ترکی میں بلدیاتی انتخابات طیب اردگان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کن مرحلہ
کیا اپوزیشن اس قدر مقبول ہوچکی ہے کہ وہ جسٹس اینڈ دویلپمنٹ پارٹی کا ایک عشرے سے زائد اقتدار ختم کرسکے
یورپ اور دنیائے اسلام کے درمیان تعلقات کا توازن، بر ق رفتار معاشی ترقی اور عالمی وعلاقائی تنازعات کے باب میں جدید ترکی کو''محوری'' حیثیت حاصل ہے۔ اسی اہمیت کی بدولت ترکی کی بدلتی سیاست عالمی اور علاقائی خبروں کا موضوع رہتی ہے۔ چونکہ سیاسی تبدیلیوں اور معاشی تغیرات کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس لیے ترکی میں جو بھی تبدیلی رو نما ہوگی اس کے ملکی، علاقائی اور عالمی معیشت پر بھی منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
رواں سال ترکی کو سیاسی تغیرات کے ایک طوفانی بھنورکا سامنا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک 30 مارچ کو ملک میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج آچکے ہوں گے۔ 2 اگست کو صدارتی انتخابات کا بگل بجے گا اور 2015ء کے وسط میں پارلیمانی انتخابات کی نئی بساط بچھائی جائے گی۔ ترکی میں ہونے والے یہ تینوں انتخابات لمحہ موجود میں مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کا بھی اہم موضوع ہیں۔ بحث یہ چل رہی ہے کہ حکمراں اسلام پسند جماعت''جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ''(AK)، وزیراعظم رجب طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟۔ میڈیا ٹرائل، اپوزیشن کے احتجاج اور حکمراں جماعت کے نت نئے ابھرتے کرپشن افسانے کیا رنگ دکھانے والے ہیں۔ پھر یہ سوال باربار اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا طیب اردگان کی گیارہ سالہ سیاست کا نقطہ زوال شروع ہو چکا ؟ کیا اردگان فوج کے ہاتھوں اپنے پیش رو عدنان مندریس کے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں؟ کیا ترکی میں ایک مرتبہ پھر مصطفٰی کمال اتا ترک کی پالیسیاں عود کرنے والی ہیں؟ ان تمام سوالوں کے جوابات ترکی کے لوکل باڈیز، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ امر واقعہ ہے کہ موجودہ حکومت ، وزیراعظم اردگان اور صدرعبداللہ گل اپنی سیاست کے بام عروج پر ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ناممکن ہے کہ تیزی سے بدلتی سیاسی فضاء میں اسلام پسندوں کاجہاز ہچکولے کھانے لگا ہے۔ قابل فخر اور تیزی سے فروغ پذیر معیشت پر سکوت طاری ہے اور اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے کہ آیا ملک کا معاشی مستقبل کیا ہونے والا ہے۔ ان تمام سوالوں کا ابتدائی جواب تیس مارچ کے بلدیاتی انتخابات کے بعد سامنے آئے گا۔ اس ضمن میں اخبار''ڈیلی حریت'' کا تجزیہ بھی قابل غور ہے، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر ان انتخابات میں موجودہ حکمران جماعت38.8 فی صد ووٹ لے اڑتی ہے تو یہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میںفتح کی نوید ثابت ہوگی۔ اگر نتیجہ اس سے کم رہتا ہے تو ''اے کے'' پارٹی کے ووٹ کے حجم سے پارلیمانی انتخابات میں جیت کی قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔
