کہاوتیں اور دانش پارے
کچھ نئی طبع آزمائیاں اتنی تعداد میں جمع ہوگئی ہیں کہ اب اُن کا آپ تک پہنچانا ضروری ہوگیا ہے
میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں گاہے گاہے لوک دانش کی نمایندہ کچھ کہاوتیں اور دنیا بھر کے اہلِ فکر ونظر کے کچھ دانش پارے چھوٹی چھوٹی نظموں میں ڈھال کر اُن سے شیئر کرتا رہتا ہوں۔
سو آج بھی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس ضمن میں کی گئی کچھ نئی طبع آزمائیاں اتنی تعداد میں جمع ہوگئی ہیں کہ اب اُن کا آپ تک پہنچانا ضروری ہوگیا ہے البتہ اس کی وجہ جو کہاوت بنی ہے اور جسے میں نے ابھی ابھی نظم کے سانچے میں ڈھالا ہے۔
اسی سے آغاز کرتے ہیں کہ اس میں اُٹھایا گیا نکتہ بہت گہرا بھی ہے اور خیال افروز بھی کہ اس میں منزل اور مسافر کے تعلق کی ایک ایسی جہت پر بات کی گئی ہے جو بیک وقت استعارہ بھی ہے اور حقیقت بھی ۔
وہ گن رہی ہے اپنی سمت ، آپ کے
جو اُٹھ رہے ہیں وہ قدم
کہ منزلوں کی آنکھ کو کبھی نہیں یہ دیکھتی
کہ جُوتے کس طرح کے ہیں
مسافروں کے پاؤں میں!
دوسرے نمبر پر برادرم واصف علی واصف مرحوم کا نصیب اور خوش نصیبی کے حوالے سے کہا گیا یہ جملہ ہے کہ ''خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیبوں پر خوش ہو'' میں نے اس بات کو یوں نظم کیا ہے کہ
ایک دانا کا قول ہے امجدؔ
ہے حقیقت میں خوش نصیب وہی
جو کہ اپنے نصیب پر خوش ہے
شیخ سعدی نے کہا تھا ''جوابِ جاہلاں باشد خموشی'' لیکن اب ہم دیکھتے ہیں تو یہ بات ایک نئے مدار میں کچھ یوں داخل ہوگئی ہے کہ
خامشی ہی جواب ہے جن کا
جاہلوں تک ہی اب نہیں محدود
پھیلتی جارہی ہے اب یہ صف
زندگی میں معیار اور مقدار کے مسئلے پر بحث اکثر ہوتی رہتی ہے مگر اب یہ دیکھنے والے کی نظر کا کمال ہے کہ اس نے اس بات کو ایک بالکل نیا رنگ کچھ یوں دے دیا ہے کہ
مسئلہ یہ نہیں کہ جیتے جی
آپ ہیں زندگی سے خوش کتنے
اصل میں دیکھنے کی بات ہے یہ
زندگی آپ سے ہے خوش کتنی!
تاریکی ہی پر بحث کرتے جانے والوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ روشن مزاجی کیسے منظروں کی صورت تبدیل کرسکتی ہے اور نفی میں اثبات کی نشاندہی کیسا پیغمبرانہ کام ہے ۔
ہر طرف جب خزاں کا موسم ہو
باغِ اُمید کو ہرا رکھنا
یہی شیوہ ہے نیک بختوںکا
بے دِلی میں بھی دل بڑا رکھنا
غالباً آسکر وائلڈ کا قول ہے کہ
In demcoracy all are equal, but some are more equal.
سو اس کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ
ہے تو دلکش نظام جمہوری
جس کی گنتی میں سب برابر ہیں
فرق یہ ہے کہ زور و زَر والے
کچھ ذرا سے الگ برابر ہیں
دانش وری اگر بے فیض ہوتو اُس کو دور سے سلام کہ اصل دانشور وہی لوگ ہیں جو رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔
وہ جو جانتے ہیں اصل دانش ور
پھول رستوں میں یوں بچھاتے ہیں
مسئلوں کو گِنا نہیں کرتے
اُن کا حل ڈھونڈ کر دکھاتے ہیں
سچ اور وہ بھی پورا سچ بولنے والے ہی وہ لوگ ہیں جو اپنی جان سے گزر کر دوسروں کے لیے راستہ بناتے ہیں
دارپر بھی جو بولتے ہیں سچ
اُن ہی لوگوں کے دم سے زندہ ہے
سلسلہ ظلم سے نہ ڈرنے کا
جان دے کر کبھی نہ مرنے کا
اگر اظہار کا حوصلہ نہ ہوتو بعض اوقات دل میں رکھی بات اُلٹا جان کو آجاتی ہے۔
دیر تک دل میں ہی رہے جو بات
جس سے کرنی ہو وہ ملے بھی تو
سامنے اس کے گر نہ کی جائے
دل کے اُجڑے نگر میں رہتی ہے
ایک آسیب کی طرح دن رات
اور پھر میر تقی میر کے ایک مستقبل گر اور زندہ شعر کی یہ تغمین کہ
بڑے وثوق بہت اعتماد سے اُس نے
کمال بات کہی اور کس وضاحت سے
''امیر زادوں سے دِلّی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انھی کی دولت سے''
اور آخر میں دنیا بھر کے جنونی دولت مندوں کے نام ایک شعر جو زر کی ہوس میں یہ جانے بغیر بھاگے چلے جاتے ہیں کہ اگلے موڑ پر کیا ہونے والا ہے۔
دولت کو تو گِن سکتے ہیں
وقت ہے کتنا، کون گِنے
سو آج بھی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس ضمن میں کی گئی کچھ نئی طبع آزمائیاں اتنی تعداد میں جمع ہوگئی ہیں کہ اب اُن کا آپ تک پہنچانا ضروری ہوگیا ہے البتہ اس کی وجہ جو کہاوت بنی ہے اور جسے میں نے ابھی ابھی نظم کے سانچے میں ڈھالا ہے۔
اسی سے آغاز کرتے ہیں کہ اس میں اُٹھایا گیا نکتہ بہت گہرا بھی ہے اور خیال افروز بھی کہ اس میں منزل اور مسافر کے تعلق کی ایک ایسی جہت پر بات کی گئی ہے جو بیک وقت استعارہ بھی ہے اور حقیقت بھی ۔
وہ گن رہی ہے اپنی سمت ، آپ کے
جو اُٹھ رہے ہیں وہ قدم
کہ منزلوں کی آنکھ کو کبھی نہیں یہ دیکھتی
کہ جُوتے کس طرح کے ہیں
مسافروں کے پاؤں میں!
