قومی سیکیورٹی پالیسی اور سیاسی حکمت عملیاں


سلمان عابد November 25, 2022
[email protected]

قومی سیکیورٹی پالیسی ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ پالیسی مختلف سیاسی اور غیر سیاسی فریقین کی طویل مشاورت کی بنیاد پر سامنے آئی اور اسے حتمی شکل دی گئی تھی۔

یہ کسی ایک حکومت کی پالیسی نہیں تھی بلکہ اسے مجموعی طور پر ریاستی پالیسی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا ہوگا۔اس طرز کی پالیسی کی کامیابی مختلف فریقین کی حکمت عملی اور عملدرآمد کے نظام سے جڑی ہوتی ہے۔

ہم سیکیورٹی پالیسی کو محض ایک انتظامی پالیسی یا سیکیورٹی ادارے کی پالیسی کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ حالانکہ قومی سیکیورٹی پالیسی ہماری قومی سیاست، معیشت، دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات ، حکمرانی کے نظام اور ریاست کے شہریوں کے ساتھ باہمی تعلق سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔

کوئی بھی سیکیورٹی پالیسی کسی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں چل سکتی اور نہ ہی یہ کسی ایک ادارے کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ ایسے میں اہم بات اس طرز کی پالیسی کی ساکھ اور شفافیت ہوتی ہے یعنی کیا اس پر تمام فریقین کا اعتماد ہے اور اگر ہے تو کیا اس پر عملدرآمد کے لیے ہمارے پاس کوئی واضح یا شفاف روڈ میپ موجود ہے ۔

قومی سیکیورٹی پالیسی میں پہلی بار ہم نے جیو تعلقات اور جیو معیشت پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ اس میں بھارت سمیت دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی افادیت اور اس میں معیشت کو فوقیت دینے پر زور دیا گیا ہے ۔

اسی پالیسی میں اس نقطہ پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اب ہم کسی کی بھی جنگ میں حصہ دار نہیں بنیں گے بلکہ ہمارے تعلقات کی نوعیت جنگوں یا تنازعات کے مقابلے میں امن کے ساتھ ہو گی ۔

گورننس یا حکمرانی کے نظام میں بہتری ، عوامی مفادات کے ساتھ جڑی پالیسی، اداروں میں موثر اور جدید اصلاحات سمیت داخلی سطح سے جڑے مسائل کے حل پر زور دیا گیا ہے ۔سب سے اہم بات عالمی سیاست میں ہم نے علاقائی مفادات، تعلقات ، تجارت میں ہم آہنگی پر زور دیا ہے اور اس نقطہ کو بنیاد بنایا ہے کہ ہم علاقائی تعلقات کے بغیر اپنی قومی سیاست کی سمت درست طور پر متعین نہیں کرسکتے ۔

ان میں بھارت ، افغانستان ، ایران کے ساتھ اعتماد سازی کا ماحول ، چین اور روس کے ساتھ نئے تعلقات، امریکا اور چین کے درمیان متوازن بنیاد پر پالیسی کی حکمت عملی ہی ہمارے موثر ہتھیار ہوسکتے ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ میری نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معید یوسف سے لاہور میں ہونے والی دو اہم ملاقاتوںمیں اسی قومی سیکیورٹی پالیسی پر جو سیر حاصل گفتگو ہوئی وہ اہم تھی ۔ ڈاکٹر معید یوسف کے بقول اول یہ پالیسی حکومت کی نہیں بلکہ ریاست کی پالیسی ہے ۔ دوئم اس پالیسی کے ہم فوری طور پر نتائج نہیں دیکھ سکیں گے ۔

اگر ہم نے درست سیاسی اور معاشی حکمت عملی اختیار کی تو کم ازکم ہمیں دس سے پندرہ برس درکار ہیں کہ ہم اس کے نتائج سے مستفید ہوسکیں۔ ان کے بقول حکومت کسی کی بھی ہو ہمیں قومی سیکیورٹی پالیسی کی کامیابی میں سیاسی ، معاشی ، حکمرانی یا ان سے جڑے اہم فیصلوں میں نہ صرف استحکام درکار ہے بلکہ ایک تسلسل بھی ہونا چاہیے ۔

ان کا یہ موقف بھی تھا کہ امریکا اور چین دونوں ہماری ضرورتیں ہیں اور ہمیں بلاوجہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے۔

ہماری خارجہ یا علاقائی پالیسی کی بنیاد قومی مفادات کے تابع ہو جو ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم کرسکے ۔ہمارے ملک میں رائے عامہ کی سطح پر رائے سازی کو تشکیل دینے والے انفرادی یا اجتماعی افراد یا ادارے بھی ایک بڑی سیاسی تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں اور اس تقسیم نے قوم کو مزید محاذآرائی یا ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے کھیل کا حصہ بنادیا ہے۔

حکمرانی سے جڑے مسائل اس حد تک سنگین ہوگئے ہیں کہ یہاں عام آدمی کا رشتہ ریاست ، حکومت اور اداروں کے ساتھ کمزوری کا شکار ہے ۔

ایسے میں آج کی گلوبل دنیا میں پاکستان کیسے خود کو پرامن ترقی کے عمل میں جوڑ سکے گا خود ایک بنیادی نوعیت کا سوال ہے ۔ہمارا ایک قومی مزاج بن گیا ہے کہ ہم اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں یا طرز حکمرانی میں اپنی ناکامیوں یا خامیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ہم اپنی داخلی اصلاح کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔

پارلیمنٹ کی بے توقیری ہم اس حد تک کرچکے ہیں کہ قومی اور حساس معاملات کو پارلیمنٹ میں زیربحث لانے یا ان پر فیصلہ کرنے کے لیے ہم پارلیمانی سیاست سے انحراف کرتے ہیں ۔ایک سیاسی بحران یہ بھی ہے کہ آپ سیاسی لوگوں سے گفتگو کریں تو وہ قومی سیکیورٹی پالیسی کو تسلیم کرنے کے بجائے یہ بوجھ اسٹیبلیشمنٹ پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

جب سیاسی قیادت یا جماعتیں خود قومی سیاسی مسائل کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں اور حکمرانی کے نظام میں اصلاح کے لیے بھی تیار نہیں تو ایسے میں سیاسی قیادتیں بھی خرابی میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ہمیں داخلی نظام میں سخت گیر پالیسی اختیار کرنا ہوگی اور بالخصوص گورننس سے جڑے معاملات کے حل کو اپنی بنیادی نوعیت کی ترجیح بنانا ہوگی۔

کیونکہ یہ ہی ایک نقطہ ہے جو لوگوں کو ریاستی و حکومتی نظام کے ساتھ جوڑ سکتا ہے اور لوگوں کے ریاستی نظام پر کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرسکتا ہے۔ لیکن یہ کام روائتی اور فرسودہ طور طریقوں سے ممکن نہیں ہوگا ۔

ہمیں خود احتسابی کے نظام کو تسلیم کرکے ایک ایسے روڈ میپ کی ضرورت ہے جہاں سب فریقین اپنی اپنی سیاسی کمٹمنٹ اور ذمے داریوں کے ساتھ خود کو موثر کردار کے طو رپر پیش کریں۔ قومی سیکیورٹی پالیسی کی کنجی داخلی سیاسی اور معاشی استحکام اور ادارہ جاتی عمل کو مستحکم کرنے سے جڑی ہے اور یہ ہی ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

آج کی دنیا میں کامیابی کی بڑی کنجی خود کو دنیا کی سیاست میں اہم بنانا ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت دنیا ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں