فٹبال گھڑی اور توشہ خان
زمانے کا مزاح بھی ہر دور میں تر و تازہ ہی رہتا ہے ، زمانہ بھی اپنے احساس کی ترجمانی میں کمال کی ضرب المثل رکھتا ہے ، جیسا کہ سوا نیزے پہ سورج ، دن کے بارہ بجے کے بعد عقل کا آنا ، ضدی سیاستدان تو ضدی ہے یا ٹھٹھرتی سردی میں گنگ عقل۔ راوی کے بقول آج کل پنڈی اسلام آباد سرد موسم کی لپیٹ میں ہے۔
سو موسمیاتی ٹھنڈ نے وہاں کے نظام زندگی میں '' ٹھنڈ '' ڈال دی ہے، شاید اسی ٹھنڈ کے نتیجے کا شکار ہمارے نئے ہونے والے سپہ سالار کی سمری ہوگئی تھی ، جس نے شدید شوروغوغا کے بعد آخر کار اس ٹھٹھرتی سمری نے وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر ایوان صدر میں اپنے قدم رنجان کر ہی ڈالے ، سمری کے بروقت منہ نکالنے کے عمل سے بہت سے بے چین کسی حد تک چین کی سریلی بانسری میں نیند کے غوطوں میں چلے گئے جب کہ کچھ چین و سکون کے خود ساختہ زمانیوں کی نیندیں ایسی اڑیں کہ اب وہ فیفا ورلڈ کپ پر ہی تبصرے کرتے نظر آرہے ہیں۔
اب بتائیے کہ فیفا ورلڈ کپ کو بھی اسی وقت ہونا تھا جب ہمارا ملک مشکل ' گھڑی ' میں پڑا ہوا ہو ۔ لگتا ہے ارجنٹینا بھی ایک سازش کے تحت ہارا تاکہ ہماری مشکل 'گھڑی' کو مزید مشکل بنا دے ، سعودی فرمانروا سعودی عرب کی جیت کے بعد نہ صرف ناچے گائے بلکہ سعودی عرب کی پوری ٹیم کو ' قیمتی گھڑیاں ' دینے کا بھی اعلان کر دیا۔
یہ حس مزاح سے زیادہ ہمارے ملک کے زمانیوں پر مونگ دلنے کے مترادف بات ہے ، جس پر ہم سعودی عرب کی فٹبال کپ میں جیت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں،اب دیکھیے نا کہ ہمارے خان پہلے ہی زخموں سے چور تکلیف دہ 'گھڑی' سے گذر رہے ہیں کہ سعودی عرب کی جیت پر خان پر ٹوئیٹ کرنے کا فرض بھی عائد کر دیا گیا۔
اب جب خان نے سعودی عرب کی جیت پر مبارکباد کا پیغام دیا تو شرارتی یار دوستوں کو فوری طور پر توشہ خانے کی ''گھڑی'' یاد آگئی ، یہ ہمارے خان کے ساتھ سعودی جو 'گھڑی' کا کھیل بار بار کھیل رہے ہیں ، ہم اس پر سخت مضطرب ہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ جب بندہ اپنی گھڑی کی اوقات بگڑنے اور من پسند سمری نہ آنے پر دکھی ہو تو اس گھڑی اداس دل کو بہلانے کا کام کیا جانا چاہیے، سو اس پریشانی کی گھڑی میں ہم اپنے خان سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
اس اثنا اس گھڑی کی بھی روداد سخن سن لیجیے جس صحافی کی رپورٹ نے '' گھڑی توڑ'' شہرت حاصل کر کے اسے آفتاب کر دیا ، یہ ستمبر دو ہزار اکیس میں اسلام آباد نیشنل پریس کلب کی عجب گھڑی تھی کہ جب ہم اپنے محترم محبی و معروف شاعر و ادیب افتخار عارف کی عیادت اور ان کی محبت اہل بیت سے لگاؤ پر مبنی مجموعہ کلام ''شہر علم کے دروازے پر'' کے ساتھ اپنے صحافتی قائد ناصر زیدی کے ہمراہ پریس کلب پہنچے اور شام ڈھلے کے سمے گرم گرم پکوڑے کی تواضع کے دوران ایک نوجوان صحافی ناصر زیدی کو محبت سے سلام کر کے ہماری میز پر آن بیٹھا تو ناصر زیدی نے مزید چائے اور پکوڑے منگوا لیے، ہم ابھی جاننا ہی چاہتے تھے کہ زیدی صاحب نے فوری رانا ابرار خالد کے نام سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وارث صاحب'' رانا صاحب بھی کراچی میں صحافت کر چکے ہیں اور آج کل بے روزگار ہیں مگر ہماری تنظیم پی ایف یو جے کے بڑے سرگرم ساتھی ہیں۔
