ٹرائل کورٹ کا تقدس
نوسال ایک طویل عرصہ ہے جوملزم نوسال بے گناہ جیل میں رہ گیاہے،اس کیلیے نوسال بعدبری ہونابھی کوئی خاص انصاف نہیں رہ جاتا
سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان کے قتل میں سزا یافتہ ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ ویسے تو یہ معمول کی کارروائی لگتی ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلوں میں ملزمان کا بری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو مسترد کرتی رہتی ہے۔
اسی لیے ملزمان بھی اب یہی سوچتے ہیں کہ اگر ٹرائل کورٹ سے سزا ہوبھی جائے تو اعلیٰ عدلیہ سے بری ہونے کے امکانات موجود ہیں، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کی اہمیت کم رہ گئی ہے کیونکہ عمومی خیال یہی ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں فیصلہ ہو جائے گا۔
میں ذاتی طور پر ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو مسترد کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ دنیا بھر کے جدید عدالتی نظام میں ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے تا ہم پاکستان میں ٹرائل کورٹ کی اہمیت کو دن بدن کم کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اپیل میں حقائق اور گواہیوں سمیت ہر چیز دیکھی جاتی ہے، جب کہ دنیا میں اپیلوں میں ان معاملات کو نہیں دیکھا جاتا۔ بالخصوص فوجداری معاملات میں اپیلوں میں صرف قانونی نکات کو ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ حقائق اور گواہیاں دیکھنا ٹرائل کورٹ کا ہی کام ہے۔
جس کی وجہ سے اپیل میں ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کے مسترد ہونے یا تبدیل ہونے کے امکانات کم سے کم ہو گئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں تو ملزمان اور مدعی دونوں ہی سپریم کورٹ تک اپنے حق میں فیصلے کی امید میں رہتے ہیں۔دنیا بھر میں اب جیوری کا نظام بھی آچکا ہے۔ جب کہ پاکستان میں ہم ابھی تک جج کے نظام تک ہی محدود ہیں۔
میں پاکستان میں فوری طور پر جیوری کے نظام کے حق میں تو نہیں ہوں۔ حالانکہ دنیا بھر میں جیوری سسٹم نے فوری انصاف کے عمل کو تیز کیا ہے۔ دنیا بھر میں ثابت ہوا ہے کہ جیوری سسٹم زیادہ بہتر عدالتی نظام ہے لیکن پاکستان میں ابھی شاید ہماری قوم بھی اس نظام کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ جیوری سسٹم ہمارے ہاں کے پنچایتی اور جرگہ کے نظام سے ہی لیا گیا ہے۔
تاہم پنچایتی اور جرگہ کے ارکان مستقل ہوتے ہیں لیکن جیوری ہر مقدمہ کے لیے نہیں ہوتی ہے۔ ہم جیوری کو متفقہ ثالث بھی کہہ سکتے ہیں۔ جن سے فیصلہ کرانے پر دونوں فریق متفق ہو جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں شاید ابھی ہم اس کے لیے تیار نہیں، حالانکہ اگر قتل کے مقدمات میں ابتدائی طور پر جیوری کا نظام متعارف بھی کرا دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔
جب ملزمان سپریم کورٹ سے بری ہوتے ہیں تو بے شک وہ بے گناہ ہی ہیں، تب بھی وہ بری ہونا بے معنی رہ جاتا ہے۔ حال ہی میں پروین رحمان کے ملزمان بھی ہائی کورٹ سے نو سال بعد بری ہوئے ہیں۔
نو سال ایک طویل عرصہ ہے جو ملزم نو سال بے گناہ جیل میں رہ گیا ہے، اس کے لیے نو سال بعد بری ہونا بھی کوئی خاص انصاف نہیں رہ جاتا۔ نو سال بے گناہی کی جیل بھی نظام انصاف پر سوال ہی ہیں۔ اسی طرح اگر کیس نے ہائی کورٹ تک پہنچنے میں نو سال لگا دیے ہیں تو آپ اندازہ لگا لیں سپریم کورٹ تک پہنچنے میں کتنے سال لگ جائیں گے۔
اگر یہی ملزمان اب اگر سپریم کورٹ سے دوبارہ سزا یافتہ ہوجاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اگر دوبارہ بری ہو جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اس طرح اگر آپ پر ایک کیس ہو جائے تو اس کیس سے نبٹنے میں آپ کی پوری زندگی لگ جاتی ہے۔ شاید سزا میں اتنی تکلیف نہیں ہے، جتنی کیس لڑنے میں ہے۔
اگر ٹرائل کورٹ کے بعد اپیلوں کو محدود کیا جائے۔ سپریم کورٹ تک فوجداری اپیلوں کے جانے کا راستہ بند ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے پاس اور بڑے کام ہیں۔ حال ہی میں میشا شفیع کے کیس میں یہ بات بھی جا کر سپریم کورٹ میں طے ہوئی ہے کہ میشا شفیع پر جرح وڈیو لنک پر ہو سکتی ہے کہ نہیں۔ جرح میں کیا سوالات پوچھے جا سکتے ہیں او ر کونسے سوالات نہیں پوچھے جا سکتے۔
