول کریں گے یہ مقدمہ اخبارات کی زینت بنا ہوا تھا لہٰذا پرٹ کو اندازہ تھا کہ ملزم کا خاندان کافی امیر ہوگا۔

ان کو اس مقدمے کی پیشگی ادائیگی کردی گئی تھی لیکن وہ مولوی تمیز الدین کے مقدمے کے بعد واپس برطانیہ چلے گئے۔ وہ میرے دوست کا مقدمہ نہیں لڑ پائے۔ انھوں نے ہائی کورٹ کو تار کے ذریعے مقدمے کو ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی لیکن جسے عدالت نے اس لیے نامنظور کر دیا تھا کیونکہ ملزم کا دفاع کرنے کے لیے پرٹ کی سطح کے ہی ایک اور بڑے وکیل ایم سلیم موجود تھے۔

جب ایک مرتبہ پرٹ پاکستان کے دورے پر آئے تو میرے دوست کے خاندان والوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان سے معاوضے کی رقم کی واپسی کی درخواست کروں۔ ایسا نہ چاہتے ہوئے بھی میں پرٹ سے ملا۔ لیکن انھوں نے یہ کہہ کر معاوضہ واپس کرنے سے انکارکردیا کہ وہ پہلے ہی اپنا وقت خرچ کرکے اس مقدمے کا پورا مطالعہ کرچکے ہیں۔ بعد ازاں ، مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے مذکورہ رقم کسی خیراتی ادارے کو دے دی تھی۔

سعید حسن کہتے ہیں کہ اسی مقدمے سے متعلق وکلاء کے حوالے سے ایک اور واقعہ اس وقت میرے ذہن میں آرہا ہے۔ ان دنوں میں برطانیہ میں تھا جسٹس ایم۔ بی احمد جو پارلیمنٹ کی تحلیل کے وقت اس کے سیکریٹری تھے اور حکومت کی جانب سے اس مقدمے کی نمایندگی کررہے تھے۔

ایک دن معلوم ہوا کہ وہ برطانیہ آئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے ملاقات کی، ان کا مسئلہ یہ تھا کہ ڈیپلاک صاحب کا ٹیلی فون نمبر ان سے کہیں کھو گیا تھا۔ اس وقت ڈیپلاک برطانیہ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے۔ چیف جسٹس عموماً سماجی روابط رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ بڑی تگ و دو کے بعد میں نے اپنے ایک ایسے دوست کو تلاش کیا جو بیرسٹر اور رکن پارلیمنٹ بھی تھا۔

اس نے میری مدد کرنے کی کوشش کی۔ اسے بھی چیف جسٹس کا فون نمبر نہیں مل سکا لیکن وہ جسٹس ڈیپلاک کو۔ ایم۔ بی احمد کی آمد کے بارے میں آگاہ کرنے میں ضرور کامیاب ہوگیا۔ جنھوں نے بعد ازاں ان سے فوراً رابطہ کرلیا لہٰذا مجھے بھی چیف جسٹس آف انگلینڈ سے ملاقات کا موقع مل گیا۔

اپنی غیر جانبداری اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ اسی طرح کے طرز عمل اور رویوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہمارے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے یہاں جج شادی کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ مختلف تقریبات کا افتتاح کرتے ہیں بلکہ عوامی اجلاسوں کی صدارت تک کرتے ہیں۔

پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس انوار الحق کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے چیمبر میں ایک گرین ٹیلی فون لگانے کو کہا تھا کیونکہ وہ کسی بھی وقت صدر ضیاء الحق سے براہ راست رسائی رکھنا چاہتے تھے۔ اس طرح کے رابطے کی سہولت صرف اہم سرکاری ملازمین کو مہیا کی جاتی ہے۔ یہ امر ذہن میں رہے کہ جسٹس انوار الحق اس بینچ کے سربراہ تھے جس نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم صادر کیا تھا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں