فلم پر پابندی
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت رجعت پسند حلقوں میں اپنی مقبولیت قائم کرنا چاہتے ہیں
دور تبدیل ہوا۔ نعرہ آزادئ اظہار کے ساتھ حکومتیں برسر اقتدار آئیں مگر تخلیق پر پابندیاں برقرار رہیں۔
بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلم '' جوائے لینڈ '' کی ملک میں نمائش پر پھر پابندی لگی۔ وفاقی حکومت نے کی خصوصی کمیٹی کی سفارش پر یہ پابندی ختم کردی مگر پنجاب حکومت نے پھر پابندی عائد کردی۔
اس فلم کو فرانس کے کنز فلمی میلہ میں کئی ایوارڈ ملے تھے۔ یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کو کنز میں دنیا کے مختلف ممالک کی فلموں کے مقابلہ میں ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا۔
اس فلم کو دنیا کے سب سے بڑے فلمی میلہ اکیڈمی ایوارڈ میں نامزد کیا گیا ہے۔ وفاق کے اسلام آباد میں قائم سنسر بورڈ نے اس فلم کو سینماؤں میں نمائش کی اجازت دیدی تھی۔ لاہور اور کراچی میں قائم سنسر بورڈ کے اراکین نے بھی فلم پر کوئی قدغن عائد نہیں کی تھی مگر بااثر رجعت پسند گروہوں کے عمائدین کو نامعلوم افراد نے یقین دلایا کہ اس فلم کی نمائش سے معاشرے میں نام نہاد اخلاقی اقدار پامال ہو جائیں گے لہٰذا فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گی۔
پاکستان میں جوائے لینڈ پہلی فلم نہیں ہے جس پر پابندی عائد ہوئی ہے۔ 1959 سے اب تک 19 کے قریب فلموں کو مختلف وجوہات کی بناء پر نمائش کی اجازت نہیں دی گئی۔
جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگانے کے بعد معروف ڈائریکٹر اے جے کاردار نے فلم '' جاگا ہوا سویرا '' بنائی تھی ، لینن انعام یافتہ عظیم شاعر فیض احمد فیض نے اس فلم کی کہانی تحریر کی تھی جو سابقہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے غریب ماہی گیروں کے حالات زندگی کا احاطہ کرتی تھیی۔ اس وقت کے سنسر بورڈ کو یہ اعتراض تھا کہ یہ فلم کی کہانی سوشلسٹ نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔
ایوب خان کے دورِ اقتدار میں سوشل ازم کے متعلق کوئی مواد تخریبی مواد سمجھا جاتا تھا۔ اسی سال مشہور مصنف سیف الدین سیف نے فلم '' کرتار سنگھ '' کی کہانی لکھی تھی جو 1947 میں برصغیر میں ہونے والے فسادات سے ماخوذ تھی۔ پنجابی زبان کی اس فلم میں سکھ ہیرو کے ساتھ کچھ زیادہ ہمدردانہ سلوک کیا گیا تھا مگر بعد میں اس فلم کے کچھ سین سنسر کرنے کے بعد نمائش کی اجازت دیدی گئی تھی۔
یہ اپنے دور میں ایک مقبول اور سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ بنگالی زبان کے فلم ڈائریکٹر ظہور حسن نے 1970 میں بنگلہ زبان میں فلم جی بون تک نیوا (Jibon The Keneneva) کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کا مرکزی خیال 50ء کی دہائی میں بنگالی زبان کی تحریک تھا۔ اس فلم میں ایوب خان کی آمرانہ دور کے خلاف تحریک کو بھی پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم پر پابندی کے خلاف سابقہ مشرقی پاکستان میں سخت احتجاج ہوا تھا جس پر حکومت کو فلم کی نمائش کی اجازت دینی پڑی تھی۔
