آبادی میں کمی کا نیا بیانیہ ترتیب دیں
وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر آبادی کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ اپنی آبادی کی تمام بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ اس وقت پاکستان کا شمار 22 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے طور پر ہورہا ہے۔
مستقبل میں اتنی بڑی آبادی کے لیے خوراک ، پانی ، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ناممکن ہوگا۔ اعداد و شمار مستقبل کے سنگین خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب انفرا اسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے محدود وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے اور وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں، ٹریفک کا رش، اسپتالوں اور اسکولوں کی ناکافی تعداد، پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب سے جڑے مسائل شہریوں کا جینا حرام کرچکے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ بھی اپنی جگہ ہیں، تو اگر ہم ملک کی موجودہ آبادی کی بنیادی ضروریات اس وقت بھی پورا نہیں کر سکتے، تو آنے والے کل میں ہم کیا کریں گے؟
بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات کے پیش نظر زرعی زمینوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جال بچھایا جا رہا ہے ، جب ایسا ہوگا توکھانے کے لیے کافی گندم کہاں سے لائیں گے؟ واٹر لیول گرتا جا رہا ہے ، زیر زمین پانی کی کمی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں زرعی مقاصد کے لیے زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال نے پانی کو مزید کم کردیا ہے۔
اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں اناج باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو سوچا جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کس قدر اناج منگوانا پڑے گا اور اس پر کتنا زرمبادلہ خرچ ہوگا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہوسکا، آج بھی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ گندا پانی پینے پر مجبور ہے اور آنے والے برسوں میں تو پینے کے پانی کی طلب اس قدر زیادہ ہوگی کہ یہ دریا بھی کم پڑجائیں گے اور زرعی مقاصد کے لیے ان دریاؤں کے پانی کا استعمال تو عیاشی تصور ہوگا۔ آج کی دنیا میں لاکھوں انسان بھوک، بیماری اور وبائی امراض سے مر رہے ہیں۔
آبادی میں اضافہ کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے مگر اس کو روکنے کی جو تدابیر کی جائیں یا جو قانون بنایا جائے وہ اور زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے۔
اس مسئلے کو ماہرین معاشیات کی آراء کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو 2046 میں یہ دگنا ہو جائے گی جس سے بے روزگاری میں مزید اضافے اور رہائشی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل بھی گھمبیر ہو جائیں گے۔
پاکستان کی موجودہ آبادی بائیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ملکی آبادی میں سالانہ اضافہ، خطے کے دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر ایشیائی ممالک سے زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی میں مسلسل بڑھوتری کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان مسائل سے ہے جن کا واسطہ پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں رہتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے ہر تیسرا بچہ اسکول سے باہر ہے۔ آبادی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات میں کمی عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ہر سال بارہ ہزار خواتین حمل و زچگی کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک خاتون سے پیدا ہونیوالے بچوں کی اوسط شرح 3.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ آبادی میں اضافے کے باعث پاکستان میں صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔
بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونا بچوں میں غذائیت کی کمی کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر سات فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، 38 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں اور 23 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں بڑھتی ہوئی۔
آبادی کی وجہ سے ہی پانی کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے ، بعض رپورٹوں کے مطابق 1951 کے اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں فی کس 5300 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو اس وقت ایک ہزار کیوبک میٹر سے کم رہ گیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ زیادہ آبادی کے لحاظ سے کہیں بھی شہری خدمات پہنچانا مشکل ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر پانی یا سیوریج کی ایک کلومیٹر پائپ لائن سے پہلے سو گھروں میں پانی کی ترسیل ہوتی تھی آبادی بڑھنے سے اسی پائپ لائن پر ایک ہزار گھروں کو پانی پہنچانے کا بوجھ پڑگیا ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے زرعی زمینیں ہاؤسنگ کالونیز میں تبدیل ہو رہی ہیں جس کے باعث دیہی علاقے شہر سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایسا قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے جس میں آبادی کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختص کردہ مالی وسائل بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان وسائل کے استعمال میں بہتری لانے کے لیے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز کے علاوہ محکمہ صحت کے تمام مراکز پر متعلقہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ خواتین کی معاشی خود مختاری اور لڑکیوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کرنے ہوں گے۔ آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے حکومت کو متفقہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی بصورت دیگر بڑھتی ہوئی آبادی کا بم کسی بھی وقت خوفناک دھماکے سے پھٹ سکتا ہے جس کی زد میں ہمارے تمام قومی وسائل آسکتے ہیں جس کے بعد حالات کی بہتری کے لیے جن کوششوں اور وسائل کی ضرورت پڑے گی وہ شاید پھر ہمارے بس سے باہر ہوں۔
بچے تو اس دنیا میں آجاتے ہیں مگر پھر ان کو نہ تو مناسب غذاء ملتی ہے نہ ہی ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز ہوتی ہے اسی لیے تو پھر معاشرتی قباحتیں بڑھنے لگی ہیں آبادی کے ٹائم بم کو پھٹنے سے بچانے کے لیے حکومت کو صرف اپنے زور بازو پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام مکاتب فکر کے نمایندوں کی مشاورت کے ساتھ حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔
پاکستان میں 1955 میں ملک کی صرف 19 فیصد آبادی شہروں میں رہتی تھی۔ مسلسل اضافے کے بعد 2020 میں یہی شرح 35 فیصد ہوچکی تھی۔ ماہرین کے مطابق 2055تک پاکستان میں شہری اور دیہی علاقوں کی آبادی کا تناسب برابر ہو جائے گا۔
تب 50 فیصد پاکستانی شہروں میں رہ رہے ہوں گے اور اتنے ہی دیہی علاقوں میں۔عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں دنیا کی آبادی اگر اسی تیز رفتاری سے بڑھتی چلی گئی تو آنے والی نسلوں کی زندگی گزارنا مشکل ہوسکتا ہے ، اگر بنیادی سہولتیں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی آب کی موجودہ سہولیات بائیس کروڑ آبادی کے لیے ناکافی ہیں تو آبادی دگنی ہونے پرکیا ہوگا؟ اس صورتحال کا پوری دنیا کو ہی سامنا ہے۔
جہاں وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھنے والے ممالک میں بیروزگاری کا عام ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ 2020۔2021 کی لیبر سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی لیبر فورس کی تعداد 7کروڑ17لاکھ ہے، جس میں سے 45 لاکھ10ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ پاکستان میں اوسط ماہانہ تنخواہ 24 ہزار 28 روپے فی کس ہے۔
آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو قیاس ہے کہ 2050 تک پاکستان کی آبادی 35کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لیے بنیادی سہولتوں کی فراہمی ناممکن ہوجائے گی۔ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی اور معلومات کی فراہمی میں بہتری کے لیے محکمہ صحت کے تمام مراکز کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے تمام طبی مراکز پر خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات فراہم کی جانی چاہیں تاکہ آبادی کے خطرناک حد تک پھیلاؤ کو کم کرکے وسائل پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو بھی کم کیا جاسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر آبادی کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ پاکستان میں بڑھتی آبادی کو اگر نظر انداز کیا گیا تو یہ ایک قومی مجرمانہ غفلت ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ تیزی سے بڑھتی آبادی ملکی وسائل کو تیزی سے ٹھکانے لگا رہی ہے ، اگر فوری قومی سطح پر اس حوالہ سے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ قومی المیہ بھی بن سکتا ہے۔
اگر جامع منصوبہ بندی اور موثر عمل درآمد کیا جائے تو مستقبل کے ان خدشات سے چھٹکارا پانا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کئی ممالک پاکستان سے بری صورتحال سے نبرد آزما ہوکر بڑھتی آبادی کے بحران سے کامیابی سے نکل چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے نیا قومی بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔
مستقبل میں اتنی بڑی آبادی کے لیے خوراک ، پانی ، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ناممکن ہوگا۔ اعداد و شمار مستقبل کے سنگین خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب انفرا اسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے محدود وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے اور وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں، ٹریفک کا رش، اسپتالوں اور اسکولوں کی ناکافی تعداد، پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب سے جڑے مسائل شہریوں کا جینا حرام کرچکے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ بھی اپنی جگہ ہیں، تو اگر ہم ملک کی موجودہ آبادی کی بنیادی ضروریات اس وقت بھی پورا نہیں کر سکتے، تو آنے والے کل میں ہم کیا کریں گے؟
بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات کے پیش نظر زرعی زمینوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جال بچھایا جا رہا ہے ، جب ایسا ہوگا توکھانے کے لیے کافی گندم کہاں سے لائیں گے؟ واٹر لیول گرتا جا رہا ہے ، زیر زمین پانی کی کمی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں زرعی مقاصد کے لیے زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال نے پانی کو مزید کم کردیا ہے۔
اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں اناج باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو سوچا جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کس قدر اناج منگوانا پڑے گا اور اس پر کتنا زرمبادلہ خرچ ہوگا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہوسکا، آج بھی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ گندا پانی پینے پر مجبور ہے اور آنے والے برسوں میں تو پینے کے پانی کی طلب اس قدر زیادہ ہوگی کہ یہ دریا بھی کم پڑجائیں گے اور زرعی مقاصد کے لیے ان دریاؤں کے پانی کا استعمال تو عیاشی تصور ہوگا۔ آج کی دنیا میں لاکھوں انسان بھوک، بیماری اور وبائی امراض سے مر رہے ہیں۔
آبادی میں اضافہ کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے مگر اس کو روکنے کی جو تدابیر کی جائیں یا جو قانون بنایا جائے وہ اور زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے۔
اس مسئلے کو ماہرین معاشیات کی آراء کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو 2046 میں یہ دگنا ہو جائے گی جس سے بے روزگاری میں مزید اضافے اور رہائشی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل بھی گھمبیر ہو جائیں گے۔
