جادوئی گولی پنسلین نورمنڈی کے ساحل پر پانچواں اور آخری حصہ
پنسلین کی دریافت تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ انسان نے جراثیم کے خلاف ایک واضح فتح حاصل کی
چوہوں میں پنسلین کے کامیاب تجربے کے بعد جہاں فلوری اور اس کے ساتھیوں کی خوشی کا آپ اندازہ تو کر ہی سکتے ہیں لیکن وہیں اس خوشی کے ماحول میں بھی فلوری کے ذہن میں آئندہ کے تجربات کے بارے میں خدشات تھے۔ اس کا خیال تھا کہ چونکہ چوہوں کی بہ نسبت انسان تین ہزار گنا بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں، تو اگر ہمیں پنسلین کے تجربات انسانوں پر کرنے ہوئے (جو کہ لازمی کرنا پڑیں گے) تو ہمیں کم از کم بھی تین ہزار گنا زیادہ پنسلین کی مقدار چاہیے ہوگی۔
تحریر کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھیے: جادوئی گولی؛ جراثیم کش دواؤں کی ابتدا
ان حالات میں کہ جب پورا یورپ دوسری جنگِ عظیم کی لپیٹ میں تھا اور سارے ممالک اپنے تمام تر وسائل ہتھیاروں، گولہ بارود اور افواج کےلیے مختص کر رہے تھے، فلوری کو پنسلین کی تیاری کےلیے وسائل جمع کرنا تقریباً ناممکن ہی نظر آرہا تھا۔ خیر جیسے تیسے کچھ نہ کچھ جگاڑ لگاتے فلوری اور اس کے ساتھیوں نے پنسلین کی تیاری شروع کر ہی دی۔ اس مقصد کےلیے انھوں نے پہلے سے ڈیزائن کردہ فرائی پین نما برتنوں سے لے کر دودھ والے کنستروں تک جو چیز انھیں اپنے مطلب کی لگی، استعمال کرنا شروع کردی اور دن رات کی انتھک محنت کے بعد انسانی تجربات کےلیے ایک مناسب مقدار جمع کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے: جادوئی گولی؛ دشمن کا دشمن دوست (دوسرا حصہ)
بلاگ کا تیسرا حصہ یہاں سے پڑھیے: جادوئی گولی؛ ایک مجبور باپ (تیسرا حصہ)
چوتھا حصہ یہاں سے پڑھئے: جادوئی گولی؛ پنسلین کی کہانی (چوتھا حصہ)
انسانوں میں پنسلین کی ممکنہ افادیت دیکھنے سے پہلے زیادہ ضروری تھا کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس کے کوئی مضر اثرات تو نہیں ہوں گے۔ اس کےلیے انھیں تلاش تھی کسی رضا کار کی، جس کے جسم میں کیمیکل کو انجیکٹ کیا جاسکے۔ اس غرض سے ایک پچاس سالہ کینسر کی مریضہ مسز البا ایٹلس سے مدد کی درخواست کی گئی۔ مسز ایٹلس کو اس تجربے کی دعوت دیتے وقت پہلے سے ہی یہ بتادیا گیا تھا کہ اس پنسلین سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس دوا کے کوئی زہریلے اثرات ان کی زندگی کا خاتمہ ہی کردیں۔ ان تمام خدشات کے باوجود انھوں نے اس تجربے کا حصہ بننے کا فیصلہ ان الفاظ میں سنایا کہ ''مجھے فخر ہوگا کہ میں آپ لوگوں کی کوئی مدد کرسکوں''۔ یوں 27 جنوری 1941 کی شام کو مسز البا اس دنیا کی پہلی انسان بنیں جنھیں پنسلین کی خوراک دی گئی۔ آج ہم یہ جانتے ہیں کہ اس زمانے کی تکنیکی مہارتیں اور سہولیات آج کے مقابلے میں بالکل ابتدائی نوعیت کی تھیں اور اسی حساب سے ہمیں یہ بھی علم ہے کہ مسز البا کو دی جانے والی پنسلین کی خوراک میں محض 3 فیصد ہی پنسلین تھی جبکہ 97 فیصد کثافتیں۔ چند ایام تک مسز البا کو نگرانی میں رکھا گیا اور ان کے باقاعدگی کے ساتھ معائنے کئے گئے تاکہ پنسلین کے کسی بھی قسم کے مضر اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ جب کئی دنوں تک مسز البا کی طبعیت پر کوئی مضر اثر نہیں مل سکا تو فلوری اور اس کے ساتھیوں نے پراعتماد ہوکر پنسلین کے تجربے کےلیے کسی جراثیم کے انفیکشن والے مریض کی تلاش شروع کردی۔
