جاننے کا حق اور توشہ خانہ کا مقدمہ
حکومت کے شفاف طرزِ حکومت کے دعوے کو محض سیراب قرار دیا جائے گا
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سعودی ولی عہد کی تحفہ میں ملی گھڑی دبئی میں مقیم ایک پاکستانی تاجر کو فروخت کرنے کا اسکینڈل انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ کی بناء پر آشکار ہوا ، مگر اب 7 نومبر سے وفاقی انفارمیشن کمیشن غیر فعال ہے۔
دو سال قبل اسلام آباد کے ایک صحافی نے وزیر اعظم ہاؤس کو عرضداشت بھیجی کہ توشہ خانہ میں موجود اشیاء کی فروخت اور ان کی مالیت کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
وزیر اعظم ہاؤس نے صحافی کی عرضداشت کو مسترد کیا۔ وزیر اعظم ہاؤس کا یہ مؤقف تھا کہ توشہ خانہ کی اشیاء کو سیکریٹ ایکٹ کے تحت تحفظ حاصل ہے، اس بناء پر یہ فہرست فراہم نہیں کی جاسکتی۔
اس دوران ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عمران خان نے 20 لاکھ ڈالر کی گھڑی دبئی کے ایک پاکستانی تاجر کو فروخت کردی، جس کمپنی نے یہ سودا کیا اس نے سعودی ولی عہد کے دفتر سے رابطہ کیا اور سعودی ولی عہد کے دفتر نے تصدیق کی کہ یہ گھڑی پاکستانی وزیر اعظم کو دورہ سعودی عرب کے موقع پر تحفہ کے طور پر دی گئی تھی۔
عمران خان حکومت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس خبرکی تردید کی اور اس کو مخالفین کا پروپیگنڈہ قرار دیا۔ اس دوران انفارمیشن کمیشن نے صحافی کی عرضداشت پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ میں رکھی گئی اشیاء غیر ملکی سربراہوں کے تحائف ہیں ، ان تحائف پر سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
عمران خان کی حکومت کے قانونی ماہرین نے اسلام آباد ہائی کورٹ درخواست کی کہ انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ پر عملدرآمد سے دوست ممالک سے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ، یوں توشہ خانہ میں رکھی گئی اشیاء کی تفصیلات بھی واضح ہوگئیں کہ سابق صدر آصف زرداری ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کی توشہ خانہ کی اشیاء کی خریداری کے بارے میں حقائق سامنے آئے۔
کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والے عمران خان کی خریداری کی تفصیلات بھی ظاہر ہوتی گئیں اور ایک نئی حقیقت افشا ہوئی کہ عمران خان نے یہ تحائف فروخت کر کے باقی سربراہوں سے امتیازی پوزیشن حاصل کر لی تھی۔
تحریک انصاف کے میڈیا منیجرز پہلے تو گھڑی کی فروخت سے انکار کرتے رہے ، جب عمران خان نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ انھوں نے گھڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ حصہ بنی گالا کی سڑک کی تعمیر پر خرچ کیا۔ اسلام آباد کے میئر نے وضاحت کی کہ سڑک بلدیہ اسلام آباد نے تعمیر کی تھی۔
موجودہ حکومت نے توشہ خانہ کا ریفرنس قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھجوایا۔ اسپیکر نے قواعد و ضوابط کے تحت یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا۔ عمران خان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ گھڑی اسلام آباد کی ایک دکان کو چند لاکھ میں فروخت کی گئی مگر ایک رپورٹر نے اس دکان کا سراغ لگایا کہ دکان کے مالک نے 2020 میں یہ دکان فروخت کردی تھی۔ مالک کو پرانے مالک کے بارے میں علم نہیں کہ اب کہاں ہے مگر یہ دکان خستہ حالت میں ہے۔
فواد چوہدری بارہا تردید کرتے تھے کہ عمران خان اور خود وہ گھڑی خریدنے والے دبئی کے تاجر عمر سے واقف نہیں ہیں۔ انفارمیشن کمیشن کے فعال ہونے سے یہ اسکینڈل عام ہوا کہ سابقہ دور میں ایک صحافی نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو عرضداشت بھیجی کہ سینیٹ میں گریڈ 1سے گریڈ 22 تک کام کرنے والے ملازمین اور افسروں کی فہرست فراہم کی جائے۔