''اے کے'' پارٹی کے گیارہ سالہ دور حکومت میں ترکی نے کئی شعبوں میں برق رفتاری سے ترقی کی ہے۔ معاشی ترقی کا سہرا جہاں موجودہ حکومت کے سر ہے وہیں اس کی کامیابی میں سابق وزیراعظم بلند ایجوت کی مساعی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلند ایجوت نے معاشی ترقی کے لیے ماہرین کی خدمات لینے کی ٹھانی تو ان کی نظرا نتخاب امریکا میں مقیم ''یو این ڈی پی'' کے سابق منتظم کمال درویش پر پڑی۔ بلند ایجوت کے کمال درویش کے ساتھ براہ راست تعلقات نہیں تھے لیکن وہ استنبول کے سابق میئر او ر موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان کے قریب ضرور رہے تھے۔ درویش اردگان کی بہ طور میئر کارکردگی سے بہت متاثر بھی تھے اور ان کی مشاورت میں بھی شامل رہے۔ عبداللہ گل اور طیب اردگان معروف مذہبی اسکالر پروفیسر نجم الدین اربکان کے افکار سے متاثر تھے۔
استنبول کے میئر کی حیثیت سے طیب اردگان ملک بھرمیں ایک بہترین، متحرک وفعال منتظم کے طور پر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ ایک شہر کے ناظم ہوتے ہوئے انہوں نے استنبول کو ترک ثقافت کا مرکز بنا دیا ۔ شہر کی معاشی ترقی اس کے سوا تھی ۔ یوں اردگان نے اپنی اسی ساکھ کو 2002ء کے پارلیمانی انتخابات میں''ٹیسٹ'' کیا اور خلاف توقع تمام سیاسی حریفوں کو چاروں شانے چت کردیا ۔ جسٹس پارٹی کی حکومت قائم ہوئی مگر گمان تھا کہ یہ چند دن کی مہمان ہوگی کیونکہ ترکی ابھی سیاسی بلوغت کی عمرکو نہیں پہنچا کہ جس میں فوجی آمریت کے دروازے یا اقتدار پرشب خون مارنے کی زہریلی خو ختم ہو چکی ہو۔ طیب اردگان کی کامیابی کاغذی نہیں تھی بلکہ جسٹس پارٹی کو قوم نے بھاری مینڈیٹ دے رکھا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور شکست خوردہ جماعتوں نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی۔
ابتدائی دو سال میں طیب اردگان کی حکومت تو کوئی بڑا معرکہ سر نہ سکی مگر2005ء میں معاشی ترقی کے نئے ریکارڈ قائم ہونے لگے۔کمال درویش کے کمالات بھی اپنا رنگ دکھا رہے تھے لیکن اس کا بڑا کریڈٹ جسٹس پارٹی کی پالیسیوں کو جاتا ہے جس نے پورے ملک میں سیاحت کا جال بچھا دیا۔ ترکی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ''زمان'' کی رپورٹ کے مطابق اردگان حکومت نے پہلی فرصت میں صرف تین کام کیے۔ وہ تین کام سیاحت کا فروغ ، غیرملکی سرمایہ کاروں کے بجائے مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی اور یورپ اور عالمی برادری سے تجارتی تعلقات کا قیام تھے۔ جسٹس پارٹی کے ابتدائی پانچ سال میں ملک میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا گیا ۔ ہوائی جہازوں کے ٹکٹ سستے کردیئے تاکہ دور دراز سے لوگ سیرو سیاحت کے لیے ترکی آسکیں۔ بعض اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دے کر عوام کو بھی ریلیف فراہم کیا گیا۔ ان اقدامات سے ملک کے زرمبادلہ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور جی ڈی پی میں 3.01 فی صد کا تاریخ ساز اور ریکارڈ اضافہ ہوا ۔
AKP کو ایک بار پھر بقاء کے ایک نئے معرکے کا سامنا ہے۔ موجودہ سیاسی بحران، بدعنوانی کے الزامات اور سوشل میڈیا پرقدغنوں کے ہوتے ہوئے اگر حکمراںجماعت بلدیاتی انتخابات میں فتح کے جھنڈے گاڑ لیتی ہے تو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اس کی راہ کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ممکن نہ ہوئی تو پارلیمانی انتخابات کے نتائج بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ الجزیرہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں بالعموم آٹھ اور بالخصوص تین شہر استنبول، ازمیر اور دیار بکر اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس وقت استنبول میں''جسٹس پارٹی'' ازمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور دیار بکر میں''کرد پیس اینڈ ڈیموکریٹک '' کی شہری حکومتیں قائم ہیں۔ سب سے بڑا معرکہ استبول میں ہوگا اور اسی کی بنیا د پر پیش آئند انتخابات میں فتح وشکست کا پیمانہ بنے گا۔ استنبول میں'اے کے'' پارٹی کے میئر ملیح کوچک اور پیپلز ڈیموکریٹک کے منصوریاوش کے درمیان کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔ منصور یاوش نے اب تک جتنے بھی انتخابی جلسے کیے ہیں، اس میں انہوں نے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی کرپشن کی کہانیوں کو مبالغہ آمیز حد تک اچھال رکھا ہے۔