مسز البا کے وارڈ سے ذرا ہی دور ایک ایسا مریض انھیں ملا جو کہ شدید انفیکش میں مبتلا تھا۔ تینتالیس سالہ البرٹ الیگزینڈر ایک پولیس کانسٹیبل تھا جسے ایک دن اپنے باغیچے میں پودوں کی کاٹ چھانٹ کرتے ہوئے چہرے پر ایک معمولی سا زخم لگا تھا۔ لیکن یہ زخم جراثیمی انفیکشن کا باعث بنا اور کچھ ہی دنوں میں جراثیم اس کے بدن میں پھیل گئے اور اس کی حالت کافی سیریس ہوگئی تھی۔ گیارہ فروری 1941 کو البرٹ کو پنسلین کی پہلی خوراک دی گئی کہ اس بے چارے کےلیے پنسلین کے علاوہ اور کوئی امید نہیں بچی تھی۔ پنسلین کی خوراکوں کے ساتھ اگلے چند ایام میں البرٹ کی طبعیت میں حیرت انگیز بہتری نظر آنے لگی۔ البرٹ کی طبعیت میں بہتری فلوری اور اس کے ساتھیوں کےلیے خوشخبری سے کم نہیں تھی کہ پنسلین کام کر رہی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے پاس پنسلین کی اتنی مقدار ہی موجود نہیں تھی کہ البرٹ کا مکمل علاج کیا جاسکے۔ اس بیچارگی کے عالم میں انھوں نے البرٹ کے پیشاب سے وہ پنسلین کشید کرنے کی کوشش کی جو البرٹ کا جسم استعمال نہیں کرسکا تھا لیکن یہ مقدار بھی بہت تھوڑی اور ناکافی ثابت ہوئی اور علاج شروع ہونے کے ایک مہینے کے بعد البرٹ کی موت واقع ہوگئی۔ اگرچہ البرٹ کی موت المناک تھی لیکن اس کی طبعیت میں ابتدائی بہتری اس بات کا ثبوت تھی کہ اگر مناسب مقدار میں پنسلین دستیاب ہو تو مریضوں کا مکمل علاج کامیابی سے کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز برطانیہ پر جرمنی کے حملے کے خوف سے مجبور ہوکر ہر ممکن کوشش میں تھے کہ برطانیہ کا دفاع کیا جاسکے۔ ایسے حالات میں پنسلین جیسی موثر جراثیم کش دوا نازیوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خوف اس قدر تھا کہ ایسی صورتحال میں وہ اپنے سارے تجربات کو تلف کرنے پر ذہنی طور پر تیار اور آمادہ تھے۔ فلوری اور اس کے ساتھیوں نے اپنے کوٹوں کے استر میں پنسلینیم کے ذرات چپکا لیے تھے کہ اگر کسی وقت انھیں ہنگامی طور پر بھاگنا پڑے تو اپنے ساتھ پھپھوندی بچا کر لے جاسکیں۔ انھیں اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ تھا کہ یہ پنسلین اس دوسری جنگِ عظیم کا پانسہ پلٹنے کے قابل ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ پورا ڈپارٹمنٹ اور اس کا اسٹاف مہینوں کی محنت کرکے بھی اتنی مقدار میں پنسلین نہیں بنا سکا تھا جو ایک مریض کی جان بچا سکے تو پھر کیا جنگ اور کیا علاج ہونا تھا۔ اس خیال نے فلوری کو پنسلین کی پیداوار بڑھانے کےلیے غور کرنے پر مجبور کردیا، لیکن کوئی بھی دوا ساز کمپنی پنسلین بنانے کو تیار نہیں تھی کہ اس وقت برطانیہ کی تمام ادویہ ساز کمپنیاں مکمل طور پر جنگی پیداوار میں مصروف تھیں۔ اس جھنجلاہٹ کے عالم میں فلوری نے امریکا جانے کا فیصلہ کیا اور جولائی 1941 میں فلوری اور ہیٹلی نیویارک پہنچے۔ انھیں امریکی کمپنیوں کو پنسلین کی افادیت و اہمیت سمجھانے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ اب صرف ایک ہی سوال پیشِ نظر تھا کہ کس طرح پنسلین کی زیادہ سے زیادہ مقدار کم سے کم وقت میں سپاہیوں کے علاج کےلیے محاذِ جنگ تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
پنسلین کی پیداوار بڑھانے کے مقصد کی راہ میں تین مراحل پر مشتمل رکاوٹ درپیش تھی؛ اس رکاوٹ کا پہلا مرحلہ پھپھوندی کی افزائش کےلیے مناسب خوراک کی تلاش تھی، دوسرا مرحلہ پھپھوندی کی ایسی قسم کو ڈھونڈنا تھا جو زیادہ سے زیادہ مقدار میں پنسلین پیدا کرسکتی ہو، اور تیسرا مرحلہ پنسلین کی پیداوار کے پورے عمل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانا تھا تاکہ حتیٰ الوسع طور پر پنسلین کی جتنی بھی زیادہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہو حاصل کی جاسکے۔