کیا ہم ٹرائل کورٹ کے جج کو یہ حق بھی نہیں دے سکتے کہ وہ یہ خود طے کرے کہ اسے جرح کے لیے گواہ کورٹ میں چاہیے کہ نہیں۔ یہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ کرے گی۔ اسی وجہ سے ٹرائل کے دوران ہی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع بھی کرلیا جاتا ہے۔ حالانکہ میری رائے میں ٹرائل کورٹ میں ٹرائل کے دوران کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ جب اپیل میں فیصلہ مسترد یا تبدیل کیا جاسکتا ہے تو پھر کم از کم دوران ٹرائل تو مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
دنیا بھر میں ٹرائل کورٹ کو مقدس حیثیت حاصل ہے۔ ملزمان ٹرائل کورٹ میں اعتراف جرم کر کے کم سزا اسی لیے لیتے ہیں کیونکہ انھیں علم ہوتا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو حتمی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان میں کوئی ملزم عدالت میں اعتراف جرم اس لیے نہیں کرتاکیونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ وہ اپیل میں بری ہو جائے گا۔
ٹرائل کورٹ کی سزا کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے۔ ٹرائل کورٹ میں اعتراف جرم کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہاں تو تفتیشی افسر کے سامنے بھی اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جس کی وجہ سے تفتیش کا عمل بھی بے معنی ہو گیا ہے۔
بہر حال میری درخواست ہے کہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط کرنے پر کام کیا جائے۔ ٹرائل کورٹ میں اصلاحات لائی جائیں۔ ٹرائل کورٹ کے ججز کی ٹریننگ کرائی جائے۔
انھیں جلد از جلد ٹرائل مکمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ فوجداری ٹرائل کے ججز کو الگ کیا جائے۔ دیوانی مقدمات کے ججز کو الگ کیا جائے۔ دوران ٹرائل جج کی ٹرانسفر کی روایت کو بند کیا جائے۔ جب دوران ٹرا ئل جج ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے تو سارا ٹرائل متاثر ہوتا ہے۔ ٹرائل کی تکمیل کی مدت مقرر ہونی چاہیے۔
تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ گواہ کے تحفظ کا نظام ہونا چاہیے، اگر ماتحت عدلیہ میں فیصلہ غلط ہوا ہے تو جج کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ بے گناہ کو سزا دینے والے کو کوئی سزا نہیں ہے۔ گناہ گار کو بری کرنے والے کو کوئی سزا نہیں۔ اس لیے ٹرائل کورٹ فعال اور مضبوط ہونی چاہیے۔
اسی لیے ملزمان بھی اب یہی سوچتے ہیں کہ اگر ٹرائل کورٹ سے سزا ہوبھی جائے تو اعلیٰ عدلیہ سے بری ہونے کے امکانات موجود ہیں، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کی اہمیت کم رہ گئی ہے کیونکہ عمومی خیال یہی ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں فیصلہ ہو جائے گا۔
میں ذاتی طور پر ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو مسترد کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ دنیا بھر کے جدید عدالتی نظام میں ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے تا ہم پاکستان میں ٹرائل کورٹ کی اہمیت کو دن بدن کم کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اپیل میں حقائق اور گواہیوں سمیت ہر چیز دیکھی جاتی ہے، جب کہ دنیا میں اپیلوں میں ان معاملات کو نہیں دیکھا جاتا۔ بالخصوص فوجداری معاملات میں اپیلوں میں صرف قانونی نکات کو ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ حقائق اور گواہیاں دیکھنا ٹرائل کورٹ کا ہی کام ہے۔
جس کی وجہ سے اپیل میں ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کے مسترد ہونے یا تبدیل ہونے کے امکانات کم سے کم ہو گئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں تو ملزمان اور مدعی دونوں ہی سپریم کورٹ تک اپنے حق میں فیصلے کی امید میں رہتے ہیں۔دنیا بھر میں اب جیوری کا نظام بھی آچکا ہے۔ جب کہ پاکستان میں ہم ابھی تک جج کے نظام تک ہی محدود ہیں۔
میں پاکستان میں فوری طور پر جیوری کے نظام کے حق میں تو نہیں ہوں۔ حالانکہ دنیا بھر میں جیوری سسٹم نے فوری انصاف کے عمل کو تیز کیا ہے۔ دنیا بھر میں ثابت ہوا ہے کہ جیوری سسٹم زیادہ بہتر عدالتی نظام ہے لیکن پاکستان میں ابھی شاید ہماری قوم بھی اس نظام کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ جیوری سسٹم ہمارے ہاں کے پنچایتی اور جرگہ کے نظام سے ہی لیا گیا ہے۔
تاہم پنچایتی اور جرگہ کے ارکان مستقل ہوتے ہیں لیکن جیوری ہر مقدمہ کے لیے نہیں ہوتی ہے۔ ہم جیوری کو متفقہ ثالث بھی کہہ سکتے ہیں۔ جن سے فیصلہ کرانے پر دونوں فریق متفق ہو جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں شاید ابھی ہم اس کے لیے تیار نہیں، حالانکہ اگر قتل کے مقدمات میں ابتدائی طور پر جیوری کا نظام متعارف بھی کرا دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔
جب ملزمان سپریم کورٹ سے بری ہوتے ہیں تو بے شک وہ بے گناہ ہی ہیں، تب بھی وہ بری ہونا بے معنی رہ جاتا ہے۔ حال ہی میں پروین رحمان کے ملزمان بھی ہائی کورٹ سے نو سال بعد بری ہوئے ہیں۔
نو سال ایک طویل عرصہ ہے جو ملزم نو سال بے گناہ جیل میں رہ گیا ہے، اس کے لیے نو سال بعد بری ہونا بھی کوئی خاص انصاف نہیں رہ جاتا۔ نو سال بے گناہی کی جیل بھی نظام انصاف پر سوال ہی ہیں۔ اسی طرح اگر کیس نے ہائی کورٹ تک پہنچنے میں نو سال لگا دیے ہیں تو آپ اندازہ لگا لیں سپریم کورٹ تک پہنچنے میں کتنے سال لگ جائیں گے۔
اگر یہی ملزمان اب اگر سپریم کورٹ سے دوبارہ سزا یافتہ ہوجاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اگر دوبارہ بری ہو جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اس طرح اگر آپ پر ایک کیس ہو جائے تو اس کیس سے نبٹنے میں آپ کی پوری زندگی لگ جاتی ہے۔ شاید سزا میں اتنی تکلیف نہیں ہے، جتنی کیس لڑنے میں ہے۔
اگر ٹرائل کورٹ کے بعد اپیلوں کو محدود کیا جائے۔ سپریم کورٹ تک فوجداری اپیلوں کے جانے کا راستہ بند ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے پاس اور بڑے کام ہیں۔ حال ہی میں میشا شفیع کے کیس میں یہ بات بھی جا کر سپریم کورٹ میں طے ہوئی ہے کہ میشا شفیع پر جرح وڈیو لنک پر ہو سکتی ہے کہ نہیں۔ جرح میں کیا سوالات پوچھے جا سکتے ہیں او ر کونسے سوالات نہیں پوچھے جا سکتے۔
کیا ہم ٹرائل کورٹ کے جج کو یہ حق بھی نہیں دے سکتے کہ وہ یہ خود طے کرے کہ اسے جرح کے لیے گواہ کورٹ میں چاہیے کہ نہیں۔ یہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ کرے گی۔ اسی وجہ سے ٹرائل کے دوران ہی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع بھی کرلیا جاتا ہے۔ حالانکہ میری رائے میں ٹرائل کورٹ میں ٹرائل کے دوران کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ جب اپیل میں فیصلہ مسترد یا تبدیل کیا جاسکتا ہے تو پھر کم از کم دوران ٹرائل تو مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
دنیا بھر میں ٹرائل کورٹ کو مقدس حیثیت حاصل ہے۔ ملزمان ٹرائل کورٹ میں اعتراف جرم کر کے کم سزا اسی لیے لیتے ہیں کیونکہ انھیں علم ہوتا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کو حتمی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان میں کوئی ملزم عدالت میں اعتراف جرم اس لیے نہیں کرتاکیونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ وہ اپیل میں بری ہو جائے گا۔
ٹرائل کورٹ کی سزا کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے۔ ٹرائل کورٹ میں اعتراف جرم کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہاں تو تفتیشی افسر کے سامنے بھی اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جس کی وجہ سے تفتیش کا عمل بھی بے معنی ہو گیا ہے۔
بہر حال میری درخواست ہے کہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط کرنے پر کام کیا جائے۔ ٹرائل کورٹ میں اصلاحات لائی جائیں۔ ٹرائل کورٹ کے ججز کی ٹریننگ کرائی جائے۔
انھیں جلد از جلد ٹرائل مکمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ فوجداری ٹرائل کے ججز کو الگ کیا جائے۔ دیوانی مقدمات کے ججز کو الگ کیا جائے۔ دوران ٹرائل جج کی ٹرانسفر کی روایت کو بند کیا جائے۔ جب دوران ٹرا ئل جج ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے تو سارا ٹرائل متاثر ہوتا ہے۔ ٹرائل کی تکمیل کی مدت مقرر ہونی چاہیے۔
تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ گواہ کے تحفظ کا نظام ہونا چاہیے، اگر ماتحت عدلیہ میں فیصلہ غلط ہوا ہے تو جج کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ بے گناہ کو سزا دینے والے کو کوئی سزا نہیں ہے۔ گناہ گار کو بری کرنے والے کو کوئی سزا نہیں۔ اس لیے ٹرائل کورٹ فعال اور مضبوط ہونی چاہیے۔