بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

ایک وقیع علمی کتاب



ہم جوں جوں 'خطبات ملتان' کی ورق گردانی کرتے گئے، توں توں ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی چلی گئی کہ واقعی اس وقیع علمی کتاب کو کسی ایک مخصوص عنوان تلے استوار کرنا ایک مشکل تر امر تھا، شاید تبھی اسے 'خطبات ملتان' کے ایک مناسب نام سے یک جا کر دیا گیا ہے۔

یہ کتاب دراصل مولانا عبدالخالق آزاد رائے پوری کے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی (ملتان) میں دیے گئے مختلف خطبات کا مجموعہ ہے، جس میں مذہبی تعلیمات کی روشنی میں نہایت مدلل طریقے سے فلسفۂ حیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وہ بھی کچھ اس طرح کہ کہیں کہیں یہ کتاب 'عمرانیات' کے موضوع پر ایک اہم حوالہ بنتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، تو کہیں معاشیات کے حوالے سے نہایت اہم سوالات کھڑے کر دیتی ہے۔

کہیں سیاست اور معاشرت پر سامنے آنے والے دلائل اسے تاریخ، سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات کے تعلق سے نمایاں کر دیتے ہیں اور پھر بُہتیرے مقامات پر دعوت فکر دیتی ہوئی یہ تصنیف عدل وانصاف کے لیے ایک تبدیلی کے منشور کی شکل میں ڈھلی جاتی ہے، جب کہ کہیں کہیں اس کتاب میں شامل تاریخی حوالے پہلے کسی تاثر پر غالب ہو جاتے ہیں، جب کہ کئی ایک مقامات پر کچھ 'نفسیات' کی جھلک بھی واضح ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور یہ سب دراصل مولانا عبدالخالق آزار رائے پوری کے فکر وفلسفے کی وسعت اور قابلیت کا مظہر ہے۔

اس کتاب کے مندرجات میں اسلام اور عدل اجتماعی، امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی شخصیت اور فکر، علمِ اَسرار الدین: فلسفتہ التشریع الاسلامی، امام دہلوی کا نظریہ معیشت، نظریہ ارتفاقات، سماجی تشکیل نو کے اصول اور پاکستانی معاشرے کے استحکام جیسے اہم موضوعات پر خطبات شامل کیے گئے ہیں، یہی نہیں بلکہ ہر خطبے کے ساتھ سوال جواب کے سلسلے کو بھی اس کتاب کی صورت میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔

یقیناً آج کل کی سطحی تعلیم اور کسی واضح سمت سے دور یا بالکل 'بے مقصد زندگی' میں وقت گزارنے والے عام طلبہ کے لیے اس کتاب میں بہت کچھ ہے، لیکن اس کے مطالعے کے لیے ایک حد تک پختہ ذہن اور ایک مطالعہ ہونا ضروری ہے، بہ صورت دیگر کتاب قاری پر بوجھل ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ اس کتاب کے مندرجات اپنی پوری صحت کے ساتھ اِبلاغ نہ کر سکیں۔

دینیات، فلسفہ، تاریخ، سیاسیات، معاشیات اور عمرانیات وغیرہ جیسے موضوعات کا بہ یک وقت احاطہ کرنے والی اس 552 صفحاتی اس کتاب کے آخر میں 65 سے زائد صفحات حوالہ جات وحواشی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام رحیمیہ مطبوعات (042-36307714, 042-36369089) لاہور سے کیا گیا ہے۔

'روح کائنات ﷺ'



'روح کائنات ﷺ'، جیسا کہ نام ہی سے بہ خوبی ظاہر ہے کہ یہ سیرت طیبہ پر رقم کی گئی ایک تصنیف ہے، جو تفاخر محمود گوندل کی عقیدت اور زورِقلم کا نتیجہ ہے۔

اس کے نمایاں مندرجات میں یوم ولادت، رسالت مآب ﷺ کا جمال اور شان، عدل ومساوات، عزم واستقلال، زہد وقناعت، توکل، محبت اور خشیت الٰہی وغیرہ وغیرہ سے لے کر عقیدہ ختم نبوت، فتنۂ انکار حدیث اور فتنہ توہینِ رسالت جیسے اہم اور حساس ترین موضوعات سمیت کُل 14 مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔

کتاب کے کُل 224 صفحات میں ابتدائی 64 صفحات میں محمد قاسم کیلانی، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، جسٹس میاں نذیر اختر، سید ابرار حسین، سید تابش الوری اور 'صاحبِ کتاب' کے تاثرات اور اظہارخیال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مصنف کی اس سے قبل اسی موضوع پر ایک کتاب 'تجلیات رسالت' بھی منصہ شہود پر آچکی ہے۔ اشاعت کا اہتمام ماورا پبلشر لاہور (03004020955) سے کیا گیا ہے۔ اِس مجلد کتاب کا ہدیہ 800 روپے رکھا گیا ہے۔

منظوم گل ہائے عقیدت



صدارتی ایوارڈ یافتہ مجموعے ''چمن زارِ حمد ونعت'' میں 160 منظوم ہدیہ تبرک پیش کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ایک صفحے پر حمد بہ عنوان 'یا رب العالمین' سجی ہے، جب کہ اس کے سامنے والے صفحے کی جانب نعت رسول مقبول ﷺ بہ عنوان 'یا رحمت اللعالمین' استوار کی گئی ہے۔

اس کتاب میں شامل بعضے اظہارِعقیدت چھوٹی بحروں میں کیے گئے ہیں، جب کہ کہیں کہیں طویل بحریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ حمد ونعت کے باب میں یک مشت اتنے بڑے پیمانے پر اظہار خیال کرنا یقیناً ایک سعادت اور توفیق کی بات ہے۔

کہنے کو ہر دو جوانب کا حق تو کبھی ادا ہو ہی نہیں سکتا، لیکن دوستی طرف اس وسیع وعریض کائنات میں درحقیقت ایک بہت چھوٹی سی دنیا میں اس حقیر، عاجز و لاچار انسان کی بساط ہے ہی کتنی، پھر بھی اللہ کی حمد وثنا اور نبی اکرم ﷺ کی شان مبارک میں اظہار کے منفرد طرز دلوں کو منور کرتے ہیں، جیسے بالترتیب حمد ونعت کے ذرا یہ اشعار ملاحظہ کیجیے؎

ہم دل کی تسلی کو دعا کرتے ہیں ورنہ

واقف ہے وہ ہر بات کے، اظہار سے پہلے

مدینے کو لکھا کرتا تھا میں دل

سو اب دل کو مدینہ لکھ رہا ہوں

285 صفحات کے اس خوب صورت گل دستے میں آخر میں 'ہائیکو' کی صنف میں بھی حمد ونعت کہی گئی ہے۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام ماورا پبلشر لاہور (03004020955) سے کیا گیا ہے، ہدیہ 1200 روپے ہے۔


اردو خاکہ نگاری کے لیے ایک 'تبرک'



ڈاکٹر یونس حسنی جیسے نقاد اور ماہرلسانیات جب اردو خاکہ نگاری کو اپنے قلم سے اعزاز بخشیں، تو پھر ہم جیسے ادنیٰ سے طالب علم کی کیا بساط ہے کہ اس پر کوئی اظہار کر سکے، بس یہ شکوہ کیے بنا بات بنتی نہیں ہے کہ آپ نے اس سمت پہلے توجہ کیوں نہ کی۔۔۔! ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اردو زبان کو یہ خاکے 'تبرک' کے طور پر نذر کیے ہیں۔

'گہر ہائے شب چراغ' کے عنوان تلے اِن 142 صفحات میں کوئی 14 شخصیات منتخب کی گئی ہیں، جن میں ہر خاکہ ایک سے بڑھ کر ایک دکھائی دیتا ہے، البتہ سب سے خوب تر ہمیں ان کے دادا مولانا سید محمد یعقوب کا خاکہ بہ عنوان 'ابا میاں' لگا۔ یہ اپنے پڑھنے والوں کو کیا گئے وقتوں کی سادگی اور اللہ والے لوگوں سے خوب متعارف کراتا ہے۔ ان کے دادا سے لوگ تو تعویز تو لکھواتے ہی تھے، ایک مرتبہ یوں ہوا کہ کچھ طوائفیں بھی ان کے پاس آگئیں، تو اس پر بہت باتیں بنیں، انھوں نے فرمایا 'کیا وہ انسان نہیں!' اگر اس سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہے۔

تو میں کوٹھڑی لے کر الگ ہو رہوں گا، لیکن کسی حاجت مند کو نہ روکوں گا۔ اسی طرح جب انھوں نے ایک مرتبہ یونس حسنی سے ایک سائل کو کچھ نذر کرنے کو کہا اور گویا ہوئے کہ 'میاں، وہ اللہ سے مانگ رہا تھا، اگر اسے کچھ نہ ملتا تو عطائے خداوندی پر حرف آجاتا۔۔۔!' انھی کے خاکے میں اسی طرح کا ایک اور قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ہر دو ماہ کے بعد ان کے کُرتے 'ختم' ہو جاتے کہ ان کے عقیدت مند مانگ کر ان کا پہنا ہوا کرتا بطور تبرک کے لے جاتے کہ اسے اپنے نومولود کی پوشاک کریں گے! وہ انکار نہیں کرتے، نتیجتاً پھر انھیں بار بار کرتے سلوانے کی ضرورت پڑتی۔