یہ تھا ہمارا رانا ابرار خالد سے پہلا تعارف۔ نیشنل پریس کلب کے ٹیرس پر گھنٹوں کی گفتگو کے دوران ابرار نے سرسری سا ذکر کیا کہ وہ آج کل ایک اہم نوعیت کی تحقیقاتی رپورٹنگ میں مصروف ہیں اور جلد یہ تحقیقات اور انکشافات عوام کے سامنے لائے جائیں گے، یہ سب بتاتے ہوئے بے روزگار رانا ابرار بہت پر اعتماد اور پر عزم دکھائی دیے، ہم کراچی سدھارے اور صحافتی فرائض میں مصروف ہوگئے۔
ایک روز ہمارے سینئر صحافی دوست شاہد جتوئی گھر تشریف لائے اور باتوں کے دوران کال ملا بیٹھے، دوسری جانب رانا ابرار ، شاہد جتوئی سے گفتگو میں مصروف دوست احباب اور گاؤں کی باتیں کرنے لگے،کافی دیر بعد مجھ سے نہ رہا گیا اور پوچھ بیٹھا کہ '' یارکون ہے جس سے اتنی طویل گفتگو ہو رہی ہے تو شاہد نے کہا '' یار وہ رانا ابرار ہے ہمارے گاؤں کا شہزادہ اور آج کل اسلام آباد میں ہے،جب کہ عمران حکومت اسے کہیں ملازمت نہیں کرنے دے رہی۔'' یہ سن کر میں نے پہچانتے ہوئے رانا ابرار تک اپنا سلام پہنچایا اور بات آئی گئی ہوگئی،کچھ دنوں بعد رانا ابرار کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ '' توشہ خانے'' پر ایک اسٹوری کر رہا ہے اور سخت دباؤ میں ہے۔
جس پر سب دوست اور تنظیم نے رانا ابرار کی حوصلہ افزائی کی اور آخر کار ملک بھر میں یہ خبر زبان زد عام ہوگئی کہ وزیر اعظم عمران خان نے غیر ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف بازار میں منافع بخش کاروبار کے ضمن میں بیچ ڈالے ہیں۔
اس خبر کی تردید تو عمران کی حکومت نہ کر سکی البتہ یہ وضاحت ضرور دی کہ عمران خان نے قانون کے مطابق غیر ممالک کے تحائف قیمت ادا کر کے لیے ہیں جو کہ عمران خان کی ملکیت کے طور پر بیچ دیے گئے ہیں ، جب کہ رپورٹر رانا ابرار خالد کا کہنا تھا کہ یہ تحائف قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خریدے گئے ہیں جب کہ ان کی قیمت کی ادائیگی بھی وزیراعظم عمران خان کے اکاؤنٹ سے نہیں کی گئی۔
اس طرح توشہ خانہ کیس عمران حکومت کی غیر قانونی خرید و فروخت کی نشانی بن گیا اور اسی دوران اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کر لی۔
صحافی رانا ابرار خالد کی '' توشہ خانہ '' تحقیقاتی رپورٹنگ کی گونج جب قومی اسمبلی پہنچی تو اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کے اثاثہ جات میں '' توشہ خانہ'' سے دیگر تحائف اور قیمتی ہیرے جواہرات کی گھڑی بیچنے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو اپنے ڈیکلیریشن میں ظاہر نہ کرنے کے خلاف ریفرنس بھیجا اور الیکشن کمیشن نے دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کو نہ صرف نا اہل قرار دیا بلکہ ان کے خلاف فوجداری کروائی چلانے اور الیکشن کمیشن کو گمراہ کرنے کے خلاف کیس چلانے کی استدعا کی اور یوں رانا ابرار خالد کی '' توشہ خانہ '' کی یہ اسٹوری عالمی شہرت یافتہ بن گئی ، پھر اہل صحافت اور عوام کو پتہ چلا کہ بے روزگاری اور رکاوٹیں بھی پرعزم صحافی کا راستہ نہیں روک سکتیں۔
اپنے عزم و استقامت اور اقدار کی صحافت بھرے جذبے سے مزین باہمت ابرار خالد تو '' توشہ خانہ'' کے گھڑی چوری کی واردات کو عوام کے سامنے لے آیا، چینل اور وی لاگ کا لازمی جز بن گیا مگر صحافت کی سچائی پانے کی جستجو میں اب تک روزگار کی ایسی فٹبال بنا ہوا ہے جسے کبھی مخالف حکومت کبھی اپنے اور کبھی پرائے صرف دلاسوں کی ککوں پر رکھے ہوئے ہیں اور رانا ابرار کی استقامت کا امتحان لے رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ میرا یہ ابرار، صحافت کا سرخیل فاتح ہوکر ہی اہل جنوں کا اعتبار ہوگا۔