پاکستان کی موجودہ آبادی بائیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ملکی آبادی میں سالانہ اضافہ، خطے کے دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر ایشیائی ممالک سے زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی میں مسلسل بڑھوتری کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان مسائل سے ہے جن کا واسطہ پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں رہتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے ہر تیسرا بچہ اسکول سے باہر ہے۔ آبادی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات میں کمی عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ہر سال بارہ ہزار خواتین حمل و زچگی کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک خاتون سے پیدا ہونیوالے بچوں کی اوسط شرح 3.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ آبادی میں اضافے کے باعث پاکستان میں صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔
بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونا بچوں میں غذائیت کی کمی کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر سات فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، 38 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں اور 23 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں بڑھتی ہوئی۔
آبادی کی وجہ سے ہی پانی کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے ، بعض رپورٹوں کے مطابق 1951 کے اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں فی کس 5300 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو اس وقت ایک ہزار کیوبک میٹر سے کم رہ گیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ زیادہ آبادی کے لحاظ سے کہیں بھی شہری خدمات پہنچانا مشکل ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر پانی یا سیوریج کی ایک کلومیٹر پائپ لائن سے پہلے سو گھروں میں پانی کی ترسیل ہوتی تھی آبادی بڑھنے سے اسی پائپ لائن پر ایک ہزار گھروں کو پانی پہنچانے کا بوجھ پڑگیا ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے زرعی زمینیں ہاؤسنگ کالونیز میں تبدیل ہو رہی ہیں جس کے باعث دیہی علاقے شہر سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایسا قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے جس میں آبادی کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختص کردہ مالی وسائل بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان وسائل کے استعمال میں بہتری لانے کے لیے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز کے علاوہ محکمہ صحت کے تمام مراکز پر متعلقہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ خواتین کی معاشی خود مختاری اور لڑکیوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کرنے ہوں گے۔ آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے حکومت کو متفقہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی بصورت دیگر بڑھتی ہوئی آبادی کا بم کسی بھی وقت خوفناک دھماکے سے پھٹ سکتا ہے جس کی زد میں ہمارے تمام قومی وسائل آسکتے ہیں جس کے بعد حالات کی بہتری کے لیے جن کوششوں اور وسائل کی ضرورت پڑے گی وہ شاید پھر ہمارے بس سے باہر ہوں۔
بچے تو اس دنیا میں آجاتے ہیں مگر پھر ان کو نہ تو مناسب غذاء ملتی ہے نہ ہی ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز ہوتی ہے اسی لیے تو پھر معاشرتی قباحتیں بڑھنے لگی ہیں آبادی کے ٹائم بم کو پھٹنے سے بچانے کے لیے حکومت کو صرف اپنے زور بازو پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام مکاتب فکر کے نمایندوں کی مشاورت کے ساتھ حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔
پاکستان میں 1955 میں ملک کی صرف 19 فیصد آبادی شہروں میں رہتی تھی۔ مسلسل اضافے کے بعد 2020 میں یہی شرح 35 فیصد ہوچکی تھی۔ ماہرین کے مطابق 2055تک پاکستان میں شہری اور دیہی علاقوں کی آبادی کا تناسب برابر ہو جائے گا۔
تب 50 فیصد پاکستانی شہروں میں رہ رہے ہوں گے اور اتنے ہی دیہی علاقوں میں۔عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں دنیا کی آبادی اگر اسی تیز رفتاری سے بڑھتی چلی گئی تو آنے والی نسلوں کی زندگی گزارنا مشکل ہوسکتا ہے ، اگر بنیادی سہولتیں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی آب کی موجودہ سہولیات بائیس کروڑ آبادی کے لیے ناکافی ہیں تو آبادی دگنی ہونے پرکیا ہوگا؟ اس صورتحال کا پوری دنیا کو ہی سامنا ہے۔
جہاں وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھنے والے ممالک میں بیروزگاری کا عام ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ 2020۔2021 کی لیبر سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی لیبر فورس کی تعداد 7کروڑ17لاکھ ہے، جس میں سے 45 لاکھ10ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ پاکستان میں اوسط ماہانہ تنخواہ 24 ہزار 28 روپے فی کس ہے۔
آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو قیاس ہے کہ 2050 تک پاکستان کی آبادی 35کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لیے بنیادی سہولتوں کی فراہمی ناممکن ہوجائے گی۔ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی اور معلومات کی فراہمی میں بہتری کے لیے محکمہ صحت کے تمام مراکز کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے تمام طبی مراکز پر خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات فراہم کی جانی چاہیں تاکہ آبادی کے خطرناک حد تک پھیلاؤ کو کم کرکے وسائل پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو بھی کم کیا جاسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر آبادی کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ پاکستان میں بڑھتی آبادی کو اگر نظر انداز کیا گیا تو یہ ایک قومی مجرمانہ غفلت ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ تیزی سے بڑھتی آبادی ملکی وسائل کو تیزی سے ٹھکانے لگا رہی ہے ، اگر فوری قومی سطح پر اس حوالہ سے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ قومی المیہ بھی بن سکتا ہے۔
اگر جامع منصوبہ بندی اور موثر عمل درآمد کیا جائے تو مستقبل کے ان خدشات سے چھٹکارا پانا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کئی ممالک پاکستان سے بری صورتحال سے نبرد آزما ہوکر بڑھتی آبادی کے بحران سے کامیابی سے نکل چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے نیا قومی بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