اس کتاب میں محمود احمد برکاتی اور مدیر ہفت روزہ 'تکبیر' صلاح الدین کے خاکے بھی لکھے گئے ہیں، دونوں ہی احباب سے ڈاکٹر یونس حسنی کی ذاتی نیاز مندی اور تعلق رہا، اور بدقسمتی سے دونوں ہی کو اس شہر میں 'نامعلوم' قاتلوں نے موت کی نیند سلا دیا۔ کتاب میں اس کے علاوہ ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر ابو محمد سحرؔ، احمد الدین شیخ، ڈاکٹر سید اسلم، مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی، نواب سعادت علی خان، مفتی عبدالرحیم، رفیق نقش اور دیگر کے خاکے بھی جگمگا رہے ہیں۔

دراصل ڈاکٹر یونس حسنی کی فصاحت، زبان دانی اور چاشنی نے ان خاکوں کو چار چاند لگائے ہیں۔ جملوں میں برمحل اور مکمل لفظ ایسے کہ جیسے موتی ٹنکے ہوئے ہوں، البتہ کہیں کہیں پروف کی غلطیاں خاصی کھَلتی ہیں۔ کتاب کی اشاعت فضلی سنز(0335-3252374, 021-32629724) کراچی سے کی گئی ہے، قیمت 500 روپے ہے۔

'کتاب بند' ہوا یہ ''دفتر کھلا''



اردو ادب کی دنیا میں ڈاکٹر یونس حسنی کا تعارف ایک محقق، مدرّس اور نقاد کا ہے، لیکن 'کالم نگاری' ان کے تعارف کا ایک اور روپ ہے، جسے انھوں نے ہندوستان میں اپنے اوائل زمانہ کی صحافت کو سامنے رکھتے ہوئے پوری طرح ہلکا پھلکا اور اپنی رائے کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔

اپنے کالموں میں وہ ببانگ دہل اپنی دینی فکر اور مغرب اور غیر مذہبی فکر کے بہت سے معاندانہ رویوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ اور ان کی یہ تنقید 'ادبی تنقید' کی طرح کہیں بھی ثقیل اور وقیع نہیں ہوتی، بلکہ وہ 'اخباری کالم' کے قاری کی ذہنی فکر اور 'کالم' کے اسلوب اور انداز سے پوری طرح انصاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، کالموں میں اپنے موقف کی تائید میں دلائل اور ثبوت بہت عام سی زندگی سے لے کر آتے ہیں۔

کہیں کہیں موقعے کی مناسبت سے شگفتگی کے ساتھ طنز کی ضرورت محسوس ہو تو وہ اپنے کالموں میں اس مقام کو بھی کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چیختے چنگھاڑتے 'خبری چینلوں' اور بہت سے خوشامدانہ اور تند وتیز لفظوں کے نشتر لگاتے ہوئے اخباری کالموں میں وہ اپنی دھیمی طبیعت کے مطابق بہت دھیرج سے کافی کڑوی باتیں بھی بہت آسانی سے کر جاتے ہیں۔ یوں تو وہ پہلے بھی 'کالم نگاری' کرتے رہے ہیں۔

تاہم 1998ء میں روزنامہ 'ایکسپریس' کے اجرا سے 'دفتر کھلا' کے عنوان سے ادارتی صفحات پر باقاعدگی سے جلوہ افروز ہو رہے ہیں اور ان کے اس باقاعدہ سلسلے کی عمر بھی اب اتنی ہی ہے، جتنی کہ روزنامہ 'ایکسپریس' کی۔ بقول ممتاز صحافی محمود شام کے کہ ان کے اس کرم سے اخباری تحریروں میں حرف کی حرمت بحال ہوئی اور بے عیب زبان پڑھنے کو ملی۔

محاوروں کے برمحل استعمال نے کالموں کو فرحت بخش بنا دیا۔'' کتاب کا انتساب انھوں نے ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی (مرحوم) کی محبتوں اور یادوں کی نذر کیا ہے، اور بالکل درست کیا، کیوں کہ ہم نے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کو ہمیشہ یونس حسنی کا قدر دان اور سماج میں ان کو نظرانداز کیے جانے کا شکوہ پایا ہے۔ رنگ ادب پبلی کیشنز (021-32761100, 0345-2610434) سے شایع ہونے والے اس320 صفحاتی مجموعے کی قیمت 800 روپے ہے۔