مبصرین کے خیال میں حکمراں ''اے کے'' پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کے بعد ہی اپنی مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم رجب طیب اردگان انتخابی نتائج کے منتظر ہیں۔ اردگان تین آپشن پرغور کر رہے ہیں۔ اگر ان کی جماعت بلدیاتی معرکہ سرکر لیتی ہے تو اس کے خلاف اپوزیشن کا اٹھایا ہوا طوفان خود بخود تھم جائے گا۔ جماعت صدارتی اورپارلیمانی انتخابات کی بھرپور تیاری شروع کرے گی۔ اگر نتائج اس کے برعکس ہوئے تو اردگان صدارتی انتخابات مؤخر کرکے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ ایک تیسرا آپشن جس کے امکانات کم ہیں وہ یہ کہ اردگان پارٹی کے منشور اور قانون میں غیرمعمولی ترمیم کریں گے۔ موجودہ پارٹی قانون کے مطابق کوئی بھی رکن تین سے زیادہ مرتبہ پارٹی عہدے پر نہیں رہ سکتا۔ پارٹی پراپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اردگان تین بار انتخاب کی قید ختم کردیں گے۔
اردگان ناپسندیدہ کیوں؟
ترکی کی سیاست میں وزیراعظم رجب طیب اردگان کو''محوری'' حیثیت حاصل ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوج کومسلسل پچھاڑنے کے بعد اردگان عالمی لیڈر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کی ترکی میں کس پارٹی کی حکومت ہے ؟ اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی ترکی کی خطے میں''جیو پولیٹیکل اور اسٹریٹیجک'' اہمیت ہے۔ تیز رفتاری سے معاشی ترقی کے باعث یورپی، عرب اور دیگر مسلم اور غیرمسلم ممالک ترکی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہوگا کہ اردگان مسلم دنیا کا لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ اردگان اور اس کی پارٹی کی جانب سے اگر مصرکی اخوان المسلمون، غزہ کی اسلامی تحریک مزاحمت''حماس'' اور شام کے انقلابیوں کی حمایت کی جا رہی ہے تو وہ فطری ہونے کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ مسلمان ملکوں میں عربوں سے زیادہ ترکوں کو اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب بادشاہوں کے لیے کسی دوسرے مسلمان لیڈر کی مقبولیت ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہو رہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی ترک حکومت سے ناراضگی کا اصل محرک انقرہ کی فلسطینیوں کی حمایت ہے۔ اگر یہی پالیسی کوئی دوسری جماعت بھی اختیا ر کرتی ہے تو یورپ، امریکا اور اسرائیل کا رویہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوگا۔
مغرب اور عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ کو ترکی سے نہیں بلکہ ''جسٹس پارٹی'' سے نفرت ہے۔ اس کی ایک وجہ جسٹس پارٹی کی دنیا بھر میں''سیاسی اسلام'' کے علمبرداروں کی حمایت ہے۔ اردگان کو اسلام پسندوں کی یہ حمایت مہنگی پڑتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ مصرمیں اخوان المسلمون کے زیرعتاب آنے اور خلیجی ممالک میں اس پر پابندیوں کے نفاذ کے بعد اب ترکی میں بھی اسلام پسندوں کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔
''آتش گل کہیں چمن کو جلا نہ دے''