پہلا مرحلہ تو بہت آسانی سے عبور ہوگیا کہ امریکا میں مکئی کا شیرہ یا کارن سیرپ کافی مقدار میں بنایا اور استعمال کیا جاتا ہے اور تجربات سے معلوم ہوا کہ پنسلینیم پھپوندی بہت آسانی کے ساتھ مکئی کے شیرے میں پھلتی پھولتی ہے۔ لیکن اگلے دونوں مراحل بہت مشکل ثابت ہوئے۔ ابھی تک جو پھپھوندی پنسلین بنانے کےلیے استعمال کی جارہی تھی وہ اسی پھپھوندی سے ماخوذ تھی جو الیگزنڈر فلیمنگ نے دریافت کی تھی۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اگر مناسب انداز میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو عین ممکن ہے کہ پنسلینیم کی کوئی ایسی قسم مل جائے جو زیادہ مقدار میں پنسلین بناسکتی ہو۔ اس غرض سے پوری دنیا سے پنسلینیم پھپھوندی کے نمونے جمع کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ دنیا بھر سے سیکڑوں نہیں ہزاروں پھپھوندی کے نمونے ہنگامی بنیادوں پر حاصل کرکے امریکی جنگی ہوائی جہازوں کی مدد سے منگوائے گئے۔ ان تمام تر نمونوں کی پنسلین پیدا کرنے کی صلاحیت کو ناپنے کےلیے کئی کئی سائنسدان شبانہ روز لگے رہے، لیکن شائد ایسی کوئی طاقتور قسم دنیا میں موجود ہی نہیں تھی جو ان کے مطلب کی پیداوار دے سکتی۔
پھپھوندی کی تلاش میں سرگرداں لوگوں میں شامل امریکی محکمہ زراعت کی ایک ملازم میری ہنٹ ویک اینڈز پر اکثر فروٹ مارکیٹس میں گھومتی پھرتی پائی جاتی تھی لیکن اس کی نظریں تازہ پھلوں کے بجائے گلے سڑے اور خراب پھلوں پر ہوتی تھی۔ ایک دن میری کی نظر ایک گلے سڑے پھپھوندی لگے ہوئے خربوزے پر پڑی اور اس نے یہ خربوزہ پنسلین کی ٹیسٹنگ کےلیے بھجوا دیا۔ اس خربوزے پر اُگی ہوئی پنسلینیم پھپھوندی کی نہایت ہی طاقتور قسم ثابت ہوئی کہ آنے والے کافی وقت تک یہ پھپوندی پوری دنیا میں پنسلین بنانے کا واحد ذریعہ رہی۔ خیر ان دو مراحل کی کامیابی کے باوجود بھی 1943 تک محض اتنی مقدار میں پنسلین تیار کی جاسکی تھی کہ صرف چند خوش قسمت زخمیوں کا ہی علاج کیا جاسکتا تھا۔ تیسرے مرحلے میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پنسلین کی تیاری کا طریقہ تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا پنسلین کے حصول کےلیے فرائی پین کی طرح کے چوڑے پیندے والے برتن ڈیزائن کیے گئے تھے اور ان میں پھپھوندی کو مائع شکل میں خوراک کا محلول دیا جاتا جس کی سطح پر پھپھوندی افزائش کرتی اور پنسلین تیار کرتی۔ اس پھپھوندی کو آکسیجن کی ضرورت تھی، جس کےلیے یہ صرف سطح پر ہی ہوتی اور سطح سے نیچے موجود خوراک کا محلول فالتو ہی رہ جاتا اور پنسلین کی پیداواری مقدار بہت کم ہوتی تھی۔
ایک جانب یہ مسئلہ تھا تو دوسری طرف اتحادی افواج جرمنی کے خلاف ایک بہت بڑا حملہ کرنے جارہی تھیں۔ یہ حملہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ ہونا تھا جس میں لاکھوں کی تعداد میں امریکی، برطانوی اور دیگر اتحادیوں کے سپاہیوں نے سمندر کے راستے جرمنی کے زیرِ تسلط فرانس پر حملہ آور ہونا تھا۔ جرمنی کو بھی اس حملے کی سن گن مل چکی تھی اور اس کی افواج نے بھی فرانس کے ساحلوں پر کڑے حفاظتی اقدامات کر رکھے تھے۔ دونوں فریقین کو علم تھا کہ یہ حملہ جنگ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی لیے دونوں جانب سے اپنے تمام تر وسائل اس حملے کے تناظر میں خرچ کیے جارہے تھے۔ جرمنی کے مقابلے میں اتحادیوں کی مشکلات زیادہ تھیں کہ ان کے سپاہیوں نے کشتیوں سے کھلے ساحل پر اترنا تھا جہاں ان کا دشمن مورچہ بند ہوکر ان پر مشین گن سے آگ اور فولاد کی بارش برسانے کے قابل تھا۔ اس تناظر میں زخمیوں کی کم سے کم تعداد بھی ہزاروں میں ہونا لازمی تھی وہ بھی چند گھنٹوں کے اندر اندر۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں امریکی فوج کےلیے پنسلین کتنی اہمیت کی حامل تھی کہ یہی وہ وقت تھا جب امریکی فوج کے دو ٹاپ سیکرٹ پراجیکٹس ایٹم بم اور پنسلین کی تیاری تھے۔
ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی سائنسدان ہر ممکن کوشش کررہے تھے کی پنسلین کی پیداوار جیسے بھی ہوسکے بڑھائی جائے، لیکن ان سب کے آگے ایک ہی سوال ان کا منہ چِڑا رہا تھا کہ کس طرح صرف سطح کے بجائے پھپھوندی کو پورے محلول میں اگانے کا انتظام کیا جائے۔
آج کل تو فائزر ایک مشہور دوا ساز کمپنی ہے جو ایک شہرہ آفاق نیلی گولی کے حوالے سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے لیکن اس زمانے میں وہ سیٹریک ایسڈ بنایا کرتی تھی۔ سیٹریک ایسڈ بھی جراثیم اور پھپھوندیوں کی مدد سے بنایا جاتا ہے اور بہت ساری مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔ فائزر کے محققین کو بھی اس امر کا ادراک بہت جلد ہوگیا تھا کہ محض سطح پر افزائش کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن اس مسئلے کا حل کیا نکالا جائے، اس کےلیے وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ پھپھوندی کو آکسیجن کی ضرورت ہے جو کہ محلول میں نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے پھپھوندی کی افزائش نہیں ہوتی۔ اسی سوچ بچار کے دوران کسی نے خیال پیش کیا کہ کیوں نہ ہم آکسیجن کی سپلائی اس محلول کے اندر، اس برتن کی تہہ سے کرکے دیکھیں، ویسے بھی آکسیجن گیس ہے اور اس نے اوپر کو ہی اٹھنا ہوتا ہے کسی بھی گیس کی طرح، تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا یہی کہ پھپھوندی سطح تک ہی محدود رہے گی لیکن اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو پھر ہمارا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ یہ تجویز کافی وزنی محسوس ہوئی اور اس پر فوری طور پر کام شروع کردیا گیا۔ لیکن اب کی بار مسئلہ یہ تھا کی آکسیجن کی کتنی مقدار دی جاسکتی ہے کہ جس سے پھپھوندی موثر انداز میں افزائش کرسکے۔ خیر کمپنی نے یہ داؤ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس تجربے کےلیے انتظامات کرنے شروع کیے۔ اس تجربے کی خاطر فائزر نے ملک بھر سے اپنے وسائل اکھٹے کیے اور نیویارک میں ایک فیکٹری کو اس مقصد کےلیے تیار کیا گیا۔ حملے کی تاریخ میں صرف دو مہینے باقی تھے کہ فائزر نے 14 بڑے بڑے فرمنٹیشن ٹینک نصب کیے، ان میں مکئی کا شیرہ ڈالا گیا اور خربوزے سے حاصل کی گئی پھپھوندی ڈال کر آکسیجن کی سپلائی شروع کردی۔
اس تجربے کے نہایت ہی شاندار نتائج نکلے اور جلد ہی وہ اپنے مقررہ ہدف سے پانچ گنا زیادہ پنسلین بنانے لگے۔ جون 1944 میں نارمنڈی کے ساحل پر زخمی ہونے والے ہر سپاہی کے علاج کےلیے کافی پنسلین دستیاب تھی۔ زخمی اتحادی سپاہیوں کو زیادہ عرصہ اسپتال میں رکنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور وہ جلدی صحتیاب ہوکر بندوق اٹھائے واپس محاذِ جنگ پر اپنی ڈیوٹی پر جانے لگے تھے۔
پنسلین سے پہلے تک معمولی سے معمولی انفیکشن کے باعث سیکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں جانیں ان ننھے منے اَن دیکھے قاتلوں کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔ اس حیرت انگیز دریافت نے طب میں ایک انقلاب برپا کیا اور آنے والی کئی دہائیوں میں سائنسدانوں نے نہ صرف درجنوں مختلف اینٹی بائیوٹکس دریافت کیں بلکہ ان دریافت شدہ اینٹی بائیوٹکس میں کیمیائی تبدیلیاں کرکے ان میں سے بہت کی افادیت میں اضافہ بھی کیا۔