سو موسمیاتی ٹھنڈ نے وہاں کے نظام زندگی میں '' ٹھنڈ '' ڈال دی ہے، شاید اسی ٹھنڈ کے نتیجے کا شکار ہمارے نئے ہونے والے سپہ سالار کی سمری ہوگئی تھی ، جس نے شدید شوروغوغا کے بعد آخر کار اس ٹھٹھرتی سمری نے وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر ایوان صدر میں اپنے قدم رنجان کر ہی ڈالے ، سمری کے بروقت منہ نکالنے کے عمل سے بہت سے بے چین کسی حد تک چین کی سریلی بانسری میں نیند کے غوطوں میں چلے گئے جب کہ کچھ چین و سکون کے خود ساختہ زمانیوں کی نیندیں ایسی اڑیں کہ اب وہ فیفا ورلڈ کپ پر ہی تبصرے کرتے نظر آرہے ہیں۔
اب بتائیے کہ فیفا ورلڈ کپ کو بھی اسی وقت ہونا تھا جب ہمارا ملک مشکل ' گھڑی ' میں پڑا ہوا ہو ۔ لگتا ہے ارجنٹینا بھی ایک سازش کے تحت ہارا تاکہ ہماری مشکل 'گھڑی' کو مزید مشکل بنا دے ، سعودی فرمانروا سعودی عرب کی جیت کے بعد نہ صرف ناچے گائے بلکہ سعودی عرب کی پوری ٹیم کو ' قیمتی گھڑیاں ' دینے کا بھی اعلان کر دیا۔
یہ حس مزاح سے زیادہ ہمارے ملک کے زمانیوں پر مونگ دلنے کے مترادف بات ہے ، جس پر ہم سعودی عرب کی فٹبال کپ میں جیت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں،اب دیکھیے نا کہ ہمارے خان پہلے ہی زخموں سے چور تکلیف دہ 'گھڑی' سے گذر رہے ہیں کہ سعودی عرب کی جیت پر خان پر ٹوئیٹ کرنے کا فرض بھی عائد کر دیا گیا۔
اب جب خان نے سعودی عرب کی جیت پر مبارکباد کا پیغام دیا تو شرارتی یار دوستوں کو فوری طور پر توشہ خانے کی ''گھڑی'' یاد آگئی ، یہ ہمارے خان کے ساتھ سعودی جو 'گھڑی' کا کھیل بار بار کھیل رہے ہیں ، ہم اس پر سخت مضطرب ہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ جب بندہ اپنی گھڑی کی اوقات بگڑنے اور من پسند سمری نہ آنے پر دکھی ہو تو اس گھڑی اداس دل کو بہلانے کا کام کیا جانا چاہیے، سو اس پریشانی کی گھڑی میں ہم اپنے خان سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
اس اثنا اس گھڑی کی بھی روداد سخن سن لیجیے جس صحافی کی رپورٹ نے '' گھڑی توڑ'' شہرت حاصل کر کے اسے آفتاب کر دیا ، یہ ستمبر دو ہزار اکیس میں اسلام آباد نیشنل پریس کلب کی عجب گھڑی تھی کہ جب ہم اپنے محترم محبی و معروف شاعر و ادیب افتخار عارف کی عیادت اور ان کی محبت اہل بیت سے لگاؤ پر مبنی مجموعہ کلام ''شہر علم کے دروازے پر'' کے ساتھ اپنے صحافتی قائد ناصر زیدی کے ہمراہ پریس کلب پہنچے اور شام ڈھلے کے سمے گرم گرم پکوڑے کی تواضع کے دوران ایک نوجوان صحافی ناصر زیدی کو محبت سے سلام کر کے ہماری میز پر آن بیٹھا تو ناصر زیدی نے مزید چائے اور پکوڑے منگوا لیے، ہم ابھی جاننا ہی چاہتے تھے کہ زیدی صاحب نے فوری رانا ابرار خالد کے نام سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وارث صاحب'' رانا صاحب بھی کراچی میں صحافت کر چکے ہیں اور آج کل بے روزگار ہیں مگر ہماری تنظیم پی ایف یو جے کے بڑے سرگرم ساتھی ہیں۔
یہ تھا ہمارا رانا ابرار خالد سے پہلا تعارف۔ نیشنل پریس کلب کے ٹیرس پر گھنٹوں کی گفتگو کے دوران ابرار نے سرسری سا ذکر کیا کہ وہ آج کل ایک اہم نوعیت کی تحقیقاتی رپورٹنگ میں مصروف ہیں اور جلد یہ تحقیقات اور انکشافات عوام کے سامنے لائے جائیں گے، یہ سب بتاتے ہوئے بے روزگار رانا ابرار بہت پر اعتماد اور پر عزم دکھائی دیے، ہم کراچی سدھارے اور صحافتی فرائض میں مصروف ہوگئے۔