بیرونی سطح پر ترکی سے ناراض ممالک یقینی طور پر بلدیاتی، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات پراثرانداز ہوں گے۔ باہر سے کسی کو کیا تکلیف ہے، یہ معاملہ اپنی جگہ مگر جسٹس پارٹی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اندرونی خلفشار اور فتح اللہ گولن جیسے اسلام پسندوں کی مخالفت ہے۔ سیکولرطبقات کے لیے فتح اللہ گولن ایک نعمت ِغیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل گولن جسٹس پارٹی ، صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم رجب طیب اردگان کی پشت پر کھڑے رہے ہیں۔ گوکہ وہ براہ راست سیاست میں حصہ نہیں لیتے مگر ملک میں ایک بڑا مذہبی طبقہ ان کا مرید ہے اور یہی لوگ ماضی میں اردگان کا ووٹ بنک رہے ہیں۔ ترکی کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ فتح اللہ گولن کی اردگان کی حمایت سے دست کُشی حکمراں جماعت کی سیاسی بساط لپیٹنے کا باعث بن سکتی ہے۔ البتہ ترکی کا سرکاری میڈیا تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کر رہا ہے۔
وہ یہ کہ فتح اللہ گولن یا ان کے حامیوں کی جانب سے حکمراں جماعت کی مخالفت سے اردگان کی سیاسی ساکھ پر کوئی اثرنہیں پڑتا کیونکہ ''جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ'' نے گیارہ سالہ کارکردگی میں نہ صرف اپنا ایک وسیع ووٹ بنک بنا لیا ہے بلکہ ملک کو معاشی ترقی کی معراج پر پہنچا کر عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خاندان پرکرپشن کے الزامات کا تعلق ہے تو وہ محض کھوکھلے اور بے بنیاد الزامات ہیں۔ سرکاری میڈیا کے اس تاثر کے باوجود وزیراعظم رجب طیب اردگان کی بوکھلاہٹ اور عجلت میں کیے گئے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی ''انہونی'' سے خوف زدہ ہیں۔''العربیہ نیوز چینل'' کی رپورٹ کے مطابق اردگان انتخابات میں ممکنہ شکست سے نہیں اُنہیں ملک میں فوجی بغاوت کا اندیشہ لاحق ہے۔ کرپشن اسکینڈل سامنے آنے کے بعد عوام کا موڈ اردگان کے خلاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندیوں کے نتیجے میں انہوں نے اپنی ہمدردیوں میں اضافہ نہیں کیا ہے۔
رواں سال ترکی کو سیاسی تغیرات کے ایک طوفانی بھنورکا سامنا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک 30 مارچ کو ملک میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج آچکے ہوں گے۔ 2 اگست کو صدارتی انتخابات کا بگل بجے گا اور 2015ء کے وسط میں پارلیمانی انتخابات کی نئی بساط بچھائی جائے گی۔ ترکی میں ہونے والے یہ تینوں انتخابات لمحہ موجود میں مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کا بھی اہم موضوع ہیں۔ بحث یہ چل رہی ہے کہ حکمراں اسلام پسند جماعت''جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ''(AK)، وزیراعظم رجب طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟۔ میڈیا ٹرائل، اپوزیشن کے احتجاج اور حکمراں جماعت کے نت نئے ابھرتے کرپشن افسانے کیا رنگ دکھانے والے ہیں۔ پھر یہ سوال باربار اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا طیب اردگان کی گیارہ سالہ سیاست کا نقطہ زوال شروع ہو چکا ؟ کیا اردگان فوج کے ہاتھوں اپنے پیش رو عدنان مندریس کے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں؟ کیا ترکی میں ایک مرتبہ پھر مصطفٰی کمال اتا ترک کی پالیسیاں عود کرنے والی ہیں؟ ان تمام سوالوں کے جوابات ترکی کے لوکل باڈیز، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ امر واقعہ ہے کہ موجودہ حکومت ، وزیراعظم اردگان اور صدرعبداللہ گل اپنی سیاست کے بام عروج پر ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ناممکن ہے کہ تیزی سے بدلتی سیاسی فضاء میں اسلام پسندوں کاجہاز ہچکولے کھانے لگا ہے۔ قابل فخر اور تیزی سے فروغ پذیر معیشت پر سکوت طاری ہے اور اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے کہ آیا ملک کا معاشی مستقبل کیا ہونے والا ہے۔ ان تمام سوالوں کا ابتدائی جواب تیس مارچ کے بلدیاتی انتخابات کے بعد سامنے آئے گا۔ اس ضمن میں اخبار''ڈیلی حریت'' کا تجزیہ بھی قابل غور ہے، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر ان انتخابات میں موجودہ حکمران جماعت38.8 فی صد ووٹ لے اڑتی ہے تو یہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میںفتح کی نوید ثابت ہوگی۔ اگر نتیجہ اس سے کم رہتا ہے تو ''اے کے'' پارٹی کے ووٹ کے حجم سے پارلیمانی انتخابات میں جیت کی قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔
''اے کے'' پارٹی کے گیارہ سالہ دور حکومت میں ترکی نے کئی شعبوں میں برق رفتاری سے ترقی کی ہے۔ معاشی ترقی کا سہرا جہاں موجودہ حکومت کے سر ہے وہیں اس کی کامیابی میں سابق وزیراعظم بلند ایجوت کی مساعی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلند ایجوت نے معاشی ترقی کے لیے ماہرین کی خدمات لینے کی ٹھانی تو ان کی نظرا نتخاب امریکا میں مقیم ''یو این ڈی پی'' کے سابق منتظم کمال درویش پر پڑی۔ بلند ایجوت کے کمال درویش کے ساتھ براہ راست تعلقات نہیں تھے لیکن وہ استنبول کے سابق میئر او ر موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان کے قریب ضرور رہے تھے۔ درویش اردگان کی بہ طور میئر کارکردگی سے بہت متاثر بھی تھے اور ان کی مشاورت میں بھی شامل رہے۔ عبداللہ گل اور طیب اردگان معروف مذہبی اسکالر پروفیسر نجم الدین اربکان کے افکار سے متاثر تھے۔
استنبول کے میئر کی حیثیت سے طیب اردگان ملک بھرمیں ایک بہترین، متحرک وفعال منتظم کے طور پر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ ایک شہر کے ناظم ہوتے ہوئے انہوں نے استنبول کو ترک ثقافت کا مرکز بنا دیا ۔ شہر کی معاشی ترقی اس کے سوا تھی ۔ یوں اردگان نے اپنی اسی ساکھ کو 2002ء کے پارلیمانی انتخابات میں''ٹیسٹ'' کیا اور خلاف توقع تمام سیاسی حریفوں کو چاروں شانے چت کردیا ۔ جسٹس پارٹی کی حکومت قائم ہوئی مگر گمان تھا کہ یہ چند دن کی مہمان ہوگی کیونکہ ترکی ابھی سیاسی بلوغت کی عمرکو نہیں پہنچا کہ جس میں فوجی آمریت کے دروازے یا اقتدار پرشب خون مارنے کی زہریلی خو ختم ہو چکی ہو۔ طیب اردگان کی کامیابی کاغذی نہیں تھی بلکہ جسٹس پارٹی کو قوم نے بھاری مینڈیٹ دے رکھا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور شکست خوردہ جماعتوں نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی۔
ابتدائی دو سال میں طیب اردگان کی حکومت تو کوئی بڑا معرکہ سر نہ سکی مگر2005ء میں معاشی ترقی کے نئے ریکارڈ قائم ہونے لگے۔کمال درویش کے کمالات بھی اپنا رنگ دکھا رہے تھے لیکن اس کا بڑا کریڈٹ جسٹس پارٹی کی پالیسیوں کو جاتا ہے جس نے پورے ملک میں سیاحت کا جال بچھا دیا۔ ترکی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ''زمان'' کی رپورٹ کے مطابق اردگان حکومت نے پہلی فرصت میں صرف تین کام کیے۔ وہ تین کام سیاحت کا فروغ ، غیرملکی سرمایہ کاروں کے بجائے مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی اور یورپ اور عالمی برادری سے تجارتی تعلقات کا قیام تھے۔ جسٹس پارٹی کے ابتدائی پانچ سال میں ملک میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا گیا ۔ ہوائی جہازوں کے ٹکٹ سستے کردیئے تاکہ دور دراز سے لوگ سیرو سیاحت کے لیے ترکی آسکیں۔ بعض اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دے کر عوام کو بھی ریلیف فراہم کیا گیا۔ ان اقدامات سے ملک کے زرمبادلہ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور جی ڈی پی میں 3.01 فی صد کا تاریخ ساز اور ریکارڈ اضافہ ہوا ۔