پال ارلیش سے شروع ہونے والے اس سفر میں انسان نے بیماریاں پھیلاتے جرثوموں کے خلاف چھوٹی موٹی کامیابیاں تو ضرور حاصل کی تھیں لیکن پنسلین کی دریافت تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا کہ انسان نے جراثیم کے خلاف ایک واضح فتح حاصل کی۔ لیکن یہ اس ازل سے جاری جنگ کا اختتام ہرگز نہیں تھا اور اب باری تھی جراثیم کے جوابی وار کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تحریر کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھیے: جادوئی گولی؛ جراثیم کش دواؤں کی ابتدا
ان حالات میں کہ جب پورا یورپ دوسری جنگِ عظیم کی لپیٹ میں تھا اور سارے ممالک اپنے تمام تر وسائل ہتھیاروں، گولہ بارود اور افواج کےلیے مختص کر رہے تھے، فلوری کو پنسلین کی تیاری کےلیے وسائل جمع کرنا تقریباً ناممکن ہی نظر آرہا تھا۔ خیر جیسے تیسے کچھ نہ کچھ جگاڑ لگاتے فلوری اور اس کے ساتھیوں نے پنسلین کی تیاری شروع کر ہی دی۔ اس مقصد کےلیے انھوں نے پہلے سے ڈیزائن کردہ فرائی پین نما برتنوں سے لے کر دودھ والے کنستروں تک جو چیز انھیں اپنے مطلب کی لگی، استعمال کرنا شروع کردی اور دن رات کی انتھک محنت کے بعد انسانی تجربات کےلیے ایک مناسب مقدار جمع کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے: جادوئی گولی؛ دشمن کا دشمن دوست (دوسرا حصہ)
بلاگ کا تیسرا حصہ یہاں سے پڑھیے: جادوئی گولی؛ ایک مجبور باپ (تیسرا حصہ)
چوتھا حصہ یہاں سے پڑھئے: جادوئی گولی؛ پنسلین کی کہانی (چوتھا حصہ)
انسانوں میں پنسلین کی ممکنہ افادیت دیکھنے سے پہلے زیادہ ضروری تھا کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس کے کوئی مضر اثرات تو نہیں ہوں گے۔ اس کےلیے انھیں تلاش تھی کسی رضا کار کی، جس کے جسم میں کیمیکل کو انجیکٹ کیا جاسکے۔ اس غرض سے ایک پچاس سالہ کینسر کی مریضہ مسز البا ایٹلس سے مدد کی درخواست کی گئی۔ مسز ایٹلس کو اس تجربے کی دعوت دیتے وقت پہلے سے ہی یہ بتادیا گیا تھا کہ اس پنسلین سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس دوا کے کوئی زہریلے اثرات ان کی زندگی کا خاتمہ ہی کردیں۔ ان تمام خدشات کے باوجود انھوں نے اس تجربے کا حصہ بننے کا فیصلہ ان الفاظ میں سنایا کہ ''مجھے فخر ہوگا کہ میں آپ لوگوں کی کوئی مدد کرسکوں''۔ یوں 27 جنوری 1941 کی شام کو مسز البا اس دنیا کی پہلی انسان بنیں جنھیں پنسلین کی خوراک دی گئی۔ آج ہم یہ جانتے ہیں کہ اس زمانے کی تکنیکی مہارتیں اور سہولیات آج کے مقابلے میں بالکل ابتدائی نوعیت کی تھیں اور اسی حساب سے ہمیں یہ بھی علم ہے کہ مسز البا کو دی جانے والی پنسلین کی خوراک میں محض 3 فیصد ہی پنسلین تھی جبکہ 97 فیصد کثافتیں۔ چند ایام تک مسز البا کو نگرانی میں رکھا گیا اور ان کے باقاعدگی کے ساتھ معائنے کئے گئے تاکہ پنسلین کے کسی بھی قسم کے مضر اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ جب کئی دنوں تک مسز البا کی طبعیت پر کوئی مضر اثر نہیں مل سکا تو فلوری اور اس کے ساتھیوں نے پراعتماد ہوکر پنسلین کے تجربے کےلیے کسی جراثیم کے انفیکشن والے مریض کی تلاش شروع کردی۔
مسز البا کے وارڈ سے ذرا ہی دور ایک ایسا مریض انھیں ملا جو کہ شدید انفیکش میں مبتلا تھا۔ تینتالیس سالہ البرٹ الیگزینڈر ایک پولیس کانسٹیبل تھا جسے ایک دن اپنے باغیچے میں پودوں کی کاٹ چھانٹ کرتے ہوئے چہرے پر ایک معمولی سا زخم لگا تھا۔ لیکن یہ زخم جراثیمی انفیکشن کا باعث بنا اور کچھ ہی دنوں میں جراثیم اس کے بدن میں پھیل گئے اور اس کی حالت کافی سیریس ہوگئی تھی۔ گیارہ فروری 1941 کو البرٹ کو پنسلین کی پہلی خوراک دی گئی کہ اس بے چارے کےلیے پنسلین کے علاوہ اور کوئی امید نہیں بچی تھی۔ پنسلین کی خوراکوں کے ساتھ اگلے چند ایام میں البرٹ کی طبعیت میں حیرت انگیز بہتری نظر آنے لگی۔ البرٹ کی طبعیت میں بہتری فلوری اور اس کے ساتھیوں کےلیے خوشخبری سے کم نہیں تھی کہ پنسلین کام کر رہی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے پاس پنسلین کی اتنی مقدار ہی موجود نہیں تھی کہ البرٹ کا مکمل علاج کیا جاسکے۔ اس بیچارگی کے عالم میں انھوں نے البرٹ کے پیشاب سے وہ پنسلین کشید کرنے کی کوشش کی جو البرٹ کا جسم استعمال نہیں کرسکا تھا لیکن یہ مقدار بھی بہت تھوڑی اور ناکافی ثابت ہوئی اور علاج شروع ہونے کے ایک مہینے کے بعد البرٹ کی موت واقع ہوگئی۔ اگرچہ البرٹ کی موت المناک تھی لیکن اس کی طبعیت میں ابتدائی بہتری اس بات کا ثبوت تھی کہ اگر مناسب مقدار میں پنسلین دستیاب ہو تو مریضوں کا مکمل علاج کامیابی سے کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز برطانیہ پر جرمنی کے حملے کے خوف سے مجبور ہوکر ہر ممکن کوشش میں تھے کہ برطانیہ کا دفاع کیا جاسکے۔ ایسے حالات میں پنسلین جیسی موثر جراثیم کش دوا نازیوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خوف اس قدر تھا کہ ایسی صورتحال میں وہ اپنے سارے تجربات کو تلف کرنے پر ذہنی طور پر تیار اور آمادہ تھے۔ فلوری اور اس کے ساتھیوں نے اپنے کوٹوں کے استر میں پنسلینیم کے ذرات چپکا لیے تھے کہ اگر کسی وقت انھیں ہنگامی طور پر بھاگنا پڑے تو اپنے ساتھ پھپھوندی بچا کر لے جاسکیں۔ انھیں اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ تھا کہ یہ پنسلین اس دوسری جنگِ عظیم کا پانسہ پلٹنے کے قابل ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ پورا ڈپارٹمنٹ اور اس کا اسٹاف مہینوں کی محنت کرکے بھی اتنی مقدار میں پنسلین نہیں بنا سکا تھا جو ایک مریض کی جان بچا سکے تو پھر کیا جنگ اور کیا علاج ہونا تھا۔ اس خیال نے فلوری کو پنسلین کی پیداوار بڑھانے کےلیے غور کرنے پر مجبور کردیا، لیکن کوئی بھی دوا ساز کمپنی پنسلین بنانے کو تیار نہیں تھی کہ اس وقت برطانیہ کی تمام ادویہ ساز کمپنیاں مکمل طور پر جنگی پیداوار میں مصروف تھیں۔ اس جھنجلاہٹ کے عالم میں فلوری نے امریکا جانے کا فیصلہ کیا اور جولائی 1941 میں فلوری اور ہیٹلی نیویارک پہنچے۔ انھیں امریکی کمپنیوں کو پنسلین کی افادیت و اہمیت سمجھانے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ اب صرف ایک ہی سوال پیشِ نظر تھا کہ کس طرح پنسلین کی زیادہ سے زیادہ مقدار کم سے کم وقت میں سپاہیوں کے علاج کےلیے محاذِ جنگ تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
پنسلین کی پیداوار بڑھانے کے مقصد کی راہ میں تین مراحل پر مشتمل رکاوٹ درپیش تھی؛ اس رکاوٹ کا پہلا مرحلہ پھپھوندی کی افزائش کےلیے مناسب خوراک کی تلاش تھی، دوسرا مرحلہ پھپھوندی کی ایسی قسم کو ڈھونڈنا تھا جو زیادہ سے زیادہ مقدار میں پنسلین پیدا کرسکتی ہو، اور تیسرا مرحلہ پنسلین کی پیداوار کے پورے عمل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانا تھا تاکہ حتیٰ الوسع طور پر پنسلین کی جتنی بھی زیادہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہو حاصل کی جاسکے۔