سینیٹ کے چیئرمین نے یہ فہرست فراہم کرنے سے انکار کیا۔ قانون سازی کے سب سے اہم ادارہ کے سربراہ نے ان معلومات کو خفیہ قرار دیا مگر انفارمیشن کمیشن نے اس صحافی کی عرضداشت کو قانون کے مطابق قرار دیا تو سینیٹ کے چیئرمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
اسلام آباد کے ایک شہری نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو عرضداشت تحریر کی۔ سپریم کورٹ میں گریڈ 1سے گریڈ 22 کے ملازمین اور افسروں کی فہرست فراہم کی جائے۔ اس فہرست پر ملازم کے ڈومیسائل کی تفصیلات بھی تحریر کی جائیں۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اپنے ملازمین اور افسروں کی فہرست دینے سے انکار کیا اور وہی مؤقف اختیار کیا جو وزیر اعظم ہاؤس اور سینیٹ کے چیئرمین نے اختیار کیا تھا۔
وفاقی انفارمیشن کمیشن نے شہری کی درخواست کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں تحریرکیا کہ آئین کے آرٹیکل 19-A کے تحت شہری کو یہ معلومات حاصل کرنے کا حق ہے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ یہ مقدمہ معزز عدالت کے فیصلے کا منتظر ہے۔
انفارمیشن کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے فعال ہونے کے بعد کمیشن کو شہریوں کو اطلاعات نہ دینے پر بہت سی شکایتیں ملیں۔ کمیشن کو وزارت خزانہ کے بارے میں بھی شکایات وصول ہوئیں۔ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی C.D.A اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے کے بارے میں بھی شکایات دائر کی گئیں۔ کیبنٹ ڈویژن اور بورڈ آف ریونیو کا نمبر ان وزارتوں کے بعد آتا ہے۔
قانون کی وزارت سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں ملی کمیشن کی رپورٹ میں یہ حقیقت تسلیم کی گئی ہے کہ ان میں سے 50 فیصد درخواستوں پر کارروائی جاری ہے۔ کمیشن ڈاک کے روایتی طریقہ کے علاوہ ای میل پر موصول ہونے والی شکایات پر غور کرتا ہے۔ اب کمیشن کو تقریباً تمام وفاقی وزارتوں کے بارے میں شکایات ملتی رہتی ہیں۔
زاہد عبداﷲ بینائی سے محرومی کے باوجود انفارمیشن کمیشن کے سب سے فعال رکن ہیں۔ زاہد عبداﷲ کا کہنا ہے کہ 7 نومبر 2022 کو کمیشن کے چیئرمین محمد اعظم اور دیگر اراکین کے عہدوں کی میعاد ختم ہوگئی۔ محمد اعظم نے وزارت اطلاعات کو اپنے عہدے کی میعاد ختم ہونے کی اطلاع دیدی تھی مگر اس عرضداشت پر توجہ نہ دی گئی ۔ اطلاعات کا حصول ہر شہری کا حق ہے اور اس حق کے تحفظ سے ریاست کے بنیادی ستونوں کے احتساب کا فریضہ پورا ہوسکتا ہے۔
سول سوسائٹی نے اس حق کو تسلیم کرانے اور قانون سازی کے لیے طویل جدوجہد کی ، اگرچہ ملک میں تمام بڑی جماعتوں نے اپنے منشور میں جاننے کے حق کے بارے میں قانون سازی کا وعدہ کیا تھا مگر 90ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں ملک معراج خالد عبوری حکومت میں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ان کے دور میں جاننے کے حق کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ایک آرڈیننس نافذ کیا مگر میاں نواز شریف کی حکومت نے اس آرڈیننس کو ایکٹ کی شکل نہیں دی ، یوں یہ ختم ہوا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے 2002 میں عبوری آئین حکم P.C.O کے تحت ایک نیا قانون نافذ کیا۔ ایسا ہی قانون سندھ اور بلوچستان میں بھی نافذ ہوا ، یہ انتہائی کمزور قانون تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو اس میثاق میں عہد کیا گیا کہ دونوں جماعتوں برسر اقتدار آئیں تو جاننے کے حق کی تسکین کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی، یوں 2010میں آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم میں ایک نئی شق 19-A شامل کی گئی مگر پیپلز پارٹی نے وفاق اور صوبہ سندھ میں قانون سازی نہیں کی۔ 2013 میں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت نے ایک معیاری قانون بنایا۔