دوسرے نمبر پر برادرم واصف علی واصف مرحوم کا نصیب اور خوش نصیبی کے حوالے سے کہا گیا یہ جملہ ہے کہ ''خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیبوں پر خوش ہو'' میں نے اس بات کو یوں نظم کیا ہے کہ
ایک دانا کا قول ہے امجدؔ
ہے حقیقت میں خوش نصیب وہی
جو کہ اپنے نصیب پر خوش ہے
شیخ سعدی نے کہا تھا ''جوابِ جاہلاں باشد خموشی'' لیکن اب ہم دیکھتے ہیں تو یہ بات ایک نئے مدار میں کچھ یوں داخل ہوگئی ہے کہ
خامشی ہی جواب ہے جن کا
جاہلوں تک ہی اب نہیں محدود
پھیلتی جارہی ہے اب یہ صف
زندگی میں معیار اور مقدار کے مسئلے پر بحث اکثر ہوتی رہتی ہے مگر اب یہ دیکھنے والے کی نظر کا کمال ہے کہ اس نے اس بات کو ایک بالکل نیا رنگ کچھ یوں دے دیا ہے کہ
مسئلہ یہ نہیں کہ جیتے جی
آپ ہیں زندگی سے خوش کتنے
اصل میں دیکھنے کی بات ہے یہ
زندگی آپ سے ہے خوش کتنی!
تاریکی ہی پر بحث کرتے جانے والوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ روشن مزاجی کیسے منظروں کی صورت تبدیل کرسکتی ہے اور نفی میں اثبات کی نشاندہی کیسا پیغمبرانہ کام ہے ۔
ہر طرف جب خزاں کا موسم ہو
باغِ اُمید کو ہرا رکھنا
یہی شیوہ ہے نیک بختوںکا
بے دِلی میں بھی دل بڑا رکھنا
غالباً آسکر وائلڈ کا قول ہے کہ
In demcoracy all are equal, but some are more equal.
سو اس کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ
ہے تو دلکش نظام جمہوری
جس کی گنتی میں سب برابر ہیں
فرق یہ ہے کہ زور و زَر والے
کچھ ذرا سے الگ برابر ہیں
دانش وری اگر بے فیض ہوتو اُس کو دور سے سلام کہ اصل دانشور وہی لوگ ہیں جو رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔
وہ جو جانتے ہیں اصل دانش ور
پھول رستوں میں یوں بچھاتے ہیں
مسئلوں کو گِنا نہیں کرتے
اُن کا حل ڈھونڈ کر دکھاتے ہیں
سچ اور وہ بھی پورا سچ بولنے والے ہی وہ لوگ ہیں جو اپنی جان سے گزر کر دوسروں کے لیے راستہ بناتے ہیں
دارپر بھی جو بولتے ہیں سچ
اُن ہی لوگوں کے دم سے زندہ ہے
سلسلہ ظلم سے نہ ڈرنے کا
جان دے کر کبھی نہ مرنے کا
اگر اظہار کا حوصلہ نہ ہوتو بعض اوقات دل میں رکھی بات اُلٹا جان کو آجاتی ہے۔
دیر تک دل میں ہی رہے جو بات
جس سے کرنی ہو وہ ملے بھی تو
سامنے اس کے گر نہ کی جائے
دل کے اُجڑے نگر میں رہتی ہے
ایک آسیب کی طرح دن رات
اور پھر میر تقی میر کے ایک مستقبل گر اور زندہ شعر کی یہ تغمین کہ
بڑے وثوق بہت اعتماد سے اُس نے
کمال بات کہی اور کس وضاحت سے
''امیر زادوں سے دِلّی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انھی کی دولت سے''
اور آخر میں دنیا بھر کے جنونی دولت مندوں کے نام ایک شعر جو زر کی ہوس میں یہ جانے بغیر بھاگے چلے جاتے ہیں کہ اگلے موڑ پر کیا ہونے والا ہے۔
دولت کو تو گِن سکتے ہیں
وقت ہے کتنا، کون گِنے