پہلا مرحلہ تو بہت آسانی سے عبور ہوگیا کہ امریکا میں مکئی کا شیرہ یا کارن سیرپ کافی مقدار میں بنایا اور استعمال کیا جاتا ہے اور تجربات سے معلوم ہوا کہ پنسلینیم پھپوندی بہت آسانی کے ساتھ مکئی کے شیرے میں پھلتی پھولتی ہے۔ لیکن اگلے دونوں مراحل بہت مشکل ثابت ہوئے۔ ابھی تک جو پھپھوندی پنسلین بنانے کےلیے استعمال کی جارہی تھی وہ اسی پھپھوندی سے ماخوذ تھی جو الیگزنڈر فلیمنگ نے دریافت کی تھی۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اگر مناسب انداز میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو عین ممکن ہے کہ پنسلینیم کی کوئی ایسی قسم مل جائے جو زیادہ مقدار میں پنسلین بناسکتی ہو۔ اس غرض سے پوری دنیا سے پنسلینیم پھپھوندی کے نمونے جمع کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ دنیا بھر سے سیکڑوں نہیں ہزاروں پھپھوندی کے نمونے ہنگامی بنیادوں پر حاصل کرکے امریکی جنگی ہوائی جہازوں کی مدد سے منگوائے گئے۔ ان تمام تر نمونوں کی پنسلین پیدا کرنے کی صلاحیت کو ناپنے کےلیے کئی کئی سائنسدان شبانہ روز لگے رہے، لیکن شائد ایسی کوئی طاقتور قسم دنیا میں موجود ہی نہیں تھی جو ان کے مطلب کی پیداوار دے سکتی۔
پھپھوندی کی تلاش میں سرگرداں لوگوں میں شامل امریکی محکمہ زراعت کی ایک ملازم میری ہنٹ ویک اینڈز پر اکثر فروٹ مارکیٹس میں گھومتی پھرتی پائی جاتی تھی لیکن اس کی نظریں تازہ پھلوں کے بجائے گلے سڑے اور خراب پھلوں پر ہوتی تھی۔ ایک دن میری کی نظر ایک گلے سڑے پھپھوندی لگے ہوئے خربوزے پر پڑی اور اس نے یہ خربوزہ پنسلین کی ٹیسٹنگ کےلیے بھجوا دیا۔ اس خربوزے پر اُگی ہوئی پنسلینیم پھپھوندی کی نہایت ہی طاقتور قسم ثابت ہوئی کہ آنے والے کافی وقت تک یہ پھپوندی پوری دنیا میں پنسلین بنانے کا واحد ذریعہ رہی۔ خیر ان دو مراحل کی کامیابی کے باوجود بھی 1943 تک محض اتنی مقدار میں پنسلین تیار کی جاسکی تھی کہ صرف چند خوش قسمت زخمیوں کا ہی علاج کیا جاسکتا تھا۔ تیسرے مرحلے میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پنسلین کی تیاری کا طریقہ تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا پنسلین کے حصول کےلیے فرائی پین کی طرح کے چوڑے پیندے والے برتن ڈیزائن کیے گئے تھے اور ان میں پھپھوندی کو مائع شکل میں خوراک کا محلول دیا جاتا جس کی سطح پر پھپھوندی افزائش کرتی اور پنسلین تیار کرتی۔ اس پھپھوندی کو آکسیجن کی ضرورت تھی، جس کےلیے یہ صرف سطح پر ہی ہوتی اور سطح سے نیچے موجود خوراک کا محلول فالتو ہی رہ جاتا اور پنسلین کی پیداواری مقدار بہت کم ہوتی تھی۔
ایک جانب یہ مسئلہ تھا تو دوسری طرف اتحادی افواج جرمنی کے خلاف ایک بہت بڑا حملہ کرنے جارہی تھیں۔ یہ حملہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ ہونا تھا جس میں لاکھوں کی تعداد میں امریکی، برطانوی اور دیگر اتحادیوں کے سپاہیوں نے سمندر کے راستے جرمنی کے زیرِ تسلط فرانس پر حملہ آور ہونا تھا۔ جرمنی کو بھی اس حملے کی سن گن مل چکی تھی اور اس کی افواج نے بھی فرانس کے ساحلوں پر کڑے حفاظتی اقدامات کر رکھے تھے۔ دونوں فریقین کو علم تھا کہ یہ حملہ جنگ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی لیے دونوں جانب سے اپنے تمام تر وسائل اس حملے کے تناظر میں خرچ کیے جارہے تھے۔ جرمنی کے مقابلے میں اتحادیوں کی مشکلات زیادہ تھیں کہ ان کے سپاہیوں نے کشتیوں سے کھلے ساحل پر اترنا تھا جہاں ان کا دشمن مورچہ بند ہوکر ان پر مشین گن سے آگ اور فولاد کی بارش برسانے کے قابل تھا۔ اس تناظر میں زخمیوں کی کم سے کم تعداد بھی ہزاروں میں ہونا لازمی تھی وہ بھی چند گھنٹوں کے اندر اندر۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں امریکی فوج کےلیے پنسلین کتنی اہمیت کی حامل تھی کہ یہی وہ وقت تھا جب امریکی فوج کے دو ٹاپ سیکرٹ پراجیکٹس ایٹم بم اور پنسلین کی تیاری تھے۔
ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی سائنسدان ہر ممکن کوشش کررہے تھے کی پنسلین کی پیداوار جیسے بھی ہوسکے بڑھائی جائے، لیکن ان سب کے آگے ایک ہی سوال ان کا منہ چِڑا رہا تھا کہ کس طرح صرف سطح کے بجائے پھپھوندی کو پورے محلول میں اگانے کا انتظام کیا جائے۔