میاں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں قانون میں اس حق کے لیے جامع قانون سازی کا کام شروع کیا مگر انفارمیشن کمیشن کے اراکین کا تقرر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے کیا۔ اس حکومت کے دور میں یہ کمیشن جتنا عرصہ غیر فعال رہے گا حکومت کے شفاف طرزِ حکومت کے دعوے کو محض سیراب قرار دیا جائے گا۔
دو سال قبل اسلام آباد کے ایک صحافی نے وزیر اعظم ہاؤس کو عرضداشت بھیجی کہ توشہ خانہ میں موجود اشیاء کی فروخت اور ان کی مالیت کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
وزیر اعظم ہاؤس نے صحافی کی عرضداشت کو مسترد کیا۔ وزیر اعظم ہاؤس کا یہ مؤقف تھا کہ توشہ خانہ کی اشیاء کو سیکریٹ ایکٹ کے تحت تحفظ حاصل ہے، اس بناء پر یہ فہرست فراہم نہیں کی جاسکتی۔
اس دوران ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عمران خان نے 20 لاکھ ڈالر کی گھڑی دبئی کے ایک پاکستانی تاجر کو فروخت کردی، جس کمپنی نے یہ سودا کیا اس نے سعودی ولی عہد کے دفتر سے رابطہ کیا اور سعودی ولی عہد کے دفتر نے تصدیق کی کہ یہ گھڑی پاکستانی وزیر اعظم کو دورہ سعودی عرب کے موقع پر تحفہ کے طور پر دی گئی تھی۔
عمران خان حکومت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس خبرکی تردید کی اور اس کو مخالفین کا پروپیگنڈہ قرار دیا۔ اس دوران انفارمیشن کمیشن نے صحافی کی عرضداشت پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ میں رکھی گئی اشیاء غیر ملکی سربراہوں کے تحائف ہیں ، ان تحائف پر سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
عمران خان کی حکومت کے قانونی ماہرین نے اسلام آباد ہائی کورٹ درخواست کی کہ انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ پر عملدرآمد سے دوست ممالک سے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ، یوں توشہ خانہ میں رکھی گئی اشیاء کی تفصیلات بھی واضح ہوگئیں کہ سابق صدر آصف زرداری ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کی توشہ خانہ کی اشیاء کی خریداری کے بارے میں حقائق سامنے آئے۔
کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والے عمران خان کی خریداری کی تفصیلات بھی ظاہر ہوتی گئیں اور ایک نئی حقیقت افشا ہوئی کہ عمران خان نے یہ تحائف فروخت کر کے باقی سربراہوں سے امتیازی پوزیشن حاصل کر لی تھی۔
تحریک انصاف کے میڈیا منیجرز پہلے تو گھڑی کی فروخت سے انکار کرتے رہے ، جب عمران خان نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ انھوں نے گھڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ حصہ بنی گالا کی سڑک کی تعمیر پر خرچ کیا۔ اسلام آباد کے میئر نے وضاحت کی کہ سڑک بلدیہ اسلام آباد نے تعمیر کی تھی۔
موجودہ حکومت نے توشہ خانہ کا ریفرنس قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھجوایا۔ اسپیکر نے قواعد و ضوابط کے تحت یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا۔ عمران خان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ گھڑی اسلام آباد کی ایک دکان کو چند لاکھ میں فروخت کی گئی مگر ایک رپورٹر نے اس دکان کا سراغ لگایا کہ دکان کے مالک نے 2020 میں یہ دکان فروخت کردی تھی۔ مالک کو پرانے مالک کے بارے میں علم نہیں کہ اب کہاں ہے مگر یہ دکان خستہ حالت میں ہے۔
فواد چوہدری بارہا تردید کرتے تھے کہ عمران خان اور خود وہ گھڑی خریدنے والے دبئی کے تاجر عمر سے واقف نہیں ہیں۔ انفارمیشن کمیشن کے فعال ہونے سے یہ اسکینڈل عام ہوا کہ سابقہ دور میں ایک صحافی نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو عرضداشت بھیجی کہ سینیٹ میں گریڈ 1سے گریڈ 22 تک کام کرنے والے ملازمین اور افسروں کی فہرست فراہم کی جائے۔
سینیٹ کے چیئرمین نے یہ فہرست فراہم کرنے سے انکار کیا۔ قانون سازی کے سب سے اہم ادارہ کے سربراہ نے ان معلومات کو خفیہ قرار دیا مگر انفارمیشن کمیشن نے اس صحافی کی عرضداشت کو قانون کے مطابق قرار دیا تو سینیٹ کے چیئرمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