منفرد لیکھک 'فرانز کافکا' کے ناولوں کے ترجمے
منظور احمد پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں، لیکن زبان پر عبور اور اپنے ادب سے تعلق کا اظہار انھوں نے عالمی شہرت یافتہ اور منفرد لیکھک فرانز کافکا کے دو ناولوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر کیا ہے، جن میں کافکا کا مشہور زمانہ ناول دی ٹرائل (The Trial) کا ترجمہ بہ عنوان 'مقدمہ' کیا گیا ہے، یہ ترجمہ دس ابواب پر مشتمل ہے۔



کتاب میں مصنف فرانز کافکا کے حالات زندگی اور ادبی تعلق کے حوالے سے بھی اظہار خیال شامل کیا گیا ہے۔ کافکا کے اس مشہور ناول کے مندرجات قانون، انصاف، الزامات اور عدالتی کارروائی کے درمیان گردش کرتے اور گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جس میں استغاثہ، جرح، صفائی، گواہان اور پھر اس مقدمے کے انجام اور پھر انجام در انجام تک کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔

منظور احمد نے اردو ترجمے کے لیے جرمن مصنف فرانز کافکا کے انگریزی ترجمے سے استفادہ کیا گیا ہے، جو کہ ڈیوڈ ویلی (David Wyllie) نے کیا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے ڈیوڈ ویلی سے باقاعدہ اس کی اجازت بھی حاصل کی۔ جرمن زبان کے اِس ادیب کے متذکرہ بالا ناول کا شمار ان ادبی شہ پاروں میں ہوتا ہے، جو انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے تلف کرنا چاہا۔ اس اعتبار سے بھی یہ ناول منفرد ہے۔

اس کی ذاتی زندگی مکمل طور پر نشیب وفراز سے دوچار رہی اور اپنے لکھے کو جلا کر بھسم کر دینے کا یہ عمل بھی اس کی زندگی کی اسی اتھل پتھل کی خبر دیتا ہے۔ ناقدین کافکا کے رشحات قلم کو ادب میں شمار کرنے پر سخت تامل کا شکار ہوتے ہیں، کچھ کے بقول اسے زبردستی 'ادب' میں ٹھونسا گیا ہے۔ تاہم شاید 'کافکا' کو پڑھنے والے اس کو ادب ماننے اور نہ ماننے سے بے پروا اور آج بھی اس کے قلم کے گرویدہ ہیں۔

جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے دنیا سے اٹھ جانے کے سو برس بعد بھی اسے پڑھا جا رہا ہے، ترجمہ کیا جا رہا ہے اور وہ آج بھی ادبی ناقدین کی بحث کا موضوع ہے۔ کافکا کے ایک اور مختصر ناول (Metamorphosis) کایا کلپ کو بھی منظور احمد نے اردو میں منتقل کیا ہے، جس میں ناول کا مرکزی کردار ایک مہیب (بھیانک) کیڑے کا روپ دھار لیتا ہے اور اس کے بعد پورا ناول اسی خیال اور سارے واقعات کے گرد گھومتا ہے، اس سے کئی ایک جگہ پر یہ مختصر ناول ایک طویل افسانے کی طرح بھی محسوس ہوتا ہے۔



کسی انسان کا اس طرح روپ بدل جانا اپنے میں ہی ایک اچھی خاصی گہرائی کا حامل ہے، اور اس 94 صفحاتی ناول میں اس کا اچھا خاصا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ ایک کیڑا کس طرح ایک قوی الجثہ انسان سے مختلف ہو جاتا ہے اور اس کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا اور زندگی کے معمولات کس طرح الگ ہو جاتے ہیں، یہ بطور اُس کیڑے کے وہ بہت آسانی سے محسوس کر رہا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ ایک انسان رہ چکا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اسد شہزاد کے بقول ''ترجمہ کرنا جان جوکھم کا کام ہے اور اس میں اکملیت امرِ محال ہے، منظور احمد نے ان دونوں کہانیوں کی روح کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی بھرپور اور قابلِ قدر کاوش کی ہے۔'' تاہم ترجمے میں 'کرنے لگ گئے' جیسی تراکیب کی کافی تکرار دکھائی دیتی ہے، جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ناول 'فکشن ہائوس' لاہور (04236307550-1) سے شایع کیے گئے ہیں۔ قیمت بالترتیب500 اور 400 روپے ہے۔

rizwan.tahir@express.com.pk
Load Next Story