ایک روز ہمارے سینئر صحافی دوست شاہد جتوئی گھر تشریف لائے اور باتوں کے دوران کال ملا بیٹھے، دوسری جانب رانا ابرار ، شاہد جتوئی سے گفتگو میں مصروف دوست احباب اور گاؤں کی باتیں کرنے لگے،کافی دیر بعد مجھ سے نہ رہا گیا اور پوچھ بیٹھا کہ '' یارکون ہے جس سے اتنی طویل گفتگو ہو رہی ہے تو شاہد نے کہا '' یار وہ رانا ابرار ہے ہمارے گاؤں کا شہزادہ اور آج کل اسلام آباد میں ہے،جب کہ عمران حکومت اسے کہیں ملازمت نہیں کرنے دے رہی۔'' یہ سن کر میں نے پہچانتے ہوئے رانا ابرار تک اپنا سلام پہنچایا اور بات آئی گئی ہوگئی،کچھ دنوں بعد رانا ابرار کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ '' توشہ خانے'' پر ایک اسٹوری کر رہا ہے اور سخت دباؤ میں ہے۔
جس پر سب دوست اور تنظیم نے رانا ابرار کی حوصلہ افزائی کی اور آخر کار ملک بھر میں یہ خبر زبان زد عام ہوگئی کہ وزیر اعظم عمران خان نے غیر ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف بازار میں منافع بخش کاروبار کے ضمن میں بیچ ڈالے ہیں۔
اس خبر کی تردید تو عمران کی حکومت نہ کر سکی البتہ یہ وضاحت ضرور دی کہ عمران خان نے قانون کے مطابق غیر ممالک کے تحائف قیمت ادا کر کے لیے ہیں جو کہ عمران خان کی ملکیت کے طور پر بیچ دیے گئے ہیں ، جب کہ رپورٹر رانا ابرار خالد کا کہنا تھا کہ یہ تحائف قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خریدے گئے ہیں جب کہ ان کی قیمت کی ادائیگی بھی وزیراعظم عمران خان کے اکاؤنٹ سے نہیں کی گئی۔
اس طرح توشہ خانہ کیس عمران حکومت کی غیر قانونی خرید و فروخت کی نشانی بن گیا اور اسی دوران اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کر لی۔
صحافی رانا ابرار خالد کی '' توشہ خانہ '' تحقیقاتی رپورٹنگ کی گونج جب قومی اسمبلی پہنچی تو اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کے اثاثہ جات میں '' توشہ خانہ'' سے دیگر تحائف اور قیمتی ہیرے جواہرات کی گھڑی بیچنے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو اپنے ڈیکلیریشن میں ظاہر نہ کرنے کے خلاف ریفرنس بھیجا اور الیکشن کمیشن نے دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کو نہ صرف نا اہل قرار دیا بلکہ ان کے خلاف فوجداری کروائی چلانے اور الیکشن کمیشن کو گمراہ کرنے کے خلاف کیس چلانے کی استدعا کی اور یوں رانا ابرار خالد کی '' توشہ خانہ '' کی یہ اسٹوری عالمی شہرت یافتہ بن گئی ، پھر اہل صحافت اور عوام کو پتہ چلا کہ بے روزگاری اور رکاوٹیں بھی پرعزم صحافی کا راستہ نہیں روک سکتیں۔
اپنے عزم و استقامت اور اقدار کی صحافت بھرے جذبے سے مزین باہمت ابرار خالد تو '' توشہ خانہ'' کے گھڑی چوری کی واردات کو عوام کے سامنے لے آیا، چینل اور وی لاگ کا لازمی جز بن گیا مگر صحافت کی سچائی پانے کی جستجو میں اب تک روزگار کی ایسی فٹبال بنا ہوا ہے جسے کبھی مخالف حکومت کبھی اپنے اور کبھی پرائے صرف دلاسوں کی ککوں پر رکھے ہوئے ہیں اور رانا ابرار کی استقامت کا امتحان لے رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ میرا یہ ابرار، صحافت کا سرخیل فاتح ہوکر ہی اہل جنوں کا اعتبار ہوگا۔