اسلام آباد کے ایک شہری نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو عرضداشت تحریر کی۔ سپریم کورٹ میں گریڈ 1سے گریڈ 22 کے ملازمین اور افسروں کی فہرست فراہم کی جائے۔ اس فہرست پر ملازم کے ڈومیسائل کی تفصیلات بھی تحریر کی جائیں۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اپنے ملازمین اور افسروں کی فہرست دینے سے انکار کیا اور وہی مؤقف اختیار کیا جو وزیر اعظم ہاؤس اور سینیٹ کے چیئرمین نے اختیار کیا تھا۔
وفاقی انفارمیشن کمیشن نے شہری کی درخواست کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں تحریرکیا کہ آئین کے آرٹیکل 19-A کے تحت شہری کو یہ معلومات حاصل کرنے کا حق ہے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ یہ مقدمہ معزز عدالت کے فیصلے کا منتظر ہے۔
انفارمیشن کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے فعال ہونے کے بعد کمیشن کو شہریوں کو اطلاعات نہ دینے پر بہت سی شکایتیں ملیں۔ کمیشن کو وزارت خزانہ کے بارے میں بھی شکایات وصول ہوئیں۔ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی C.D.A اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے کے بارے میں بھی شکایات دائر کی گئیں۔ کیبنٹ ڈویژن اور بورڈ آف ریونیو کا نمبر ان وزارتوں کے بعد آتا ہے۔
قانون کی وزارت سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں ملی کمیشن کی رپورٹ میں یہ حقیقت تسلیم کی گئی ہے کہ ان میں سے 50 فیصد درخواستوں پر کارروائی جاری ہے۔ کمیشن ڈاک کے روایتی طریقہ کے علاوہ ای میل پر موصول ہونے والی شکایات پر غور کرتا ہے۔ اب کمیشن کو تقریباً تمام وفاقی وزارتوں کے بارے میں شکایات ملتی رہتی ہیں۔
زاہد عبداﷲ بینائی سے محرومی کے باوجود انفارمیشن کمیشن کے سب سے فعال رکن ہیں۔ زاہد عبداﷲ کا کہنا ہے کہ 7 نومبر 2022 کو کمیشن کے چیئرمین محمد اعظم اور دیگر اراکین کے عہدوں کی میعاد ختم ہوگئی۔ محمد اعظم نے وزارت اطلاعات کو اپنے عہدے کی میعاد ختم ہونے کی اطلاع دیدی تھی مگر اس عرضداشت پر توجہ نہ دی گئی ۔ اطلاعات کا حصول ہر شہری کا حق ہے اور اس حق کے تحفظ سے ریاست کے بنیادی ستونوں کے احتساب کا فریضہ پورا ہوسکتا ہے۔
سول سوسائٹی نے اس حق کو تسلیم کرانے اور قانون سازی کے لیے طویل جدوجہد کی ، اگرچہ ملک میں تمام بڑی جماعتوں نے اپنے منشور میں جاننے کے حق کے بارے میں قانون سازی کا وعدہ کیا تھا مگر 90ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں ملک معراج خالد عبوری حکومت میں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ان کے دور میں جاننے کے حق کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ایک آرڈیننس نافذ کیا مگر میاں نواز شریف کی حکومت نے اس آرڈیننس کو ایکٹ کی شکل نہیں دی ، یوں یہ ختم ہوا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے 2002 میں عبوری آئین حکم P.C.O کے تحت ایک نیا قانون نافذ کیا۔ ایسا ہی قانون سندھ اور بلوچستان میں بھی نافذ ہوا ، یہ انتہائی کمزور قانون تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو اس میثاق میں عہد کیا گیا کہ دونوں جماعتوں برسر اقتدار آئیں تو جاننے کے حق کی تسکین کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی، یوں 2010میں آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم میں ایک نئی شق 19-A شامل کی گئی مگر پیپلز پارٹی نے وفاق اور صوبہ سندھ میں قانون سازی نہیں کی۔ 2013 میں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت نے ایک معیاری قانون بنایا۔
میاں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں قانون میں اس حق کے لیے جامع قانون سازی کا کام شروع کیا مگر انفارمیشن کمیشن کے اراکین کا تقرر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے کیا۔ اس حکومت کے دور میں یہ کمیشن جتنا عرصہ غیر فعال رہے گا حکومت کے شفاف طرزِ حکومت کے دعوے کو محض سیراب قرار دیا جائے گا۔