آج کل تو فائزر ایک مشہور دوا ساز کمپنی ہے جو ایک شہرہ آفاق نیلی گولی کے حوالے سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے لیکن اس زمانے میں وہ سیٹریک ایسڈ بنایا کرتی تھی۔ سیٹریک ایسڈ بھی جراثیم اور پھپھوندیوں کی مدد سے بنایا جاتا ہے اور بہت ساری مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔ فائزر کے محققین کو بھی اس امر کا ادراک بہت جلد ہوگیا تھا کہ محض سطح پر افزائش کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن اس مسئلے کا حل کیا نکالا جائے، اس کےلیے وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ پھپھوندی کو آکسیجن کی ضرورت ہے جو کہ محلول میں نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے پھپھوندی کی افزائش نہیں ہوتی۔ اسی سوچ بچار کے دوران کسی نے خیال پیش کیا کہ کیوں نہ ہم آکسیجن کی سپلائی اس محلول کے اندر، اس برتن کی تہہ سے کرکے دیکھیں، ویسے بھی آکسیجن گیس ہے اور اس نے اوپر کو ہی اٹھنا ہوتا ہے کسی بھی گیس کی طرح، تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا یہی کہ پھپھوندی سطح تک ہی محدود رہے گی لیکن اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو پھر ہمارا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ یہ تجویز کافی وزنی محسوس ہوئی اور اس پر فوری طور پر کام شروع کردیا گیا۔ لیکن اب کی بار مسئلہ یہ تھا کی آکسیجن کی کتنی مقدار دی جاسکتی ہے کہ جس سے پھپھوندی موثر انداز میں افزائش کرسکے۔ خیر کمپنی نے یہ داؤ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس تجربے کےلیے انتظامات کرنے شروع کیے۔ اس تجربے کی خاطر فائزر نے ملک بھر سے اپنے وسائل اکھٹے کیے اور نیویارک میں ایک فیکٹری کو اس مقصد کےلیے تیار کیا گیا۔ حملے کی تاریخ میں صرف دو مہینے باقی تھے کہ فائزر نے 14 بڑے بڑے فرمنٹیشن ٹینک نصب کیے، ان میں مکئی کا شیرہ ڈالا گیا اور خربوزے سے حاصل کی گئی پھپھوندی ڈال کر آکسیجن کی سپلائی شروع کردی۔
اس تجربے کے نہایت ہی شاندار نتائج نکلے اور جلد ہی وہ اپنے مقررہ ہدف سے پانچ گنا زیادہ پنسلین بنانے لگے۔ جون 1944 میں نارمنڈی کے ساحل پر زخمی ہونے والے ہر سپاہی کے علاج کےلیے کافی پنسلین دستیاب تھی۔ زخمی اتحادی سپاہیوں کو زیادہ عرصہ اسپتال میں رکنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور وہ جلدی صحتیاب ہوکر بندوق اٹھائے واپس محاذِ جنگ پر اپنی ڈیوٹی پر جانے لگے تھے۔
پنسلین سے پہلے تک معمولی سے معمولی انفیکشن کے باعث سیکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں جانیں ان ننھے منے اَن دیکھے قاتلوں کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔ اس حیرت انگیز دریافت نے طب میں ایک انقلاب برپا کیا اور آنے والی کئی دہائیوں میں سائنسدانوں نے نہ صرف درجنوں مختلف اینٹی بائیوٹکس دریافت کیں بلکہ ان دریافت شدہ اینٹی بائیوٹکس میں کیمیائی تبدیلیاں کرکے ان میں سے بہت کی افادیت میں اضافہ بھی کیا۔
پال ارلیش سے شروع ہونے والے اس سفر میں انسان نے بیماریاں پھیلاتے جرثوموں کے خلاف چھوٹی موٹی کامیابیاں تو ضرور حاصل کی تھیں لیکن پنسلین کی دریافت تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا کہ انسان نے جراثیم کے خلاف ایک واضح فتح حاصل کی۔ لیکن یہ اس ازل سے جاری جنگ کا اختتام ہرگز نہیں تھا اور اب باری تھی جراثیم کے جوابی وار کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