فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی ختم سینیٹر شپ سے مستعفی
فیصل واوڈا موجودہ اسمبلی کی مدت تک نااہل ہوں گے
تحریک انصاف کے منحرف رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی ختم ہوگئی جبکہ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے سینیٹر شپ سے بھی استعفیٰ دے دیا۔
سپریم کورٹ میں نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ٖیصل واوڈا نے امریکی شہریت سے متعلق جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ استعفیٰ دینے کے بعد فیصل واوڈا موجودہ اسمبلی کی مدت تک نااہل ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کے خلاف الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی کلعدم قرار دیا اور فیصل واوڈا کو اپنا استعفیٰ فوری چیئرمین سینیٹ کو بھیجنے کا حکم دیا۔ عدالت نے فیصل واوڈا کو آئندہ عام انتخابات اور سینیٹ انتحابات کے لیے بھی اہل قرار دے دیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے مکالمہ کیا اور کہا آپ کہہ دیں کہ اُس وقت کے قانون کے مطابق آپ رکن اسمبلی بننے کے اہل نہیں تھے، 15 جون 2018 کو آپ نے امریکی شہریت ترک کرنے کی درخواست دی لیکن شہریت ترک کی نہیں تھی، غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ موجودہ اسمبلی کی مدت شروع ہونے سے نااہل تصور ہوں گے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ کب کا ہے اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ کب دیا؟ جس پر فیصل واوڈا نے بتایا کہ دوہری شہریت 25 جون 2018 کو ترک کی جبکہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ 30 مارچ 2021 کو دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فیصل واوڈا نے 3 سال تک قومی اسمبلی کی رکنیت رکھی، عدالت کا مقصد آپ کو یہاں بلاکر شرمندہ کرنا نہیں ہے لیکن آپ نے تین سال تک سب کو گمراہ کیا، عدالت کے سامنے پہلے معافی مانگیں اور پھر کہیں کہ استعفیٰ دیتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت کے سامنے معافی مانگ لیں گے اور اچھی نیت سے استعفیٰ دیں گے تو نااہلی 5 سال کی ہوگی، استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں آپ کے خلاف 62 ون ایف کی کارروائی ہوگی۔
فیصل واوڈا نے عدالت میں بیان دیا کہ میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، جھوٹا بیان حلفی دینے کی نیت نہیں تھی، عدالت کا جو حکم ہوگا وہ قبول ہوگا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جو آپ سے کہا جا رہا ہے وہ عدالت کے سامنے خود کہیں، جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ اچھی نیت سے خود استعفیٰ دیا، آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی تسلیم کرتا ہوں۔
فیصل واوڈا کی غیر مشروط معافی کے بعد سپریم کورٹ نے ان کی معافی تسلیم کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کا حکم کالعدم کر دیا۔
مزید پڑھیں؛ نااہلی کیس؛ سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کو دو آپشن دے دیئے
قبل ازیں، سپریم کورٹ کے باہر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ میں پی ٹی آئی میں نہیں ہوں۔ صحافی نے ان سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے آپ کو 2 آپشنز دیے ہیں، کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کریں گے؟ فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ عدالت جو حکم کرے گی، میں وہی کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آئیں گے، جلسہ کریں گے اور وہاں سے سیاست شروع ہوگی۔ عمران خان کے بارے میں نہ پہلے بات کی، نہ اب تسلیم کروں گا۔
فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز، سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کو تاحیات نااہلی کیس میں دو آپشن دیے تھے۔ عدالت نے کہا تھا کہ اپنی غلطی تسلیم کریں اور 63(1) سی کے تحت نااہل ہوجائیں بصورت دیگر عدالت 62(1) ایف کے تحت کیس میں پیش رفت کرے گی۔
سپریم کورٹ میں نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ٖیصل واوڈا نے امریکی شہریت سے متعلق جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ استعفیٰ دینے کے بعد فیصل واوڈا موجودہ اسمبلی کی مدت تک نااہل ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کے خلاف الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی کلعدم قرار دیا اور فیصل واوڈا کو اپنا استعفیٰ فوری چیئرمین سینیٹ کو بھیجنے کا حکم دیا۔ عدالت نے فیصل واوڈا کو آئندہ عام انتخابات اور سینیٹ انتحابات کے لیے بھی اہل قرار دے دیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے مکالمہ کیا اور کہا آپ کہہ دیں کہ اُس وقت کے قانون کے مطابق آپ رکن اسمبلی بننے کے اہل نہیں تھے، 15 جون 2018 کو آپ نے امریکی شہریت ترک کرنے کی درخواست دی لیکن شہریت ترک کی نہیں تھی، غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ موجودہ اسمبلی کی مدت شروع ہونے سے نااہل تصور ہوں گے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ کب کا ہے اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ کب دیا؟ جس پر فیصل واوڈا نے بتایا کہ دوہری شہریت 25 جون 2018 کو ترک کی جبکہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ 30 مارچ 2021 کو دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فیصل واوڈا نے 3 سال تک قومی اسمبلی کی رکنیت رکھی، عدالت کا مقصد آپ کو یہاں بلاکر شرمندہ کرنا نہیں ہے لیکن آپ نے تین سال تک سب کو گمراہ کیا، عدالت کے سامنے پہلے معافی مانگیں اور پھر کہیں کہ استعفیٰ دیتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت کے سامنے معافی مانگ لیں گے اور اچھی نیت سے استعفیٰ دیں گے تو نااہلی 5 سال کی ہوگی، استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں آپ کے خلاف 62 ون ایف کی کارروائی ہوگی۔
فیصل واوڈا نے عدالت میں بیان دیا کہ میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، جھوٹا بیان حلفی دینے کی نیت نہیں تھی، عدالت کا جو حکم ہوگا وہ قبول ہوگا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جو آپ سے کہا جا رہا ہے وہ عدالت کے سامنے خود کہیں، جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ اچھی نیت سے خود استعفیٰ دیا، آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی تسلیم کرتا ہوں۔
فیصل واوڈا کی غیر مشروط معافی کے بعد سپریم کورٹ نے ان کی معافی تسلیم کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کا حکم کالعدم کر دیا۔
مزید پڑھیں؛ نااہلی کیس؛ سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کو دو آپشن دے دیئے
قبل ازیں، سپریم کورٹ کے باہر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ میں پی ٹی آئی میں نہیں ہوں۔ صحافی نے ان سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے آپ کو 2 آپشنز دیے ہیں، کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کریں گے؟ فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ عدالت جو حکم کرے گی، میں وہی کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آئیں گے، جلسہ کریں گے اور وہاں سے سیاست شروع ہوگی۔ عمران خان کے بارے میں نہ پہلے بات کی، نہ اب تسلیم کروں گا۔
فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز، سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کو تاحیات نااہلی کیس میں دو آپشن دیے تھے۔ عدالت نے کہا تھا کہ اپنی غلطی تسلیم کریں اور 63(1) سی کے تحت نااہل ہوجائیں بصورت دیگر عدالت 62(1) ایف کے تحت کیس میں پیش رفت کرے گی۔