معروف اداکار کمال نے 1973 میں ایک فلم ''انسان اور گدھا '' بنائی تھی۔ اس فلم میں غریبوں کے حالات کی عکاسی کی گئی تھی اور اس فلم میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کے انداز کا ایک سین فلمایا گیا تھا۔ حکومت نے اس فلم پر پابندی لگادی تھی مگر پھر کچھ سین سنسر کر نے کے بعد فلم کی نمائش کی اجازت دیدی گئی تھی۔ 1977 میں فلم ''بیگم جان '' پر پابندی لگائی گئی پھر کچھ سین کاٹ کر فلم کی اجازت دی گئی۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں فلم '' عورت راج '' نمائش کے لیے سینماؤں میں پیش کی گئی۔ عورت راج کو ملک کی پہلی فیمینسٹ (Feminist) فلم کہا گیا۔ اس فلم کی نمائش کی پہلے اجازت دی گئی ، پھر اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ اسی سال پنجابی فلم '' مولا جٹ '' ریلیز ہوئی ، یہ فلم ہدایتکار یونس ملک نے بنائی تھی۔
حکومت نے فلم پر اس بناء پر پابندی عائد کی تھی کہ یہ تشدد کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے ، مگر فلم پروڈیوسر کی عدالت نے مدد کی اور حکومت کا پابندی کا حکم نامہ معطل کردیا گیا ، یہ فلم اپنے دور کی سپر ہٹ پنجابی فلم ثابت ہوئی ۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈائریکٹر جمیل دہلوی نے 1980 میں فلم The Blood of Hussain بنائی۔ اس فلم کا مرکزی خیال ایک پاکستانی خاندان کے نوجوان لڑکے کی زندگی اور موت سے متعلق تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اس فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی اور پاکستان کے شائقین فلم دیکھنے سے محروم رہے۔
مشہور ڈائریکٹر حسن عسکری نے 1981میں فلم ''میلہ '' بنائی ، فلم کے پروڈیوسر انور اقبال تھے۔ یہ فلم جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور کی عکاسی کرتی تھی۔ حکومتِ وقت نے فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح 1997 میں فلم ''زرگل'' پر پابندی لگائی گئی ، یہ فلم انقلابی خیالات پر مبنی فلم تھی۔
یہ فلم پاکستان میں ریلیز نہ ہوسکی۔ نوجوان ڈائریکٹر صبیحہ سبحان نے 2003 میں فلم ''خاموش پانی'' بنائی۔ اس فلم میں جنوبی پنجاب میں ضیاء دورِ کی مذہبی منافرت کے اثرات کی عکاسی کی گئی تھی ، مگر اس فلم پر پابند ی کی وجہ ایک بھارتی اداکار کا اس فلم میں کام کرنا تھا۔
ایک آزاد خیال فلم ڈائریکٹر حماد خان نے کی فلم پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اسی طرح آصف علی محمد نے 2011 میں ایک ڈاکیو منٹری فلم "Besiged in Quetta" بنائی۔ سنسر بورڈ نے فلم کی اجازت اس بناء پر نہیں دی کہ اس فلم میں ملک کا منفی امیج پیش کیا گیا ہے۔ 2016 میں نوجوان ڈائریکٹر عاشر عظیم نے فلم ''مالک'' بنائی۔ اس فلم پر سندھ کے سنسر بورڈ نے پابندی لگائی جب کہ پنجاب سنسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دی۔
لاہور ہائی کورٹ نے فلم پر پابندی ختم کردی اور یہ نمائش کے لیے پیش ہوئی، یہ فلم سیاسی حالات کے بارے میں تھی۔ اسی طرح 2017 میں فلم ''ورثا'' بنائی گئی۔
اس فلم پر پہلے پابندی لگائی گئی، پھر اس کی نمائش کی اجازت دی گئی۔ اسی طرح 2016 میں بچوں کے قاتل جاوید اقبال کے بارے میں فلم "Javed Iqbal: The untold story of a serial killer" بنائی گئی۔ جاوید اقبال نے لاہور میں سیکڑوں بچوں کو قتل کیا تھا مگر اس فلم پر پابندی عائد کردی گئی۔ سرمد کھوسٹ نے فلم '' زندگی تماشہ '' بنائی مگر مذہبی حلقوں کے احتجاج پر فلم پر پابندی عائد کردی گئی۔
فلم '' زندگی تماشہ '' ریلیز نہ ہونے سے سرمد کھوسٹ کے کروڑوں روپے تو ضایع ہوئے مگر مستقبل میں ایسے موضوعات پر فلم بنانے والوں کے لیے راستہ بند ہوگیا۔ وفاقی حکومت نے تو جوائے لینڈ پر پابندی ختم کردی مگر پنجاب حکومت نے یہ پابندی پھر عائد کردی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت رجعت پسند حلقوں میں اپنی مقبولیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