AKP کو ایک بار پھر بقاء کے ایک نئے معرکے کا سامنا ہے۔ موجودہ سیاسی بحران، بدعنوانی کے الزامات اور سوشل میڈیا پرقدغنوں کے ہوتے ہوئے اگر حکمراںجماعت بلدیاتی انتخابات میں فتح کے جھنڈے گاڑ لیتی ہے تو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اس کی راہ کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ممکن نہ ہوئی تو پارلیمانی انتخابات کے نتائج بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ الجزیرہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں بالعموم آٹھ اور بالخصوص تین شہر استنبول، ازمیر اور دیار بکر اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس وقت استنبول میں''جسٹس پارٹی'' ازمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور دیار بکر میں''کرد پیس اینڈ ڈیموکریٹک '' کی شہری حکومتیں قائم ہیں۔ سب سے بڑا معرکہ استبول میں ہوگا اور اسی کی بنیا د پر پیش آئند انتخابات میں فتح وشکست کا پیمانہ بنے گا۔ استنبول میں'اے کے'' پارٹی کے میئر ملیح کوچک اور پیپلز ڈیموکریٹک کے منصوریاوش کے درمیان کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔ منصور یاوش نے اب تک جتنے بھی انتخابی جلسے کیے ہیں، اس میں انہوں نے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی کرپشن کی کہانیوں کو مبالغہ آمیز حد تک اچھال رکھا ہے۔
مبصرین کے خیال میں حکمراں ''اے کے'' پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کے بعد ہی اپنی مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم رجب طیب اردگان انتخابی نتائج کے منتظر ہیں۔ اردگان تین آپشن پرغور کر رہے ہیں۔ اگر ان کی جماعت بلدیاتی معرکہ سرکر لیتی ہے تو اس کے خلاف اپوزیشن کا اٹھایا ہوا طوفان خود بخود تھم جائے گا۔ جماعت صدارتی اورپارلیمانی انتخابات کی بھرپور تیاری شروع کرے گی۔ اگر نتائج اس کے برعکس ہوئے تو اردگان صدارتی انتخابات مؤخر کرکے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ ایک تیسرا آپشن جس کے امکانات کم ہیں وہ یہ کہ اردگان پارٹی کے منشور اور قانون میں غیرمعمولی ترمیم کریں گے۔ موجودہ پارٹی قانون کے مطابق کوئی بھی رکن تین سے زیادہ مرتبہ پارٹی عہدے پر نہیں رہ سکتا۔ پارٹی پراپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اردگان تین بار انتخاب کی قید ختم کردیں گے۔
اردگان ناپسندیدہ کیوں؟
ترکی کی سیاست میں وزیراعظم رجب طیب اردگان کو''محوری'' حیثیت حاصل ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوج کومسلسل پچھاڑنے کے بعد اردگان عالمی لیڈر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کی ترکی میں کس پارٹی کی حکومت ہے ؟ اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی ترکی کی خطے میں''جیو پولیٹیکل اور اسٹریٹیجک'' اہمیت ہے۔ تیز رفتاری سے معاشی ترقی کے باعث یورپی، عرب اور دیگر مسلم اور غیرمسلم ممالک ترکی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہوگا کہ اردگان مسلم دنیا کا لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ اردگان اور اس کی پارٹی کی جانب سے اگر مصرکی اخوان المسلمون، غزہ کی اسلامی تحریک مزاحمت''حماس'' اور شام کے انقلابیوں کی حمایت کی جا رہی ہے تو وہ فطری ہونے کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ مسلمان ملکوں میں عربوں سے زیادہ ترکوں کو اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب بادشاہوں کے لیے کسی دوسرے مسلمان لیڈر کی مقبولیت ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہو رہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی ترک حکومت سے ناراضگی کا اصل محرک انقرہ کی فلسطینیوں کی حمایت ہے۔ اگر یہی پالیسی کوئی دوسری جماعت بھی اختیا ر کرتی ہے تو یورپ، امریکا اور اسرائیل کا رویہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوگا۔
مغرب اور عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ کو ترکی سے نہیں بلکہ ''جسٹس پارٹی'' سے نفرت ہے۔ اس کی ایک وجہ جسٹس پارٹی کی دنیا بھر میں''سیاسی اسلام'' کے علمبرداروں کی حمایت ہے۔ اردگان کو اسلام پسندوں کی یہ حمایت مہنگی پڑتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ مصرمیں اخوان المسلمون کے زیرعتاب آنے اور خلیجی ممالک میں اس پر پابندیوں کے نفاذ کے بعد اب ترکی میں بھی اسلام پسندوں کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔
''آتش گل کہیں چمن کو جلا نہ دے''
بیرونی سطح پر ترکی سے ناراض ممالک یقینی طور پر بلدیاتی، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات پراثرانداز ہوں گے۔ باہر سے کسی کو کیا تکلیف ہے، یہ معاملہ اپنی جگہ مگر جسٹس پارٹی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اندرونی خلفشار اور فتح اللہ گولن جیسے اسلام پسندوں کی مخالفت ہے۔ سیکولرطبقات کے لیے فتح اللہ گولن ایک نعمت ِغیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل گولن جسٹس پارٹی ، صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم رجب طیب اردگان کی پشت پر کھڑے رہے ہیں۔ گوکہ وہ براہ راست سیاست میں حصہ نہیں لیتے مگر ملک میں ایک بڑا مذہبی طبقہ ان کا مرید ہے اور یہی لوگ ماضی میں اردگان کا ووٹ بنک رہے ہیں۔ ترکی کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ فتح اللہ گولن کی اردگان کی حمایت سے دست کُشی حکمراں جماعت کی سیاسی بساط لپیٹنے کا باعث بن سکتی ہے۔ البتہ ترکی کا سرکاری میڈیا تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کر رہا ہے۔
وہ یہ کہ فتح اللہ گولن یا ان کے حامیوں کی جانب سے حکمراں جماعت کی مخالفت سے اردگان کی سیاسی ساکھ پر کوئی اثرنہیں پڑتا کیونکہ ''جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ'' نے گیارہ سالہ کارکردگی میں نہ صرف اپنا ایک وسیع ووٹ بنک بنا لیا ہے بلکہ ملک کو معاشی ترقی کی معراج پر پہنچا کر عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خاندان پرکرپشن کے الزامات کا تعلق ہے تو وہ محض کھوکھلے اور بے بنیاد الزامات ہیں۔ سرکاری میڈیا کے اس تاثر کے باوجود وزیراعظم رجب طیب اردگان کی بوکھلاہٹ اور عجلت میں کیے گئے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی ''انہونی'' سے خوف زدہ ہیں۔''العربیہ نیوز چینل'' کی رپورٹ کے مطابق اردگان انتخابات میں ممکنہ شکست سے نہیں اُنہیں ملک میں فوجی بغاوت کا اندیشہ لاحق ہے۔ کرپشن اسکینڈل سامنے آنے کے بعد عوام کا موڈ اردگان کے خلاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندیوں کے نتیجے میں انہوں نے اپنی ہمدردیوں میں اضافہ نہیں کیا ہے۔